اک نقش ہے جو دل سے مٹایا نہ جائے گا
اس جیسا دوسرا بھی بنایا نہ جائے گا
وعدہ لیا ہے اس نے بچھڑتے سمے کے اب
دل میں ہے جو زبان پہ لایا نہ جائے گا
اسباب سب خوشی کے جمع کر تو لوں مگر
وہ چاند اس زمیں پہ بلایا نہ جائے گا
تعبیر کی تلاش نے گھایل کیا بدن
آنکھوں سے بارِ خواب اٹھایا نہ جائے گا
اس واسطے بھی ہم کبھی ہوتے نہیں خفا
معلوم ہے ہمیں یہ منایا نہ جائے گا
طے ہے کہ اس چراغ کو بجھنا ہے ایک دن
جلتے ہیں جب تلک کہ بجھایا نہ جائے گا
مٹی یزیدیت کی خرابے میں ہوگی گم
درسِ حسینیت کو بھلایا نہ جائے گا
کتنے ہی پنجھیوں کا بسیرا اسی پہ ہے
کہہ دے کوئی یہ پیڑ گرایا نہ جائے گا
الفت ہے جس کو اپ سے اور ازلِ پاک سے
دوزخ میں ایسے انس کا سایہ نہ جائے گا
٭٭٭