آنکھوں میں اک بہار کا موسم سجا رکھا
منظر ہر اک سنبھال کے ان میں سدا رکھا
انگلی سے لکھ لیا تھا جو لفظِ وفا کبھی
تختی پہ اپنے دل کی وہی بس لکھا رکھا
بلبل ہی کوئی نغمہ سنا جائے کیا عجب
ہر شاخ پر گلاب وفا کاکھِلا رکھا
آئے ہوا کے دوش پہ شاید کوئی پیام
یہ سوچ کے دریچۂ دل کو کھلا رکھا
آہٹ سنی تو در پہ تو سانسیں ٹھہر گئیں
اور دل کی دھڑکنوں کو بھی کم رُکا رکھا
اک انتظار ہی رہا،سوئے نہ رات بھر
ہرشب میں در پہ آنکھ کا ہم نے دیا رکھا
یہ گلشنِ خیال ہے شاہیںؔ کا تیرے نام
جس نے وفا کا نام بھی موجِ صبا رکھا
٭٭٭٭