جی۔وہ فوراً لیٹی تھی اور جلدی سے کمفرٹر ڈالا تھا ذبیر اسکی اس ادا پر
مسکرایا تھا ماہین کمفرٹر کے اندر ہو کے زبیر کی حرکتے یاد کر رہی تھی اس اب بھی اسکا لمس اپنی گردن پر محسوس ہورہا تھا۔
کافی دیر کے بعد وہ نیند کی آغوش میں چلی گئ تھی۔
صبح ماہین جلدی اٹھی تھی صبح نماز کے بعد ماہین بس لیٹ گئی تھی پر سوئی نہیں تھی کونکہ آج اسے یونی جانا شروع کرنا تھا۔
ماہین نہاں کے آئی تھی اور اب شیشے کے سامنے کھڑے ہوکے بال بنا رہی تھی جب زبیر کی آنکھ کھلی تو سامنے ماہین کو بیٹھے پایا تھا جو تیار ہونے میں مگن تھی۔ماہین نے بال کھلے چھوڑ دیے تھے اور ہونٹوں پر ہلکا سا لپ لوز لگایا تھا دوپٹہ شانوں پر پھیلایا ہوا تھا ۔
میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں ۔وہ اٹھتا ہوا بولا۔
میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤں گی۔
میں نے کہا نہ میں چھوڑ دیتا ہوں بیٹھوں میں آیا تھوڑی دیر میں کپڑے نکالوں میرے میں فریش ہونے جارہا ہوں ۔وہ حکم دیتا ہوا واشروم چلا گیا تھا۔
ماہین اسے گھورتی ہوئی کپڑے نکالنے لگی تھی اسنے کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھے تھے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ اسے کپڑے کیسے دے وہ وش روم سے باہر نکلا تھا ماہین نے اسے دیکھ کے منہ دوسری طرف کرلیا تھا۔
حد ہے چھچھورپن کی۔وہ دوسری طرف منہ کر کہ بولی تھی کیونکہ زبیر ٹاول لپیٹے باہر نکلا تھا۔
کیا چھچھورپن دکھایا میں نے اب کپڑے نہیں دیے تم نے تو ایسے ہی آؤں گا نہ۔وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا اور کپڑے لے کر واپس جا چکا تھا۔
زبیر چینج کر کے باہر آیا تھا اور بال بنانےلگا تھا۔
چلیں۔۔وہ ماہین کے پاس آکر اسکے کان بولا تھا۔
جی چلیں ۔وہ نیچے منہ کر کے جانے لگی تھی تبھی زبیر نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اپنی طرف کیا تھا۔
بھاگ کیوں رہی ہو مجھ سے وہ اسکے قریب کرتا ہوا بولا۔
مم مم میں تو نہیں بھاگ رہی۔وہ ادھر اودھر منہ کرتے ہوئے بولی تھی۔
کل رات سے تم مجھ سے گھبراشرمارہی ہو جب کہ ابھی تو کچھ ایسا ویسا کیا بھی نہیں میں جب کرونگا تو پتہ نہیں کیا کروگی ۔وہ شرارت سے بولا تھا تو ماہین چہرہ اور جھکا گئی تھی۔
ناشتہ کرنے کے بعد اٹھا تھا۔
چلو۔وہ کہتا ہوا آگے بڑھا تھاماہین بھی اسکے پیچھے تھی وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اور ماہین اسکے برابر میں اور گاڑی چلائی تھی اسنے۔
اسکی یونی کے باہر پہنچ کر زبیر نے گاڑی روکی تھی۔
جب تک ڈرائیور نہیں آئے تم ادھر ہی رہو گی کسی کے ساتھ نہیں جاؤ گی سمجھی۔وہ گاڑی سے اترتی ماہین کو کہنے لگا تھا۔
جب ماہین مکمل چلی گئی تو وہ واپس گھر کی طرف گیا تھا۔
یونی کے اندر ہی اسے نوشین نظر آئی تھی تو وہ اسکے پاس گئی تھی۔
اسلام علیکم۔وہ نوشین کے پاس آکر بولی تھی ۔
وعلیکم اسلام کیسی ہو ۔
میں ٹھیک ۔
طبیعت کیسی ہے اب اور کس کے ساتھ آئی ہو۔
زبیر چھوڑ کے گیا ہے۔
اچھا چلو کلاس لیتے ہیں پھر بات کریں گے۔پھر دونوں اندر کی طرف گئی تھی۔
ماہین اور نوشین کلاس لے کر باہر آئی تھیں ماہین نہ جانے کیوں آج چپ چپ سی تھی نوشین نے محسوس کیا تھا۔
چل یار کینٹین چلتے ہیں ۔
مجھے بھوک نہیں ہے۔
کیوں کیا ہوا اتنی خاموش خاموش کیو لگ رہی ہوں تم آج کچھ ہوا ہے کیا ؟
نہیں بس ایسے ہی ۔
اچھا چلو نہ کچھ کھاتے ہیں نہ پلیز۔
اچھا چلو۔
دو کوفی دو چیز سینڈوچ ۔نوشین کینٹین میں بیٹھتی ہوئی بولی تھی۔
کیا ہے کچھ تو بول اتنی کیوں خاموش ہے کیا حکومت نے بولنے پر بھی ٹیکس لگا دیا ہے۔
نہیں یار بس ایسے ہی دل کچ اداس ہے۔
اک تو جب سے اس انسان سے تیرا پالا پڑا ہے نہ جب سے تو اداس ہی رہتی ہے ۔
ایسا نہیں یار وہ اتنا برا بھی نہیں جتنا میں سمجھتی ہوں اسے ۔
ہمم اچھا تو اب وہ آپکوں اچھے لگنے لگے ہے۔وہ شرارتی انداز میں بولی تھی۔
نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں پر اس نے مجھے ٹائم دیا ہے جب تک میرا دل راضی نہیں ہوگا وہ مجھے ہاتھ نہیں لگائے گا۔
او کیا بات ہے بڑا دل ہے بھئی آج کل کون ایسا کرتا ہے۔
ہاں نہ وہی تو آج کل کون ایسا کرتا ہے چاہے میں اس سے محبت نہیں کرتی پر میں اسکی عزت کرتی ہوں کیونکہ وہ میرے جزباتوں کی قدر کرتا ہے۔
اچھا صحیح بات ہے پر جو اس نے تمہارے ساتھ غلط کیا اسکا کیا کیا تم وہ بھول جاؤ گی۔
نہیں شاید میں نہ بھول پاؤ پر اب کیا ہو سکتا ہے زندگی تو گزارنی ہے نہ چاہے پیار نہ ہو پر اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی عزت کرتے ہوں تب بھی زندگی اچھی گزر تی ہے۔
تو کیا تم نے اسے معاف کر دیا۔
نہیں ابھی تک تو نہیں ۔
اچھا ٹھیک ہے کوفی لو۔
ماہین ڈرائیور کا ویٹ کر رہی تھی نوشین بھی اسکے ساتھ تھی ۔
یار اتنی دیر ہوگئ تمہارا ڈرائیور نہیں آیا ہے ۔
پتہ نہیں کہاں رہ گیا ۔ماہین سڑک کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔
چلو نہ بس میں چلتے ہیں ۔
نہیں زبیر نے منع کیا تھا۔ماہین سر جھکائے ہوئے بولی۔
او فرمابردار بیوی کیا بات ہے آپکی۔وہ اسکو چھیڑنے لگی تھی۔
ہیلو ماہین کیسی ہیں آپ۔ماہین کی کلاس کا ایک لڑکا سلمان اسکے سامنے آکر بولا تھا۔
میں ٹھیک ہوں الله کا شکر ہے۔ماہین حیرت سے پہلے تو اسے دیکھنے لگی پھر جواب دیا۔
ہمم۔گڈ کیا بات ہے یہاں کیوں کھڑی ہے۔
جی وہ بس ڈرائور آنے والا ہے۔ماہین اسکوں حیرت سے دیکھ رہی تھی کیونکہ اس سے پہلے ماہین کی اس سے بس دعا سلام۔ ہی ہوئی تھی اس سے زیادہ وہ اپنی کلاس کے کسی لڑکے سے بات نہیں کرتی تھی۔
جی کچھ کام تھا آپکو کیا ماہین نے بے ساختہ پوچھا ۔
جی وہ میں اسٹڈی میں تھوڑا سا ویک ہوں آپکوں تو پتہ ہی ہوگا اور آپ تو ماشاءاللہ بریلینٹ اسٹوڈینٹ ہو میں چاہتا ہوں آپ میری تھوڑی سی ہیلپ کردو اسٹڈی میں۔وہ ماہین کو التجا کرنے والے لہجے میں بولا تھا۔
نوشین اتنی دیر سے سے دونو ں کو دیکھ رہی تھی وہ اسے پڑھانے والی بات پر اسے دیکھنے لگی تھی۔
کیا اسنے خدمت خلق فاونڈیشن کھولی ہوئی ہے جو آپ آگئے ۔نوشین اسے طنز کرتی ہوئی بولی تھی۔
میں فیس پے کرنے کے لیے تیار ہوں ۔
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں پر میں آپکو ں کیسے پڑھا سکتی ہوں ۔وہ جھجھکتی ہوئی بولی تھی۔
آپ یونی کے بعد تھوڑا سا ٹائم نکال لیے گا پلیز پلیز۔
پر میں ۔۔
پلیز پلیز منع مت کریے گا ۔وہ انسس کرتا ہوا بولا۔
اچھا میں کوئی گارنٹی نہیں لے سکتی پر کوشش کرو گی ۔
تھینکس۔
ماہین میرا بیگ اندر رہ گیا ہے میں لے کر آتی ہوں ۔۔نوشین۔کہتے ہوئے اندر کی طرف گئ تھی ۔
او گوڈ یہ ڈوگ کہا سے آگیا ۔ماہین اپنے پاس آتے ہوئے کو دیکھ کر ڈرتی ہوئی بولی ۔
ارے ڈرے نہیں میں بھگاتا ہوں اسے ۔وہ لڑکا ماہین کو ڈرتا دیکھ کر بولا تھا سلمان اسے بھگانے کی کوشش کرنے لگا تھا ماہین چر کر دور ہٹ رہی تھی سلمان نے اسے پیر سے بھگانے کی کوشش کی تھی تو وہ اور بھوکتا ہوا اسکہ قریب آیا تھا آور اسکے پیر پر کانٹنے ہی لگا تھا کے سلمان نے اسے اپنا موبائل کھینچ کر مارا تھا جس کی وجہ سے وہ بھاگ گیا تھا اور سلمان بیچارگی سے اپنے موبائل کو دیکھ رہا تھا جس پر ماہین کو ہنسی آنے لگی تھی اور وہ کھلکھلا کھلکھلا کے ہنسنے لگی سلمان بھی اسے دیکھ کر ہنسنے لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہین کے یونی آف ہونے کا ٹائم ہو چکا تھا زبیر ڈرائور کے بجائے اسے خود لینے جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا گاڑی میں بیٹھ کر وہ ماہین کے یونی کی طرف بڑھا نکل چکا تھا یونی پہنچ کر وہ گاڑی سے اترا ہی تھا کے اسکی نظر ماہین اور اسکے ساتھ کھڑے لڑکے پر پڑی وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرارہی تھے زبیر ماہین کو اسکے ساتھ اسطرح ہنستا دیکھ کر غصے سے سرخ ہوچکا تھا اور غصے سے آگے بڑھا تھا ماہین کے پاس پہنچ کر اسنے ماہین کا ہاتھ جھٹکے سے پکڑا تھا ماہین اسکی اس حرکت پر ڈر گئ تھی اور خوف سے زبیر کو دیکھ رہی تھی اسکے چہرے سے اسے خوف آرہا تھا ۔
زبیر نے ماہین کا ہاتھ پکڑا تھا اور اسے اپنے ساتھ کھینچتا ہوا لے جانے لگا تھا۔
ہیلوں مسٹر کون ہو آپ ہاتھ چھوڑو اسکا ۔سلمان آگے بڑھ کر زبیر کو روکتا ہوا بولا تھا زبیر نے لال آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔
ہاتھ چھوڑو اسکا ۔وہ ماہین کا ہاتھ چھڑوتا ہوا بولا تھا۔
یو اسٹے اوے فروم ہر انڈراسٹینڈ!!!!!!!!!زبیر غصہ سے چیختا ہوا بولا تھا وہ اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
ماہین۔کانپنے لگی تھی اسکے ہاتھ پیر پھول رہے تھے دونوں کو دیکھ کر ۔
آپ ہوتے کون ہو اسکے اسطرح لے جانے والے آپ امیر ہو پولیٹشن ہو تو کیا کسی کو بھی زبردستی اٹھا لے جاؤ گے ۔سلمان اسکا ہاتھ چھڑوتا ہوا کہنے لگا۔
شی از مائی وائف یو اٹے اوے فروم ہر۔زبیر نے سلمان کے منہ پر اک مکہ مارا تھا جس سے وہ دوسری طرف گرا تھا ماہین نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔
زبیر ماہین کو کھنچتا ہوا کار تک لایا تھا اور اسے اندر بٹھا کر وہ ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا اور گاڑی اسٹارٹ کی تھی ماہین سہم کر زبیر کو دیکھ رہی تھی جو غصے سے گاڑی چلا رہا تھا۔
گھر پہنچ کر وہ ماہین کو کا ہاتھ پکڑتا ہوا اسے کمرے میں لے آیا تھا ماہین سہم گئی تھی جب اس نے جھٹکے سے دروازہ بند کیا تھا اور غصہ سے ماہین کی طرف بڑھا تھا۔
کون تھا وہ لڑکا۔زبیر ماہین کا ہاتھ جھٹکے سے تھانپتا ہوا بولا تھا ماہین ڈر کر اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
میں نے۔پوچھا کون تھا وہ لڑکا!!!!!!!!!اس بار وہ غصے سے چیخا تھا ماہین ڈر کے پیچھے ہٹنے لگی تھی زبیر نے اسے واپس کھینچ کر اپنے قریب کیا تھا۔
کون تھا وہ۔وہ اس بار آواز آہستہ سے پر غصہ سے بولا تھا۔
زب زبیر وہ وہ ۔ماہین ڈر سے کانپتے ہوئے بالنے کی کوشش کر رہی تھی پر آواز ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
مجھے دھوکا دینے کی کوشش بھی مت کرنا سمجھی اگر تمہارا اسکے ساتھ کوئی چکر تھا شادی سے پہلے تو اسے وہیں ختم کردو اگر دوبارا وہ مجھے تمہارے آس پاس بھی نظر آیا تو اسکو تو جان سے ماروں گا ہی میں پر تمہاری بھی وہ حالت کروںگا تم سوچ نہیں سکتی سمجھی اب بتاؤ کون تھا وہ۔
زبیر وہ کلاس فیلو ۔۔ماہین۔روتے ہوئے بولی تھی۔
کلاس فیلو سے اسطرح باتیں کر رہی تھی تم میرے ساتھ تو کبھی اتنا خوش نہیں رہتی کبھی۔
زبیر ایسا کچھ نہیں ہے میرا اس کے ساتھ کوئی چکر نہیں ہے وہ بس کلاس فیلو ہے ۔ماہین روتے ہوئے اپنی صفائی دے رہی تھی۔
زبیر اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا روتے ہوئے سرخ ہورہی تھی ۔آئندہ وہ مجھے تمہارے آس پاس نظر نہ آئے مجھے تمہارا میل جول لڑکوں سے پسند نہیں ۔
وہ نرم۔پڑتا ہوا بولا تھا۔ماہین ابھی بھی ہچکیوں سے رورہی تھی تو زبیر کو اس پر ترس آیا تھا اسنے اسے بیڈ پر بیٹھایا تھا اور سائڈ ٹیبل پر سے پانی اٹھا کر اسکو دینے لگا تھا۔
نہیں پینا مجھے نہیں چاہے آپکی ہمدردی آ پ تمام مرد شکی ہوتے ہو بس اپنی بیوی کسی کے ساتھ دیکھا نہیں کے جان نکلتی ہے جاؤ یہاں سے !!!!!ماہین۔غصہ سے بولی تھی اور پھر سے رونے لگی تھی۔
سوری میری جان بس تمہیں اسکے ساتھ دیکھ کر غصہ آگیاتھا۔
۔ ۔وہ اسکے سامنے آتا ہو بولا تھا ماہین نے دوسری طرف منہ کیا تھا۔
ماہین سوری مجھے پتہ ہے میں نے کچھ زیادہ ہی غصہ کردیا پر کیا کرو نہیں ہوا مجھ سے برداشت تمہیں کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا میں شکر ہے قتل نہیں ہوگیا میرے ہاتھ سے اسکا۔وہ اسکے چہرے کے سامنے آکر بولا تھا۔
ہاں بس یہی غنڈا گردی کرتے رہا کریں آپ تو بس اسکو مار دیتا قتل کردو تمہیں مار دوگا بس یہی آتا ہے ۔۔وہ غصہ سے بولی تھی۔
یار اچھا نہ سوری یار اب بتاؤ کیسے مناؤ تمہیں یہ بتاؤ مجھے میں کیا کروں ۔۔زبیر اسکا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا۔
بس رہنے دیں آپ کچھ مت کریں ۔ماہین خفا خفا سی پھولا ہوا منہ بنانے لگی۔
چلو آج ڈھیر ساری شاپنگ کراتا ہوں میں پھر موڈ ٹھیک ہوجائے گا ۔
نہیں میں نے نہیں کرنی شاپنگ واپنگ۔
اب چلو یا پھر اپنا طریقہ اپنانا پڑے گا تمہیں منانے کے لیے۔وہ اسکے ہونٹوں پر نظر کرتا ہوا بولا۔
ہٹیں یہاں سے بےہودہ انسان۔وہ اسکو دھکا دیتی ہوئی بولی۔
ہاہاہاہاہاہا۔
بس سک یہی کمزوری ہے تمہاری میرے پاس۔وہ ہنستا ہو ابولا۔
ہاں جائے یہاں سے تنگ کرتے رہتے ہے مجھے بس۔وہ بس رونے کو تھی۔
اچھا اچھا نہ رونا نہیں چلو نہ شاپنگ کرنے تم تیار ہو میں گاڑی نکالتا ہوں۔وہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکلا تھا۔
ماہین اٹھ کر منہ ہاتھ دھونے کے بعد ڈریسنگ کے سامنے بال بنانے کے بعد ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانے لگی تھی۔
باہر آجاؤ کب سے ویٹ کر رہا ہوں ۔۔ اسے فون ملا کر بولا تھا۔
جی آرہی ہوں ۔وہ فون بند کر کہ نیچے آئی تھی۔
ماہین باہر آئی تو زبیر باہر گاڑی میں بیٹھا اسکا ویٹ کر رہا تھا ماہین فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی اور زبیر نے گاڑی چلائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہین کہاں ہو یار کب سے فون ملارہی ہوں ۔۔نوشین فون کان سے لگائے خود سے بولی تھی کیونکہ ماہین۔اسکا فون نہیں اٹھا رہی تھی اور اسے آج کے یونی کے پروجیکٹ میں اسکی ہیلپ چاہیے تھی۔
کیا کروں یہ فون کیوں نہیں اٹھارہی۔وہ فون کاٹ کے بولی ۔
کل آخری دن ہے اگر نہیں سبمیٹ کرایا تو نمبر کٹ جائے گے گھر جاؤ اسکے کیا۔وہ سوچنے لگی تھی۔
نہیں نہیں روز روز گھر جانا اچھی بات نہیں ۔وہ خود سے سوا کرکہ خود ہی جواب دے رہی تھی۔
پر کام۔بھی تو ضروری ہے۔۔ایسا کرتی ہوں چلی جاتی ہوں۔
وہ سوچتے ہوئے بولی تھی اور فریش ہونے کے لیے گئی تھی۔
فریش ہونے کے بعد وہ تیار ہونے لگی تھی اسنے اسنے گرین ٹاب اور بلو جینز پہنی تھی اور بالو کی اونچی پونی بنائی تھی ہلکا سا میک اپ کر کے وہ باہر نکلی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر ماہین کو بڑے سے شاپنگ مال میں لایا تھا اور طرح طرح کے ڈریسز دکھا رہا تھا وہ آلریڈی کافی ڈریسز خرید چکی تھی ۔
ماہین وہ بلو ڈریس دیکھو۔وہ ڈمی کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا تھا جہاں ایک خوبصورت سا ڈریس تھا جو کہ فراخ تھا اسکے گلے آستین اور پیچے کے گلے پر نیٹ تھی گلہ کافی گہرا تھا پر نیٹ سے چھپا ہوا تھا زپ اور فل سیلیوس تھیں۔
اتنے سارے تو لے لیے اور کیا کروں لے کے ۔
ارے کیا کروں کیا پہننا اور مجھے دکھانا ۔وہ مسکراتہ ہوا بولا۔
ارے بس کریں ۔
لے لو مجھے پسند ہے یار ۔
اچھا لے لیتی ہوں ۔۔
زبیر نے ڈریس پیک کروائی تھی۔
اور اپنی وہ پرسنل چیزیں بھی لے لو نہ۔وہ کان بولاتھا۔
جس پر ماہین نے اسے گھور کے دیکھا تھا۔
ارے کیا ہے ہسبینڈ سے کیسی شرم لے لو کبھی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔
مجھے نہیں لینا وہ منہ بناتی ہوئی بولے تھی ۔
میں کہا نہ لینا ہے تو لینا ہے روکو ابھی۔
ایکسکیوز می ۔وہ سیلس گرل کو آواز دینے لگا۔
یس سر ایکچلی میری وائف کو پرائویٹ۔۔۔۔۔۔۔۔ماہین نے فوراً اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے مزید بولنے سے روکا تھا۔سیلس گرل حیران پریشان باری باری دونوں کو دیکھرہی تھی۔
آپ جائیں میں خود لی لو گی ۔وہ اسکے کان میں آہستہ سے بولی تھی۔
زبیر مسکراتا ہوا باہر نکلا گیا ۔
جی وہ لیڈس کا پرائیویٹ سامان دکھا دیں ۔۔وہ سیلس گرل سے شرمندہ ہوتے ہوئے بولی تھی۔
شور میڈم۔سیلس گرل مسکراتے ہوئے آگے بڑھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک گھنٹے میں نوشین ماہین۔کے گھر پہنچی تھی وہ اسے پھر سے فون ملا رہی تھی پر وہ اب بھی نہیں اٹھا رہی تھی آخر تنگ آکر وہ گھر کے اندر گئی تھی۔
ماہین!!!!!ماہین!!!!!!وہ ماہین کو آوازیں دینے لگی۔
جی میڈم۔کہیے۔۔محمد دین نوشین کی آواز سن کر آتا ہوا بولا۔
ماہین کو بلا دیں پلیز ۔
وہ تو نہیں ہے۔
کہاں گئی ہے۔
وہ تو مجھے نہیں پتہ ایک منٹ ذین سر سے پوچھ کے بتاتا ہوں آپ بیٹھے۔
اوکے۔
وہ نوشین کو بٹھاتے ہوئے ذین کے روم کی طرف گیا تھا۔
ٹک۔ٹک ٹک۔
کون ہے۔
سر محمد دین۔
ہاں محمد دین آجاؤ۔
سر وہ ماہین میڈم کی سہیلی آئی ہے انکا پوچھ رہی ہے۔
کون۔نوشین ۔اسکے چہرے پر جیسے چمک آئی تھی۔
جی سر ۔
میں آتا ہوں ۔
ذین باہر آیا تھا جہاں نوشین۔بیٹھی تھی ۔
اسلام علیکم۔ وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا ۔
وعلیکم اسلام۔اسنے۔نظریں نیچے کرلی تھی۔
جی کیسی ہیں آپ ۔
میں ٹھیک مجھے ماہین سے کچھ کام۔تھا کب تک آئے گی وہ۔۔وہ مختصر سی بات کرتی ہوئی بولی۔
جی وہ تو کسی کام۔سے باہر گئی ہے ایک گھنٹے تک آجائیں گے شاید۔۔
ایک گھنٹا میں کیا کروں گی ۔وہ خائف ہوئی تھی۔
کوئی بات نہیں آپ ہم باتیں کرلیں جب تک ہم بھی تو آپکے دوست ہیں ۔وہ مسکراتہ ہوا بولا اور نوشین کو حیران کر گیا تھا۔
آپکو یہ کس نے کہا آپ میرے دوست ہیں ؟وہ اسے حیرت سے دیکھتی ہوئی بولی ۔
جی تو کیا نہیں ہو سکتے ۔۔
نہیں بلکل بھی نہیں ۔
او تو آپ۔ابھی تک خفا ہیں ہم سے ۔
جی ہم۔میں۔کوئی ایسا رشتہ نہیں کہ میں آپ سے خفا ہوں ۔
کوئی بات نہیں بن جائے گا۔وہ مسکراتہ ہوا بول کر نوشین کو آگ لگا گیا تھا۔
یو ڈونٹ کروس یور لیمٹس اوکے۔وہ وارنگ دیتے ہوئے انگلی اٹھا کے بولی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں ۔ماہین شاپ سے باہر آکر بولی تھی جہاں زبیر اسکا انتظار کر رہا تھا۔
لے سب ؟
جی۔
سب کچھ۔۔وہ معنی خیزی انداز میں اپنی مسکراہٹ چھپاتا ہوا بولا تھا جس پر ماہین نے اسے گھور کے دیکھا تھا۔
چلو۔وہ مسکراتہ ہوا ماہین سے بولا۔
دونوں گاڑی میں بیٹھ کے احمد پلیس کی طرف نکل چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے غصہ کیوں ہورہی ہیں آپ۔۔وہ اپنی مسکراہٹ چھپاتا ہوا بولا ۔
جس پر نوشین منہ بنا گئی تھی۔
محمد دین۔کافی لاؤ دو۔۔وہ محمد دین کو آواز دینے لگا ۔
جی نہیں اب میں چلوں گی۔وہ کھڑی ہوئی ۔
ارے کافی پی لیں ورنہ ماہین برا مانے گی کے انکی دوست کو ایسے ہی جانے دیا تھا۔
جی نہیں میں جارہی ہوں ۔
ایسے تو ہم آپ کو نہیں جانے دیں گے۔
کیوں زبردستی ہے کیا ؟وہ تو لگتا ہے آپ لوگو کی خاندانی عادت ہے دونوں دوستوں کی۔
اگر میں کہوں ہاں ہے زبردستی تو۔۔
میں جارہی ہوں او کے بائے ۔وہ باہر کی طرف جارہی تھی زبیر نے اک آہ بھری تھی اسے دیکھ کر۔
نوشین تم کب آئیں ؟ماہین جو زبیر کے ساتھ اندر آرہی تھی نوشین کو دیکھتی ہوئی بولی تھی۔
بس تھوڑی دیر پہلے آئی تھی یار کچھ کام تھا تم سے تمہارا نمبر کافی بار ڈائل۔کیا پر تم نے اٹھایا نہیں۔اسلیے یہاں آنا پڑا۔
سوری میں۔موبائل گھر چھوڑ گئی تھی۔اب کیا ساری باتیں یہیں کھڑے کھڑے کرنی ہیں۔۔زبیر دونوں کو دیکھتا ہوا بولا ۔
چلو آؤ اندر۔
ہممم۔چلو۔
ماہین تمہاری۔دوست کو ہم نے روکنے کی کوشش کی پر وہ تو ہمیں۔کھری کھری سنا کے۔ہماری کوفی کی آفر ٹھکرا کر چلی گئ۔ذین بیچارگی سے بولا تھا جس پر ماہین اور زبیر کو ہنسی آئی تھی اور نوشین نے اسے گھور کردیکھا تھا۔
آپ لوگوں کی پھر سے لڑائی ہوئی کیا؟
ارے میں نہیں یہ آپکی دوست ہی ہر وقت چڑیل۔بنی رہتی ہے۔۔وہ اسے۔مزید تنگ کرنے لگا ۔
تم نے مجھے چڑیل کہا یو۔۔۔میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں نوشین آگے اسکی طرف بڑھی تو بہت مشکل سے ماہین نے اسے کنٹرول کیا تھا۔
نوشین وہ مزاق کر رہے ہیں چھوڑ نہ چل روم میں۔۔
نوشین اسے گھورتی ہوئی ماہین کے ساتھ جانے لگی تھی جو اس وقت اپنے دانتوں کی نمائش کروا رہا تھا۔
ماہین اور نوشین روم میں آئی تھی اور اپنے یونی کے کام۔میں۔مصروف ہو چکی تھی۔۔
ماہین میں کام سے جارہا ہوں کل تک واپس آؤگا ۔۔وہ ماہین کو بلا کر بتانے لگا
کہاں جارہے ہیں ۔اور کل کیوں آئیں گے۔
کیوں رہ نہیں پاؤ گی میرے بغیر کیا ؟وہ شرارت سے بولا تھا۔
نہیں ایسا کچھ نہیں۔میں تو بس یوہی پوچھ رہی تھی۔وہ ادھر اودھر منہ کرتی ہوئی بولی۔
دوسرے شہر جارہا ہوں۔میری جان کام سے اسلیے کل تک آؤ گا ۔اپنا خیال رکھنا ۔وہ اسکے گال تھپتھپاتہ ہوا بولا نیچے ذین کے پاس آیا تھا۔
یہ رہی تیری کراچی کی ٹکٹ۔ذین اسکو ٹکٹ دیتا ہوا بولا ۔
تھینکس یار ۔
پر تو کراچی جا کیوں رہا ہے۔۔
سب ٹھیک کرنے۔وہ کہتا ہوا نکل گیا اور ذین اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔۔