ہے مسلط آدمی پر اب رواجِ آدمی
دے رہے ہیں لامحالہ ہم خراجِ آدمی
ہے درندوں سے جو بدتر خصلت و کردار میں
وہ بھی ہے شامل بطورِ اندراجِ آدمی
سو خطائیں بخش دینا ، شیوہِ پروردگار
سو وفائیں بھول جانا ، ہے مزاجِ آدمی
اختیارِ سلطنت کم ظرف کو جب بھی ملا
دھر دیا نوکِ سِناں پر اس نے تاجِ آدمی
کیا غضب ڈھائے اگر ہوجائے دوجے پر عیاں
رکھ لی سوچوں کو چھپا کے رب نے لاجِ آدمی
برملا تاریخ کے اوراق کہتے ہیں غزلؔ
باعثِ در ماندگی ہے ابتہاجِ آدمی