کیوں دیر ہو گئی تم کو؟
آج پھر دیر ہو گئی تم کو
آج پھر نیند میری آنکھوں سے
اُڑ کے جانے کہاں پہ جا پہنچی
آج کیوں دیر ہو گئی تم کو؟
لوٹ کر کھڑکیوں سے آخری بار
اپنے بچوں کے پاس آبیٹھی
وہ جو پلکوں کو موندے سوتے ہیں
اُن کے قدموں پہ رکھ کے سر اپنا
آج پھر پھوٹ پھوٹ کر روئی
آج پھر دیر ہو گئی تم کو!
٭٭٭٭