تَو واقعی یہ واقعہ بھی ہو گیا؟
مِرے لیے تُو سابقہ بھی ہو گیا؟
سحرہوئی بڑوں کی گالیاں سنی
چلو ہمارا ناشتہ بھی ہو گیا
شجر کے پھل بھی ٹھیک سے لگے رہے
مِری زباں میں ذائقہ بھی ہو گیا
وہ آدمی ہے یا خدا بتاؤ تو؟
وہ کس طرح سے آپ کا بھی ہو گیا
کبھی کسی کے واسطے چلا نہ تھا
ترے لیے جو راستہ بھی ہو گیا
ہمیں لگے گا ہم مزید گر گئے
اگر کسی کا آسرا بھی ہو گیا
تُو پھر سے کیوں پکارتا ہے عشق کو
جب ایک بار حادثہ بھی ہو گیا
خدا کے گھر کو ہم بچا نہیں سکے
ہمارے دل کو عارضہ بھی ہو گیا
تری پڑھائی روک دے گا خاندان
کبھی ذرا سا شائبہ بھی ہو گیا
ہمارے دل کو اور کیا بناؤ گے
یہ سنگ بھی یہ آئینہ بھی ہو گیا
٭٭٭