یہ سچ ہے کہ بعض اوقات مشکل حالات میں انسانیت کے سبھی تقاضوں پر پورا اترنا بس میں نہیں رہتا لیکن پھر بھی بحیثیت ایک اچھے اور باشعور انسان کے اپنے اصولوں اور معیار انسانیت سے روگردانی کرنا زیب نہیں دیتا۔جانتی ہوں یہ آسان نہیں۔۔۔مگر لمحہ بھر کی لغزش کے نتیجے میں اپنی ذات کو معیار انسانیت کے زینے اور خود اپنی ہی نظروں سے نیچے گرتے ہوئے دیکھنا زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔میری اس بات سے سبھی لوگ اتفاق نہیں کرتے اور ان کا نقطہء نظر بھی درست ہے کسی حد تک میں بھی یہی سمجھتی ہوں کہ اللہ ہر کسی کو شعور اور ادراک کی ایسی منزلیں طے نہیں کرواتا ،یہ خوش نصیبی ہر کسی کے حصے میں نہیں آیا کرتی۔خود کو اس نقطہء نظر کے آئینے میں دیکھتے ہوئے جہاں اپنی خوش نصیبی اور اطمینانِ قلب کے احساس میں اضافہ ہوتا ہے وہاں اپنے اردگرد موجود انسانیت سے بے پرواہ لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر دل بنا کسی دلیل کے اس رائے سے متفق ہو جاتا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں انسان کے انسانیت سے فاصلے طویل تر ہوتے جا رہے ہیں جنھیں کم کرکے انسانیت کے حسن و جمال کو بحال کیا جا سکتا ہے۔الفاظ بھلے مشکل ہوں پر طریقہ نہایت آسان اور سادہ ہے یا شاید جو شخص طویل عمر جس طریقے پر عمل پیرا رہا ہو اسے وہ کرنا آسان لگتا ہے۔ پس ایسا کہنا بجا ہوگا کہ عملی اقدام کرنے پر مشکل آسان ہو جایا کرتی ہے اور کیسے نہ ہوگی۔۔۔؟ میرے رب نے فرما جو دیا ہے ، ان مع العسر یسرا بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانیاں ہیں
جیسے جیسے زندگی میں سمجھ بوجھ بڑھنے لگتی ہے ہمیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ یہ سیکھنا کس قدر ضروری ہے کہ اس پل پل بدلنے والی زندگی کے ساتھ کیسے چلا جائے؟؟؟اپنی ہستی کو نہ صرف اپنی بلکہ انسانیت کی نظروں میں عروج اور کمال کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟؟ وہ بھی سچا اور دائمی عروج۔کیونکہ پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ عمر کے سال بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم پچھتاووں، خساروں، ناکامیوں اور بے سکونی کے ملبے تلے دبتے چلے جائیں اور خود اپنے ہی ہاتھوں زوال پذیر ہو جائیں یا خود کو اتنا کمزور کرلیں کہ دوسروں کی شر پسندی کا ایک آسان ہدف بن کر رہ جائیں۔اور جب احساس ہو تو پانی سر سے گزر چکا ہو۔میں نے سنا ہے پچھلی عمر کے پچھتاوے ہوتے بھی بڑے جان لیوا ہیں۔اور کیوں نہ ہو ں وقت جیسی قیمتی اور انمول نعمت کا ضیاع کسی جرم سے کم تو نہیں۔جب کوئی اس کا مرتکب ہوتا ہے تو وقت جاتے جاتے کچھ بھی کرنے کی مہلت اور جسم سے سکت چھین کر صرف ذہنی بوجھ اور پچھتاوے دامن میں ڈال کر گزر جاتا ہے اور کبھی پلٹ کر واپس نہیں آتا۔
ایسی صورتحال میں زیادہ تر جو راہِ فرار اختیار کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ، اپنے اندر کے شور ،جو کہ چیخ چیخ کر آپ کو آپ کی حقیقت بتا رہا ہوتا ہے ،کو دبانے کے لیے باہر کے شور شرابے اور رونق میلے میں خود کو جھونک دیا جاتا ہے اور اندر آپ کی وہ نظریں جو آپ پہ جمی ہوتی ہیں کہ آپ کب اپنی خامیاں محسوس کرکے انہیں سدھارتے ہیں حتیٰ کہ اسی انتظار میں وہ پتھرا ٓہی جاتی ہیں۔اور آپ اس بینائی اور بصیرت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتے ہیں جس کی آپ کو اس دنیا میں سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ذیادہ تر لوگوں نے اپنی غلطیوں اور ذات کی قابلِ اصلاح خامیوں کو تسلیم کرنے اور پھر انہیں درست کرنے کی وہ صلاحیت اور جراء ت ،جس پر آدھی محنت۔۔۔جی ہاں ! آدھی محنت کرکے وہ خود کو سنوار سکتے تھے، انسانیت کے ماتھے کا جھومر بن سکتے تھے ،کو گنوا کر اورمسلسل مشق کر کے یہاں تک کہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر دوسروں کی خامیاں اور محض خامیاں ہی ڈھونڈنے کا ہنر جو سیکھ لیا ہوتا ہے۔جس کے بعد آپ کا ذہن اپنی آنکھوں پر نظریہ کی ایسی عینک جما لیتا ہے جس کے مطابق آپ کی ذات ہر لحاظ سے صحیح ، حق بجانب ،عیوب و نقائص سے بالاتر اور خوائص اور تکمیل سے آراستہ ہوتی ہے ،جبکہ دوسرے کی ذات غلطیوں اور خامیوں سے اٹی ہوئی بد نما نظر آتی ہے۔اس کے ساتھ ہی آپ ایک ایسی مہلک بیماری کا بھی شکار ہو جاتے ہیں کہ ایک ہی کام ہے، مگر جب آپ اسے کریں تو وہ آپ کو ٹھیک، جبکہ دوسرا وہی کام کرے تو وہ غلط لگتا ہے۔میں اسے مرض کے ساتھ ساتھ تنگ نظری اور ذہنی فتور بھی کہوں گی جو کہ پہلے بھی عام تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔کیونکہ ہمیں ذہنی اور اخلاقی بیماریوں اور منفی رویوں کو خطرناک حد تک نظر انداز کرکے ناسور بنا دینے کی عادت جو پڑ گئی ہے۔اکثریت اس" بنیادی اخلاقی جرم" کی مرتکب ہے ،جو متاثر بھی بے حد ہے لیکن پھر بھی اس کے شکنجے سے سے باہر آنے کو تیار نہیں۔
محترم قارئین !زندگی کے اتار چڑھاؤ نہ کبھی تھمے ہیں نہ تھمیں گے ضرورت اس بات کی ہے کہ جب کوئی خود میں یا اپنے پیاروں میں اس فتور کو پالے تو اسے برداشت کرنے ، دبانے یا نظر انداز کرنے کی بجائے اس کے حل کی طرف بڑھے۔دعا اور دوا دونوں آزمائے،کوشش اور معالج دونوں سے مستفید ہو۔عام طور پر تو اس مقصد کے حصول کے لئے صحیح سمت میں کی جانے والی ایک مخلص رہنمائی ہی ایسے متاثرین پر شفاء کے در وا کر دیا کرتی ہے لیکن بہرحال صحتیابی مرض کی نوعیت اور اس کے پھیلاؤ پر منحصر ہے۔کیوں کہ اکثر اوقات ہماری غیر ضروری طور پر التوا پسندی ایک چھوٹے مسئلہ کو مرض تک پہنچا دیتی ہے۔
یاد رکھیے ایک صحت مند ذہن اور جسم نہ صرف زندگی کو بھرپور طرح سے جیتا ہے بلکہ انسانیت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ان پر پورا بھی اترتا ہے۔اچھے اور صحت مند ذہن رکھنے والے شخص کو یہ سمجھنے میں ذرا مشکل پیش نہیں آتی کہ کب زندگی ا سے محدود رہ کر بھی اچھا انسان بننے کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور کب اسے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کل انسانیت کو فیض یاب کرنا ہے۔اور ایسا کرنا اسی وجہ سے ممکن ہو پاتا ہے کہ وہ شخص وقت کی بدلتی کروٹوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرکے خود کو اوجِ کمال تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ کبھی کبھی انسان اپنی ذات اور اپنے اردگرد موجود دوسرے لوگوں کو اپنی منفی سوچوں اور بیمار رویوں سے نقصان نہ دے کر ،گپ شپ کے نام پر غیبت نہ کرکے ،دوسروں کی ٹو نہ لے کر ،کسی کی کرید میں نہ پڑ کر ، بلاوجہ اپنی موجودگی یا غیر موجودگی دونوں ہی سے کسی کو تکلیف میں مبتلا نہ کر کے اور اپنی مختصر سی زندگی کو پرسکون طریقے سے انسانیت کے تقاضے پورے کر کے گزارتے ہوئے بھی اشرف المخلوقات کی سند سے محظوظ ہو سکتا ہے۔اور اگر دیکھا جائے تویہ انسانیت کا انسان سے کوئی اتنا بڑا تقاضا نہیں جسے پورا نہ کیا جاسکے۔