نہ خود سے ہم نکل سکے تو دائروں میں مر گئے
یہ دیکھ کر ہے دُکھ ہُوا ،کہ آئنوں میں مر گئے
کہیں کِسی کی یَاد میں چراغ روز و شب جلے
کہیں دِیے پڑے پڑے ہی طاقچوں میں مر گئے
بس ایک لفظ ’’زندگی‘‘ لکھا تھا پھر مِٹا دیا
اور اس کے بعد خُود ہی اپنے کاغذوں میں مر گئے
کِسے خبر ! کہ کس طرح سے جی رہے ہیں زندگی
کِسے خبر ! کہ ہمسفر تو راستوں میں مر گئے
٭٭٭٭