بھلا چکے ہیں یا آج اس کو بھلا رہے ہیں
ہم اس مشقت میں خود کو کب سے تھکا رہے ہیں
بہا رہے ہیں کسی کی یادوں میں چند آنسو
یہ لوگ جنگل کی آگ کیسے بجھا رہے ہیں
تو ہم سے جیتا ہے جانے کیا کیا ملے گا تجھ کو
جو ہم سے ہارے تھے آج سب کو ہرا رہے ہیں
وہ پیار کرتا ہے ماں سے ستر گُنا زیادہ
اور آپ ہم کو اسی خدا سے ڈرا رہے ہیں
ہم آنکھ کرتے ہیں بند خطرے کو دیکھ کر بھی
بہت سی باتیں ہمیں کبوتر سکھا رہے ہیں
ہماری دھڑکن ہے تیس برسوں سے ہم پہ بھاری
ہم ایک پتھر کو دوسرے سے ہٹا رہے ہیں
ملا نہیں جو اسے بھی کھویا ہے یار ہم نے
کبھی جو لکھا گیا نہیں وہ مٹا رہے ہیں
یہی تو دکھ ہے کہ تو تسلی سے سن رہا ہے
جو میرے بارے میں لوگ تجھ کو بتا رہے ہیں
تمہاری آمد پہ جانے کس کی خدا سنے گا
ہمارے گاؤں میں سب گھروں کو سجا رہے ہیں
تمہارے چہرے کی تازگی بھی نہیں رہے گی
جو پھول کھلتے ہیں کونسا وہ سدا رہے ہیں
٭٭٭٭