دونوں پیچھے کے دروزے کے طرف بھاگے۔۔۔۔
زبیر اور ذین پولیس کے کچھ آفیسرے ساتھ اپر کی طرف آرہا تھا زبیر کا دل نہ جانے کیوں بیٹھ رہا تھا وہ سیڑھیاں چڑھتا ہوا اپر آیا سامنے ہی ایک کمرا تھا وہ لوگ نیچے سب جگہ انہیں تلاش کر چکے تھے وہ نہیں ملی زبیر اسکے کمرے کی طرف بھاگہ ہی تھا کے اسکا پیر کسی وجود سے ٹکرایا اس نے نیچے کی طرف دیکھا اور وہی رک گیا۔۔
ماہین کا وجود خون۔میں لت پت پڑا تھا اسکے خون پھیل چکا تھا۔۔۔۔۔
ذین۔اور پولیس والے بھی یہ منظر دیکھ کر ساکت ہوگئے ۔۔۔۔۔۔
ماہین!!!!!ماہین!!!!!!کیا ہوا ہے تمیں۔۔۔وہ نیچے بیٹھ کر اسکا سر اپنی گود میں رکھتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
پولیس والے پیچھے کی طرف بھاگے زین بھی انکے ساتھ بھاگا تھا۔
ماہین۔۔۔اٹھو اٹھو پلیز ۔۔۔۔۔۔وہ باقاعدہ رونے لگا تھا۔۔۔
اگر تمہیں کچھ ہوا تو میں اس دنیا کو آگ لگا دونگا!!!!
اٹھو پلیز ۔۔وہ ماہین کا چہرہ تھپتھپانے لگا۔۔۔
ماہین کے وجود میں تھوڑی سی حرکت ہوئی تھی ماہین نے اپنی پلکے کھوی تھی تو سامنے اسکا زبیر اسے روتا بلکتا نظر آیا۔۔۔۔
ز۔۔۔۔۔زب۔۔۔۔زبیر۔۔۔۔۔میرا۔۔۔۔۔بچ۔۔بچہ۔۔۔وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر مشکل سے بولی ۔۔۔
زبیر اسکے الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔
بچہ۔۔۔۔زبیر اسکے ہاتھ کو دیکھتا ہوا بولا جو ابھی بھی پیٹ پر تھا۔۔۔زبیر کو اب سمجھ آیا ۔۔۔۔۔۔
آہ آہ آہ!!!!!!!!!!!!وہ قرب سے چیخا تھا ۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا تمہیں ۔۔۔۔نہ میرے بچے کو ۔۔۔بس سونا مت پلیز ۔۔۔میں وعدہ کرتا کچھ نہیں ہونے دنگا تم دونوں کو ۔۔۔۔وہ اسکے زخمی وجود کو اٹھا کر نیچے کی طرف بھاگا۔۔۔۔
ماہین اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اسکی پلکے بھاری ہورہی تھی وہ جیسے ہی آنکھیں بند کرتی زبیر اسے ہلا دیتا۔۔۔۔
سونا مت پلیز۔۔۔۔۔میں بچا لوں گا تم دونوں کو ۔۔۔بھروسہ ہے نہ مجھ پر۔۔۔۔۔ وہ اسے لے کر فارم ہاوس سے باہر آیا اور ماہین کو آگے کی طرف بیٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور گاڑی تیزی سے بھگائی ۔۔۔۔
زبیر گاڑی تیزی سے چلا رہا تھا وہ بار بار ماہین طرف دیکھتا اور پھر سامنے دیکھتا اسکی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے کتنی میں رہی ہوگی وہ اپنے بچے کو بچانے کی کوشش میں۔۔۔وہ سوچتے ہوئے رورہا تھا۔۔۔
زبیر نے ماہین پر نظر ماری اس بار اسکی نظر ماہین کی پھٹی ہوئی کمیز گئ اسکی آنکھوں میں خون اترنے لگا تھا۔۔
ملک!!!!!!!!!!تو میری بیوی کو چھونے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔میں تجھے وہاں درد دونگا جہاں تجھے سب سے زیادہ تکلیف ہو۔۔۔۔۔
زبیر ہاسپٹل پہنچا ماہین کو اٹھا کے اندر کی طرف بھاگا۔۔۔
ڈاکٹر!!!!!!!ڈاکٹر!!!!!!وہ اندر آتے ہی پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔۔۔سب اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔۔۔۔
ڈاکٹر!!!!کہاں مر گئے سب ۔۔۔۔اگر میری بیوی کو کچھ ہوا تو میں بند کروا دونگا یہ ہاسپٹل۔۔۔۔۔وہ چیخا تو وارڈ بوائے بھاگتا ہوا آیا تو زبیر نے اسے اسٹریچر پر لٹایا تھا۔۔۔
ڈاکٹر کہاں مرگیا۔۔۔۔ڈاکٹر!!!!!!
کیا ہوا ہے انہیں اندر لے کر آئیں۔آپ۔۔۔ڈاکٹر اور نرسیں ماہین کو آئی سی یو میں لے کر گئے تھے۔۔
زبیر باہر چکر لگا رہا تھا ہر باہر آنے والی اور اندر جانے والی نرس سے ماہین کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔۔
ذین ہاسپٹل آیا تو سآمنے ہی زبیر چکر کاٹ رہا تھا۔۔۔۔
ملک ہاتھ سے نکل۔گیا زبیر۔۔۔۔وہ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔۔
اب میں اس ملک کے وہاں وار کروں گا جہاں اسے سب سے زیادہ تکلیف ہوں تو بس وہ کر جو میں بولتا ہوں۔۔۔۔
زبیر نے ذین کو سمجھایا اسے کیا کرنا ہے۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔۔پر ابھی پہلے ماہین کی سلامتی کی خبر آجائے پھر جاتا ہوں۔۔۔
کافی دیر گزر چکی تھی ڈاکٹر کو اندر گئے ۔۔۔زبیر کا دل بے چین تھاذین بھی بہت پریشان تھا۔۔۔
ماہین۔ٹھیک تو ہے زبیر کیا ہوا ہے ماہین کو وہ ٹھیک ہے نہ۔۔۔نوشین زبیر کے سنے آکر بولی تھی وہ بہت گھبرائ ہوئ تھی۔۔۔۔
زبیر کے منہ سے اک الفاظ بھی نہیں نکلا۔۔۔
نوشین ماہین ٹھیک ہوجائے گی ابھی تم رو مت پلز۔۔۔۔۔ذین اسکا۔ہاتھ پکڑتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
ذین وہ اس حالت میں نہیں تھی جو اتنی تکلیف برداشت کر سکیں۔۔۔۔۔وہ پیڈنینٹ تھی خدا نہ خواسطہ اسکے بےبی کو کچھ ہو گیا تو وہ برداشت نہیں کر پائے گی۔۔۔۔۔۔۔نوشین روتے ہوئی بولی۔۔۔
تم جانتی تھی وہ پریڈنینٹ ہے۔۔۔زبیر اسکے سامنے آتا ہوا بولا۔۔۔۔نوشین نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔۔
تو مجھے کیوں نہیں بتایا نہ تم نے نہ اس نے!!!!وہ دھاڑا تھا۔۔۔۔
زبیر وہ تمہیں بتانی ہی والی تھی آج اور دیکھوں یہ سب ہوگیا۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوگا اسے نہ میرے بچے کو۔۔۔۔وہ آنسو صاف کرتا ہوا بولا۔۔۔۔
اتنے میں آئ سی یو کا دروزہ کھلا۔تھا اور ڈاکٹر باہر آئی تھا۔۔۔۔
ڈاکٹر میری بیوی ٹھیک ہے نہ۔۔۔۔زبیر امید بھری نظروں سے دیکھ کر بولا تھا۔۔۔نوشین اور ذین بھی اسی طرح ڈاکٹر کے جواب کا ویٹ کرہے تھے۔۔۔
دیکھیے گولی ہم نے نکال دی ہے پرانکا خون کافی بہہ گیا ہے اور اپر سے انکا۔خون بی او نیگیٹو ہے آپ ان کے ماں باپ کو فوراً بلائیں ان میں سے کسی ایک کا خون ضرور میچ کرے گا انہیں جب تک ہم بلڈ بینک سے رابطہ کرہے ہے۔۔۔شاید وہاں سے مل جائے ۔۔۔۔
پر ڈاکٹر وہ تو کراچی میں ہیں انہیں آنے میں تو ٹائم لگے گا۔۔۔۔۔
نہیں نہیں انہیں خون کی فوری ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ہم بلڈ بینک سے انتظام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔
ڈاکٹر۔۔۔۔۔میرا۔۔۔۔۔بچہ ٹھیک۔۔۔۔ہے۔۔اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔۔۔
جی ابھی تک تو ٹھیک ہے پر اگر خون نہیں ملا۔تو دونوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔۔۔ڈاکٹر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔۔۔
ایک گھنٹا گزر چکا تھازبیر نے اپنے سارے دوستوں سے رابطہ کرلیا تھا نوشین بھی اپنی یونی کی تمام دوستوں سے پوچھ چکی تھی پر خون ابھی تک نہیں ملا تھا زبیرکی حالت بری ہو رہی تھی ذین گھر کے تمام سروینٹس سے پتہ کرچکا تھا پر خون کا انتظام نہیں ہوا۔۔۔۔
مبارک ہو خون مل گیا ہے۔۔۔۔نرس نے ان لوگوں کو بتایا سب کی جان میں جان آئی تھی۔۔۔
نرس میری وائف اور میرا بچہ ٹھیک ہے۔۔۔۔زبیر اندر سے باہر آنے والی نرس سے بولا۔۔۔۔
جی انہیں خون دیا جارہا ہے ماں اور بچہ دونوں خطرے سے باہر ہے۔۔۔۔۔۔
زبیر کے جیسے رکی سانس اب بحال ہوئی تھی نوشین اور زبیر نے بھی الله کا شکر ادا کیا۔۔۔۔
یہ فیس پے کردیں۔۔۔۔نرس زبیر کو پرچہ دینے لگی۔۔۔۔
میں پے کردیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ذین پرچہ لیتا ہوا ریسپشن کی طرف چلا گیا۔۔۔۔
زبیر میں جارہا ہوں۔۔۔۔رات تک تمہارا کام ہوجائے گا۔۔۔۔ذین زبیر کو کہتا ہوا نکل گیا۔۔۔
زبیر ماہین کو دروزے سے جھانک کے دیکھ رہا تھا اسے ماہین کو اس حالت میں دیکھ کر بہت تکلیف ہورہی تھی۔۔۔۔۔
نرس میری وائف کو ہوش آیا۔۔۔۔
نہیں ابھی تک نہیں آیا۔۔۔۔۔نرس کہتے ہوئے آگے بڑھ گئ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔رات کے آٹھ بج چکے تھے زبیر اور نوشین وہی بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔
نوشین تمہیں ہاسٹل چلے جانا چاہیے۔۔۔۔ذبیر نوشین کو دیکھتا ہوا بولا جو بے چاری ہاسپٹل کے ماحول سے پریشان سی لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
نہیں۔نہیں میں ماہین کو چھوڑ کے کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔
نوشین تم کب تک ایسے پریشان رہاں گی۔۔۔
میں اپنی بہن جیسی دوست کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے پھر کچھ کھا لو جا کے تم جب سے آئی ہو کچھ نہیں کھایا تم نے۔۔۔
آپ نے بھی تو کچھ نہیں کھایا جیجوں۔۔۔
مجھے بھوک نہیں۔ہے۔۔۔۔وہ منہ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔۔۔
میں کچھ لاتی ہوں کھانے کے لیے۔۔۔۔نوشین کینٹین کی طرف گئ۔۔۔۔
جیجوں یہ کھا لیں پلیز۔۔۔وہ اسکے ہاتھ میں سینوچ دینے لگی۔۔۔
نوشین مجھے بھوک نہیں ہے پلیز۔۔۔۔
جیجو پلیز کھا لیں ۔۔۔
نوشین جب تک ماہین حوش میں نہیں آتی میں کچھ نہیں کھاؤں گا۔۔۔۔
آپکی وائف کو حوش آگیا ہے آپ مل سکتے ہیں۔۔نرس زبیر اور نوشین کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔انکے چہرے پر خوشی کی اک لہر دوڑ گئ تھی۔۔۔۔
ماہین کو ابھی بھی آکسیجن لگا ہوا وہ ابھی بھی نیم بے ہوش تھی جب زبیر اسکے قریب بیٹھ کر نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا وہ مضبوط سامرد جو آج تک کبھی نہیں رویا تھا اس نازک سی لڑکی کی وجہ سے بہت رویا تھا۔۔۔۔
زبیر نے ماہین کا ہاتھ پکڑا تو وہ زبیر کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
زب۔۔۔زب۔۔۔ماہین آکسیجن۔کے ساتھ کچھ بولنے کی کوشش کررہی تھی زبیر اسکی ٹینشن سمجھ چکا تھا۔۔۔۔
سب ٹھیک ہے ٹینشن مت لو ۔۔وہ اسکا ہاتھ چومتا ہوا بولا۔۔۔۔
ماہین کی آنکھوں سے دو آنسو گرے تھے۔۔۔۔
جیجو اب تو کچھ کھا لیں ۔۔۔۔۔نوشین زبیر کو کہنے لگی۔۔
زبیر اور نوشین نے تھوڑا سا سینوچ کھایا تھا۔۔۔۔
رات نوں بجے کے قریب ذین واپس آیا تھا۔۔۔۔۔
زبیر نے اسے ملک کی فیملی کی انفارمیشن لینے کے لیے بھیجا تھا ۔۔۔۔
زبیر ملک کی بیوی اسلام آباد میں رہتی ہے اسکا ایک اکلوتا بیٹا ہے بارہ سال کا جو اکسفرڈ اسکول میں پڑھتا ہے ملک نے اپنی بیوی کو چھپا کر رکھا۔ہوا ہے آج تک کسی کو نہیں پتا تھا کہاں رہتی ہے۔۔۔۔۔
ملک۔کو جھٹکا دینے کا ٹائم آگیا ۔۔۔۔۔
زبیر ماہین کے پاس گیا اور اسکا ہاتھ پکڑا تھا۔۔۔۔۔
میں جارہا ہوں جس نے تمہاری آنکھوں میں آنسو دیے اسے خون کے آنسو رلانے کا۔ٹائم آگیا ہے۔۔۔۔۔وہ ماہین کے بے حوش وجود پر ڈالتا ہوا باہر نکل گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھ!!!!!!!اٹھ صبح کے نو بج گئے ہیں ملک ۔۔۔۔جانا نہیں ہے کیا وہ زبیر کسی بھی ٹائم یہاں آجائگا۔۔۔۔۔ملک کا دوست سوئے ہوئے ملک کو اٹھاتے ہوئے بولنے لگا۔۔۔۔
ابے کیا ہے کیوں دماغ خراب کر رہا ہے۔۔۔وہ نیند سے بھری آنکھوں سے اسے گھورنے لگا۔۔۔
تو بیٹا جتنے آرام۔سے ہے نہ اتنا ہی پچھتانہ پڑے گا تو نے زبیر احمد کی بیوی کو گولی ماری ہے وہ تجھے جہنم سے بھی ڈھونڈ نکالے گا۔۔۔
ملک کی نیند اسکی باتوں سے چھو ہوچکی تھی واقعی زبیر کچھ بھی کر سکتا ہے اسے بھی اب ٹینشن ہورہی تھی۔۔۔تو نے ٹکٹ کرائے ؟؟
ہاں رات بارہ بجے کی۔۔۔۔
پر میری بیوی اور میرے بچے۔۔۔
ارے انہیں کونسا زبیر جانتا ہے۔۔بعد میں بلوا لیں گے ابھی تو ہماری جان کا خطرے میں ہے۔۔۔۔
ٹھیک ہے یار۔۔۔۔۔۔
رات کے سات بج چکے تھے ملک نے اپنی بیوی کو فون کر کے بتا یا تھا کے وہ کچھ دن کے لیے باہر جارہا ہے۔۔۔۔
ایک گھنٹے بعد ملک کا فون بجا تھا۔۔۔۔ہیلو بتایا تو ہے کے کچھ دن کے لیے جارہا ہوں کچھ دن میں آجاؤں گا اب بار بار فون کیو کررہی ہو۔۔۔۔۔ملک۔چیختا ہوا بولا۔۔۔۔
پاپا۔۔۔۔۔پاپا ہیلپ۔۔پلیز۔۔۔۔ملک کا بیٹا موبائل پر روتے ہوئے بولا ملک کی سٹی گم ہوگئ تھی اپنے بیٹے کی آواز پر۔۔۔
نعمان کیا ہوا بیٹا۔۔۔ملک گھبرایا ہو ا بولا۔۔۔۔
پاپا مجھے بچا لو پاپا پلیز۔۔۔۔نعمان!!!!!!!!ملک چیخا تھا۔۔
کیاہوا ؟ملک کا دوست اسے چیختا دیکھ کے پوچھنے لگا۔۔۔۔۔۔
کیسا لگا میرا سرپرائز ؟؟؟؟زبیر کی آواز سے ملک کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔۔۔
ز۔۔۔۔زب۔۔زبیر ۔۔۔ملک کے منہ سے ٹوٹے ٹوٹے الفاظ نکلے۔۔۔۔
مار دوں تیرے اکلوتے بیٹے کو۔۔۔۔۔۔
زبیر نہیں پلیز اسے۔۔۔کچھ مت کرنا۔۔۔۔۔
اسے کوئی نہیں بچانے والا مجھ سے۔۔۔
زبیر میرے بچے کو کچھ مت کرنا ملک روتا ہوا بولا ۔۔۔
تیرا بچہ ۔۔۔۔۔او تیرا۔۔۔۔بچہ۔۔۔۔۔اور میری بیوی اور میرا بچہ جسے تو نے گولی ماری وہ میری بیوی تھی یو باسٹرڈ!!!!!!!وہ زور سے دھاڑا تھا۔۔۔۔۔
زبیر مجھے معاف کردے پلیز میرے بچے کو چھوڑ دے۔۔۔۔۔
گیارہ بجے تک میرے اڈے پر پہنچ جا ورنہ تیرے بچے کی لاش کتوں کو ڈال دونگا۔۔۔۔اس نے کہنے کے ساتھ فون بند کردیا۔۔
ملک اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے زبیر کے اڈے پر پہنچا تھا اسے خوف تو بہت تھا پر اپنے ںیٹے کی وجہ سے اسے ایسا کرنا پڑا۔۔۔
آئیے۔۔۔آئیے۔۔آپ کا ہی انتظار تھا۔ملک جیسے ہی گیٹ تک آیا تو زبیر کےآدمی اسے گھسیٹ کر اپر تک لے کر آئے ۔۔۔۔
ملک نے اپنی بیوی پر نظر ماری ۔۔۔۔۔جو بیٹھی ہوئی رورہی تھی اور نعمان زبیر کے پاس بیٹھا رورہا تھا۔۔
ہاں تو یہ بتاؤ صرف تمہیں ماروں یا تمہاری بیوی اور بچے کو بھی۔۔۔۔زبیر گن نکالتا ہوا بولا۔۔۔
ذین زبیر کی طرف دیکھ رہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کے زبیر کوئی خون خرابہ کرے۔۔۔
ویسے میں نے تیری بیوی کو ہاتھ بھی نہیں لگایا اور مجھے کوئی شوق بھی نہیں پر میرے یہ آدمی۔یہ کام۔بڑے شوق سے کریں گے۔۔۔
زبیر پلیز میری بیوی اور بچے کو جانے دو جو کرنا ہے میرے ساتھ کرو پر انھیں جانے دو۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ روتا ہوا بولا۔۔۔
یہ دنیا ہے ملک۔یہاں حساب دینا پڑتا ہے ایک ہاتھ کرو ایک ہاتھ بھروں جب تو نے میری۔معصوم بیوی پر رحم نہی کیا تو مجھ سے کیوں امید رکھ رہا ہے تو۔۔۔۔وہ گن اسکے بیٹے کی طرف کرتا ہوا بولا۔۔۔۔
پاپا۔۔۔۔پاپا۔۔۔۔۔۔۔اسکا بچا بلک بلک کے رونے لگا۔۔۔
پلیز میرے بچے کو چھوڑ دو وہ معصوم ہے اس نے کچھ نہیں کیا۔اسکی بیوی زبیر کے سامنے گڑگڑانے لگی۔۔۔۔۔
پلیز زبیر میں خود کو پولیس کے حوالے کردونگا پر میرے بیوی بچے کو چھوڑ دو۔۔۔۔
تجھے سزا تو میں خود دونگا۔۔۔وہ اسکی جانب بڑھا۔۔۔۔۔
تو نے ماہین کی چھونے کی کوشش کی تھی نہ۔۔۔۔وہ اسکےآ منہ کے اندر گن کرتا ہوا بولا۔۔۔۔ملک کا بیٹا اور بیوی رونے لگی تھی۔۔۔۔
زبیر!!!!!!!زین نے آکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا جو اس وقت آپے سے باہر ہورہا تھا۔۔۔
زبیر اسکو پولیس کے حوالے کردو پر تم اپنے ہاتھ گندے مت کرو۔۔۔۔۔۔ذین زبیر کو ٹھنڈا کرنے۔کی کوشش کرنے لگا۔۔۔
نہیں اسکو سزا میں دونگا اور اپنے ہاتھوں سے دونگا۔۔۔۔۔۔وہ ملک کی طرف بڑھ رہا۔تھا۔۔۔۔
زبیر پلیز۔۔۔۔زبیر ۔۔۔۔مجھے مت مارنا۔۔۔۔وہ پیچھے قدم لیتا ہوا بولا۔۔۔
تو نے اسے چھونے کی۔کوشش کی تھی نہ ان ہاتھوں سے ۔۔۔۔وہ اسکے ہاتھ کی طرف بندوق کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
پلیز مت مارنا مجھے پلیز۔۔۔
آہ آہ آہ!!!!!!!!!!ااسکی چیخ نکلی تھی جب زبیر نے اسکے سیدھے ہاتھ پر گولی ماری۔۔۔۔۔
پاپا۔۔۔پاپا۔۔۔اسکے بیٹا آگے بڑھنے لگا تو اسکی۔ماں نے روتے ہوئے اسے روک لیا۔۔۔۔
آہ آہ آہ!!!!!!!!!!زبیر نے اسکے دوسرے ہاتھ میں گولی ماری ۔۔۔۔۔۔
چھوڑ دے اسے پولیس کے ہوالے کر دے ۔۔۔۔ذین۔آگے آکر بولا پر زبیر پر تو جیسے خون سوار تھا ملک کے دونوں بازوؤں میں گولی لگی تھی وہ بلک رہا۔تھا۔۔۔
زبیر ملک کے پاس پہنچا اور اسے بالوں سے پکڑ کر اپر اٹھایا۔۔۔
بہت تکلیف ہورہی ہے نہ اسے بھی اتنی ہی تکلیف ہوئی ہوگی ارے اسے تو اس ٹائم بھی اپنی نہیں اپنے بچے کی فکر تھی۔۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔
رحم کرو مجھ پر۔۔۔۔ملک۔گڑگڑانے لگا۔۔۔۔۔رحم کروں تجھ پر تجھ پر رحم کروں ارے تو نے تو اس عورت پر رحم نہیں کیا جو ماں بننے والی تھی اور تجھ سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔۔۔۔۔زبیر نم آنکھوں سے بولا۔۔۔
معاف کردو۔۔۔۔
نہیں کر سکتا میں معاف سمجھا تو نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔۔اسنے اپنے۔آنسو صاف کیے اور اس سے دور ہوا
زبیر نہیں۔پلیز نہیں۔۔۔۔۔۔آہ آہ آہ!!!!!!!اس نے اس کندھے سے تھوڑا نیچے گولی۔ماری۔۔۔۔
زبیر ماہین کو ہوش آچکا ہوگا وہ تجھے بلا رہی ہوگی چل ہاسپٹل چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ذین نے آخری کوشش کی تھی۔۔۔۔
انکل۔پلیز میرے۔پاپا کو مت ماریں ۔۔۔پلیز انکل۔چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔۔ملک۔کا۔بچہ اسکے سامنے۔روتا ہوا بولا۔۔۔
پلیز چھوڑ دو آپ۔میرے چھوٹے بھائیوں جیسے ہو انہیں چاہے پولیس کے حوالے کردو پر میرے بچے کو یتیم مت کرو۔۔۔۔۔ملک کی بیوی اسکے سامنے ہاتھ جوڑنےلگی۔۔۔زبیر کبھی اسکے بچے کو کبھی اسکی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
میں نے پولیس کو فون کردیا ہے وہ بس آرہی بس اب تم کچھ نہیں کہوں گے۔۔۔۔ذین۔جیسے آرڈر دیتا ہوا بولا۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں پولیس پہنچ چکی تھی انہوں نے ملک۔کے زخمی وجود کو اٹھایا ۔۔
زبیر سر آپ کچھ نے۔قانون کو ہاتھ میں کیوں لیا اس کے لیے اپ پر قانونی کاروائی ہوسکتی ہے۔۔۔۔پولیس اسپیکٹر زبیر کےسامنے آکر بولا۔۔۔
ہمیں نہیں کرنی۔کوئی کاروائی آپ انہیں چھوڑ دیں۔۔۔۔۔۔۔۔ملک کی بیوی پولیس والے سے بولنے لگی زبیر نے حیرت سے اسکی۔طرف دیکھا۔۔۔
اوکے۔۔۔پولیس والے یہ کہہ کر واپس چلے گے۔۔۔۔
آپ نے مجھے کیوں بچایا۔زبیر نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
آپ نے میری بات مانی اور انھیں مارا نہیں اسلیے اور ویسے بھی انھوں نے آپ کے ساتھ برا کیا تھا سزا تو ملنی تھی انہیں۔۔۔۔
شکریہ۔۔۔۔۔
ذین!!!!!!!
ہاں۔۔۔۔
انہیں اسلام آباد کی گاڑی میں بیٹھا دو حفاظت سے۔۔۔۔۔زںیر نے ذین کی طرف منہ کر کے کہا۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔
زبیر وہاں سے نکل کر سیدھا ہاسپٹل پہنچا تو ماہین کو ہوش آچکا تھا اس کے ماں باپ اور نوشین کے ماں باپ بھی وہاں پہنچ چکے تھے ماہین نے زبیر کی طرف دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنی طرف بلایا زبیر اسکے پاس جا کے بیٹھ گیا۔۔۔
تھینکس اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے۔۔۔۔ماہین اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی ہوئی بوئی بولی۔۔۔۔۔۔
اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو میں اس دنیا کو آگ لگا دیتا۔۔۔۔۔وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا آنکھوں میں غصہ تھا۔۔۔۔
ششش۔۔۔۔چپ۔۔۔۔۔اب تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔۔۔۔وہ اسکے ہونٹوں پر انگلتی۔رکھتی ہوئی بولی۔۔۔۔
ماہین۔۔۔۔۔۔۔
زبیر پلیز وعدہ کرو مجھ سے تم آج سے کوئی غلط کام کوئی مارا ماری نہیں کروگے چھوڑ دوگے یہ سب وعدہ کرو ۔۔۔۔وہ روتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔
ماہین میری کام ہے یہ۔۔۔۔
نہیں تم ایسا کوئی کام نہیں کرو گے آج میں جس سے تمہاری اور میری جان کو خطرہ ہو مجھے سکون کی زندگی چاہیے جہاں تم میں اور ہمارا بچہ سکون سے رہہیں۔۔۔
اچھا رونا بند کرو میں وعدہ کرتا ہوں تم سے۔۔۔۔وہ اسکے آنسو نرمی سے صاف کرتا ہوا بولا ۔۔۔۔
ماہین اسکی بات پر مسکرائی تھی باقی سب کی آنکھیں ان دونوں کو دیکھ کر نم ہوگئ تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو مہینے بعد۔
گھر میں افرتفری مچی ہوئی تھی ہر طرف تیاریاں ہورہی تھی احمد پیلس کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا کیونکہ آج نوشین اور ذین کی مایوں تھی ۔۔۔۔۔
ماہین کچھ کھا لو بیٹا تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا۔۔۔۔زاہدہ بیگم ماہین کی طرف فروٹ کی پلیٹ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
ماما پلیز مجھے ابھی بھوک نہیں۔۔۔۔ماہین جو ڈریسنگ کے سامنے کھڑی تھی کان میں ایررنگ پہنتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔
بیٹا تم کیوں اپنی کیر نہیں کرہی تم اب اکیلی نہیں تمہارے ساتھ ایک اور بھی جان ہے اپر سے ایک تو شادی کی افرا تفری اور تم بھی اپنا خیال نہیں رکھ رہی۔۔۔۔۔زاہدہ بیگم اسے تقریباً ڈانٹنے لگی تھی۔۔۔۔
اچھا نہ میری پیاری ماما آپ رکھ دیں میں تھوڑی دیر میں کھا لوگی۔۔۔۔وہ انکے گال کھینچتی ہوئ بولی۔۔۔۔
تم ایسے نہیں مانو گی نہ ابھی اسکو بھیجتی ہوں جس کی بات تمہیں سمجھ آتی ہے۔۔۔وہ اسے دھمکی دیتی ہوئی باہر نکل گئ۔۔
ماما پلیز زبیر کو مت بولی۔!!!!!!!ماما!!!!ماہین پیچھے سے چیختے ہوئی بولی۔۔۔
زبیر کمرے میں آیا تو اسکے قدم وہی تھم گئ ماہین کو دیکھ کر ۔۔
اس نے یلو کلر کا پٹیالہ سوٹ پہنا ہوا تھا بالوں کا اونچا پف بنا کر اسکی چٹیا کر کے آگے کی ہوئی تھی کچھ لٹے چہرے پر آرہی تھی اور گلاب کے پھولوں کی جیولری پہن کر وہ خود بھی ایک گلاب لگ رہی تھی ہلکا سا میک اپ جو اسکے معصوم سے چہرے پر بہت پیارا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
زبیر!!!!!زبیر!!!!!!زبیر جو ماہین کو دیکھ کر کھو سا گیا تھا ماہین کی آواز سے ہوش میں آیا۔۔۔۔
ارے آج تو میری ڈال بجلیاں گر رہی ہے کیا قتل کا ارادہ ہے ۔۔۔۔وہ اسکے کمر پر بازوں ڈال کر شرارت سے بولا۔۔۔۔
سوچ رہا ہوں آج ہم نیچے ہی نہیں جاتے۔۔
کیوں؟ماہین نے تعجب سے پوچھا۔۔۔۔
تمہاری ادائیں مجھے اس بات کی اجازت ہی نہیں دیں رہی۔۔۔
چپ بے شرم انسان۔۔۔۔
ارے ابھی کہاں دکھائی ہے بے شرمی وہ تو رات کو دکھاؤں گا۔۔۔اس نے ماہین کے گال کو اپنے ہونٹوں سے چھوا۔۔۔
زبیر پلیز تنگ مت کریں۔۔۔۔
ہاں تنگ کرنے سے یاد آیا تم کیوں میری مدر ان لو کو اتنا تنگ کررہی ہوں۔۔۔وہ اسے گھونے لگا۔۔۔
زبیر میں نے کیا کیا۔۔۔۔۔وہ معصوم بنتی ہوئی بولی۔۔۔۔
ابھی بتاتا ہوا اس نے فرٹ کی پلیٹ اس کے سامنے کی جو ویسے ہی بھری پڑی تھی۔۔۔
زبیر میں بس کھانے والی تھی۔۔۔وہ تھوک نگلتی ہوئی بولی۔۔۔۔
ماہین میری بات غور سے سن لو میں تمیں کسی قسم کی بے احتیاطی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہوں تمہیں اپنے کھانےپینے کا خیال رکھنا ورنہ میں تمہیں نیچے آنے کی اجازت نہیں دونگا۔۔۔۔۔۔زبیر انتہائی سنجیدہ انداز میں بولا۔
اب یہ فروٹ جلدی فنش کرو۔۔۔۔اس نے حکم دیا۔۔۔۔۔۔
ماہین منہ پھلائے فروٹ کی پلیٹ لے کر اس میں سے آہستہ آہستہ کھانےلگی۔۔۔۔۔
بس اور نہیں کھا سکتی۔۔۔۔وہ تھوڑا سا کھا کر منہ بنانے لگی
نہیں پورا کھاؤ۔۔۔۔۔۔وہ ہاتھ باندھتا ہوا بولا۔۔۔
ماہین پھر سے تھوڑا تھوڑا کھانے لگی۔۔۔
بس اب اگر اور کھایا تو الٹی ہوجائے گی۔۔۔۔۔ماہین رونے والا منہ بنائے ہوئے بولی۔۔۔۔
اچھا چلو تم میں ذین کو دیکھ کر آتا ہوں۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذین شیشے کے سامنے تیار ہورہا تھا اس نے سفید شلوار کمیز کا سوٹ پہنا تھا گلے میں یلو کلر کی چوندری تھی ۔۔۔۔۔
زبیر کمرے میں آیا تو ذین کو ڈریسنگ کے سامنے مسکراتہ ہوا دیکھا۔۔۔۔
کیا بات ہے ۔۔۔وہ مسکراتہ ہوا آگے بڑھا۔۔۔۔
کیسا لگ رہا ہوں۔۔۔
بلکل شہزادہ۔۔۔۔۔
ریلی۔۔۔ذین نے آگے بڑھ کے زبیر کو گلے لگایا۔۔۔
مایوں کا فنگشن شروع ہو چکا تھا نوشین اور زین اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے سب باری باری رسم کررہے تھے۔۔۔
نوشین نے اورنج اور گرین غرارے کا سوٹ پہنا تھا جسکا دوپٹا اور غرارہ گرین تھا اور شرٹ اورنج تھی پھولوں کی جیلری اور اسکے کھلے بال جو آگے کی طرف پھیلے ہوئے تھے اور میک اپ میں وہ برابر میں بیٹھے ذین کا دل دھڑکا رہی تھی۔۔۔۔۔
بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔۔وہ اسکے کان کے قریب بولا۔۔۔
نوشین اسکی بات پر سرخ ہوئ تھی۔۔۔۔۔۔
ارے ایسے مت شرماؤں آج ایسے شرماؤں گی تو کل کیا ہوگا۔۔۔۔۔وہ سرارت سےبولا جس پر نوشین نے اسے گھور کے دیکھا۔۔۔۔۔
ایکسکوز می لو برڈ آپ کی رومینٹک باتوں کے لیے ساری عمر پڑی ہے پر ابھی آپ لوگ رسم پر دھیان دیں پلیز۔۔۔۔۔ماہین اٹکیج پر آکر شرارت سے بولی زبیر اسکی بات پر مسکرانے لگا۔۔۔۔۔۔
رسم کے بعد ڈانس شروع ہوا ماہین اور نوشین کی تمام دوستوں نے جس میں حصہ لیا پر ماہین ڈانس نہیں کر پائی کیونکہ زبیر نے اسے ڈانس کرنے پر سختی سے منع کیا تھا۔۔۔۔۔