بیٹاآگئی تم۔
ذاہدہ بیگم ماہین کو گلے لگاتے ہوئے بولی جو ابھی اپنے پاپا کے ساتھ گھر آئی تھی۔
ماہےن نے ماں کے گلے لگتے ہی رونا شروع کر دیا تھا۔
کیا ہوا میری بیٹی کو کیو اتنا رو رہی ہے۔
زاہدہ بیگم اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھنے لگی۔
کیا ہوا بیٹا سب ٹھیک ہے نہ پریشان کیوں لگ رہی ہوں ۔
ماہین کے پاپا میر عباس لاڈلی بیٹی کو روتا ہوا دیکھ کے پریشان ہو گئے تھے۔
کچھ نہیں پاپا ماما بس اتنا ٹائم آپ لوگوں سے ملی نہیں نہ اسلئے رونا آگیا تھا۔ماہین آنسو صاف کرتی ہوئی بولی تھی۔
بیٹا سچ بتاؤ کوئی بات تو نہیں ہے نہ تم کال پر بھی رو رہی تھی بہت۔ماہین کی ماما اس سے پوچھنے لگی تھیں ۔
کچھ نہیں ماما بس آپ لوگوں کی یاد آرہی تھی بہت اسلئے اچھا کچھ کھلا دیں بہت بھوک لگی ہے۔
ارے ہاں میں تو بھول ہی گئی میں میری بیٹی کی پسند کا کھانا بنایا ہے دم بریانی 'کوفتے 'سیخ کباب آؤ میں کھانا لگاتی ہوں ۔
کیا بات ہے منہ اترا ہوا کیوں ہے۔زاہدہ بیگم ماہین کو دودھ کا گلاس دیتی ہوئی بولی۔
کچھ نہیں ماما بس ایسے ہی تھک گئی ہوں ۔
کچھ بات ہے تو بتا دو مجھے ۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ پریشان مت ہو۔
اچھا دودھ پی لو اور سو جاؤ۔
او کے ماما آپ بھی آرام کر لیں۔
۔۰۰۰۰۰۔
محمد دین!!
محمد دین!!ذین رات دیر سے گھر ایا تھا دیر رات تک گاڑی میں بیٹھا سیگریٹ پیتا رہا اسکی آنکھوں سے غصہ ہی غصہ جھلک رہا تھا آتے ہی محمد دین کو آوازیں دینا شروع ہو گیا تھا۔
جی سر"محمد دین بھاگتا ہوا آیا تھا۔
ذین کہاں ہے اسکو میرے کمرے میں بھیجو ۔
جی سر۔
محمد دین ذین کے کمرے میں آیا تھا۔
ذین سر!محمد دین دروازہ بجاتے ہوئے ۔
آ جاؤ محمد دین۔ذین اسکو اندر آنے کی اجازت دینے لگا۔
سر وہ آپکو زبیر سر بلا رہے ہیں۔
خیریت اتنا لیٹ کیوں ۔
پتہ نہيں سر بہت غصے میں لگ رہے ہیں۔
اچھا میں دیکھتا ہوں تم جاؤ۔
ذین
زبیر کے کمرے میں آیا تھا۔
کیا بات ہے کیا ہوا جو اتنی رات کو کیوں بلایا ہے اور اتنی رات کو کہا سے آرہے ہو۔
کل کی ٹکٹ کراؤ کراچی کی ہم کراچی جارہے ہیں۔
پر ہوا کیا ہے کچھ بتا تو سہی ۔
ماہین کراچی چلی گئگئی ہے اسکی دوست نے بتایا کے شاید اسکا نکاح ہو جائے ۔
او ہو تو کچھ پتا ہے کب ہے نکاح۔
میں ہونے نہیں دونگا اسکو کسی آور کا اسکی اس غلطی کی سزا ضرور دونگا اسے میں ۔
تو ٹکٹ کرا کل کی ۔
یار کل نہیں جا سکتے کل تجھے پتہ ہے نہ اسٹاریک ہے سب ٹرین پلینس کوئی فلائیٹ نہیں ہے کل۔
آئی ڈونٹ نو وٹ ایور یو ڈو۔
مجھے کل کسی بھی حال میں کراچی جانا ہے۔
کوئی پرائیویٹ ہیلی کاپٹر منگوا لے۔
پاگل ہو گیا ہے اتنا کام ہے کل کانٹریکٹ کا کام ہے اسطرح نہیں جا سکتے۔
مجھے کل ہی جانا ہے۔
ارے کل ہی تھوڑی اسکا نکاح ہو جائے گا آج ہی تو گئی ہے سمجھ نہ میری بات کو۔
اچھا میں پتہ کراتا ہو اسکا گھر وغیرہ کہاں ہے اور نکاح کب ہے اوکے۔
ذین یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۔
ماہین آجاؤ ناشتہ کر لو!!زبیدہ بیگم صبح ناشتے کے ٹیبل پر ماہین کو بلانے لگی۔
آئی ماما !!ماہین ناشتہ کرنے کے لئے آئی تھی۔
یہ لو نہ جوس ۔زبیدہ بیگم ماہین کے آگے جوس کرتے ہوئے بولی تھیں۔
جی ماما لیتی ہوں ۔ماما آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
بولو ۔
پاپا آپ سے بھی۔
جی بیٹابولو۔
ماما آپ نے پوچھا تھا محسن کے بارے میں ۔
جی بیٹا آپ کوئی اعتراض ہے تو بتا دو ہم منع کر دیں گے۔
نہیں ماما مجھے کوئی اعتراض نہیں پر میں کل ہی نکاح کرنا چاہتی ہوں ۔
کل اتنی جلدی پر تھوڑا ٹائم تو دو تیاریاں بھی تو کرنی ہیں نہ۔
نہیں ماما کل ہی ہو گا نکاح۔
بیٹا ابھی کاشف چاچو سے بھی تو پوچھنا پڑے گا نہ اتنی جلدی کہیں انہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے نہ۔
جی پاپا آپ بات کر لیں پر نکاح کل ہی ہو گا۔
اچھا بات کرتا ہوں میں۔
ماہین کے پایا نے اپنی چھوٹے بھائی کاشف کو فون لگایا تھا۔
ہیلو کاشف کیسے ہو۔
جی بھائی آپ بتائیں کیسے ہیں اور بھابھی۔
سب ٹھیک ہیں الله کا شکر ہے
ماہین آئی ہوئی ہے کچھ بات کرنی ہی ایک کام کروں تم اور محسن یہاں آجاؤ۔
اچھا بھائی آرہے۔
ہمم دوپہیر کا کھانا ساتھ کھائے گے۔
جی بھائی ضرور۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۰۔
زبیر رات دیر تک سیگریٹ سلگاتا رہا تھا اسکے اندر اک آگ سی لگی ہوئی تھی جو کسی بھی طرح بجھ نہیں رہی تھی ۔
زبیر نہیں اٹھا ابھی تک۔
ذین ناشتے کے ٹیبل پر پوچھ رہا تھا۔
نہیں سر ابھی نہیں اٹھے۔
اچھا سونے دو رات لگتا دیر تک جاگتا رہا ہو گا اسلئے ۔
او کے سر۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۔
دوپہر میں کاشف ماہین کے چاچو میر عباس ماہین کے پاپا ماہین کی ماما اور محسن ماہین کے گھر بیٹھے تھے۔
جی بھائی کہیں اتنی ارجنٹ کیو بلایا بتائیں ۔
اور ماہین کہاں ہے ہماری بیٹی کو تو بلائیں ۔
جی ضرور پر اک خوشخبری دینی ہے۔
جی تو دیر کس بات کی جلدی سے دیں۔
ماہین نے شادی کے لئے ہاں کر دی ہے۔
ارے واں یہ ہوئی نہ بات یہ دی نہ اچھی خبر۔ماہین کے چاچو مسکراتے ہوئے بولے تھے ۔محسن بھی نیچے منہ کر کے مسکرا رہا تھا۔
ارے دیکھوں ہمارے دلہے میاں کو تو کیسے شرما رہے ہیں ۔ماہین کے پاپا محسن کو دیکھتے ہوئے بالے تھے۔
کیا تایا ابو آپ بھی۔محسن مزید شرما گیا تھا جس پر تینو کے قہقے حونجے تھے۔
ارے منہ تو میٹھا کرائے نہ۔
جی میں مٹھائی لاتی ہوں ۔زبیدہ بیگم کیچن کی طرف گئی تھی۔
لو آگئی مٹھائی ۔ماہین کے چاچو مٹھائی کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔
ارے ماہین کو تو بلا ؤں نہ کہاں ہے۔
جی بلاتی ہوں ۔
ماہین!!
ماہین!!بیٹا چاچو سے مل لو۔
آئی ماما۔ماہین دوپٹاا وڑھ کر جلدی سے باہر آئی تھی۔
السلام علیکُم چاچو۔وعلیکم السلام بیٹا۔
السلامُ علیکُم ۔محسن۔ماہین نے نظریں نیچے کیےہوئے محسن کو سلام کیا تھا۔
وعلیکم السلام ۔
محسن نے بھی ادب سے جواب دیا تھا۔
بیٹھوں بیٹا۔ماہین کے چاچو ماہین کو بولنے لگے ۔
کاشف تم سے اک اور بات کرنی ہے۔
ماہین کے پاپا کاشف کو بولے تھے۔
جی بھائی کہیں ۔
ماہین کل ہی نکاح کرنا چاہتی ہے۔
کل ہی
پر ابھی تو ماہین کی اسٹڈی چل رہی ہے نہ۔
ہاں رخستی ماہین کی اسٹڈی ختم ہونے کے بعد ہی ہو گی۔
تمہیں کوئی اعتراض ہے کا۔ماہین کے پاپا کاشف سے پوچھنے لگے۔
نہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ یہ تو خوشی کی بات ہے چلو منہ میٹھا کرتے ہیں ۔
ماہین سر جھکائے بیٹھی تھی محسن کی نظر بار بار اسکی طرف جا رہی تھی۔
کل نکاح ہو گا انشاءاللہ ۔ماہین کے چاچو اٹھتے ہوئے میر عباس کے گلے لگے تھے۔
چلیں کھانا کھاتے ہیں۔ماہین کی ماما سب کو کھانے کے لیے لی گئی ۔
بھائی کل میث کاضی لے آؤں گا اور ماہین کے نکاح کا جوڑا بھی صبح تک بھیجوا دونگا آپ کچھ قریبی رشتے داروں کو بلا لیں۔
ماہین کے چاچو میر عباس کو کہنے لگے تھے۔
فکر مت کرو سب ہو جائے گا۔
اوکے چلیں زرا مارکیٹ چلتے ہیں ماہین کا اور محسن کا جوڑا اور کچھ ضروری شادی کا سامان لے آتے ہیں بھابھی آپ بھی چلیں آپکوتو پتہ ہے نہ ماہین کی ماں نہیں ہے تو سب آپکوں ہی کرناہے۔
کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ بھائی محسن بھی تو میرا ہی بیٹا ہے نہ۔
جی بھابھی۔
سب مارکیٹ چلے گئے تھے ماہین اپنے روم میں گم سم بیٹھی تھی جانے کیوں اجیب خوف سا تھا اسکے دل میں کے پتا نہیں زبیر کیا کرےگا اب وہ ڈرتے ڈرتے سو چکی تھی۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۔
زبیر فلائٹ ہو گئی ہے آج کی۔ذین زبیر کے کمرے میں آکر بتانے لگا۔
ہمم کتنے بجے کے فلائٹ ہے۔
12 بجے کی۔
او کے۔
ضروری سامان رکھ لو۔
او کے۔سمجھ گیا۔ذین نے کہتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
میں آرہو ہوں ماہین۔زبیر کھڑکی سے باہر دیکھتا ہوا بولا تھا۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۔
ماہین کے گھر پہ نکاح کی تیاریاں ہورہی تھی ہر جگہ گہماگہمی تھی کچھ قریبی رشتے داروں کو نکاح میں بلایا تھا ماہین کی شادی کا جوڑا آچکا تھا۔
ماہین بیٹا جلدی کروں پارلر جانا ہے آپکو۔ذبیدہ بیگم ماہین کو کہنے لگی تھی جو نہا ں کر ابھی بال سلجھا رہی تھی۔۔
جی ماما بس جارہی ہوں ۔
اسمیں تمہارا نکاح کا جوڑا جولری اور کچھ ضروری سامان ہے اسے ساتھ لے جانا۔
اوکے ماما۔
اور بیٹا جب تیار ہو جاؤ تو فون کر دینا اپنے پاپا کو وہ اپکوں لینے آجآئے گے اب جلدی جاؤ پاپا اپکو پارلر چچھوڑ دیں گے ۔
او کے ماما۔ماہین ذبےدہ بیگم کے گلے لگی تھی اور آنکھو میں آنسوں آ گئے تھے۔
ارے بیٹا رو کیو رہی ہو ابھی میریبیٹی کی رخستی تھوڑی نہ ہو رہی ہے۔
ماہین کی ماما ماہین کو سمجھاتے ہوئے بولیں تھیں۔
ماما بس ایسے ہی ماہین اپنے آنسو پوچھنے لگی۔
میری بیٹی کوئی دور تھوڑی جارہی ہی کاشف چاچو کے پاس ہی تو جائے گی جب چاہے آجانا ملنے۔
جی ماما۔
اچھا اب آپ جاؤ ۔
اوکے ماما۔
ماہین کار میں آکر بیٹھی تھی اسکے پاپا نے اسے پارلر چھوڑ دیا تھا اب بیوٹیشن اپنا کمال دکھا رہی تھی اور اسکے حسن کو مزید نکھار رہی تھی۔
چار گھنٹے کی محنت کے بعو ماہین مکنل ریڈی تھی کسی پری کی طرح لگ رہی تھی اسکا معصوم حسن نکاح کے جوڑے ممیں مزید خوبصورت لگ رہا تھا۔
نیٹ کا مہرون شرارہ جس پر گرین کام ہوا تھا بالو کو ہیر اسٹائل دیا گیا تھا کے اسکے بال نہایت خوبصورتی سے بنائے گئے تھے اور اک طرف آگے اسکے بال تھےاونچا پف بنایا ہواتھا جس پر دوپٹا سیٹ کیا ہوا تھا آنکھوں پہ خوبصورت لائنر اور ہونٹوں پرلیپ اسٹک وہ سچ میں بہت حسین لگ رہی تھی۔
آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں۔ بیوٹیشن ماہین کو دیکھتے ہوئے بولی ۔
تھینکس۔ماہین نے جواب دیا تھا جانے کیوں اسکا دل بہت بے چین تھا اسنے اپنے پاپا کو فون کر دیا تھا وہ ببس آ رہے تھے۔
آپکوں کوئی لینے آیا ہے۔ اک بیوٹیشن ماہین کے پاس آکر بولی تھی۔
پاپا ہونگے۔ماہین اپنا شرارہ سانبھالے اٹھی تھی۔اور بیوٹیشن کو بائے کہہ کے پارلر سے باہر نکلی تھی۔
ماہین پارلر سے باہر آکر ادھر اودھر دیکھ رہی تھی پر اسکے پاپا کی کار کہیں نظر نہیں آرہی تھی آخر ماہین پلٹ کر واپس جانے کے لیے پلٹی تھی کے اسکے پلٹتے ہی اسکے قدم وہیں رک گئے تھے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔
زو زوب زبیر!!ماہین کے مںنہ سے ٹوٹے ٹوٹے الفاظ میں اسکا نام نکلا تھا وہ اسکا غصے والا چہرہ اور لال آنکھیں دیکھ کے اندر تک کانپ گئی تھی۔
زب زبیر!!ماہین کے منہ سے کٹی کٹی آواز نکلی تھی اور چہرہ زرد ہو گیا تھا۔
ماہین نے بھاگنے کی کوشش کی زبیر نے آگے آکر اسکا ہاتھ جھپٹا تھا اور اپنی طرف کھینچا تھا اور اسکے منہ پر کیوروفام سے بھیگا رومال رکھا تھا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے تمام حوش و حواس کھو کے اسکی بانہوں میں جھول گئی تھی۔
زبیر نے ماہین کو اٹھا کے کار میں لٹایا تھا جہاں پہلے سے ذین ڈرائیو نگ سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا زبیر اسکے برابر میں بیٹھا اور ذین نے کار بھگائی تھی۔
زبیر نے اک نظر پیچھے ماہین کے بے سدھ پڑے وجود پر ڈالی تھی اسکی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۔
ماہین کے پاپا ماہین کو لینے پارلر آئے تھے ماہین انھیں فون کر چکی تھی پر پارلر میں پتہ چلا کے ماہین جا چکی ہے وہ اچھے خاصے پریشان ہو چکے تھے ۔
ہیلو زبیدہ بیگم بات سنیں ۔انھوں نے ماہین کی ماما کو فون لگایا تھا۔
جی ماہین کے پاپا کب تک آرہے ہیں ماہین کو لے کر۔
وہ بیگم ماہین۔
کیا ہوا ماہین کیا اتنا پریشان کیوں لگ رہے ہیں ماہین کہاں ہے میری بات کروائیں اس سے۔
ماہین پارلر میں نہیں ہے پارلر سے جا چکی ہے آپ یہ بتائیں گھر تو نہیں پہنچی نہ۔
نہیں یہاں تو نہیں آئی اور اسکوں تو کوئی لینے بھی نہیں گیا آپ کے علاوہ ۔
کہاں گئی میری بچی ماہین کے پاپا۔زبیدہ بیگم نے رونا شروع کر دیا تھا۔
آپ روئے مت میں دیکھتا ہوں پتا کرتا ہوں ۔
میری بچی کو لے کر آئے پلیز ۔
ماہین کے پاپآ نے فون کاٹا تھا وہ اچھے خاصے پریشان ہو چکے ادطھر اودھر لوگوں سے ماہین کے بارے میں پوچھ تاچھ کر رہے تھے ۔
سات بج چکے تھے ماہین کے پایا نے سب سے پاچھ تاچھ کر چکے تھے پر ماہین کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا انکی اکلوتی بیٹی آج اسطرح غائب تھی انکا دل کٹ رہا تھا۔
۔۰۰۰۰۰۰۔
زبیر ماہین کو اک فارم ہاؤس پر لایا تھا جو کے اسکے دوست کا تھا ذین پہلے ہی انتظام کر چکا تھا۔
زبیر نے ماہین کے وجود کو کمرے میں لا کر بیڈ لٹایا تھا اسے غور سے دیکھ رہا تھا وہ نکاح کے جوڑے میں بلکل پری لگ رہی تھی۔
یہ سب تمہاری اپنی وجہ سے ہوا ہے میں یہ سب نہیں چاہتا تھا پر تم اب اپنی غلطیوں کی سزا بگھتوں گی مس ماہین خان زبیر تمھیں معاف نہیں کرے گا۔
یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا اب ماہین کے ہوش میں آنے کا انتظار تھا باقی سارے انتظام وہ کر چکا تھا قاضی کو ذین لے آیا تھا زبیر ماہین سے آج ہی نکاح کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
زبیر کے تین دوست اور ایک وکیل بھی ساتھ تھا ۔
ماہین کو پانچ گھنٹے ہو چکے تھے بے ہوش ہوئے اب وہ آہستہ آہستہ اپنے ہوش میں آرہی تھی جیسے ہی آنکھیں کھلی تو انکھوں کے سامنے اندھیرا سا تھا آہستہ آہستہ صاف ہوا تھا اسنے اپنی پوری انکھیں کھولی تھی اب وہ کمرے کو دیکھ رہی تھی کچھ غلط ہونے کا احساس سے اسکا دل بند ہو رہا تھا۔
ااسکے ذہن میں زبیر کا خیال آیا اک منٹ میں سب یاد آنے پر وہ جھٹکے سے اٹھی تھی درد کی اک تیز لہر اس کے کے سر میں اٹھی تھی ماہین نے کچھ دیر تو اپنا سر پکڑا تھا پھر بیڈ سے نیچے اتر کے دروازے کی طرف گئی تھی اور دروازہ پیٹنے لگی تھی۔
کھولوں دروازہ پلیز۔
دروازہ کھولوں کوئی زبیر!!!
پلیز دروازہ کھولوں جانے دو مجھے میرا نکاح ہے میرے ماما پاپا انتظار کر رہے ہونگے الله کا واسطہ ہے تمہیں ۔
ماہین مسلسل دروازہ بجا رہی تھ جانتی تھی زبیر وہیں ہے اب وہ وہیں رونے بیٹھ گئ تھی کہ اچانک سے دروازہ کھلا تھا اور وہ جھٹکے سے پیچھے ہوئی تھی۔
زبیر کمرے میں آیا تھا ماہین اسکو دیکھ کے اس تک گئ تھی۔
کیوں کیا تم نے یہ کیوں سکون نہیں لینے دیتے مجھے جانے دو مجھے میرے ماں باپ میرا انتظار کر رہے ہیں الله کا واسطہ ہے جانے دو ۔ماہین اسکا گریبان پکڑ کے سب بول رہی تھی۔
آج تم یہاں سے مسز زبیر بن کے جاؤ گی کہا تھا نہ مجھ سے دور نہیں جا سکتی تم۔زبیر اپنا گریبان چھڑواتا ہوا بولا تھا۔
جانے دو مجھے میرے ماں باپ کی عزت کا سوا ہے مجھ پہ رحم کرو پلیز ۔
ماہین اسکے سامنے ہاتھ جوڑ کے بولی تھی۔
رحم کروں اور تم پہ اپنی غلطیوں کی سزا اب تم ساری زندگی بگتو گی زبیر کے ساتھ دھوکے کے سزا آج دوں گا میں تمہیں ۔
پلیز الله کا واسطہ جانے دو میرا نکاح ہے آج۔
نکاح تو ضرور ہوگا پر تمہارا اور میرا اور وہ بھی آج اور ابھی۔
میں نہیں کروگی تم سے نکاح زبیر احمد۔
نکاح تو تمہیں کرنا ہوگا ۔
میں نہیں کروں گی زبیر احمد مر جاؤ گی پر تم سے شادی نہیں کروں گی!!!!۔ماہین چچیختےہوئے بولی تھی
نکا ح تو ہوگا چاہے ابھی یا پھر تب جب تم اپنے اپنوں کو اپنے آنکھوں کے سامنے مرتا دیکھوں گی۔
نہیں آپ ایسا کچھ نہیں کرو گے۔وہ
روتےمیں ہوئے بولی تھی۔
۔میں کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا تھا۔
میں نہیں کروگی نکاح تم سے ۔ماہین روتی ہوئی بولی کے تھی۔
اوکے پھر جب تمہارے ماں باپ گھر والے تمہارے سامنے مرے گے پھر دیکھتا ہوں کیسے نہیں کرو گی۔
زین!!!
ذین!!!
زبیر نے ذین کو آوازیں دی دینے لگا تھا۔
ذین اندر آیا تھا اور اک نظر روتی ہوئی ماہین پر ڈالی تھی۔
جاؤ اسکے گھر اور اسکے ماں باپ کو ادھر لے آؤ آج یہیں انکی موت لکھی ہے۔
نہیں ایسا مت کرنا پلیز میرے ماں باپ کو ہاتھ مت لگانا ۔
اگر تم نہیں چاہتی کہ تمہارے ماں باپ پر آنچ بھی آئے تو ابھی قازی آرہا ہے خاموشی سے نکاح کر لینا ورنہ تم جانتی ہوں۔
قاضی کے سامنے کوئی تماشہ کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
وہ یہ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا ماہین وہی ساکت کھڑی تھی کتنی ہی دیر وہ یو ہی کھڑی رہی آنکھوں سے آنسوں نکلتے رہے تھے اتنے میں دروازہ بجنے کی آواز سے وہ حوش میں آئی تھی اور اس نے جلدی سے منہ پر گھونگٹ ڈالا تھا اور بیڈ پر بیٹھی تھی۔
۔۰۰۰۰۰۔