بتا سکتا نہیں کتنا لگا ہے
کوئی پہلی دفعہ اچھالگا ہے
یہاں بھی بے وفائی کر رہے ہو
یہاں عباس کا جھنڈا لگا ہے
یہ دنیا تو کسی کی بھی نہیں ہے
مجھے اک آدمی دنیا لگا ہے
وہ جس کی چپ بہت چھبتی تھی مجھ کو
اسی کی بات سے نیزہ لگا ہے
میں تیری بد دعا سے بچ نہ جاؤں
مجھے اس بار یہ خطرہ لگا ہے
وہ کپڑا تک برا لگنے لگے گا
اگر معلوم ہو دھبہ لگا ہے
مجھے ہر پل تجھے کھونے کا ڈر ہے
گھڑی میں خوف کا پرزہ لگا ہے
یہاں میں سچ لیے تنہا کھڑا ہوں
وہاں پر جھوٹ کا میلہ لگا ہے
وہ تیرا گھر گلی کا آخری گھر
زمیں کا آخری حصہ لگا ہے
٭٭٭