میں اپنے مجبور باپ اور بے تحاشہ حسین ماں کے ساتھ گاؤں کے ایک بوسیدہ مکان میں رہتا تھا۔ہمارے گھر غربت رقص کرتی تھی۔
میں ہر روز چارپائی پر لیٹے ماں کو بڑبڑاتے اور ابا کے ماتھے پر موجود لکیروں کو پھیلتے سکڑتے دیکھا کرتا تھا۔
ماں بڑبڑاتی ہوئی ابا کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتی رہتی،ابا سوچوں میں گم چپ چاپ بیڑی سلگائے چارپائی کے بان بلنے میں مصروف رہتا یا سندھ کی تپتی ہوئی ریت پر ننگے پاؤں چلتا ہوا گاؤں کی گلیوں میں چارپائی بننے کی آوازیں لگائے پھرتا۔
گاؤں کے باقی مرد زمیندار کے پاس کھیتی باڑی کرتے تھے۔
مگر ابا کو اپنی عزت بھوک سے زیادہ پیاری تھی،جب سے گاؤں کے زمیندار نے اماں کے حسن پر نظر رکھنا شروع کی ابا نے کھیتی باری چھوڑ کر گھر میں بان بلنے اور لوگوں کے گھروں میں چارپائیاں بننا شروع کردی۔
زمیندار نے حیلے بہانوں سے ابا کو کھیتی باڑی کرنے کا کہا مگر ابا نے دوبارہ زمیندار کے پاس جانے کی حامی نہ بھری۔
یہ ساری باتیں وقتاً فوقتاً میرے کانوں کے ذریعے میرے دل میں پیوست ہوتی گئی،جب جب ابا کو کام نہ ملتا اور گھر میں پیٹ کے لالے پڑنے لگتے تو میرا دل چاہتا زمیندار کے ساتھ جاکر جھگڑ پڑوں۔
ساتھ والے مکان میں اماں کی دور پرے کی بہن رہا کرتی تھی،وہ ہر دوسرے دن آدھمکتی تھی محلے بھر کے غیبت میں لتھڑے قصے کہانیاں سنا کر اس کا اختتام اماں کی زبوں حالی اور ابا کی کھیتی باڑی سے انکار پر آکر ٹوٹتی۔
ایسا صرف ایک دوبار نہ ہوا بلکہ میں نے کئی بار خالہ کو ابا کے خلاف باتیں کرتے سنا۔
اماں ابا چپ چاپ اپنا کام کرتے رہتے کبھی ہوں،ہاں سے زیادہ جواب نہ دیا تنگ آکر خالہ گھر سے نکل جاتی۔
کبھی کبھی مجھے اماں ابا بھی اپنے جیسے بے زبان لگتے تھے۔
ابا میرے ادھورے وجود کے باوجود بھی مجھ سے کئی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھا۔ابا صبح کو رسیاں بنتے اور شام کو گاؤں والوں کی چارپاں بنا کر واپسی پر میری رگوں میں اپنا ہنر انڈیلتا نہ تھکتا۔
ابا عمر کے آخری حصے میں تھا
زندگی کی بساط پر میں اس کا واحد پیادہ تھا،جس نے اس کے بعد اس کے ہنر اور ماں کو سنبھالنا تھا۔
جب کبھی مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی وہ میرے سر پر ہلکی سی بہت مار کر مجھے پیار سے سمجھاتا۔۔
میں آہستہ آہستہ ابا کا ہنر اپنے اندر سموتا رہا۔میرا ادھورا وجود کئی بار میری راہ میں حائل ہوا مگر ابا اور اماں نے ہمیشہ میری ڈھارس بندھائی۔
اب ابا مجھے سائیکل پر بٹھائے اپنے ساتھ لے کر جانے لگا تھا وہ بھری دوپہر میں گلی گلی سدا لگاتا پھرتا جب تھک جاتا تو کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر بیڑی سلگا لیتا۔۔
بیڑی ابا کی واحد عیاشی تھی جس سے وہ اپنے وجود کو تازہ دم کرتا اور رزق کی تلاش میں نکل پڑتا۔
مجھے ابا کی حالت پر بہت ترس آتا تھا،وہ بھری دوپہر میں لوگوں کو اپنے ہنر سے متاثر کرنے کی کوشش کرتا گاؤں کے لوگ اس کے تیزی سے چلتے ہاتھوں کو بہت حیرت اور اشتیاق سے دیکھتے تھی لیکن اس کے باوجود کام بہت مشکل سے ملتا تھا۔
بعض اوقات ابا اپنی نحیف آواز سے اس قدر زور سے منجھی والا آیا کی آواز لگاتا کہ آسمان پر سوئے فرشتے بھی جاگ جاتے۔
یہ سب دیکھ کر میں آبدیدہ ہوجاتا۔
یہاں تک کہ آسمان سے نیم خوابیدہ فرشتے زمین پر اتر کر آہستگی سے میرے کان میں کہتے۔۔۔
تمہارا باپ گھر والوں کی بھوک کو اپنی کمائی سے بجھاتا ہے یہ اس کی زمہ داری ہے تم دل پر نہ لو۔
زمہ داریاں اب کے وجود کو چاروں جانب سے گھیرے ہوئے تھی،انہی شب وروز میں ایک روز ابا اچانک سے مر گیا۔
اماں جس کے حسن کے چرچے گاؤں بھر میں پھیلے ہوئے تھے اس بوسیدہ مکان میں میرے معذور وجود کے ساتھ تنہا رہ گئی۔
ابا کے بعد زمیندار کو جیسے شہہ مل گئی اس کے ہمارے گھر پر چکر روز بروز بڑھنے لگے۔
بھوک ہمارے گھر میں مستقل ڈیرا ڈال کر بیٹھ گئی،شروع کے چند دن اماں کی بہن نے ہماری خوراک کا بندوست کیا مگر اس کے حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہ تھے۔
پہلے جس گھر میں ابا کے رسی کوٹنے کی آوازیں اور اماں کی بڑبڑاہٹیں گونجتی تھی اب وہاں صرف بھوک رقص کرتی نظر آتی تھی۔
میں اماں کو تسلیاں دینا چاہتا تھا مگر میرا بے زبان اور معذور وجود ہمیشہ مجھے روک دیتا۔
امی کی عدت پوری ہوئے چند دن ہی گزرے تھے جب پیٹ میں لگی بھوک سے مجبور ہوکر اماں کا پلو تھام کر رو پڑا اور اماں مجھے اپنی آغوش میں بھرے چپ کرواتی رہی اور تھک کر خود بھی روپڑی۔
یہ ہماری بھوک کا آخری دن تھا،اب بان کا گٹھر اماں کی کمر پر ہوتا اور میں اماں کے پیچھے پیچھے اپنی سائیکل چلاتا جاتا۔
اب کمائی پہلے سے زیادہ ہونے لگی تھی،میری چھوٹی عقل نے مجھے دیر سے سمجھایا پہلے لوگ ابا کو چارپائی بنتے حیرت اور اشتیاق سے دیکھتے تھے اب اماں کو ہوس سے دیکھنے کو زیادہ پیسے دیتے ہیں۔
اس وقت مجھے ان سب باتوں سے کوئی سروکار نہ تھا اماں لوگوں کی چارپائی بناتی رہتی میں شروع میں تھوڑی بہت مدد کروا کر پاس بیٹھا رسیوں سے کھیلتا رہتا۔
ایک دن اچانک چارپائی بنتے ہوئے اماں کی چیخ اور پھر گھٹی گھٹی سے آواز سنائی دی میں جو رسی کے ٹکڑے سے کھیلنے میں مگن تھا کھیل چھوڑ کر پیچھے پلٹ کر دیکھا،اماں کو زمیندار کے کارندے گاڑی میں ڈال رہے تھے میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ گاڑی بھگا کر لے گئے۔۔
میں نے گاڑی کے پیچھے بھاگنا چاہا تو میرے بغیر ٹانگوں کے وجود نے بھاگنے سے انکار کردیا۔
اگلی صبح کسی گاؤں والے نے کھیتوں میں اماں کی لاش پڑی دیکھی لوگ مجھے سے حادثے کے بارے میں پوچھنا چاہتے تھے مگر میں پیدائشی گونگا اور ٹانگوں سے معذور بچہ تھا۔