ظاہر کو ہے دیکھا مرے اندر نہیں دیکھا
’’کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا‘‘
سوچا تھا بھلا دیں گے سبھی شکوے گلے ہم
اک بار مگر اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا
دیکھا ہے تجھے ساتھ فقط خواب میں اکثر
لمحہ وہ حقیقت میں میسر نہیں دیکھا
ہونٹوں پہ مرے تو نے ہنسی دیکھی ہے لیکن
آنکھوں میں مری ہجر کا منظر نہیں دیکھا
بھایا ہی نہیں دل کو مرے سجنا سنورنا
ہاں بعد ترے میں نے سنور کر نہیں دیکھا
ظاہر نہ کیا حال کبھی ہم نے بھی اس پر
اس نے بھی کبھی دل میں اتر کر نہیں دیکھا
٭٭٭