کہیں بھگو نہ دے وحشت میں، اْس نظر سے بچو
وہ ابر پھرتا ہے کب سے بغیر برسے، بچو!
اْس آدمی سے بچو جو درخت کاٹتا ہو
جہاں پرند نہ آتے ہوں، ایسے گھر سے بچو
سُنی بڑوں سے یہ بات اور سیکھی دوستوں سے
کرو کسی پہ جب احسان، اْس کے شر سے بچو
مگر میں چلتا رہا آگہی کے راستے پر
صدائیں آئیں ہزاروں، اِدھر اُدھر سے، "بچو!"
میں تم کو شہر میں رہنے کا گُر سکھاتا ہوں
کسی کسی سے ملو اور بیشتر سے بچو
مجھے جنوں کے اثر سے نکالنے والو!
بہت قریب نہ آؤ، مرے اثر سے بچو!
سیاہ شب میں ہوا احمریں ہلال طلوع
یہ اختتامِ صفر ہے، بس اب سفر سے بچو!
٭٭٭