بچھڑ گئے تو یہ دل عمر بھر لگے گا نہیں
لگے گا، لگنے لگا ہے، مگر لگے گا نہیں!
نہیں لگے گا اُسے دیکھ کر، مگر خوش ہے
میں خوش نہیں ہوں مگر، دیکھ کر لگے گا نہیں
جنوں کا حجم زیادہ، تمہارا ظرف ہے کم
ذرا سا گملا ہے، اِس میں شجر لگے گا نہیں
اک ایسا زخم نما دِل قریب سے گزرا
دِل اُس کو دیکھ کے چیخا: ’’ٹھہر! لگے گا نہیں ؟‘‘
جنوں سے کُند کِیا ہے، سو اُس کے حسن کا کیل
مرے سوا کِسی دیوار پر لگے گا نہیں
ہمارے دِل کو ابھی مستقل پتہ نہ بنا
ہمیں پتہ ہے ترا دل اِدھر لگے گا نہیں
بہت توجہ، تعلق بگاڑ دیتی ہے
زیادہ ڈرنے لگیں گے تو ڈر لگے گا نہیں
٭٭٭٭