اسقدر خامشی سے۔۔۔۔۔۔۔۔دن گزرا
پھٹ گئے کان شور ایسا تھا
سارا دن خود سے خوب باتیں کیں
ایک شکوہ تھا جو کیا نہ گیا
لوٹ آئے گذشتہ گمشدہ سال
اک شجر کے تلے میں کیا بیٹھا
شہر بدری مری سزا ٹھہری
چاند کیوں میرے ساتھ چلنے لگا
لوگ گلیوں میں سب نکل آئے
آج کچھ اسطرح سے دل دھڑکا
گھر پہنچ کر جو میں نے دی دستک
مجھ کو ایسا لگا وہ میں نہیں تھا
٭٭٭