کیا ہوا ہے اسکو وہ ٹھیک ہے۔
برین ہیمرج ہوا ہے اسے۔زبیر شرمندگی سے بتا رہا تھا۔
کیا!!!!کیسے ہوا یہ ۔ذین بھی پریشان ہو گیا تھا۔۔
یار میری وجہ سے ہوا سب میں نے اسکو مینٹلی اتنا ٹارچر کیا کے اسکی یہ حالت ہو گئی ۔۔وہ انتہائی افسوس سے بتارہا تھا۔
کونسے ہاسپٹل میں ہو تم لوگ میں آتا ہوں ابھی۔
نیازی میں ہوں ۔
اچھا میں آرہا ہوں ۔
ہمم اوکے۔
ایک دیڑھ گھنٹا گزر چکا تھا زبیر پریشان سساہاسپٹل کے روم کے باہر چکر مار ہر تھا۔
زبیر !!!!!ذین آچکا تھااور زبیر تک آیا تھا۔
کیا ہوا ماہین کو ٹھیک ہے وہ۔
ہمم خطرے سے باہر ہے پر ابھی ہوش نہیں آیا ہے۔
چل ٹینشن نہ لے سب ٹھیک ہو جائے گا ۔وہ
اسکی پیٹ تھیتھپاتا ہوا بولا تھا۔
ایکسکیوز می سر۔نرس زبیر کو متوجہ کرتے ہوئے بولی تھی۔
جی۔
آپکی وائف کو ہوش آ گیا ہے۔
اوکے نرس تھینک یو۔
جا مل لے جا کر۔۔ذین زبیر کو بولتے ہوئے چیر پر بیٹھا تھا۔
زبیر کی ہمت نہیں ہورہی تھی اندر جانے کی وہ ماہین کا سامنہ نہیں کر پارہا تھا۔
بہت ہمت کر کے وہ اندر گیا تھا۔
ماہین ابھی بھی لیٹی ہوئی تھی آنکھیں نم ہورہی تھی شاید سب یاد آنے کی وجہ سے زبیر کو دیکھ کے منہ دوسری طرف کر گئی ۔
طبیعت کیسی ہے اب۔وہ ماہین کو دیکھتے پوچھنے لگا۔
اسکی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تھا پر آنسوؤں میں اضافہ ہو گیا تھا۔
رو مت ورنہ طبیعت اور خراب ہوجائے گی۔وہ اسکے آنسو دیکھ کر کہنے لگا۔
آپکو کیا فرق پڑتا ہے میں مروں یا جیوں!!!!!!۔۔اسکا ضبط ٹوٹا تو وہ چیخی تھی۔
یہ ہاسپٹل ہے گھر جا کے لڑ لینا۔۔ زبیر ماہین کو کہتے ہوئے سامنے کھڑی نرس کو دیکھتا ہوا بولا جو ان دونوں کو دیکھ کے مسکرا رہی تھی۔
بھاڑ میں جائے ہاسپٹل ہو یا کچھ اور مجھے آپکی شکل بھی نہیں دیکھنی سمجھے نفرت کرتی ہوں تم سے ںے انتہاء نفرت
وہ روتی ہوئی بولی تھی۔
نرس انہیں لڑتا دیکھ کر باہر نکل گئی تھی۔
شکل تو دیکھنی ہوگی وہ بھی دن رات ساری زندگی۔
وہ شوخ ہوا اور ماہین کو آنگ لگا گیا تھا۔بھول
ہے تمہاری زبیر احمد میں بہت جلد تم سے طلاق لوں گی۔وہ آنسوؤں سے بھیگا چہرہ صاف کرتے کہنے لگی۔
طلاق لفظ سن کے زبیر پھر غصے صے بھرنے لگا تھا پر اسکی حالت دیکھ وہ اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
طلاق نام کا لفظ تمہاری ذبان سے اب نہ سنو میں سمجھی۔وہ ضبط کرتا کہنے لگا۔
اپنا یہ روب اپنے پاس رکھو سمجھے ۔وہ اسکے آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی تھی۔
زبیر کچھ بالنے ہی لگا تھا کے زین ناک کرتا اندر آیا تھا۔
کیسی ہو ماہین؟وہ اسکا بھیگا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا۔
میں ٹھیک ہوں ذین بھائی ۔وہ بھائی ںولتے وقت ہوئے زبیر کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔۔جو بھائی سن کے شرمندہ ہوا تھا۔
گیٹ ویل سون لٹل سسٹر۔
وہ مسکراتے ہوا بولا تھا۔
میں ڈاکٹر سے پوچھ کر آتا ہوں کے ڈسٹارج کب تک ہوگا۔ذین یہ کہتا روم سے باہر نکل گیا تھا۔
ماہین پھر سے چہرہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گئ تھی۔
صبح تک ماہین گھر جا سکتی ہے ۔ذین زبیر سے کہنے لگا۔
ٹھیک ہے اک کام کرو تم گھر چلے جاؤ میں صبح تک آتا ہوں ۔زبیر ذین کو کہنے لگا۔
نہیں یار تو اکیلا رہے گا کیا۔۔
ارے اک رات کی تو بات ہے میں مینج کر لوں گا تم جاؤ۔
آر یو شور؟
یس۔
اوکے خیال رکھنا اپنا بھی اور ماہین کا بھی۔
ذین وہاں سے نکل گیا تھا۔
زبیر پھر سے ماہین کے پاس آیا تھا جو اسے دیکھتے ہی منہ موڑ جاتے تھی زبیر اسکی آنکھوں میں نفرت دیکھ دیکھ کر تھک چکا تھا ۔
میں کچھ کھانے کے لیے منگواتا ہوں نرس سے۔وہ نرس کو آواز دینے لگا۔
مجھے نہیں کھانا کچھ اپنی مہربانیاں اپنے پاس رکھیں سمجھے۔وہ اسے فکر دکھاتا دیکھ کے تپ گئی تھی جو اسکو اتنے زخم دے کر اب اپنی فکر دکھا کر سمجھ رہا تھا کے وہ بھول جائے گی۔
شش زیادہ مت بولو۔میں سوپ لارہا ہوں چپ چاپ پی لینا سمجھی ۔
نہیں پیو گی میں ۔وہ اسکی ہر بات پر زبردستی کرنے کی عادت سے نہایت نفرت کرتی تھی۔
میں دیکھتا ہوں کیسے نہیں پیتی۔
ہر بات میں زبردستی کرنا عادت ہے آپکی زبردستی میں ہی پی اچ ڈی کری ہوئی ہے۔۔وہ طنزیہ انداز میں بولی تھی۔
گھر جا کر جتنے چاہے تانے مارنے ہے مار لینا یہاں تھوڑی تو عزت چھوڑ دو میری نرسز دیکھ رہی ہیں ۔
تو دیکھنے دے انکو بھی پتہ چلے کے کیسے کم ظرف انسان ہیں آپ۔۔وہ اپنی تمام بھڑاس نکال رہی تھی۔
چپ چاپ بیٹھوں ۔وہ کہتا اٹھا تھا۔
جب وہ واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں سوپ کا پیالا تھا۔
یہ لو گرم سوپ ہے پی لو۔
مجھے نہیں پینا۔وہ منہ دوسری طرف کر گئی ۔
میں پلا رہا ہوں منہ کھولو۔
وہ چمچہ اسکے چہرے کے پاس کرتا ہوا بولا۔
میں نے کہا نا مجھے نہیں پینا۔وہ ضد پر آ گئی تھی۔
ماہین مجھے بحث پسند نہیں ۔۔
تو مت کرے نہ۔۔وہ پٹاخ سے بولی تھی۔
صبح گھر واپس جانا ہے ۔۔وہ معنی خیزی انداز میں بولا تھا۔
ت ت تو۔
تو وہ ادھورا کام ۔وہ فل دھمکی پر اتر آیا تھا۔
میں ڈرتی ورتی تھوڑی ہوں آپ سے۔وہ سہمے ہوئے کہنے لگی۔
او کے پھر مت مانو میری بات پھر مجھ سے شکایت مت کرنا۔
مجھے آپ کے ہاتھ سے نہیں پینا میں خود پی لوں گی۔وہ اسکے ہاتھ سے سوپ لے کر پینے لگی۔
زبیر اسکے دیکھ کر مسکرایا تھا۔
اب سو جاؤ تین چار گھنٹوں کے لیے صبح گھر جانا ہے۔زبیر نے ماہین کو کہا تھا جو سونے کے بجائے ٹکر ٹکر ادھر اودھر دیکھ رہی تھی۔
ماہین اسے گھوری سے نوازا تھا۔
ہر چیز میں ہی پیچھا پڑا رہتا ہے یہ کر لو وہ کر میری اپنی تو کوئی زندگی رہی ہی نہیں ہے چپکو نہیں تو۔ماہین منہ ہی منہ میں اسے گالیاں دے رہی تھی۔
کچھ کہا تم نہیں؟وہ کان کھڑے کرتا ہوا پوچھنے لگا تھا۔۔
نہیں۔۔وہ منہ بناتی ہوئی بولی تھی۔
پتہ نہیں کب جان چھٹے گی اس سے۔۔وہ پھر بڑبڑائی تھی۔۔
اب تو چھوٹنا نہ ممکن ہے۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا اور اسے آنگ لگا گیا تھا۔
وہ فوراً آنکھیں بند کر گئی تھی۔
زبیر اسکی بند آنکھوں کو دیکھ رہا تھا اسکی پلکوں کی جھلمن اسکی آنکھوں کو ڈھکی ہوئی تھی۔
ماہین نے ایک آنکھ کھول کے اسے دیکھا تھا۔۔
اب پتہ نہیں کیوں دیکھے جارہا ہے۔۔وہ پھر بڑبڑائی تھی جس پر زبیر کا قہقہہ گونجا تھا۔
زبیر نے ساری رات بیٹھ کر گزاری تھی وہ کافی تھک چکا تھا صبح ماہین کو ڈسٹارج کر دیا گیاکر تھا۔
محمد دین!!!!
جی سر ناشتہ بنا دو بہت بھوک لگی ہے۔۔زبیر گھر آکر محمد دین سے بولا تھا۔۔
جی سر ناشتہ بن گیا ہے بس لگاتا ہوں اور میڈم کے لیےبھی لگاؤکیا۔
نہیں اسے تھوڑی دیر بعد ہلکا پھلکا کچھ دے دینا ابھی وہ سورہی ہے۔
ٹھیک ہے سر۔۔
اور میں نے تمہیں کہا تھا کہ لیڈی سرونٹ کا انتظام کرنے کو۔
جی ہاتھ سر میری بڑی بہن آئے گی شام میں وہ کہہ رہی تھی یہاں کام کرنے کا۔
ٹھیک ہے شام تک لے آنا۔
۔۔۰۰۰۰۰۰۰۔
زبیر ملک صاحب نے میٹنگ ارینج کی ہے شام تک تمہارا جانا ضروری ہے ۔۔
تم ہینڈل کر لینا ۔۔وہ سیگریٹ کے کش لیتا ہوا ںولا
یار صرف دو تین گھنٹوں کی بات ہے۔۔ذین التجائی انداز میں بولا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے چل لوں گا۔۔
اور صدیقی نے پیمنٹ کی۔۔
نہیں یار وہ بہت گھپلا کر رہا ہے دو ہفتے ہو گئے ہے ابھی تک پیمنٹ نہیں کی اس نے۔۔
اسے اندازہ ہے کے وہ کس سے پنگا لے رہا ہے اس سے تو میں اپنے طریقہ سے بات کرتا ہوں اب۔
ہمم ٹھیک ہے۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
زبیر ذین سے بات کر کے کمرے میں آیا تھا تو ماہین میڈم ابھی تک سوئی ہوئی تھیں اسنے گھڑی کی طرف نظر ماری تو بارہ بج رہے تھے ۔
اف یہ ابھی تک سو رہی ہے۔وہ کمر پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
ماہین اٹھوں ناشتہ کرو پھر میڈسن بھی لینی ہے۔وہ اسکے منہ پر سے کمفرٹر ہٹاتا ہوا کہنے لگا۔
اسکی نیند میں اب بھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔
ماہین اٹھو جلدی۔ وہ اسکا گال تھپتھپانے لگا ۔
ہٹو نہ سونے دو کیا ملکن موت کی طرح ہر وقت مجھ پر نازل رہتے ہو۔۔اسکی نیند خراب ہوئی تو وہ سلگ کر اسکو کہتی پھر سے کمفرٹر میں گھس گئی تھی۔
او کے مت اٹھو میں اب اپنے طریقے سے اٹھاؤ گا۔۔وہ پھر دھمکیوں پر اتر آیا تھا۔۔
جاؤ یہاں سے بھوت کہیں کے۔۔
وہ اندر سے بڑبڑائی تھی۔
کیا کہا بھوت اب میں تمہیں دکھاتا ہوں میں بھوت ہوں یا کچھ اور۔
اسنے جھٹکے سے اسکا کمفرٹر ہٹایا تھا۔۔ اور اسکے گود میں لے چکا تھا۔
وہ جو ابھی سیچوشن سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی اس اچانک حملے پر آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔
چھوڑو مجھے !!!!!!نیچے اتارو!!!!وہ بچو کی طرح ہاتھ پیر مارتے ہوئی بولی تھی۔
نہیں اتاروں گا۔۔وہ اسے لے کر بیڈ سے نیچے اترا تھا۔
کہاں لے جارہے ہو مجھے ۔۔
جہنم۔۔وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔
نہیں وہ تو تم جیسے لوگوں کے لیے ہے۔وہ بھی پٹاخ سے بولی تھی۔
جہاں بھی جاؤں گا تمہیں ساتھ لے کر جاؤں گا میری جان۔۔وہ بھی کہاں باز آنے والا تھا۔۔
چھوڑو مجھے غنڈہ کہیں کے۔
ابھی تو کوئی غنڈہ گردی نہیں دکھائی۔۔
اور کیا دکھاؤ گے ہر وقت تو دکھاتے ہو۔
رہنے دو اگر میں نے اپنے طریقے سے غنڈہ گردی دکھائی تو تم رونے لگو گی۔
وہ معنی خیزی انداز میں بولا تھا۔
چپ کرو بے ہودہ انسان۔۔وہ اسکے بات سے جل بھن کر بولے۔
وہ اسے واش روم کے پاس لا کر کھڑا کر چکا تھا۔
جاؤ فریش ہوکر آؤ۔۔وہ اسے اتارتا ہوا بولا۔۔
وہ اسے گھورتی ہوئی اندر چلی گئی ۔۔
جب وہ باہر آئی تو وہ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔
وہ اسے گھورتی ہوئی ڈریسنگ کے سامنے بال بنانے لگی ۔
زبیر اسکے بالوں کو دیکھ رہا تھا جو انتہائی خوبصورت تھے کمر سے نیچے تک آرہے تھے۔
ماہین نے اسے پلٹ کر گھوری سے نوازہ تھااسکی اس حرکت پر وہ مسکرایہ تھا۔
ٹک ٹک ٹک!!!!سر
مے آئی کم ان۔محمد دین دروازہ بجاتے ہوئے بولا تھا۔
یس کم ان۔
سر ناشتہ میڈم کے لیے۔۔
رکھ دو۔۔
ماہین ناشتہ کر کے موبائل لے کر بیٹھی تھی کے زبیر اسکے سنے آکر کھڑا ہو گیا تھا۔
اب کیا ہے۔وہ چڑ کے کہنے لگی ۔
دوائی کھاؤ۔۔
کھالوں گی۔
ابھی کھاؤ۔
بولا نہ کھا لوں گی۔
ابھی مطلب ابھی۔۔
ہٹلر نہیں تو۔۔وہ اسے گھورتی ہوئی دوائی کھانے لگی۔۔
ماہین موبائل سے نوشین کا نمبر ڈائل کر رہی تھی۔
ہیلو کون؟نوشین ان نو نمبر دیکھ کے پوچھنے لگی۔
ہیلو نوشین میں ماہین۔۔
ماہین !!!!!!کیسی ہے یار کہاں ہو کب سے کوئی رابطہ نہیں ۔
یہی ہوں یار۔۔اسکی آواز سے اداسی جھلکی تھی۔
یہیں کہاں تمہارا مطلب لاہور میں ۔
ہاں ۔۔
تو مجھ سےملیں کیوں نہیں ۔
کیا بتاؤ یا۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
بولتے بولتے اسکی نظر سامنے گئی تو زبیر انکی باتیں غور سے سن رہا تھا وہ اسے گھورنے لگی تھی۔
میں پانچ منٹ بعد دوبارہ کرتی ہوں فون۔یہ کہتے ہوئے اس نے فون کاٹا تھا اب وہ زبیر کو گھور رہی تھی۔
کیا ہے کبھی ہینڈسم بندہ نہیں دیکھا کیا۔۔وہ اسے چڑاتے ہوئے بولا تھا۔
زیادہ فالتو کی خوش فہمیاں مت پالیں سمجھے اور یہاں سے نو دو گیارہ ہو جائیں مجھے میری دوست سے بات کرنی ہے۔
ایسی کیا بات کرنی ہے جو میرے سامنے نہیں ہو سکتی ضرور میری برائیاں ہی کرنی ہونگی۔
آپ میری برائیوں کے بھی قابل نہیں ہیں ۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی تھی۔
اچھا اتنا برا ہوں میں دعا کرو جلدی جان چھٹ جائے تمہارے مجھ سے۔۔زبیر کے دل میں چبھ سی گئی تھی ماہین کی بات اور وہ یہ کہتا ہوا باہر چلا گیا تھا۔
ماہین نے فوراً دروازہ بند کیا تھا اور واپس نوشین کا نمبر ڈائل کیا تھا۔
ہاں اب پوری بات بتاؤ مجھے۔ناشین ماہین سے کہنے لگی۔
ماہین نوشین کو ہر بات بتارہی تھی اور ساتھ ساتھ اسکے آنسو بھی نکل رہے تھے۔
یار یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔نوشن اداس ہوتی ہوئی بولے ۔
تیری وجہ سے کیسے؟
یار جب تم اسکا فون نہیں اٹھا رہی تھی تو وہ یونیورسٹی آیا تھا اسنے مجھے بہت ڈرایا دھمکایا اسی لیے میں نے اسے سب بتا دیا تھا۔
وہ روتے ہوئی بولی تھی۔
رو مت مجھے پتہ ہے اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے وہ انسان ہے ہی ایسا ہر کام میں غنڈہ گردی کرنا عادت ہے اسکے میری زندگی برباد کی ہے اسنے معاف نہیں کرونگی میں بھی۔
ماہین آنسو صاف کرتی ہوئی بولی تھی۔
اچھا رونا بند کر اب۔۔ماہین نوشین سے بالے تھی۔۔
یونی کب سے آؤ گی تم؟
یار ایک دو دن میں طبیعت ٹھیک ہوجائے پھر۔۔
کیا ہواطبیعت کو؟وہ فکر مندی سے پوچھنے لگی تھی۔
برین ہیمرج ہوا تھا۔ماہین افسردہ سی ہوکر بتانے لگی۔
وٹ!!!!کیسے
بس یار اس انسان کی وجہ سے ۔
اچھا تم اپنا ایڈریس دو مجھے میں ملنے آؤ گی تم سے۔
دیتی ہوں۔
کیا بات ہے بہت چپ چپ لگرہے ہو۔۔ذین زبیر کو دیکھتا ہوا بولا جو سیگریٹ کے کش لے رہا تھا۔۔۔
کچھ نہیں
اسنے پھر سے سیگریٹ منہ سے لگائی تھی۔
اچھا نہ اب تو تو شادی شدہ ہو گیا ہے نہ پرائوسی ہو گی نہ وہ مصنوعی شکوہ کرتا ہوا بولا تھا۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے یار بس ماہین کے بیہویر کو لے کے تھوڑا پریشان ہوں اسکا غصہ کیسے کم ہوگا۔
وقت کے ساتھ خود دیکھ ہوجائے گی وہ نکاح کے بول میں بہت طاقت ہوتی ہے پیار پیدا ہو ہی جاتا ہے فکر مت کر سب ٹھیک ہوجائے گا۔
ہوپ سو۔وہ سانس خارج کرتا ہوا بولا۔
وہ شیخ نے جو مال لیا تھا جسکی پیمنٹ اگلے مہینے دینے کا کہا تھا وہ کردی انھوں نے؟
نہیں وہ شیخ بہت ڈرامے باز ہے جب بھی پیمنٹ کے لیے بندے کو بھیجو ٹیلا دیتا ہے اسکو تو ٹھیک کرنا پڑے گا۔
تومجھے اب تک بتایا کیو نہیں اسکو تو ٹھیک کرتے ہیں بہت جلد۔زبیر غصے سے بولا تھا۔
ہاں مال لے کے غائب ہے جب بھی بندہ جائے وہ ملتا ہی نہیں۔
اب میں خود اسکو اسکے بل سے باہر نکالوں گا۔
سہی۔
۔
زبیر اٹھ کر کمرے کی جانب بڑھا تھا۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ماہین کمرے میں تیار ہورہی تھی کے زبیر کمرے میں داخل ہوا تھا ماہین شیشے میں سے زبیر کو دیکھا تھا۔
زبیر نے ماہین کو شیشے کے سامنے کھڑے دیکھا تھا جو کافی تیار لگ رہی تھی پرپل جارجٹ کا سوٹ جسپر سی گرین کڑھائی تھی اور نیٹ کا دوپٹا تھا جو اسنے اپنے کندھے پر سائڈ پر ڈالا ہوا تھا اور لمبے بالوں میں برش کر رہی تھی۔
اسنے بالوں کو اگے کیا تھا اور برش کرتے ہوئے وہ زبیر کو گھور رہی تھی جو ملسل اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔
زبیر اسکی پشت کو دیکھتے ہوئے اسکی طرف بڑھنے لگا تھا اور اسکے پیچھے آکھڑا ہوا زبیر کے ہاتھ اسکی کمر کی طرف بڑھ رہے تھے۔
اسکے ہاتھ اپنی کمر کی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ جھٹکے سے پلٹی تھی اور اسے غصے سے کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگی تھی۔
ایسی ویسی کوئی حرکت مت کرنا میرے ساتھ سمجھے۔۔وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تھی۔
ایسی ویسی حرکت کرنے کا تو اب حق رکھتا ہوں نہ میں۔وہ اسکے مزید قریب ہوتا ہوا بولا تھا۔
زبیر پلیز!!!!وہ اسکے ارادے بھانپتی ہوئی بولی تھی۔
تمہارے طیور دیکھ کے تو لگتا ہے میں شادی کے بعد بھی تا عمر کنوارہ ہی رہوںگا۔۔وہ اپنے اپر افسوس کرتا ہوا بولا تھا ہاتھ پھر اسی کمر پر پہنچ چکے تھے۔
اسکے ہاتھ اپنی کمر پر محسوس کر کے وہ لرز سی گئی تھی وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اور ہاتھ نیچے سے اپر لے جارہا تھا۔
اسنے اسے کمر سے کھینچ کر اپنے قریب کیا تھا اور اسکے سلکی بال جواسکی کمر پر بکھرے ہوئے تھے انھیں آگے کیا تھا وہ اسکے ہاتھ ہٹانے کی کوشش میں مچل رہی تھی جب وہ اسے کمر سے قابوں کرتا ہوا دھیرے سے اسکی کھلی زپ بند کر گیا تھا۔
اسکی دھڑکن وہ با اسانی سن سکتا تھا اسکا دل زور سے دھڑک رہا تھا ۔
اتنا ڈرتی کیوں ہوں مجھ سے؟وہ اسکی کان کی لوہ کو ہونٹوں سے چھوتا ہوا بولا۔
اسکی گرم سانسے اپنی کان پر محسوس کر کے وہ کپکپانے لگی تھی۔
می میں ویں نہیں ڈرتی آپ سے۔ وہ اپنی دھڑکنوں کو قابوں کرتی ہوئی بولی تھی۔
سچ میں۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شرارتی انداز میں بولا تھا۔
زبیر مت تنگ کیں مجھے پلیز۔وہ بس رونے کو تھی۔
ارے ابھی تو کچھ کیا بھی نہیں میں نے اور ابھی سے تنگ آگئی جب کروں گا تو کیسے برداشت کروگی۔وہ معنی خیزی انداز میں بولا تھا اور اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی جو ماہین کو زہر لگی تھی۔
بس اسکے علاوہ اور کوئی خیال نہیں آتے ایک ہی چیز چلتی ہے آپکے دماغ میں ہر وقت۔وہ غصے سے بولی تھی۔
تم اسطرح قیامت ڈھاتے ہوئے میرے سامنے رہوں گی تو میں اور کیا سوچ سکتا ہوں میری جان۔وہ اسے مزید تنگ کرتے ہوئے بولا تھا۔
وہ اسے گھورنے لگی تھی۔
اچھا نہ یہ بتاؤ کے اتنا تیار کیوں ہوئی ہوں میرے لیے۔وہ مسکرتہ ہوا بولا تھا۔
زیادہ خوش فہمیاں پالنے کی ضرورت نہیں ہے میری دوست آرہی ہے الیے تیار ہوئی ہوں اور بس کپڑے چینج کرکہ بال بنا کے لپ لوز ہی تو لگایا ہے کونسا ڈھیروں میک اپ کرلیا جو ایسے بول رہے ہوں۔وہ چڑتی ہوئی بولی تھی۔
اسمیں بھی تو قیامت ڈھارہی ہو نہ میری جان۔
چلیں جائیں ورنہ آپکا قتل ہوجائے گا میرے ہاتھوں سے ۔۔ وہ دانت پیستی ہوئی بولی تھی۔
اچھا نہ چلے جاؤں گا پر پہلے وہ تو دے دو۔
کیا۔
وہی۔
کیا چاہے بولیں نہ۔
ارے میری من پسند چیز ۔۔وہ اسکے ہونٹوں پر جھکتا ہوا بولا تھا۔
دور رہیں مجھ سے چھچھورے انسان ۔وہ اسے دھکا دیتی ہوئی بولی تھی۔
کرلو ظلم جتنا کرنا ہے آج تمہارا دن ہے جب میرا آئے گا نہ بخشوں گا نہیں پھر چاہے روتی ہی رہو۔وہ اسے مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔
ماہین اسکی باتوں سے غصے اور شرم سے لال ہوئی تھی۔