قاضی نکاح پڑھا کے جا چکا تھا ماہین وہیں بیڈ پر بیٹھے پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور زبیر اندر آیا تھا۔
ماہین بیڈ یر بیٹھی آنسو بہاں رہی تھی جب وہ دروازہ کھول کے اندر آیا تھا ماہین نے نظر اٹھا کے اس ظالم شخص کو دیکھا تھا آج کتنا درد دیا تھا اس انسان نے اسے جسکے لیے شاید وہ اسے ساری زندگی معاف نہ کرتی شاید ساری زندگی اس سے نفرت کرتی پر شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور ہو۔
ماہین نے روتے ہوئے قرب سے اس کے طرف دیکھا تھا جو اسکی طرف بڑھ رہا تھا۔
ہو گئی تمہاری خواہش پوری مل گئی تمہیں تسلی میری زندگی برباد کر کے تمہیں مل گئی خوشی پر یاد رکھنا زبیر احمد میں کبھی اس شادی کو دل سے قبول نہیں کروگی نہیں مانتی میں اس نکاح کو پر تمہیں تو بس میرا وجود چاہیے تھا نہ اپنی خواہشات کے لئے نفس کے غلام ہوتم اس صورت پہ مرتے ہو نہ بس یہی اوقات ہے تمہاری زبیر احمد تم بس روپ کے دیوانےہو لالچی انسان میں تمہاری شکل سے نفرت کرتی ہوں زبیر احمد اور ساری زندگی کرو گی۔
ماہین چیخ چیخ کر بولی تی اسکے ہر انگ سے نفرت جھلک رہی تھی آنکھیں
ویسے ہی برس رہی تھیں۔
ماہین کی باتوں سے زبیر آنگ بگولا ہو گیا تھا اسکی آنکھیں غصےسے لال ہو گئی تھی وہ غصے سے اسکی طرف بڑھا تھا اور اسے اسے جھٹکے سے دیوار سے لگایا تھا اسنے اسکے دونوں ہاتھ اپنی گرفت میں لے کے دیوار سے لگائے تھےماہین اس چاننک ے حملے سے ڈر گئی تھی اور آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی جو اسکے اپنی لال ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
کیا کہا تم نے ' مجھے تم سے اپنی خواہشات کی پوری کرنی تھی مجھے تمہارا وجود حاصل کرنا تھا۔
اگر ایسا کرنا ہوتا تو مجھے کوئی روک نہیں سکتا تھا میں تب بھی یہ سب کر سکتا تھا جب تم میرے ساتھ تھی اور میرے رحم اور کرم پر تھی کوئی نہیں روک سکتا تھا اور آج بھی کوئی نہیں روک سکتا مجھے اگر چاہوں تو ابھی اسی وقت تمہارا غرور مٹی میں ملا سکتا ہوں پر نہیں ماہین خان اتنی نہ جلدی نہیں ابھی تو تم پہلے اپنے ما ں باپ کی شکل آخری باردیکھ لو پھر توساری زندگی تمہیں احمد پیلس میں رہںا ہے میرے سآتھ جہاں تم میری اجازت کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتی ۔
اسکی باتوں سے ماہین اندر تک کانپ گئ تہمھی اسکی آنکھوں سے شولے نکل رہے تھے جو ماہین کو جھلسانے کے لیے کافی تھے۔
چلوں میرے ساتھ تمہارے گھر۔
زبیر ماہین کے ہاتھ آزاد کرتا ہوا بولا تھا۔
اک ت بات کان کھول کے سن لو وہاں تم یہ بولوں گی کہ تم مجھ سے پیار کرتی تھیں اسلیے آخری وقت میں تمہیں یہ احساس ہوا کہ تم میرے بغیر نہیں رہ سکتی اسلئے تم نے مجھ سے نکاح کر لیا اور آگر تمہارے منہ سے کچھ اور نکلا تو آگے تو تم سمجھدار ہوں ۔
وہ کہہ کر باہر نکل گیا اور ماہین اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتی رہی آخر مو بے دردی سے آنسو صاف کر کے باہنکل گئی ۔
زین!!
ذین!! زبیر کمرے سے باہر نکل کے ذین کو آوازیں د ینے لگا۔
ہاں ۔ذین بولا تھا۔
رات کی ہی لاہور کی ٹکٹ کرواؤں۔
اوکے ۔ذین وہاں سے نکل کر چلا گیا تھا۔
ماہین روم سے نکل کر باہر آئی تھی اور زبیر باتوں سن کے وہی رک گئی تھی۔
یہ کہہ کے وہ باہر کی طرف گیا تھا اور ماہین بھی اپنے آنسو صاف کرتی اسکے پیچھے تھی۔
زبیر گاڑی میں آکر بیٹھ چکا تھا اور ماہین کا انتظار تطا ماہین کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے گھر جانے کے نام سے اپنے ماں باپ کا سامنہ کرنے کی ہمت اسمیں نہیں تھی مرے مرے قدموں سے وہ کار میں آکر بیٹھی تھی ۔
پتہ نہیں کیا حالت ہوگی ماما پاپا کی پتہ نہیں کیسے اتنا کچھ برداشت کیا کتنے پریشان ہونگے وہ کیاقیامت ٹوٹے گی ان پر آج ماہین سوچ کر کانپ رہی تھی ہزاروں باتیں ماہین کے زہن میں چل رہی تھی آج اپنے ماں باپ سے اسے اتنا بڑا جھوٹ بولنا تھا اسے جسکے لئے اسمیں زرا بھی ہمت نہ تھی۔
گاڑی جھٹکے سے رکی تو وہ حوش میں آئی تھی اسنے باہر کی طرف دیکھا تو اسکا گھر آچکا تھا ماہین نے اپنے آنسو صاف کیے تھے۔
زبیر گاڑی سے باہر نکلا تھا اور ماہین کو بھی درازہ کھول کرکھینچ کے باہر نکالا تھا۔
میری باتیں یاد رکھنا۔
وہ اسکا ہاتھ چھوڑتا کہنے لگا ماہین نے زبیر کی ططرف دیکھا تھا کیا کیا نثتھا اسکی نظروں میں نفرت سے بھی کچھ زیادہ ہی تھا۔
ماہین نے کانپتے ہاتوں سے ڈور بیل بجائی تھی۔
ذبیدہ بیگم نے دروازہ کھولا تھا جیسے ہی بیٹی کو دیکھا تھا تو دل کو سکون آیا تھا پر ساتھ کھڑے اس شخص کو دیکھ کے انہیں کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔
ماہین میری بیٹی تم ٹھیک تو ہو نہ کہاں تھی میری بچی میری تو جان ہی نکل گئی تھی۔وہ اسے گلے سے لگائے کہنے لگی ۔
ماہین کے پاپا!!
ماہین کے پاپا دیکھے ماہین آگئی ہے۔وہ ماہین کے پاپا کو آوازیں دینے لگی۔
اسے اندر لیکر آئی تھیں۔
میری بیٹی کہاں تھی۔وہ جیسے ہی ماہین کی طرف بڑھے تھے پر زبیر کو دیکھ کے انکے قدم وہی رک گئے تھے۔
یہ کون ہے۔انہوں نے ماہین سے سوال کیا تھا جسکی وجہ سے ماہین کانپ گئی تھی۔
پاپا وہ۔
بس اتنا پوچھا یہ کون ہے۔وہ انتہائی غصے سے بولے تھے۔
شو,شوہر ہے میرا ہم نے نکاح کر لیا ہے۔ماہین ڈھیر ساری ہمت جما کر کے بولی تھی۔
کیا یہ نکاح تم نے اپنی مرضی سے کیا ہے۔انہوں نے آخری کوشش کی تھی۔
جی اپنی مرضی سے کیا ہے میں نے میں پیار کرتی تھی زبیر سے میں نے ہاں تو کہہ دی تھی پر اینڈ ٹائم پر مجھے احساس ہوا کے میں زبیر کے بنا نہیں رہ سکتی اسلئے میں اسکے ساتھ بھاگی تھی اور ہم نے نکاح کر لیا ہمیں معاف۰۰۰۰۰۰
اسکی بات ختم ہونے سے پہلے ہی اک تھپڑ ذبیدہ بیگم اسے مار چکی تھی۔
دیکھ لیے اپنی بیٹی کے کرتوت !!
یہی تھی تمہاری تربیت ۔
اسی دن کے لیے اس پر بھروسہ کر کے اسکو پڑھنے بھیجا تھا ۔
وہ ذبیدہ بیگم کی طرف دیکھ کے بول رہے تھے جو منہ پر ہاتھ رکھے رو رہی تھیں ۔
پاپا پلیز ایسا مت کہیں اس میں ماما کی۰۰۰۰۰
مت کہو مجھے پاپا میری بیٹی نہیں ہو تم!!!وہ
چیخ کر بولے تھے۔
پاپا پلیز معاف کر دے۔ماہین پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی تھی ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی تھی۔۔
میں نےمان لیاکےمیری کوئی کے بیٹی ہی نہیں تھی ۔
سنا تم نے ہماری کوئی بیٹی نہیں تھی نہ ہے!!!وہ زبیدہ بیگم کو بولے تھے جو پھوٹ پھوٹ کے رو رہی تھی۔
نکلو میرے گھر سے انہوں نے ماہین کا ہاتھ پکڑ کے گھر سے باہا نکالا تھا اور دروازہ بند کر دیا تھا۔
پاپا پلیز ۔
پاپا پلیز معاف کر دے ۔
پاپا پلیز اپنی بیٹی کو معاف کر دے ۔
پاپا دروازہ کھولیں پلیز۔ماہین ہچکیوں سے رو رہی تھی اسکے پاپا نے اسکو اپنی بیٹی ماننے سے انکار کر دیا تھا جو اسکی زرا سی کھروچ پر بھی تڑپ جاتے تھے۔
زبیر جو اتنی دیر سے سب دےکھ رہا تھا ماہین کا ہاتھ پکڑ کے لے جانے لگا تھا۔
چلو۔
چھوڑوں مجھے نہیں جانا اپنے پاپا کے پاس رکنا ہے وہ مجھ سے ناراض ہیں چھوڑوں !!!ماہین چلا رہی تھی پر اسنے اک نہ سنی گاڑی میں زبردستی بٹھا کے گاڑی چلا دی۔
وہ اسے واپس فارم ہاؤس لی آیا تھا اور وہ کمرے میں آنسو بہا رہی تھی کافی دیر گزرنے کے بعد زبیر روم میں آیا تھا تو ماہین ویسے ہی دلہن کے روپ میں آنسو بہا رہی تھی اس پر آج قیامت سی ٹوٹی تھی اس نے اپنے ماں باپ کو اتنا بڑا صدمہ دیا تھا ۔
یا الله پلیز ماما پاپا کا خیال رکھنا۔وہ دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی۔
زبیر اسکوں روتے ہوئے دیکھ رہا تھا اسکی اس حالت سے افسوس اسے بھی ہورہا تھا۔
وہ اسکے قریب پہنچا تو وہ جیسے سمٹ سی گئی وہ بیڈ پر اسکے قریب بیٹھا تھا ماہین اس سے دور ہو رہی تھی تبھی زبیر نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا۔
ماہین اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی پر منہ سے اب تک کچھ نہیں ںولی تھی۔
زبیر نے ایک ہاتھ آگے بڑھا کے اسکا آنسو صاف کرنا چاہا تھا جیسے ماہین نے فوراََ جھڑک دیا۔
مجھے ہاتھ مت لگانا تم!!!!وہ چیخی تھی۔
زبیر نے اسکی کمر پر ہاتھ ڈال کر اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔
ماہین نے اسکے سینے پہ ہاتھ رکھ کے اسکو دور کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
کیوں نہ ہاتھ لگاؤں تمہیں ہاتھ لگانے کا شرعی حق رکھتا ہوں میں اب ۔
تم مجھ سے بچ نہیں سکتی سمجھ آئی ۔
وہ اسے اپنے قریب کیے بولا تھا۔
تم جیسے مرد بس زبردستی ہی کر
سکتے ہیں۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی تھی۔
آنکھوں سے ویسے ہی آنسو نکل رہے تھے اسنے زبیر کو اپنے ہونٹوں کے قریب اتے دیکھا تو قرب سے آنکھیں بند کر لی تھیں پر اب بھی ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
زبیر سے یوں روتے دیکھ رہا تھا آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے بہت تکلیف میں تھی وہ۔
زبیر نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا تھا اور اس سے دور ہوا تھا۔
ماہین نے آنکھیں کھول کے کے اسے دیکھا تھا جو اںھی بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا اور پھر نظریں پھیر گئی تھی۔
ذین نے دروازہ ناک کیا تھا تو زبیر نے دروازہ کھولا تو ماہین اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا تھا۔
پلین کی ٹکٹیں ہو گئی ہے اک گھنٹے میں فلائٹ ہے۔ذین نے اک نظر ماہین پر ماری تھی جسکوں دیکھ کے صاف پتہ چل رہا تھا کے وہ روتی رہی ہے۔
ہمم چلوں۔ زبیر ذین کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔
اک گھنے بعد وہ پلین میں موجود تھے ماہین کو دلہن بنے سب پیسنجرز دیکھ رہے تھے وہ شرمندہ سی ہورہی تھی۔
صبح کے چار بجے وہ احمد پیلس پہنچے تھے ماہین نم آنکھوں سے اس گھر کو دیکھ رہی تھی جہاں سے اسکی بربادی کی شروعات ہوئی تھی۔
اپر چلو۔زبیر ماہین سے کہتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
ماہین مرے مرے قدموں سے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی زبیر کمرے میں جا چکا تھا ماہین کمرے کے باہر کھڑی تھی پھر ہمت کر کے اندر گئی تھی۔
زبیر فریش ہونے جا چکا تھا ماہین سہمے سہمے قدموں سے آگے بڑھی تھی اور صوفے پر بیٹھی تھی۔
نکاح کا بھاری جوڑا پہنے پہنے وہ تھک چکی تھی سر پر بھاری دوپٹہ ہونے کے وجہ سر دکھنے لگا تھا وہ اپنی جیولرے اتار رہی تھی جب وہ واش روم سے نائٹ ڈریس میں باہر نکلا تو سیدھا نظر ماہین پر گئی تھی جو اب گلے کا نیکلیس اتار رہی تھی پھر دوپٹے سے پنے نکالنے لگی جس میں کافی ٹائم لگا تھا اب اسکا سر بھاری دوپٹے سے آزاد تھا جیسے اسنے اپنے شانوں پر پھیلا لیا تھا۔
ماہین ن نکاح کے جوڑے سے جلد سے جلد سے جلد آزاد ہونا چاہتی تھی پر اسکے پاس چینج کرنے کے لیے کپڑے نہیں تھے۔
زبیر ماہین کو کافی دیر سے نوٹ کر رہا تھا جو نکاح کے ڈریس میں انکمفٹیبل تھی۔
وہ الماری کی طرف بڑھا تھا اور وہاں سے اپنے شرٹ اور ٹراؤزر نکال کے ماہین کی طرف بڑھا تھا ۔
یہ پہن لو کل اپنے لیے شاپنگ کر لینا۔وہ ماہین کی طرف کپڑے کرتا ہوا بولا تھا۔
مجھے نہیں پہنا۔ماہین دوسری طرف منہ کر گئی تھی۔
چپ چاپ خود جا کے پہن لو ورنہ یہ نیک کام میں بڑی خوشی سے کروگا۔
وہ طنزیہ انداز میں بولا تھا۔
ماہین اسکی بات پر اسکے ہاتھ سے کپڑے جلدی سے لے کر واش روم بھاگی تھی۔
واش روم سے باہر نکل کر وہ اپنے کپڑےسنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی جو اسکے وجود کے لیے بہت بڑے تھے گلا بار بار کندھے سے نیچے آرہا تھا ڈھیلی شرٹ میں اسکا نازک وجود چھپ سا گیا تھا گیلے بال کمر پر بکھرے ہوئے تھے وہ سادگی میں بھی قیامت ڈھارہی تھی۔
زبیر ماہین کی طرف ہی دیکھ رہا تھا جو کپڑوں سے لڑنے میں مگن سی تھی اسے بھول ہی گئی تھی ورنہ اتنی آرام سے نہ ہوتی ۔
ماہین نے اپنے کپڑے ٹھیک کرتے ہوئے سامنے دیکھا تو سٹپٹا گئی اس انسان کا اسکے آس پاس ہونا اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا پر کیا کرتی مجبوری تھی۔
ماہین صوفے کی طرف سونے کے ارادے سے بڑھی تھی۔
تم بیڈ پر سو گی صوفے پر نہیں ۔
کہ اسکی بات سے وہیں رک گئی ۔
ساکت سے کھڑے اسکے وجود میں حرکت تب آئی جب دوبارہ اسکی آواز کانوں میں آئی تھی۔
سنائی نہیں دیا تمہیں کچھ۔
اسکے آنکھوں میں پانی بھرنے لگا تھا کوئی کام وہ اپنی مرضی سے نہیں کر سکتی تھی اک ہی دن میں اسکا دم اس گھر میں گھٹنے لگا تھا۔وہ ہلکے ہلکے قدم بڑھاتے بیڈ پر آئی تھی اور بیڈ پر سمٹ کر زبیر کر کی طرف کروٹ لیکرلیٹ گئی تھی اور آنسو بہانےمیں مگن ہو چکی تھی۔
زبیر سکی ہچکیاں سن رہا تھا۔
رات میں پتا نہیں کب اپنی سسکیاں دبائے اسکی آنکھ لگ گئی تھی صبح فجر کی اذان کے ٹائم اسکی آنکھ کھلی تھی پر وہ نماز نہیں پڑھ پائی تھی کیوں کے اسکے پاس ڈھنگ کے کپڑے نہیں تھے وہ ساتھ ساتھ اذان کا جواب دیتی رہی اور دعا مانگ کر پھر سے سو گئی ۔
زبیر کی آنکھ صبح جلدی کھل گئ تھی برابر میں نظر گئی تو ماہین سو رہی تھی اسکے کپڑوں پر نظر گئی تو اسے احساس ہوا کے ماہین کے پاس پہنے کے کپڑے نہیں ہے وہ اسکا معصوم چہرہ دیکھ رہا تھا جو دنیا جہاں سے بے خبر سو رہی تھی۔
محمد دین ناشتہ لاؤ!زبیر محمد دین کو آواز دیتا ہوا بولا۔
سر آپ آج جلدی اٹھ گئے؟محمد دین زبیر کو ناشتہ دیتے ہوئے بولا۔
ہاں کچھ کام سے جانا ہے۔
اچھا سر۔
اور ہاں بات سنو اپر ماہین کو ناشتہ دے دینا اور اندر مت جانا باہر سے ہی دینا۔
اور اک لیڈی سروینٹ کا انتظام کرو۔
وہ کیوں سر؟
جتنا بولا اتنا کرو۔زبیر گھورتےہوئے بولا۔
رات تک کام ہو جانا چاہے۔
اوکے سر۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۰۔
ماہین کی آنکھ کھلی تو نظر گھڑی کی طرف گئی تو گیارہ بج رہے تھے برابر میں دیکھا تو زبیر نہیں تھا وہ شکر ادا کرنے لگی تھی اٹھ کر فریش ہونے گئی ۔
واپس آئی تو کپڑے کو دیکھنے لگی۔
کپڑے تو ہیں نہیں کیا کروں۔
وہ اپنے کپڑوں کو دیکھتے سوچنے لگی تھی ۔
باہر بھی نہیں جا سکتی بھوک بھی لگی ہے یا الله کیا کروں۔
ادھا گھنٹاگزرگیاسے تھااسکا بھوک کمرے سے اسکامیں براحال تھاکیوں اسنے کل دپہر سے کچھ نہیں کھایا تھا۔
ٹکھ ٹکھ ٹکھ!!!!!
دروازہ بجا تو ماہین دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔
کون ہے۔
میڈم میں محمد دین ہوں ناشتہ لایا ہوں ۔
ماہین دروازے کے پاس پہنچی اور تھوڑا سا دروازہ کھول کے باہر جھانکا تو سنے ہی کوئی نوکر ہاتھ میں ناشتہ لیے کھڑا تھا اسنے ہاتھ باہر نکال کر ناشتہ لے لیا اور شکریہ کر کےواپس دروازہ بند کر دیا ۔
اب وہ بیڈ پر بیٹھے ناشتے کو دیکھ رہی تھی ۔
اتنا ناشتہ۔ماہین ناشتے کی ٹرے کو دیکھ کے کہنے لگی ۔
جہاں کآفی,بریڈ, بٹر ,فرائے ایگس اور جوس بھی تھا۔
ماہین نے ناشتہ کرنا شروع کیا بھوک تو اسے بہت لگی تھی وہ ناشتے سے بھرپور انصاف کر رہی تھی۔
ناشتہ کرنے کے بعد اسنے ٹرے سائڈ میں رکھی ۔
او نو کب تک یہاں بیٹھی رہوگی۔وہ کمرے میں نظر گھمائے کہنے لگی۔
نوشین سے بات کرتی ہوں ۔
پر میرا موبائل تو ہے نہیں میرے پاس۔وہ پھر سے اداس ہوئی ۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۰۰۔
زبیر مال میں ماہین کے لیے کچھ شاپنگ کرنے کی غرض سے آیا تھا پر اسنے اس سے پہلے کبھی لڑکیوں کی شاپنگ نہیں کی تھی وہ ادھر اودھر ہر چیز کو دیکھ رہا تھا پر اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا لے کیسے لے۔
پہلے کپڑے لیتا ہوں ۔۔یہ سوچتے ہی وہ کپڑوں کی شاپ میں گیا تھا وہاں بہت سارے کپڑے تھے وہ ادھر اودھر نظر مار کے دیکھ رہا تھا سامنے ہی ڈمی میں اسے بہت خوبصورت فراک دکھائی دیا تو اسکی آنکھوں میں ماہین کا سراپہ گھوم گیا تھا تھا۔
بلیک نیٹ کا فراک جس پر کوپر کلر کی خوبصورت لیس لگی ہوئی تھی گلا پر بہت خوبصورت کام تھا اور پیچھے ڈوری والا گلا تھا۔
ایکسکیوز می۔
یس سر ہاؤ مے آئی ہیلپ یو۔
آئی وانٹ دس ڈریس۔
اوکے سر میں پیک کرواتا ہوں جب تک آپ کچھ اور ڈریس پسند کریں۔
زبیر اب اور ڈریسز دیکھ رہا تھا۔
کئی الگ الگ طرح کے خوبصورت ڈریس لینے کے بعد انے کاسمیٹکس کا سامان لیا تھا۔
اور اب وہ سینڈلز دیکھ رہا تھا ۔
سینڈلز لینے کے بعد اسنے کاسمیٹکس کا سامان لیا تھا اب وہ جیولری شاپ کی طرف جارہا تھا ایک بہت خوبصورت گولڈ کا سیٹ لینے کے بعد وہ پلٹا تو اسکی نظر اک ڈائمنڈ کی بہت نازک اور خوبصورت چین پر گئی تو اسکی نظروں میں ماہین نازک سی گردن آئی تھی اور چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔
اسکو بھی پیک کر دے۔۔زبیر اس چین کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔
سر آئی ایم سوری یہ سیل ہو چکا ہے۔ سیلز مین معزرت کرتا ہوا بوا تھا۔
پر یہ مجھے چاہے!!۔زبیر اسے گھورتا ہوا بولا۔
بٹ سر ہم کیسے۔
جانتے ہو نا کون ہوں میں ۔
ارے یہ کیا کرہے ہو ۔۔ شاپ کا مالک سیلز مین کو دیکھتا ہو بولا تھا۔
سر یہ سیل ۰۰۰۰
سر نے کہا نہ تو پک کروا دو ۔
جانتے ہو نا یہ زبیر احمد ہے۔وہ اسکے کان میں بو لا تھا۔
اوکے سر۔
زبیر نے ماہین کے لیے موبائل اور ش سم کارڈ بھی لیا تھا ۔
زبیرشاپنگ کر کے مال سے باہر نکلا تھا بیگس پیچھے ڈال کر ڈرائیو نگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی گھر کی طرف کی تھی۔
ارے اتنی شاپنگ۔ذین زبیر کے ہاتھ میں اتنے شاپنگ بیگ دیکھتا ہوا بولا۔
ہاں وہ۰۰۰۰۰
او تولیڈیز شاپنگ کی ہے ۔زین اس کی بات کانٹا ہوا بولا نظر ہاتھ میں پکڑے لیڈیز کپڑوں پر تھی۔
ہاں وہ اسے کپڑوں کی ضرورت تھی۔
اسے کیسے؟زبیر
اپنی مسکراہٹ دبائے پوچھنے لگا۔
زبیر نے اسے گھور کے دیکھ رہا تھا۔
لگتا تمہیں ڈوز چاہیے۔ زبیر معنی خیزی انداز میں اسے دیکھتےہوئے بولا تھا۔اور اپر سیڑھیا چڑھنے لگا۔
جاؤں اپکی مسز ویٹ کرہی ہونگی۔
ذین پیچھے سے بولا تو زبیر سے پلٹ کے گھورنے لگاذین مسکراتے ہوئے واپس کمرے میں چلا گیا۔
زبیر روم کے پاس پہنچا تو وہ اندر سے لاک تھا اسنے دروازہ بجایا تھا۔
کون ہے؟ماہین اندر سے بالی تھی۔
کون ہے؟
جب دوسری بار بھی جواب نہ آیا تو ماہین نے دروازہ کھول کے باہر جھانکا تھا اور سامنے کھڑے لمبے چوڑے زبیر کے دیکھ کر وہ حواس باختہ ہو کر جلدی سے دروازے کے سامنے سے ہٹ گئی ۔
زبیر اندر آیا تو ماہین کی نظر اسکے ہاتھ میں پکڑے مختلف بیگز پر گئی اور وہ صوفے پر جا بیٹھی اورمنہ دوسری طرف کر لیا تھا۔
زبیر نے شاپنگ بیگز بیڈ پر رکھے اور ماہین کی طرف دیکھا تو وہ دوسری طرف منہ کر کے بیٹھی تھی۔
زبیر اسکی طرف پلٹا اور اسکا بازوں پکڑ کر کھینچاتھا تو وہ صوفے سے کھڑے ہو کر اسکے سینے سے ٹکرا گئی تھی اور اس سے ہاتھ چھڑانے کی سعی کرنے لگی نظریں نیچے کی ہوئی تھی زبیر اسکی جھکی پلکوں کو دیکھ رہا تھا تبھی ماہین نے اپنا بازوں کھینچا تھا تو وہ ہوش میں آیا تھا۔
ہاتھ مت لگایا کرو مجھے سمجھ آئی ۔۔وہ اس سے دور ہوتی ہوئی ںولی تھی۔
اگر لگاؤں تو کون روکے گا مجھے۔۔وہ اسکی طرف قدم بڑھاتا ہو بولا تھا ماہین کے قدم بھی پیچھے جارہے تھے زبیر کا چہرہ لال ہونے لگا تھا۔
بتاؤ کون روکے گا۔۔ مجھے وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنی طرف کھینچتا ہوا بولا تھا۔
م می مے میں روکو گگ گی۔اسکے ہاتھ اپنی کمر پر محسوس کر کے اسکے الفاظ وہیں ٹوٹنے لگے تھے آنکھوں میں پانی بھرنے لگا تھا۔
تم روکو گی مجھے۔۔وہ آئبرو اٹھا کےاسے دیکھتا ہوا بولا تھا اور ایک انگلی اسکے ہونٹ کے تل پر پھیرنے لگا تھا۔
ماہین کی آنکھیں برسنے لگی تھی اور پیر کپکپانے لگے تھے جب وہ اسکے ہونٹوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔