وسعت پذیر امرِ الٰہی ہے میرے دوست
یہ کائنات، لامتناہی ہے میرے دوست!
بیرونِ ذات دیکھ لے یا اندرونِ ذات
دونوں طرف بسیط خلا ہی ہے میرے دوست
اک فوج ہے برائے دفاعِ فسردگی
تیرا یہ دوست اُس کا سپاہی ہے میرے دوست
ہم اِس کا طول ناپ نہیں سکتے، کیونکہ عشق
ڈوری ہے جس کا ایک سِرا ہی ہے میرے دوست
ناظر جو منظروں میں نظر آ نہیں رہا
تو وجہ تیری کور نگاہی ہے میرے دوست
خیراتِ غم سے چلتی ہے اور نفع کے بغیر
تنظیمِ اہلِ درد، رفاہی ہے میرے دوست
پہلے بدن میں عقل کا جمہوری دور تھا
اور آج کل جنون کی شاہی ہے میرے دوست
حسنِ جہاں ہے لمحہء کُن سے تباہ کُن
افسوس! اِس کا انت، تباہی ہے میرے دوست
تخلیقِ نورِ ارض و سماوات ہے تو پھر
کیوں کائنات میں یہ سیاہی ہے میرے دوست؟
دیکھا ہے صرف میں نے اُسے چاند رات میں
رویت کی صرف ایک گواہی ہے میرے دوست!
٭٭٭٭