صدف ایک حسین و جمیل لڑکی تھی۔ سیاہ زلفیں ، غزالی آنکھیں ، گلابی ہونٹ اور درمیانہ خوبصورت قد اس کی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔ پورے شہر میں اس جیسی خوبصورت لڑکی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ کہنے والے تو صدف کے بارے میں یہاں تک بھی کہتے کہ نہ ہی کوئی ایسی صدف دوبارہ اس شہر میں کبھی پیدا ہوگی۔ پورے شہر میں اس کے حسن کے خوب چرچے تھے۔ گھر گھر اس کے حسن کا خوب طوطی بولا جاتا تھا۔ اس کی خوبصورتی اس قدر تھی کہ چند لمحوں میں لوگ اسے دل دے بیٹھتے تھے۔ اس میں خوبیاں بھی اس کے حسن جیسی خوبصورت تھیں۔
اپنے کام سے کام رکھنا ، دل لگا کر پڑھنا ، کسی سے فضول گفتگو نہ کرنا اور شرافت جیسی صفات اس کے چال چلن سے بھی عیاں تھیں۔ شہر بھر کے شیریر لڑکے اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے اور دل ہی دل میں اسے دلہن بنانے کے خیالی پلاؤبنائے سارا دن اسکی راہیں تکتے رہتے۔ گردشِ ایام تو انسان کو عروج و زوال کے دن دیکھا کر ہی اصل جینے کا ہنر سیکھاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں وہی ہوتی ہیں لیکن زندگی کے نظارے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ انسان کئی ناواقف منازل طے کرتا ہوا زندگی کے سفر کے خاتمے کے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
صدف کی جب میٹرک کی تعلیم مکمل ہوئی تو اسے شہر کے ایک اعلیٰ کالج میں داخل کروا دیا گیا۔ یہ کالج ان کے گھر سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع تھا۔ روزانہ رکشہ والا صدف کو صبح کالج پہنچاتا اور جب چھٹی ہوتی تو وہی رکشہ اسے گھر واپس بھی پہنچا دیتا۔
روزانہ کالج جاتے ہوئے صدف خوشبودار پرفیوم لگائے ، لمبے بال ، خوبصورت گلابی ہونٹ اور غزالی آنکھیں سے کئی دلوں میں گھر بناتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی۔ صدف کے گھر والی گلی سے آگے دو گلیاں چھوڑ کر تیسری گلی میں عامر نامی لڑکے کا گھر تھا جو کہ صدف کا پڑوسی تھا۔ وہ صدف کا ہم عمر بھی تھا۔ عامر کے ایامِ طفلی بھی صدف اور دیگر بچوں کے ساتھ انہی گلیوں میں گزرے تھے۔ ایک محلے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی خوشی یا غمی کے موقع پر ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے۔ عامر روزانہ گلی کے کونے پر بیٹھا بڑی دل جمی سے صدف کی طرف دیکھتا رہتا۔ وہ اس قدر محبت میں گرفتار ہوا کہ وہ سچ مچ حالتِ مجنوں بنا رہتا اور روزانہ صبح سویرے صدف کا دیدار کرتے ہوئے وہ صدف سے اشاروں میں بات کرنے کی کوششیں تو بہت کرتا لیکن صدف اس کے اشاروں کو نہ سمجھ پاتی کیونکہ صدف ایک شریف گھرانے میں پیدا ہوئی تھی۔ اس کا ذہن ان خیالات سے پاک تھا جو عامر کے ذہن میں چل رہا تھے۔
ابھی وہ باہر کے مکمل ماحول سے نااشنا تھی۔ پہلے کئی دن عامر تیسری گلی کے کونے پر بیٹھا رہا لیکن اب اس نے تیسری گلی کی بجائے دوسری گلی کے کونے پر بیٹھنا شروع کر دیا۔ دوسری گلی سے بھی اس کے اشاروں کا صدف پر کوئی اثر نہ ہوا تو وہ صدف کے عین گھر والی گلی کے کونے پر آ بیٹھا۔ عامر صدف کو اب اپنے دل کی اصل بات بتانا چاہتا تھا مگر اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ صدف سے بات کر سکے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ سچی محبت میں رکاوٹوں کو پختہ جذبات اور احساسات ہی اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ عامر کی شخصیت سے ایسے لگتا جیسے اس نے ’’عشق بازانہ‘‘ مضامین میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہو۔ ایک رات عامر نے اپنی اس ڈائری سے ایک کاغذ نکالا جس ڈائری کے اندر اس نے صدف کی یاد میں بے شمار اشعار لکھے تھے۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
اب وہ سوچنے لگا لکھوں تو کیا لکھوں۔۔۔۔۔کہاں سے شروع کروں۔۔۔۔۔۔۔؟؟
آخر کار اس نے خط پر چند جملے لکھ کر بند کر کے صبح سویرے گھر کے باغیچے سے ایک سرخ گلاب توڑکر خط کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا اور صدف کے گھر والی گلی کی طرف چل پڑا۔ عامر کے پہنچنے سے پہلے ہی صدف کو لینے والا رکشہ گلی میں موجود تھا۔ عامر نے رکشہ کے ساتھ تیزی سے گزرتے ہوئے خط پھینک کر گھر کی طرف چلا آیا۔ صدف دروازے سے نکلی اور جب وہ رکشے پر بیٹھنے لگی تو اچانک اس کے دائیں ہاتھ سے پرس گر گیا۔ پرس اٹھا کر صاف کرتے ہوئے صدف کی نظر اس خط پر پڑی جس کے ساتھ عامر نے پھول باندھ کر پھینکا تھا۔ صدف نے خط کو اٹھا کر پرس میں ڈال دیا۔ کالج جاتے ہوئے اس کے ذہن میں کئی خیال جنم لے رہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہہ رہی تھی ’’کسی کی محبت کا یہ حسین تحفہ میری قسمت میں کیسے آگیا۔۔۔۔۔؟؟؟
وہ بار بار خط کو کھولنا چاہ رہی تھی مگر وہ یہ بھی سوچ رہی تھی کہ رکشے والے انکل نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔۔۔۔؟
کالج پہنچ کر صدف نے لان میں جاتے ہی خط کھولنے لگی۔ صدف نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے پھول سے خط کو جدا کر کے دیکھا تو اس کے جسم پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد صدف کی سہیلی مریم بھی لان میں پہنچ گئی۔ ’’کیا ہو رہا۔۔۔۔ جی۔۔۔۔۔آج اکیلے اکیلے لان میں بیٹھنا۔۔۔۔ارے صدف تمہارا تو چہرہ بھی آج اترا اترا سا لگ رہا ہے۔۔۔۔ خیریت تو ہے نا۔۔۔؟؟‘‘ مریم نے صدف سے گلے ملتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بھئی !! سب ٹھیک ہے۔ بھلا آج تم کیوں کودے جا رہی ہو۔۔۔۔؟؟‘‘ صدف نے کہا۔
مریم نے دوبارہ صدف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔۔۔۔بتاؤ۔۔۔۔نا‘‘
’’کیا بتاؤں۔۔۔۔۔تم کو بتایا تو تمہیں تو مذاق اڑانے کا بہانہ مل جائے گا۔۔۔۔اچھا وعدہ کرو۔۔۔۔تم مذاق نہیں اڑاؤگی۔۔۔۔۔اچھا میں بتاتی ہوں۔‘‘ صدف نے پرس سے خط نکالتے ہوئے کہا۔
مریم کہنے لگی ’’ارے پگلی !! پہلے میں نے کبھی تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے۔۔۔۔۔ایسی کونسی بات ہے کہ آج حلف برداریاں ہو رہی ہیں۔‘‘
صدف نے خط نکال کر مریم کو دیکھاتے ہوئے ساری داستان سنا دی۔ مریم کے پاؤں سے بھی زمین نکل گئی۔ اس نے حیرانگی سے طنزیہ انداز میں کہا ’’ اچھا !! اب تمہیں بھی کسی شہزادے نے آخر پسند کر ہی لیا۔ یقیناً آپ کا کوئی پڑوسی ہوگا۔‘‘
صدف تو عامر کو اچھی طرح جانتی تھی اور واقعی عامر ان کا پڑوسی تھا۔ سارا دن وہ دورانِ کلاسز بھی سوچتی رہی۔۔۔۔۔کالج سے گھر آتے ہوئے بھی وہ ان خیالات سے نہ نکل پائی۔ صدف جیسے ہی گلی میں اتری تو اسے عامر گلی میں گھومتا دیکھائی دیا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ عامر کی طرف غصے سے دیکھ کر صدف گھر چلی گئی۔ عامر سمجھ گیا کہ میرے دل کا پیغام صدف تک پہنچ گیا۔ وہ پاگلوں کی طرح رقص کرنے لگا۔ اسکی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ کچھ عرصے کے بعد یوں ہوا کہ جب صدف کی کالج تعلیم مکمل ہوئی تو اس کے ماموں اسلام اباد سے صدف کا رشتہ مانگنے ان کے گھر آئے۔ صدف کے والدین نے انہیں ہاں کر دی۔ صدف کا رشتہ اس کے ماموں کے بیٹے نوید سے طے ہوگیا۔ نوید اچھا خاصا پڑھا لکھا اور گورنمنٹ ملازم تھا۔ صدف خاندان کے بزرگوں میں ماموں اور ممانی کے درمیان میں خوبصورت سرخ فراک پہنے ہاتھوں پر مہندی لگائے ، ہونٹوں پر سرخ لپ سٹک سجائے خاموش دلہن بنی بیٹھی تھی۔ اس کے دل میں عامر کے الفاظ گھر کر چکے تھے۔ وہ پوری طرح محبت کی لپیٹ میں آچکی تھی۔ عامر اسکی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔
رشتہ طے کرنے کے بعد شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ فرنیچر ، جیولری اور شادی کے تیاریاں کرتے کرتے بالاخر صدف کی رخصتی کا دن بھی آ گیا۔ عامر کو جب اچانک سے ان تمام باتوں کا علم ہوا تو اس کو بہت دکھ ہوا۔ اس کے لیے یہ بالکل کسی ناگہانی موت کا عالم تھا۔ اس خبر کے ملتے ہی عامر غصے سے پاگل ہو گیا تھا۔ عامر نے اپنی کزن کے ہاتھوں صدف کو اپنا موبائل نمبر بھیجوا دیا۔
عامر نے صدف کو ہر حال میں حاصل کرنے کا دل میں مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ صدف کی رخصتی کے دن عامر آنسو بہاتے ہوئے گھر کے چوبارے کی آدھی کھڑکی کھولے صدف کی رخصتی کا سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ آج جیسے اس کے ارمانوں کا جنازہ نکل رہا ہو۔ اسکی زندگی کی خواہشوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا جا رہا تھا۔ آنسو بہاتے بہاتے اس نے صدف کو اپنی آنکھوں کے سامنے رخصت کیا۔ صدف کی رخصتی کے ایک ہفتہ بعد صبح سویرے عامر اسی کھڑکی میں نظریں جمائے کھڑا خیالوں میں صدف کی یادوں میں مصروف تھا کہ اس کے نیلے رنگ کے کوٹ کی فرنٹ جیب میں سے موبائل پر میسج کی آواز آئی ’’السلام علیکم! آداب عامر مجھے تمہاری محبت کا اندازہ اسی دن ہوگیا تھا جس دن آپ کا خط مجھے ملا تھا۔ مگر میں والدین کے ہاتھوں مجبور تھی۔ مجھے معاف کر دیں۔ آپ ہمیشہ میرے دل میں آباد رہیں گے۔ دعاؤں میں یاد رکھنا۔۔۔۔پھر بات ہوگی۔۔۔۔۔اللہ حافظ۔‘‘ عامر نے بڑے غور سے میسج پڑھا۔
صدف کا میسج دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اسے اس قدر خوشی ہوئی جیسے صدف اس کی زندگی میں دوبارہ لوٹ آئی ہو۔ اس طرح شادی کے بعد صدف کا عامر کے ساتھ رابطہ شروع ہوگیا۔ اللہ پاک نے صدف کو صاحب اولاد کیا اور اسے دو جڑواں بیٹی اور بیٹے سے نوازا۔ صدف نے بیٹی کا نام نغمانہ اور اس کے شوہر نوید نے بیٹے کا نام کامران رکھا۔ دونوں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔ صدف اب دو بچوں کی ماں بن چکی تھی بجائے گھر سنبھالنے کے صدف کے سر پر عشق کا بھوت ابھی تک سوار تھا۔ نوید جب صبح سویرے دفتر چلا جاتا تو صدف روزانہ عامر سے گھنٹوں گھنٹوں گپیں ہانکنے میں گزار دیتی۔ یہاں تک کہ رابطے رابطے میں ایک دن صدف نے عامر کے ہاتھوں شوہر کو قتل کر کے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
چونکہ عامر نو عمر لڑکا تھا اس نے سوچے سمجھے بغیر یہ فیصلہ منظور کر لیا اور صدف کے ساتھ نوید کے قتل کیلئے طرح طرح کی تدبیریں کرنے لگا۔ ایک دن جب صدف کا شوہر گھر سے آفس کیلئے نکلا تو صدف نے عامر کو کال کرتے ہوئے کہا ’’ہیلو۔۔۔۔ہاں عامر۔۔۔۔۔۔۔۔آج میں نوید سے جھگڑا کر کے میکے چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔۔آپ نے اپنا وعدہ وفا کرنا ہے۔۔۔۔۔؟؟‘‘ عامر بھی خوش ہوگیا تھا۔ اسے یہ سمجھ نہ آئی کہ وہ جس کام کیلئے قدم اٹھا رہا ہے وہ اس کی ساری زندگی کو چند لمحوں میں تباہ کر دے گا۔ وہ یہ بھی سوچنے سے قاصر تھا کہ عشق کی اسیری اسے سلاخوں کی اسیر بنا دے گی۔ زندگی کے عجیب و غریب فیصلے چند منٹ میں غیرت دیکھا کر ساری زندگی بے غیرتی سے گزرتی ہے۔ چنانچہ صدف کا شوہر جیسے ہی آفس سے گھر واپس آیا تو صدف نے پہلے تو نوید کے سلام کا جواب تک نہ دیا اور پھر موڈ خراب کر کے بیٹھ گئی۔
’’صدف آج خیریت تو ہے۔۔۔؟ کیا گھر میں کسی نے کچھ ایسا ویسا کہا ہے۔۔۔۔بتاؤ تو سہی۔۔؟؟‘‘ نوید نے لیپ ٹاپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
سارا دن دفتر کے علاوہ بھلا تمہیں کسی کی پرواہ ہے۔۔۔۔۔۔؟؟‘‘ صدف نے گرجتے ہوئے کہا۔
باتوں باتوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔
نوید نے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر صدف خوامخواہ بگڑتی چلی گئی۔ اس کے اندر کا شیطان عروج پر پہنچ چکا تھا۔ حتی کہ صدف جھگڑ کر میکے چلی گئی۔ چند دن کے بعد جب معاملہ ٹھنڈا ہوگیا اور صدف کے روٹھ جانے کی وجہ سے شک دور ہوگیا تو صدف نے عامر کو کال کرتے ہوئے کہا ’’ہیلو!! ہاں عامر کیسے ہو۔۔۔؟؟ میں امی کے گھر پہنچ گئی ہوں۔۔۔۔۔۔اب۔۔۔۔۔۔آپ اپنا کام شروع کریں۔‘‘
صدف نے عامر کو گھر کی ساری صورتحال سے اگاہ کر دیا تھا۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ ہر طرف خاموشی کا عالم تھا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ عامر نے دوست سلطان کے گھر سے پستول اٹھایا اور نوید کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے نوید نے آواز دیتے ہوئے کہا ’’ارے ایک منٹ صبر تو کرو یار آ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔باہر بارش ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔مجھے چھتری تو ڈھونڈنے دو۔‘‘ نوید کو یہ علم تو نہیں تھا کہ باہر فرشتہ اجل اسکے انتظار میں ہے۔ نوید نے جیسے ہی دروازہ کھول کر باہر آیا تو عامر نے اس کے سر پر گولی ماری جس کے بعد عامر رفو چکر ہو گیا۔ نوید موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ فائرنگ کی آواز سے محلے میں ہر طرف کہرام مچ گیا۔ ایک راہ گیر نے عامر کا پیچھا شروع کر دیا۔ اس نے پولیس کو اطلاع کر دی۔ پولیس نے عامر کو راستے سے ہی پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا۔ تفتیش شروع ہوگئی۔ پہلے تو عامر نے زبان نہ کھولی مگر جب حوالات میں مار پڑی تو عامر نے پولیس کو ساری کہانی سے اگاہ کر دیا۔ سسرال والوں کی طرف سے بھی صدف کو اپنے شوہر کے قتل کا مجرم قرار دے دیا گیا کہ نوید کے قتل میں صدف کا ہاتھ ہے۔ عامر ایک ماہ کے بعد چالان ہو کر جیل چلا گیا۔ جہاں اسے سزائے موت ہوگئی۔ صدف کا شوہر کے قتل کے بعد عامر سے شادی کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ دونوں خاندان تباہ ہوگئے۔ صدف ہر کسی کو گلے لگا کر خوب روتی اور اپنے فیصلے پر دن رات پچھتاتی رہتی۔ نوید کے قتل کے صدف کا دل ہر وقت بے چین رہتا۔ دن بدن وہ شوہر کے غم اور قتل جیسے گناہ سے ختم ہو رہی تھی۔
ایک رات صدف کو خواب میں اس کے شوہر کی محبت مخاطب کر کے کہنے لگی ’’اب تجھے ساری زندگی رسوا ہی رہنا ہے۔ محبت کے قاتلوں کی یہی سزا ہوتی ہے۔‘‘ صدف نیند سے چیختی ہوئی اٹھی اور رو کر کہنے لگی ’’میں نے ظلم کیا۔۔۔میں مجرم ہوں۔۔۔۔میں قاتل ہوں۔۔۔۔نوید۔۔۔۔محبت۔۔۔اے محبت !! مجھے معاف کر۔۔۔اے محبت !! مجھے معاف کر۔‘‘