آج ذین اور نوشین کی شادی تھی ہر طرف خوشی کا ماحول تھا ماہین تو خوشی سے چھولے نہیں سما رہی تھی کیونکہ اسکا تو دو طرفہ رشتہ تھا ایک تھی اسکی بہن جیسی دوست اور ایک تھا سکا۔بھائی جیسا دیور ماہین نے آج کے دن کی۔بہت اچھے سے تیاری کی۔تھی وہ بس پارلر جانے کی تیاری کر رہی تھی اسے نوشین کے ساتھ پارلر جانا تھا نوشین کا بار بار فون آرہا تھا۔۔۔۔۔
زبیر جلدی سے مجھے نوشین کے پاس چھوڑ دیں مجھے اسکے ساتھ پالر جانا ہے تیار ہونے۔۔۔۔
ارے آپکوں پارلر جانے کی کیا ضرورت ہے آپ تو بغیر پارلر کے ہی غذب ڈھاتی ہیں۔۔۔۔۔۔وہ اسکے بال اسکے کان کے پیچھے شرارت سے بولا۔۔۔۔
ارے میرا تو تیار ہونا واجب ہے میرا تو ڈبل رشتہ ہے۔۔۔۔وہ زبیر کو دیکھ کر حیرت سے بولی۔۔۔
ہاں ہاں بات تو صحیح ہے آپکی۔۔۔۔
اچھا جلدی۔سے چھوڑ دیں نہ۔۔۔
اچھا چلو پھر میں بھی زبیر کے۔ساتھ سیلون جاؤں گا تھوڑی دیر میں۔۔۔
ماہین نے جلدی سے اپنا جوڑا اور جیلری پیک کی اور شال۔اوڑھنے لگی۔۔۔۔۔
زبیر ماہین کو پہلے نوشین کی طرف لے کر گیا پھر دونوں کو پالر چھوڑ گھر گھر آیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
او تو فائنلی آج آپ بھی دولہاں بن جائیں گے۔۔۔۔۔زبیر کے۔دوست آئے ہوئے تھے ان۔میں سے ایک شرارت سے بولا۔۔۔۔
تو تجھے۔کیا۔تکلیف ہے۔۔۔۔۔
نہیں میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ بس یہ کچھ ٹائم کی آزادی رہ گئ ہے آپ کی۔ٹھیک سے انجوائے کر لو ورنہ بعد میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے بات ادھوری چھوڑی اور ہنسنے لگا جس پر ذین نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔
ارے ہاں صحیح کہہ رہا ہے تو یہ ہمارےزبیر صاحب کو ہی دیکھ لو پہلے کیسے تھے اب تو بلکل جوروں کے غلام ہوگئے ہیں۔۔۔دوسرا والا زبیر پر ہنستا ہوا بولا۔۔۔۔
ارے جب تیری شادی ہوگی نہ پھر پوچھوں گا۔۔۔زبیر نے اسکے کان کھینچے تھے۔۔۔
آہ آہ آہ?!!!!!!پتہ نہیں کب ہوگی لگتا ہے ہم تو کنوارے ہی رہ جائیں گے۔۔۔۔وہ اپنے کان۔سہلاتا ہوا بولا۔۔۔۔
ارے تم دونوں ہی ٹھیک ہو بچیا پٹ گئ ہماری طرف تو کوئی دیکھتی ہی نہیں۔۔۔۔انکا ایک دوست خود پر افسوس کرتے کہنے لگا۔۔۔۔
بیٹا جیو کنوارے کھاؤ چھورارے۔۔۔۔۔۔ذین نے ان۔لوگوں کو کہا جس پر زبیر اور ذین ہنسنے لگے۔۔۔۔۔
چلو سیلون سب کے سب۔۔۔۔۔۔زبیر نے ان لوگوں سے کہا۔۔۔۔
پھر سب اپنے اپنے کپڑے پہنے لگے اور سیلون کے لیے نکل گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی حال۔۔
شادی حال بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا دلہن دولہاں لیے خاص جھولا لگایا گیا تھا جو بہت خوبصورت پھولوں سے سجا تھا بہت خوبصورت حال تھا دیواروں پر بہت خوبصورت پردے لگے تھے اور ہر جگہ ایل ای ڈیز لگی ہوئی تھی خاص دلہن دولہاں کی انٹری دیکھنے کے لئے ۔۔۔
ماہین نوشین کے ساتھ تیار ہوکر پارلر سے آگئ تھی اب اسے بارات لے کر حال پہنچنا تھا جہاں دلہن والے یعنی نوشین کی فیملی۔پہنچ چکی۔تھی۔۔۔۔
زبیر اور ذین کے ساتھ ان کے ماں باپ تو نہیں تھے لر ماہین کے ماں باپ ضرور تھے جو اب ز یر اور ذین کو اپنا بیٹا مانتے تھے اور اسکے نکاح میں بڑوں کے تمام فرض پورے کرنے تھے۔۔۔
بارات حال پہنچی اسکا استقبال گلاب کے پھولوں سے کیا گیا ذین کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا سکن کلر کی شیروانی اور مہرون کلر کا کلہ جو اسکے چمکتے ہوئے کلر پر بہت پیارا لگ رہا تھا زبیر نے بھی بلیک شیروانی ٹائپ کمیز شلوار پہنا وہ بھی بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا اور ماہین تو جب سے پارلر سے آئی تھی زبیر کی نظر اس پر سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی اسکے تمام دوست اسے اس بات پر بہت چھیڑ رہے تھے۔۔۔
ماہین نے پنک نیٹ کا فراک پہنا تھا بالوں کو اسٹولر بنا۔کر کھلا چھوڑ دیا گیا تھا اور آنکھوں لر اسموکی میک اپ کیا تھا اور ہلکی پنک لپ۔اسٹک ماہین نے کبھی اتنا میک اپ نہی کیا اس لیے وہ تھوڑی انکمفٹیبل تھی وہ زبیر سے بار بار یہ بات پوچھ رہی تھی کے وہ کیسی لگ رہی ہے اور ہر بار زبیر آنکھوں سے کچھ ایسا اشارہ کرتا کے وہ شرم سے لال ہوجاتی۔۔۔
ذین جیسے ہی حال میں پہنچا تو نوشین کو بھی اسکے ساتھ کھڑا کر دیا گیا وہ دونوں ایک حال میں آئے ساری لائٹس بند کر کے صرف ان پر لائٹس تھی دونوں ساتھ میں بہت حسینگ رہے تھے تمام دیکھنے والوں کے منہ سے بس یہی نکل رہا تھا۔میڈ فور ایچ ادر۔۔۔۔۔۔
دلہن دولہاں کے راستے سے لے کر اسٹیج تک بہت سے پوز لیے گئے جسے بہت سے کیمروں اور فوٹوں گرافرز نے اپنے کیمرے میں قید کیا ابھی بھی ان کے اسٹیج پر پوز بن رہے تھے ذین کی اتنی نذدیکی نوشین ما دل دھڑکا رہی تھی ذین بھی اسے محبت سے چور نظروں سے دیکھ رہا تھا۔کیونکہ وہ آج بلا کی۔حسین کوئی آسمان نے اتری پری لگ رہی تھی جو صرف اسکے لیے اتاری گئ تھی۔۔۔
نوشین نے ریڈ بہت حسین شرارہ پہنا تھا جس پر گرین اور کوپر کام تھا اسکے بالوں کا اونچا ہیر اسٹائل بنا کر اس پر دوپٹہ سیٹ کیا گیا تھا کچھ لٹے جو چہرے کو چار چاند لگا رہی تھی آنکھوں لر گھنی پلکوں کی چھاؤں اور ہونٹوں پر ریڈ لیپ اسٹک اور بہت خوبصورت جیولری جو اسکے حسن میں اضافہ کررہی تھی۔۔۔۔
نکاح شروع ہوا دونوں نے باری باری قبول کیا اور دستخط کیے نکاح کے چھورورے تقسیم کیے گئے کھانے کے بعد رخستی کا وقت آیا تو ہر آنکھ نم ہوگئ۔۔۔۔
ارے تم کیوں رو رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔زبیر ماہین کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بولا۔۔۔
کیونکہ رخستی ہورہی ہے۔۔۔۔وہ ہچکیاں لیتی ہوئی بولی۔۔۔۔
ارے کونسا وہ تمہیں چھوڑ کر جارہی ہے بلکہ ہمارے گہر ہی تو آرہی ہے۔۔۔
پر پھر بھی رونا تو آتا ہی ہے نہ کیونکہ کے سب رورہے ہیں۔۔۔۔۔وہ سوسو کرتی کہنے لگی زبیر اسکے معصوم سے جواب پر مسکرا دیا۔۔۔
سب لوگ احمد پیلس پہنچ چکے تھے ساری رسموں کے بعد نوشین کو ذین کے روم میں بٹھایا گیا۔۔۔۔۔
ذین اپنے دوستوں سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں جانے لگا تو اسکی اکلوتی سالی اسکے دروازے کے سامنے کھڑی تھی اور زبیر سائڈ میں کھڑا مسکرا رہاتھا۔۔۔
ذین نے دونوں کو باری باری حیرت سے دیکھا۔۔۔۔۔
ایسے کیا دیکھ رہے ہیں چلیں پیسے نکالیں۔۔۔۔ماہین ہاتھ آگے۔کرتی ہوئی بولی۔۔۔
کون سے پیسے۔۔۔۔۔وہ ہاتھ باندھتا ہوا بولا۔۔
آہ ہا!!!!!بڑے آئے معصوم جیسے ہی نہیں کونسے۔پیسے۔۔۔۔
ارے میں کونسا تین چار شادیاں کر چکا ہوں جو پتہ ہوگا۔۔۔
بس ایک کر لی کافی ہے پوری زندگی کے لیے۔۔۔۔چلیں اب پیسے نکالیں۔۔۔۔
اچھا۔۔۔دیتا ہوں۔۔۔ذین نے اسکے ہاتھ میں پانچ پانچ ہزار کے چار نوٹ دیے۔۔۔۔
بس بیس ہزار۔۔۔۔گھورتی ہوئی بولی۔۔۔۔زبیر ان۔دونوں کی باتوں پر ہنس رہا تھا۔۔۔
تو کتنے چاہیے۔۔۔۔
پورے پچاس ہزار۔۔۔۔۔ذین نے حیرت سے ماہین کو دیکھا جو لڑاکا عورتوں کی طرح کمر لر ہاتھ رکھ کے کھڑی تھی اور کسی قسم کی رعایت کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔۔
اچھا تھوڑا ڈسکاؤنٹ نہیں ملے گا۔۔۔
بلکل نہیں۔۔۔۔۔
ذین نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور ماہین کے ہاتھ پر تیس ہزار اور رکھے۔۔۔۔
کچھ سمجھایا کرو اپنی بیگم صاحبہ کو۔۔۔وہ زبیر سے بولا۔۔۔۔
کمرے میں جا کر اچھی طرح سمجھاتا ہوں ۔۔۔۔اسکی بات پر ماہین نے اسے گھورا تھا۔۔۔
زیادہ تنگ مت کرنا میری دوست کو۔۔۔۔۔ماہین ذین سے بولی پھر زبیر اسے کھینچ کر اپنے اپنے ساتھ لے گیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذین روم میں آیا اور دروزہ لاک کیا سامنے ہی نوشین نظریں نیچے کیے پھولوں سے سجے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
ذین آہستہ سے چلتا ہوا اسکے قریب گیا۔۔۔۔
اسلام علیکم۔۔۔اس نے بیڈ پر بیٹھ کر دھیرے سے سلام کا۔۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔اس نے گھونگھٹ میں ہی دھیرے سے جواب دیا آواز میں لرزش تھی جو ذین نے بخوبی محسوس کی۔۔۔۔۔
ذین نے دھیرے سے۔اسکا۔گھونگھٹ اٹھایا۔۔۔۔وہ نظریں نیچے کیے اپنے مہندی۔سے بھرے ہاتھ کی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔۔۔۔۔
ذین نے اسکا چہرہ اپر کیا اسکی نظریں ابھی بھی نیچے ہی تھی وہ اسکے۔خوبصورت چہرے کو دیکھ رہا تھا نوشین کی۔سانسیں اپر نیچے ہورہی تھی۔۔۔
میری طرف دیکھو۔۔۔۔۔۔وہ اسکے چہرے کو فوکس کر کے بولا۔۔۔۔۔
نوشین!!!!!!!اس نے بار پھر اسکا نام لیا نوشین نے نظر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا۔۔۔۔
اتنا گھبرا کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔۔وہ اسکی کمر پر بازوں ڈالتا ہوا بولا۔۔۔۔
وہ اسکے ہاتھ اپنی کمر پر محسوس کر کے مزید لرز گئ۔۔۔۔۔
بولو۔۔۔۔۔۔ذین دوبارہ سے بولا۔۔۔۔
ب۔۔۔۔بس۔۔۔ای۔ایسے ہی۔۔۔۔وہ گھبراتے ہوئے بولی۔۔۔۔
ریلکس میں کوئی بھوت نہیں جو تمہیں کھا جاؤں گا۔۔۔۔۔وہ شرارت سے بولا۔۔۔۔۔
اتنا ٹر ٹر کرنے والی لڑکی آج خاموش بیٹھی ہے واؤں۔۔۔وہ شرارت سے بولا جس لر نوشین نے اسے قاتلانہ نظروں سے گھورا۔۔۔۔۔اگر آپ مجھے ایسے تنگ کریں گے تو میں چینج کر کے سو جاؤں گی۔۔۔وہ چڑتی ہوئی بولی۔۔۔
اب تو ساری زندگی ایسے ہی تنگ کرونگا۔۔۔۔۔وہ اسکےکان کے ایر رنگ کو چھیڑتا ہوا بولا۔۔۔
جائیں۔میں جارہی چینج کرنے ۔۔۔۔وہ بیڈ سے اترنے لگی تھی جس پر ذین نے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔۔
اسکی اجازت میں تمہیں نہیں دیتا۔۔۔وہ اسے واپس بیٹھاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
ارے میری جان مزاق کررہا تھا تاکہ تم اپنے ٹیون میں واپس آجاؤں۔۔۔۔۔۔سوری۔۔۔وہ کان پکڑ کے بولا۔۔۔۔
نوشین نے نظر اس پر ڈالی اور مسکرادی۔۔۔۔
پیار کرتی ہو مجھ سے۔۔۔۔اس نے ایک انوکھا سا سوال کیا۔۔
اب بھی پوچھ رہے ہو۔۔۔۔وہ اسکی آنکھو میں دیکھتی بولی۔۔۔۔
آپ کے منہ سے سننا ہے اقرار محبت ۔۔۔۔۔
بہت پیار کرتی ہوں۔۔۔۔بہت زیادہ۔۔۔۔۔۔
وہ اسکی بات پر مسکرایہ۔۔۔
میں بھی بہت پیار کرتا ہوں۔۔وہ اسکا ہاتھ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
ذین نے سائڈ ٹیبل سے ایک خوبصورت بوکس نکالا اور نوشین کے ہاتھ میں دیا۔۔۔۔۔
آپکی منہ دکھائی ۔۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا بولا۔۔۔۔
نوشین نے اسے کھولا تو اس میں بہت خوبصورت سونے کی پازیب کا جوڑا تھا۔۔۔۔
بہت پیاری ہے ۔۔۔۔وہ بوکس دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔۔
آپ سے زیادہ نہیں۔۔۔۔وہ بوکس کو واپس رکھتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
مجھ پر بھروسہ ہے؟؟وہ اسکے دوپٹے سے پنے نکالتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
خود سے بھی زیادہ۔۔۔۔۔
وعدہ کرو ہمیشہ مجھ پر ایسے ہی اعتبار کرو گی۔۔۔۔۔۔
وعدہ ۔۔۔۔۔
کبھی مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی۔۔۔۔
وعدہ۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی مجھ سے نہیں لڑو گی۔۔۔وہ اسکا دوپٹہ اتار کر سائڈ پر رکھتا ہوا بولا۔۔۔۔
وعدہ۔۔۔۔۔
کبھی مجھے پیار کرنے سے نہیں روکو گی ۔۔۔اب وہ اسکی جیولری اتار رہا تھا۔۔۔۔
اسکی آخری بات پر نوشین نے گھورا۔۔۔۔۔۔ذین نے۔اسے دیکھ کر مسکرایہ۔۔۔۔۔
وہ اسکی تمام جیو لری اتار کر رکھ چکا تھا اب وہ اسکی چوڑیاں اتار رہا تھا۔۔۔
اس نے نوشین کو نرمی سےلٹایا اور اس پر جھکا نوشین کی سانسیں پھر سے تیز ہوگئ تھی ۔۔۔۔
وہ اسے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ماتھے سے ہونٹ ہٹا کر اسکے ناک کو چومتا ہوا اسکے ہونٹوں تک آیا۔۔۔۔۔نوشین اسکے ہونٹوں چھونے سے پہلے ہی آنکھیں زور سے بند کر گئ۔۔ذین اسکی اس حرکت یر مسکرایہ پھر اسکے ہونٹوں پر جھکتا اور اپنی پیاس بجھانے لگا۔۔۔۔
جب اسنے اسکے ہونٹوں کو آزادی دی تو وہ زور زور سے سانس لیتی اپنا چہرہ دوسری کر گئ ذین کو اسکی اس شرمانے کی ادا پر ٹوٹ کر پیار آیا۔۔۔۔اب وہ اسکی گردن اپنی ہونٹوں سے وار کررہا تھا۔۔۔۔۔نوشین نے دونوں ہاتھ سے چادر مٹھی میں دبائی تھی۔۔۔ذین اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر لائٹ بجھا گیا تھا اور انکا رشتہ ایک خوبصورت مقام پر پہنچ چکا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر!!!!!!!زبیر!!!!!!!ماہین زبیر کو ہلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
ماہین کیا ہوا۔۔۔۔۔اس نے نیند سے بھری نظروں سے ٹائم دیکھا پھر تو رات کے ایک بج رہے تھے پھر ماہین سے بولا۔۔۔۔
کیا ہوا تمہاری طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔۔۔وہ فکر مندی سے پوچھنے لگا۔۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔۔
پھرکیا ہوا ہے۔۔۔۔وہ تکیے میں منہ چھپائے کہنےلگا۔۔۔۔۔
زبیر اٹھے نہ۔۔۔وہ اسے واپس ہلاتے ہوئے بولی۔۔
جی۔جی۔۔۔
مجھے آئس کریم کھانی ہے۔۔اس نے انوکھی سی فرمائش کی۔۔۔۔
اس ٹائم؟زبیر کو جیسے حیرت ہوئی ۔۔۔۔
جی۔۔۔
تم نے مجھے اس ٹائم اس لیے اٹھایا ہے کہ تمہیں آئس کریم کھانی ہے۔۔۔۔
جی جلدی سے لادیں۔۔۔
ماہین یہ کیا بات ہوئی یار ابھی پرسوں تم نے مجھے رات کے دو بجے اٹھا کر گول گپے کھانے کی ضد کی میں ہر جگہ گول گپے تلاش کیے پھر ایک ریسٹورنٹ کھلوا کر لے کر آیا۔۔۔۔۔وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔۔۔
تو اب میں کیا کروں آپکا بچہ ہی مجھ سے ایسےچٹکارے مانگتا ہے۔۔۔وہ۔معصومیت سے بولی۔
اف!!!!!!لاتا۔ہوں۔۔۔۔وہ بیڈ سے نیچے اترا ۔۔۔۔
اچھا سنیں۔۔۔اسنے اسے واپس آواز دی ۔۔۔۔
جی کہیں۔۔۔۔۔وہ پلٹ کے بولا۔۔۔
چوکلیٹ فلیور لایےگا اور ایک نہیں دو لایے گا ورنہ پھر سے جانا ہوگا۔۔۔۔۔
وہ اسے اسکی فرمائش سن کے باہر نکل گیا۔۔۔۔
واپس آکر اسنے ماہین کے ہاتھ میں آئس کریم کے پیکٹ دیے اور تھکنے کے انداز میں بیڈ پر گرا۔۔۔
اب وہ ماہین کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا جو بچو کی آئس کریم کھا رہی تھی۔۔۔۔۔
ایسے مت دیکھے میں اپنی آئس کریم شیئر نہیں کرونگی ابر آپکوں کھانی تھی تو اپنی بھی لاتے۔۔۔۔۔وہ مسلسل اسے خود کو دیکھتا پا کر بولی اسکی بات پر زںیر کا قہقہہ بلند ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ذین اور نوشین کا ولیمہ تھا تیاریاں عروج پر تھی ماہین اور گھر کے باقی میمبرز نے نوشین کے گھر سے آیا ہوا ناشتہ کیا اسکے بعد وہ لوگ ولیمی کی تیاریوں میں جھٹ گئے تھے نوشین تھوڑی شرمائی شرمائی للگ رہی تھی یہ بات ماہین نے نہیں بلکہ گھر کے کافی میمبرز نے نوٹ کی تھی کل رات ذین کی شدت سے کی گئ گستاخیاں نوشین نے رات بھر برداشت کی تھی اسی وجہ سے وہ کافی تھکی ہوئی تھی پر اب تو وہ آرام ولیمے کے بعد ہی کر سکتی تھی۔۔
ماہین اور نوشین پارلر کے لیے نکلی چکی تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمہ سیرمنی۔۔۔
نوشین اور ذین اسٹیج پر بیٹھے تھے مہمان ان سے آکر مل رہے تھے اور مبارک باد دے رہے تھے نوشین آج کل سے زیاد خوبصورت لگ رہی تھی کیونکہ پیاملن کے روپ نے اس پر ایک الگ ہی نکھار ڈالا تھا سے اسکے چہرے کی خوشی جو اسکی۔چہرے کی شوخیوں میں جھلک رہی تھی ۔۔۔۔
نوشین نے پرپل میکسی پہنی ہوئی تھی جو پنک کنٹراس کے۔ساتھ تھی جس میں اسکا کھلتا ہوا کلر مزید کھل رہا تھا وہ بلکل ڈول جیسی لگ رہی تھی ذین بھی بلک کوٹ پینٹ میں کسی سے کم نہیں لگ رہا تھا تمام مہمانوں کے منہ سے ماشاءاللہ نکل رہا تھا۔
ماہین جو زبیر کے ساتھ ایک سائڈ میں کھڑی تھی زبیر کا دل دھڑکا رہی تھی اسکے چہرے کی خوشی اور ماں بننے کی وجہ سے ایک الگ ہی روپ تھا اسکے چہرے پر جو زبیر نے بخوبی نوٹ کیا تھا۔۔۔
ماہین نے بلو فراک پہنا تھا جس پر سی گرین کام تھا اور اس نے ساتھ میں سی گرین جھمکے اور ٹیکا لگایا ہوا تھا کھلے بالوں میں وہ قیامت ڈھارہی تھی۔۔۔۔
زبیر نے بھی بلو کوٹ پینٹ پہنا تھا جو ماہین کی فرمائش پر اس نے پہنا تھا کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ ولیمے پر وہ دونوں سیم کلر پہنے ۔۔۔۔۔۔
کھانا کھا لو تم بھی۔۔۔ماہین کو بولا جو اپنے دھیان نہیں دے لارہی تھی مہمانوں کی وجہ سے۔۔۔۔
ارے گھر کا فنگشن ہے میں اتنی جلدی کھانے بیٹھ جاؤں مہمان کیا کہیں گے۔۔
ارے کہنے دو جو بھی کہیں گے تم نے دوپہر سے کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔
زبیر ابھی کھا لوں گی نہ۔۔۔وہ التجایہ امداز میں بولی۔۔۔
نہیں تم ابھی کھاؤں ۔۔۔
اچھا ایک کام کریں آپ اسٹیج لر کھانا لگا دیں اور آپ بھی آجائیں ہم چاروں کھا لیں گے اس بہانے نوشین اور ذین بھائی بھی کھا لیں گیں وہ بھی بھوکی ہوگی۔۔
یار کب ختم ہوگا یہ فنگشن۔۔۔۔ذین نوشین کے کان میں بولا۔۔۔
کیوں؟وہ ذین کو دیکھ کے پوچھنے لگی۔۔۔
گھر جانا ہے۔وہ مسکراتہ ہوا بولا۔۔۔۔نوشین اسکی معنی خیزی بات پر اسے گھورنے لگی۔۔۔
بند کرو اپنا یہ کھلا رومینس گھر جا کر کرنا۔۔۔ماہین اسٹیج پر آکر بولی۔۔۔۔
دونوں ایک دم سے الگ ہوئے ۔۔۔۔۔کیا ماہین تم بھی۔۔۔۔ذین اسے دیکھ کر افسوس سے بولا۔۔
کمرہ کم پڑ گیا ہے کیا آپ لوگوں کی باتوں کے لیے۔۔۔۔
اب تم ایسے کرو گی۔۔۔۔۔
ہاں ایسا ہی کرونگی۔۔۔۔۔۔وہ ہسنتے ہوئے بولی۔۔۔
اتنے دیر میں زبیر نے کھانا لگوایا تو وہ کھانا کھانے لگے۔۔
ولیمہ کے فنکشن کا اختتام ہوا تو نوشین اپنے پیرینٹس کے گھر رکنے چلی گی جس سے ذین کے سپنوں پر پانی پھر گیا تھا اور زبیر اسکی حالت پر بار بار ہنس رہا تھا۔۔۔
زبیر ماہینا بہت خیال رکھ رہا تھا ماہین اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتی تھی جو اسکو زبیر جیسا شوہر ملا انکا رشتہ ان کے بچے کے آنے سے مکمل ہونے جارہا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ مہینے بعد۔۔۔۔۔
زبیر آئی سی یو کے باہر چکر لگا رہا تھا ماہین کی اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اسے ہسپتال لانا پڑا جبکہ ابھی ڈلیولری کی ڈیٹ نہیں آئی تھی نو شین اور ذین بھی وہی موجود تھی نرسے بھاگ بھاگ کر اندر باہر ہورہی تھی زبیر بہت زیادہ پریشان تھا نوشین بھی ماہین اور بیبی کی سلامتی کی دعا کررہی تھی۔۔
آدھے گھنٹا گزرا تھا کے زبیر کے کانوں میں میں ایک چھوٹے سے وجود کے رونے کی آواز گونجی تھی نوشین اور ذین بھی خوشی کی وجہ سے کھڑے ہوگئے تھے۔۔۔
زبیر کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔۔۔مبارک ہو بیٹا ہوا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر باہر آکر خوشی سے بولی۔۔۔
زبیر نے اسی ٹائم دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔۔۔۔۔
ڈاکٹر میری وائف۔۔۔
وہ بلکل ٹھیک ہیں ابھی بے حوش ہیں تھوڑی دیر میں حوش آجائیں گا تو مل لیے گا۔۔۔۔
میرا بیبی۔۔۔۔وہ بےتاب سا بولا
ابھی تھوڑی دیر میں لاتے ہیں۔۔۔۔
زبیر اپنے آنسو صاف کر کے ہاسپٹل سے باہر نکل گیا تھوڑی دیر میں لوٹا تو اسکے ہاتھ میں بہت سارے مٹھائی کے ڈبے تھے اس نے پورے ہاسپٹل میں مٹھائی تقسیم کی ذین نے زبیر کو اور نوشین کو کھلائی پھر نوشین نے بھی ذین کا منہ میٹھا کیا۔۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر نے ایک چھوٹا سا وجود زبیر کے ہاتھ میں دیا زبیر نے بہت احتیاط سے اسے پکڑا وہ آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے اپنے چھوٹے سے بیٹے کو دیکھ رہاتھا ۔۔۔
زبیر نے ماتھے پر بوسہ دیا جو اب اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرہا تھا نوشین اور زبیر بھی بہت خوش تھے ۔۔۔۔
آپکی وائف کو حوش آگیا ہے۔۔۔۔نرس باہر آکر بولی تھی۔۔۔
زبیر اندر آیا نوشین اور ذین بھی اندر آئے تھے۔۔۔۔سامنے ہی ماہین لیٹی ہوئی تھی زبیر اسکے قریب پہنچا ماہین نے کھسک کر اٹھنے کی کوشش کی تو اسے تھوڑی تکلیف ہوئی تھی پر وہ اٹھ کر بیٹھ چکی تھی۔۔۔
زبیر نے اس کے ہاتھ میں اسکا بیبی دیا ماہین کی آنکھوں مکں بھی آنسوں آچکے تھے ماہین نم آنکھوں سے ز بیر کو دیکھ رہی تھی دونوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔۔۔
مجھے بھی دو نہ بیبی۔۔۔۔نوشین نے ماہین سے بیبی لیا اور ذین کے پاس جا کر کھڑی ہوئی اسکے چہرے پر بوسہ دینے لگی اور خوشی سے ذین کی طرف دیکھا۔۔۔
کتنا کیوٹ ہے نہ۔۔۔۔وہ ذین سے بولی۔۔۔
ہمم ماشاءاللہ سے۔۔۔۔۔
جیجو اسکی آنکھیں اور ہونٹ بلکل آپ کے جیسے ہیں۔۔۔ماہین اسے دیکھتی ہوئی بولی۔۔
میرا بیٹا ہے تو میرے جیسا ہی ہوگا نہ۔۔۔۔۔وہ مسکراتہ ہوا بولا۔۔۔۔
تم بھی پریکٹس کر لو ابھی سے آگے تمہیں بھی ضرورت ہے۔۔۔۔ذین اسکے کان میں بولا تو وہ شرما گئ۔۔۔۔
ماہین بس ان لوگو ںی سرگوشیاں سن کر مسکرا رہی تھی۔۔۔۔
جیجو اسکا نام کیا رکھے گے کچھ سوچا ہے آپ نے۔۔۔۔
ہمم اسکا نام۔۔۔۔۔۔زبیر سوچنے لگا۔۔۔
آحد۔۔۔۔۔ماہین بولی۔۔۔۔میرے بیٹے کا نام ہے آحد ہوگا میں اپنے بیٹے کی تربیت اسلام اور سنت نبوی کی روشنی میں کرونگی۔۔۔۔۔
پیارا نام ہے۔۔۔۔۔
جی بہت پیارا نام ہے۔۔۔۔۔زبیر اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔۔۔
آحد بہت شرارتی تھا وہ اپنی ماما کو پورا دن نچاتا تھا کیونکہ اسکے پیر ایک جگہ ٹکتے نہیں تھے اب دیڑھ سال کا چکاتھا زبیر کی جان تھا ماہین جب بھی پوچھتی کہ بتاؤ آحد'"سب سے پیارا کون ہے"""پاپا میلے پاپا"""ماہین کا اس بات پر منہ بن جاتا کیونکہ وہ ہر بار یہی کہتا جس پر ماہین کا منہ پھول جاتا اور زبیر ہنسنے لگتا۔۔۔
ماہین پھر سے امید سے تھی اس بار نوشین بھی امید سے تھی دونوں کا تیسرا مہینہ تھا اللہ تعالی نے ماہین کو ایک پیاری سی گڑیا عطا کی جس پر ماہین نے اسکا بہت شکر ادا کیا زبیر بھی بہت خوش تھا کیونکہ انکی فیملی مکمل ہو چکی تھی نوشین کے بیٹا ہوا تھا ذین تو خوشی کے مارے بے حوش ہونے کے در پر تھا ان دونوں کی لائف مکمل۔ہوگئ تھی کیونکہ وہ اپنے ہمسفر کے ساتھ اپنی خوشحال زندگی گزار رہے تھے ماہین کو اندازہ نہی تھا کے وہ اجنبی سا شخص جو اسکی لائف میں زبردستی آیا تھا ایک دن اسکی زندگی بن جائے گا۔۔۔۔۔
The end۔۔۔۔۔