امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام صدیقہ اور حمیرا لقب تھا ام عبد اللہ کنیت تھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بعثت کے چار برس بعد شوال کے مہینے میں پیدا ہوئی، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا شانہ وہ برج سعادت تھا جہاں خورشید اسلام کی شعاعیں سب سے پہلے پرتوفگن ہوئیں اور اسی بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اسلام کی ان برگزیدہ شخصیتوں میں ہیں جن کے کانوں نے کبھی کفر وشرک کی آواز ہی نہ سنی خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے جب سے اپنے والدین کو پہچانا انہیں مسلمان ہی پایا،
تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا میں یہ شرف بھی صرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ہی حاصل ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنواری بیوی تھی،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وہ خوش نصیب ہستی ہیں کہ جن کی شان میں اللہ جل جلالہ نے قرآن پاک کی ایت مبارکہ نازل فرمائی،
غزوہ مصطلق 5 ہجری کا واقع ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ا?پ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھہ تھی واپسی میں سفر کے دوران ان کا ہار کہیں گر گیا جس صورت میں پورے قافلہ کو اترنا پڑا نماز کا وقت آیا تو پانی نہ ملا تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پریشان تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خبر ہوئی اور تیمم کی ایت نازل ہوئی اس اجازت سے تمام لوگ خوش ہوئے، اسید بن خصیر نے کہا: اے اٰل ابوبکر رضی اللہ عنہ!! تم لوگوں کے لئے سرمایہ برکت ہو،
علمی حیثیت میں بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نہ صرف عورتوں پر، نہ صرف دوسری امہات المومنین رضی اللہ عنہا پر، نہ صرف خاص خاص صحابیوں پر بلکہ باستثنائے چند تمام صحابہ پر فوقیت حاصل تھی جامع ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
ترجمہ: ہم کو کبھی کوئی ایسی مشکل بات پیش نہ آئی جس کو ہم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات نہ ہو،
امام زہری جو کہ سرخیل تابعین تھے فرماتے ہیں:
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں بڑے بڑے اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ان سے پوچھا کرتے تھے،
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سینہ پر اپنا سر مبارک رکھے ہوئے وفات پائی اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی تھی وفات سے ذرا پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبد الرحمن رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے سینہ پر ٹیک کر لیٹے تھے عبد الرحمن کے ہاتھہ میں مسواک تھی ا?پ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی طرف نظر جما کر دیکھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سمجھ گئی کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں خود عبد الرحمن سے مسواک کے کر دانتوں سے نرم کی اور خدمت اقدس میں پیش کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلکل تندرستوں کی طرح مسواک کی'
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فخریہ کہا کرتی تھیں کہ تمام بیویوں میں مجھی کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آخر وقت میں بھی میرا جوٹھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ سے لگایا،
صحیح مسلم شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
اے فاطمہ رضی اللہ عنہا جس سے میں محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو گی،؟
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عزض کیا ضرور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں محبت رکھوں گی!! اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت رکھو،
آپ ہیں خاتون جنت کی ماں عائشہ
کوئی زمانے میں آپ سا کہاں عائشہ
آپ کی پاکیزگی اور تقدیس کا
ہے گواہ خالق دو جہاں عائشہ رضی اللہ عنہا
قربان جاؤں میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پہ کے کس قدر محبت تھی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے،
واللہ میرے رب کریم نے کیا بلند مرتبہ عطا کیا امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذات کو،
اخلاقی حیثیت سے بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بلند مرتبہ رکھتی تھیں وہ نہایت قانع تھیں
غیبت سے احتراز کرتی تھیں احسان کم قبول کرتی تھی
اگرچہ خود ستائی ناپسند تھی
تاہم نہایت خودار تھیں
شجاعت اور دلیری بھی ان کا خاص جوہر تھا،
ان کا سب سے نمایاں وصف جودو سخا تھا '
حضرت عبداللہ بن زبیر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ان سے زیادہ سخی کسی کو نہیں دیکھا،
نہایت خاشع متضرع اور عبادت گزار تھیں چاشت کی نماز برابر پڑھتی تھی فرماتی تھیں کہ اگر میرا باپ بھی قبر سے اٹھ آئے اور مجھ کو منع کرے تب بھی میں باز نہ آؤں گی،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کرتی تھیں،
رمضان المبارک میں تراویح کا خاص اہتمام کیا کرتی تھیں،
اکثر روزے رکھا کرتی تھیں،
حج کی بھی شدت سے پابند تھیں اور ہر سال اس فرض کو ادا کرتی تھی،
غلاموں پر شفقت کرتی اور انہیں خرید کر آزاد کرتی تھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے،
رمضان 58 ہجری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے رحلت فرمائی،
""واللہ تیری عظمت میں اتارا گیا قرآن
میری ماں امی عائشہ میں تیرے نام پہ قربان
وعدہ ہے میرا امی
گستاخی تیری ہرگز برداشت نہ کرونگی
گستاخ سے لڑوں گی
بے شک میں کٹ مروں گی
پیچھے نہ پر ہٹوں گی
امی میں تیری بیٹی
امی میں تیری بیٹی
کرنے لگی ہوں یہ اعلان
میری ماں امی عائشہ میں تیرے نام پہ قربان""