کسی گُم گشتہ گاؤں کا ایک عمر رسیدہ دہقان
زندگی کے حبس زدہ زنداں میں
صرف اس لیے سانس لے رہا ہے کہ
چشمِ داشت کے دریچے سے
یادِ رفتگاں کی ہوا آرہی ہے
ماضی کی بیڑیوں میں جکڑی ایک بوڑھی ماں کی
نوعمر ،قلب سے مجوف ضعیف دختر
ہر شب ترسیدہ تلخیوں کے خشک بیابانوں سے
رنگیں خوابوں کے ڈول کھنچتی ہے کہ
اْس کی ماں اُس کی آنکھوں کے درکت میں
گھر کرتا دائمی دکھ نہ دیکھ لے
آغازِ شباب کی دہلیز پر کھڑا نوجوان
زمانہء رفتگاں سے زمانہء بعید کا تذکرہ کرتے
رات کے آخری پہر دالان کے باد گیر سے
محاق کو دیکھتے ہوئے سوچتا ہے کہ
یہ نوخیزی بھی ایک دن ڈھل جائے گی
اس اُترے ہوئے چاند کی مثل
اور پھر ماضی کے پنوں پر
ہمارا نام بھی رقم ہو جائے گا
دُہرِ وقتی کا ہرشخص ہی رفتگاں کا اسیر ہے
کوئی سنہری یادوں کی طناب سے بندھا ہے
کسی کے قلبِ قصر کی فصیلوں پر
کرب ناک خیالوں کی بیلیں چڑھی ہے
کوئی بھولی بسری یادوں میں اُمید کا عکس کھوجتا ہے
تو کوئی ماضیت کے منڈیر پر بجھے
ہوئے چراغ سے خواب چُنتا ہے
کسی کی حیات کے ہر پہلو میں
بیتِ دنوں کی مینہ برس کر روتی ہے
اس قفسِ دیرینہ کی ہر داستان ہی الگ ہے
ہر دل کے کارواں کی سوچ کا محور علیحدہ ہے
ہر ذہن کی نگاہ متبائن نظریے پر مرکوز ہے
ہر قیدی اپنی پاداش کے مطابق اس قید کو پرکھتا ہے
***۔۔۔۔***