نہ ربط ٹوٹے گا اس حسیں سے
دو نین جس کے ہیں نازنیں سے
مزاق اچھا ہے یار لیکن
میں رو پڑوں گی نہیں نہیں سے
میں چپ کھڑی ہوں مگر صدائیں
ابھر رہی ہیں یہیں کہیں سے
میں خواب پھر سے بنا رہی ہوں
میں ٹوٹ جاؤں گی پھر وہیں سے
نہ مٹنے دوں گی تری نشانی،
لبوں کی تتلی مری جبیں سے
اے شمس اک دن میں دوستوں کو
نکال پھینکوں گی، آستیں سے
٭٭٭