یہ نہیں ہے کہ تمہیں جیت کے ہارے ہوئے ہیں
ہم تو بس گردش حالات کے مارے ہوئے ہیں
رات کٹ جاتی ہے اب تاروں سے باتیں کرتے
اپنے بچھڑے ہوئے کچھ دوست ستارے ہوئے ہیں
ہم تر ہجر بھی سہہ لیتے ہیں ہنستے ہنستے
ہم نے کچھ سال ترے ساتھ گزارے ہوئے ہیں
ا?سمانوں میں کوئی ہے جو ہمیں جانتا ہے
رات اس سمت سے کچھ شوخ اشارے ہوئے ہیں
عشق میں ہو گئے دیوالیہ ہم کس ست کہیں
اب نہ اٹھ پائیں گے کچھ ایسے خسارے ہوئے ہیں
ہم سے ملتا نہیں خوش ہو کے کوئی اب محور
جانے کیا سوچ کے کچھ لوگ ہمارے ہوئے ہیں
٭٭٭