یار کب سے فون کررہا ہوں کہاں تھی۔۔۔ذین نوشین پر فون اٹھاتے ہی بگڑا۔۔
ارے فریش ہونے گئ ہوئی تھی۔۔۔۔اتنا کیوں ری ایکٹ کرہے ہو۔۔۔۔
کیا بات ہے کیا تم دو سال سے نہائی نہیں جو اتنی دیر سے نہاں رہی ہوں۔۔
کیا بکواس ہے۔۔۔
میں پہلے ہی بتا رہ ہوں میرے پاس آنے کے بعد روز نہانا ہوگا ۔۔۔۔وہ اپنی ہنسے کنٹرول کرتا ہوا بولا۔۔۔
تم اپنی بکواس بند کروگے یا میں فون بند کرو۔۔وہ چڑ کر بولی۔۔
اوکے اوکے سوری وہ ہنستا ہوا بولا۔۔
نہیں کیا لگتی ہوں میں تمہیں جو ہر وقت مزاا اڑاتے ہو میرا ۔۔۔ذین سنجیدہ ہوا کیونکہ جان گیا تھا کہ وہ اب ناراض ہورہی ہے۔۔۔
یار مزاق کررہا تھا۔۔تم سے نہیں کرو گا تو کیا برابر والی شمائلہ سے کرونگا۔۔۔
ہاں تو کرلو میری بھی جان چھٹے گی۔۔۔۔۔۔
سچ میں کرلوں ویسے ہوٹ ہے بہت۔۔۔وہ پھر سے اسے چھیڑتا ہوا بولا۔۔۔
یو میں تمہارا قتل کردونگی۔۔۔
ہاہاہاہاہا ۔۔سوری سوری سوری۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر تم کہاں جارہے ہو۔۔۔ماہین زبیر کو تیار ہوتا دیکھ کر پوچھنے لگی ۔۔۔
ایک کام سے جارہا ہوں رات تک آجاؤں گا۔۔۔وہ ہاتھ میں ریسٹ واچ پہنتا ہوا بوا بولا۔۔۔۔
اچھا پر جلدی آنا۔۔
کیوں کوئی نیک ارادے ہیں تمہارے تو بتاؤ جاتا ہی نہیں ۔۔۔وہ مسکراتہ ہوا بولا۔۔۔
بے ہودہ انسان۔۔۔وہ منہ میں بڑبڑائ جس پر زبیر کا قہقہہ گونجا تھا۔۔۔
رات کو آتا ہوں سونا مت۔۔۔۔وہ آنکھ مارتا ہوا بولا۔۔۔
جو تو سوچ رہے ہو وہ نہیں ہونے والا۔۔۔وہ اسکے ارادے بھانپ کر بولے تھی۔۔۔
دیکھتا ہوں وہ تو رات کو۔۔۔۔
میں دروازہ ہی نہیں کھولوں گی نہ تو کسے دیکھو گے جا کے سو جانا دونوں دوست ۔۔۔۔
ہاہاہاہا اتنا ظلم۔۔۔
ہاں ۔۔
اچھا الله حافظ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہین پیپر دے کر باہر نکلی ھی وہ آج خوش تھی کیونکہ آج فائنلی اسکا لاسٹ پیپر تھا وہ جلد سے جلد گھر جا کر زبیر کو خوشخبری سنانا چاہتی تھی۔۔۔
یار چل کینٹین۔۔
کیا بات ہے بڑی خوش لگ رہی ہو۔۔۔وہ ماہین کے بلش کرتے چہرے کو دےکھ کر بولی۔۔۔
ہمم خوش تو ہوں اک تو آج پیپر ختم ہوگئے اور ۔۔۔
اور؟
اور زبیرکو آج خوشخبری سناؤں گی۔۔۔وہ شرماتے ہوئے بولی۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔تو یہ بات ہے۔۔۔۔
ہاں۔۔۔۔۔
اچھا یہ بتاؤ تم کب دلہن بن رہی ہوں ہمارے ذین بھائی کی۔۔۔۔
یار کل ماما پاپا آرہے ہیں انھیں بتاؤں گی ذین کا پر ڈر بھی لگ رہا ہے پتہ نہیں کیسا ری ایکٹ کریں گے مانے گے بھی یا نہیں۔۔۔
فکر مت کرو انھیں پیار سے سمجھانا مان جائیں گے۔۔۔
آئی ہوپ سو۔۔۔۔
میم آپکے شوہر آگئے ہیں ۔۔۔۔
اچھا ۔۔آج اتنی جلدی آگئے۔۔۔۔ماہین کو جیسے حیرت ہوئی ۔۔۔
جی آپ کا باہر ویٹ کر رہے ہیں۔۔۔۔
ہمم میں آررہی ہوں ۔۔۔ماہین بنا سوچے اہر نکلی تھی کیونکہ وہ آج ویسے ہی جلد سے جلد زبیر کے پاس جانا چاہتی تھی۔۔۔
نوشین کینٹین کی پیمنٹ کرنے کے لیے وہیں رکی ماہین باہر نکل کر ادھر اودھر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
کہاں ہو زبیر ۔۔۔۔ماہین ادھر اودھر نظریں دوڑاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
اف کیا مصیبت ہے۔۔۔۔وہ واپس جانے کے لیے پلٹی تھی کہ۔۔۔۔۔
آپ۔۔۔۔۔آپ یہاں کیا کرہے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ اپنے سامنے کھڑے ملک کو دیکھ کر حکابکا ہوگئ اسے یاد آگیا تھا کے یہ وہی شخص ہے جو اس سے اس دن گھررپر ملنے آی تھا۔۔۔
آپ سے ملنے آیا ہوں بھابھی جی۔۔۔۔۔۔ملک۔کمینگی سے مسکراتے ہوئے ماہین کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔
ماہین کو وحشت ہوئ اسکی گندی ہنسی اور نظروں سے ۔۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔آپ جاہیں یہاں سے ماہین واپس اندر جارہی تھی جب سکی کلائی اس شیطان کی گرفت میں آگئ ۔۔۔
چھوڑو مجھے کیا کررہے ہو۔۔۔۔؟ہیلپ پلیز ہیلپ۔۔وہ آس پاس نظر دوڑائے چلاتی ہوئی بولی۔۔۔۔
کوئی آگے نہیں بڑھنا ورنہ ذندہ نہیں بچو گے۔۔کچھ لوگ جو ماہین کی آواز سن کے اسکی مدد کرنے کے لیے آرہے تھے ملک کی بندوق سے پیچھے ہٹے۔۔۔۔
زبیر تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔۔مرو گے تم۔ ماہین روتی ہوئی بولی۔۔۔
ارے میں اسکی سانسیں ہی اس سے چھین لوں گا جان بستی ہے نہ تجھ میں اسکی میں وہ جان۔ہی ختم کردونگا۔۔۔۔
ماہین!!!!!!!نوشین جو ابھی ابھی باہر آئی تھی ماہین کو یو روتا دیکھ کر چیخی ۔۔۔
نوشین۔۔۔۔ماہین اسکو دیکھ کر رونے لگی۔۔۔۔
ملک نے اسے گاڑی میں دھکا دیا اور گاڑی بند کردی۔۔۔۔ماہین نے بہت مشکل سے خود کو گرنے سے بچایا ۔۔۔۔
چھوڑوں اسے کون ہو تم !!!!!نوشین کار کے گاڑی کے قریب پہنچ کر پیچھے کا دروزہ کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔تب ملک نے اسے دھکا دیا تو وہ نیچے گری اور پتھر لگنے کی وجہ سے اسکے ماتھے سے خون۔نکلنے لگا ملک گاڑی میں ڈراونگ سیٹھ پر بیٹھا اور گاڑی بھگا دی۔۔
ماہین پیچھے بیٹھی زبیر کا نمبر ڈائل کرہی تھی کے ملک نے اسکے ہات سے موبائل چھینا۔۔۔۔
نہین نہیں نہیں میری جان کوئی چلاکی نہیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
نوشین روتے ہوئے زبیر کا نمبر ڈائل کرنے لگی اسے اپنی چوٹ کی کوئی پرواہ نہیں تھی بس وہ جلد سے جلد ماہین کو بچانا چاہتی تھی۔۔۔
ہاں نوشین بس آرہاہوں تم لوگ اندر ہی رہنا۔۔۔۔۔زبیر فون اٹھاتںے ہوئے بولا۔۔۔
زبیر۔۔۔۔۔نوشین رونے لگی تھی۔۔۔
کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو سب ٹھیک ہے۔۔وہ پریشان ہانے لگا
زبیر وہ ماہین۔۔۔کیا ہوا ماہین کواسکی مس کال آئی تھی جب میں نے کال بیک کی تو نمبر آف تھا۔۔۔۔۔۔اسکا دل جیسے ڈوبا تھا۔۔۔۔
زبیر ایک آدمی ماہین کو زبردستی اٹھا کے لے گیا۔۔۔۔
کیا!!!!!!وہ غصہ سے چیخا تھا۔
کون لے کر گیا ہے ماہین کو!!!!!زبیر نوشین کے اپر آکر چیختا ہوا بولا تھا غصہ سے اسکی رگے تن رہی تھی سمجھ تو وہ گیا تھا کے یہ کام کس کا ہے بس اک بار کنفرم کرنا چاہتا تھا ماہین پر بھی اسے غصہ بہت ارہا تھا۔۔
جیجو وہ آدمی۔۔۔وہ روتی ہوئی بولی۔۔۔
کونسا آدمی۔۔۔۔۔بتاؤ مجھے کیسا دکھتا تھا ۔۔۔۔
وہ کچھ زیادہ عمر کا نہیں تھا تیس پینتیس تک کا ہوگا تھوڑا وحشی سا ۔۔۔۔
اسکا چہرے کے بارے میں بتاؤمںجھے۔
ہلکی داڑھی تھی بڑی بڑی آنکھیں۔۔۔
ملک!!!!!وہ غصہ سے بول تھا۔۔۔۔میں چھوڑوں گا نہیں تجھے زبیر کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت کی تو نے ۔۔۔۔وہ آگ بگولا ہورہا تھا۔۔۔
ارے کس نے کہا تھا تم لوگوں کو باہر آنے کے لیے دس بار سمجھایا تھا کے جب تو میں اندر نہ آؤں لینے باہر مت آنا پر ۔۔۔۔وہ چیخا تھا نوشین سہم گئ تھی۔۔
زبیر اسکو ڈھنڈو ماہین کی حالت ٹھیک۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم زبیر سر۔۔۔۔۔پولیس کی گاڑی آچکی تھی جو زبیر کو سلام کرنے لگے۔۔
وعلیکم سلام اسپیکٹر۔۔۔۔وہ اپنا غصہ کنٹرول کرتا ہوا بولا۔۔۔
ہمیں خبر مل گئ ہے کے یہاں کسی کا کڈنیپ ہوا ہے آپ کی کون تھی وہ۔۔۔۔
وہ میری بیوی تھی۔۔۔۔۔۔
کس کے دیکھا ہے کڈنیپر کو۔۔۔۔
می میں نے دیکھا ہے ۔۔۔نوشین بولی آپ ہماری مدد کریں اسکیچ بنانے میں ہم ڈھونڈنا شروع کریں تاکہ اسے۔۔۔۔
زبیر ذین کو فون۔کر چکا تھا تاکہ وہ نوشین کے ساتھ پولیس اٹیشن چلے جائے ۔۔
اایکس کیوز می۔۔۔۔وہ کہتا ہوا ہوائی اسپیڈ میں گاڑی لے کر نکلا تھا وہ ملک کے گھر کی طرف جارہا تھا زبیر کی رگے غصے کی وجہ سے تن چکی تھی۔۔۔
آئی سویر ملک۔اگر اسے کچھ ہوا تو تیری وہ حالت کروں گا میں جو دنیا تجھے دیکھ کر کانپے کی تو موت مانگے گا اپنے لیے پر تجھے موت نہیں ملے گی۔۔۔۔
زبیر ملک کے گھر پہنچا تو باہر سے بند تھا پر وہ گارڈ کو بندوق دکھاتا ہوا اندر کی طرف گیا تھا۔۔۔پر وہ پوری حویلی چھان چکا تھا پر ملک نہیں تھا۔۔۔۔
کہاں ہے ملک۔۔۔وہ گارڈ کے بال پکڑتا ہوا بولا۔۔
م م مجھے نہیں پتہ صاحب۔۔۔۔۔گارڈ ڈرتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
نہیں پتہ ۔۔۔۔۔زبیر نے گن نکالی تو سارے گارڈ اکھٹے ہوگئے ۔۔۔
او ڈونٹ یو ڈیر ۔۔تم لوگ مجھے نہیں مار سکتے کیوں کے میں زبیر احمد ہوں سمجھ آئی اور ویسے بھی ملک۔کے خلاف کیس فائل ہو چکا ہے پولیس اسے ڈھونڈ رہی ہے اب اگر میں نے تم لوگوں کو مار بھی دیا تو پولیس میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اسلیے تم لوگوں کی بھلائی اسی میں ہے مجھے سب سچ سچ بتا دو اور اپنی جان۔بچا لو۔۔۔
وہ سب اک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔۔۔
بتاؤ کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔
س سر ہمیں نہیں پتہ۔۔۔۔
آخری بار پوچھ رہا ہوں بتاؤ کہاں ہے وہ۔۔۔وہ اس بار گن لوڈ کرتا ہوا بولا ۔۔۔۔
س س سر ہمیں نہیں۔۔۔۔
ٹھا!!!!!!!!زبیر نے اسکی ٹانگ پر گولی ماری تھی وہ بلک کر رورہا تھا۔۔۔
تم بتاؤ کہاں ہے وہ۔۔۔۔وہ دوسرے والے کی جانب گن کرتا ہوا بولا۔۔۔
س س سر مجھے نہیں پتا ۔۔۔۔۔وہ ہاتھ جوڑتا ہوا بولا۔۔۔۔
آہ آہ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زبیر نے اسکے ہاتھ پر گولی ماری تھی۔۔۔۔۔
تم بتاؤں کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تیسرے والے کے سر پر بندوق تانتا ہوا بولا۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے سر پر بندوق دیکھ کر کانپنے لگا تھا۔۔۔
س س س۔۔۔۔۔۔ز بیر نے بندوق لوڈ کی۔۔۔۔
سر وہ ملک اپنےشہر والے فارم ہاؤس پر ہے وہ آپکی بیوی کو لے کر وہیں گیا ہے وہ اسکا ریپ کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔
آہ آہ آہ!!!!!!!زبیر اسکی بات سن کر آگ بگولہ ہوا آنکھوں سے شرارے پھوٹنے لگے تھے۔۔۔
ملک!!!!!!!میں آرہا ہوں تو میری بیوی کو ہاتھ لگائے گا میری بیوی کو میں تیرے ہاتھ پاؤں اس قابل ہی نہیں چھوڑوں گا کے تو کسی لڑکے کے ساتھ ایسا کر سکے۔۔۔۔۔۔
زبیر بھاگتہ ہوا گاڑی میں بٹھنے لگا تھا جب ذین وہاں پہنچا تھا۔۔۔۔
زبیر کچھ پتہ چلا ماہین کو کہاں لے کر گیا ہے وہ۔۔۔۔۔۔
چل میرے ساتھ جلدی۔۔ذین گارڈز کی حالت نوٹ کرتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم۔کیوں لائے ہو مجھے یہاں۔۔۔ماہین چیختے ہوئے خود کو چھڑانے کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
ابھی پتہ چل جائے گا کیوں لائے ہیں ہم پہلے ٹھیک سے دیدار تو کرنے دوں۔۔۔۔۔۔وہ حیوانیت بھری نظروں سے ماہین کو گھورنے لگا جب کے دوسرا والا ہنس رہا تھا۔۔۔۔
چھوڑ دو مجھے اگر اپنی زندگی پیاری ہے تو میرا شوہر آرہا ہے وہ تم لوگوں کو کتے کی موت مارے گا سمجھے!!!!ماہین اسکی آنکھوں میں دیکھ کے بولی۔۔۔۔۔
ارے جب تک تیرا شوہر یہاں تک پہنچے گا نہ اسے تیرا بے جان وجود ملے گا اور ہم تب تک یہاں سے جاچکے ہونگے سمجھی تو تو بس اپنی موت کا انتظار کر۔۔۔۔وہ ماہین کے چہرے کے قریب ہوتا ہوا بولا تھا۔۔۔۔ماہین سہم کر پیچھے ہٹی تھی۔
تیرا دوپٹہ تو بہت پیارا ہے۔وہ اسکے دوپٹے کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا۔۔۔۔
ہاتھ لگانامجھے۔۔۔۔ماہین کے قدم پیچھے کی طرف جارہے تھے۔۔
مجھے چاہیے تیرا دوپٹہ ۔۔۔۔پگلی۔۔۔وہ ہنستا ہوا بولا جب کے دوسرا والا پیچھے سے اسکے قریب آنے لگا تھا۔۔۔۔
چھوڑ دو خدا کاواسطہ ہے تم لوگوں کو۔۔۔۔ماہین ہاتھ جوڑنے لگی تھی۔۔۔
چھوڑ دیں گے چھوڑ دیں گے پہلے ہماری پیاس تو بجھ جائے پھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔۔ملک کے دوست نے ماہین کو پیچھے سے پکڑا تھا اور ملک نے اسکا دوپٹہ اتار کے پھینکا تھا۔۔۔۔
چھوڑوں مجھے!!!چھوڑ دو خدا کے لیے مجھے ہاتھ مت لگانا۔۔۔۔
وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی تھی پر ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا ملک نے ماہین کی آستین پھاڑ دی تھی۔۔۔۔
زبیر۔۔۔پلیز آجاؤں۔۔۔۔آج تم دیر نہیں کرسکتے ۔۔۔۔آجاؤ اپنی جان کے لیے آجاؤ۔۔۔۔
ماہین ہچکیاں لیے روتے ہوئے اسے پکارنے لگی۔۔۔
نہیں آنے والا وہ ۔۔۔وہ دونوں ہنسنے لگے تھے۔۔
دیکھوں مجھے مت چھونا خدا کے لیے ۔۔۔۔چھوڑ دو میں ماں بننے والی ہوں!!!!!وہ چیخ کے بولی تھی۔۔۔۔کے شاید ان لوگوں کو ترس آجائے ۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔دونوں کے قہقہہ بلند ہوئے ۔۔ماہین حیرت سے باری باری دونوں کو دیکھنے لگی کیا نہیں تھا اسکی آنکھوں میں ایک التجا ایک آس بھیک مانگ رہی تھی وہ اپنی عزت کی اپنے بچے کی جان کی پر یہ دنیا تو پتھر کی ہوچکی ہے کیوں ہم بھیڑ چڑھا دیتے ہیں معصوم لوگوں کو اپنی حوس کی اپنے بدلے کی کیوں ہم یہ نہیں سوچتے کے جس کے ساتھ ہم یہ کرہے ہیں کیا اسکا کوئی قصور ہے ہم خود کو خدا سمجھ کر جب ظلم کانے لگتے ہیں تب ہمیں یہ یاد نہیں رہتا کے اک وہ خدا ہے جو تمام کائنات کا مالک ہے جو ہر انسان کے حساب کا اسے اس دنیا اور آخرت دونوں میں دکھائے گا۔۔۔۔۔۔
ماہین نے۔۔۔۔ملک کے دوست کے ہاتھ پر کاٹا تھا جس ہاتھ سے وہ اسے پکڑا ہوا تھا اور وہ پیچھے کی طرف بھاگی تھی۔۔۔۔
سالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔(گالی)پکڑ اسکو دونوں جانور کی طرح اسکے پیچھے بھاگے تھے ماہین کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کہاں جائے اسے سامنے ایک روم نظر آیا وہ جلدی سے اندر گئ اور دروزہ لوک کرلیا۔۔۔۔۔
توڑ دروزے کو۔۔۔۔دونوں پوری طاقت سے دروزے پر وار کرہے تھے ہر وار سے ماہین کانپ جاتی تھی اسکے ہاتھ پیر خوف سے کانپ رہے تھے ۔۔۔۔
زبیر۔۔۔۔۔آجاؤ۔۔۔نہ۔۔۔۔۔۔زبیر۔۔۔۔۔۔وہ ہچکیاں لیتے ہوئے اسے یاد کرنے لگی۔۔۔۔
ماہین کی جان نکل رہی تھی وہ شدت سے زبیر کو یاد کررہی تھی دروازہ کسی بھی ٹائم ٹوٹ سکتا تھا وہ خوف سے پیچھے کھسک رہی تھی۔۔۔
یا الله۔۔۔میری۔۔۔مدد۔۔۔۔کر۔۔میری اور بچے کی حفاظت فرما۔۔۔۔وہ بلک بلک کر روتی ہوئی بولی۔۔دروزازے کی کنڈی ٹوٹنے کو تھی وہ جانوروں کی طرح اپنے شکار کو نوچنے کے لیے تڑپ رہے تھے۔۔۔۔کے اچانک سے کنڈی ٹوٹنے کی آواز آئی ماہین کی دھڑکن بند ہونے کو تھی خوف سے اسکے ہاتھ پاؤں۔ٹھنڈے پڑھنے لگے جب وہ دونوں وحشی کمرے کے اندر آئے ان کے چہرے پر اک اجیب سی مسکراہٹ تھی جیت کی مسکراہٹ شاید وہ بھول گئے تھے وہ جو اپر بیٹھا ہے وہ کسی کے ساتھ برا یا نا انصافی نہیں ہونے دیتا پھر یہاں اسکے ساتھ ایک ننی سی جان بھی۔۔۔
اب کہاں جائے گی بچ کر۔۔۔۔۔اچھا ہے خود ہی بیڈ روم میں آگئ۔۔۔
چھوڑ دو مجھے پلیز خدا کے لیے۔۔۔۔ماہین اب بس بے حوش ہونے کے در پر تھی۔۔۔
ارے تجھے چھوڑ دیں گے تو ہمارا کیا ہوگا۔۔۔
بھائی بھائی پلیز چھ چھوڑ دو میری جان بخش دو ۔۔۔۔وہ ملک کے سامنے ہاتھ جوڑ کے بولی۔۔۔
بھائی نہیں بول۔۔۔اب تو رشتہ بدلے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ دونوں ہنسنے لگے۔۔۔ماہین کے دل سے اک آہ نکلی تھی۔۔۔
تو اسکے ہاتھ پاؤں پکڑ میں کام شروع کرتا ہوں۔۔وہ ماہین کو ڈبوچتا ہوا بولا اور ماہین کو بیڈ پرپھینکا تھا۔۔۔
مت کروں!!!!!!!خدا ک!!!!!!خدا کا واسطہ ہے!!!!!!وہ چلا کر بولی۔۔۔۔۔۔۔اسکی آواز میں اسکی تکلیف واضح تھی۔۔۔۔
ملک کے دوست نے ماہین کے ہاتھ پیر کو قابوں کیا تو ملک وحشی کی طرح اسکے اپر آیا تھا ماہین ہاتھ پیر چلا رہی تھی پر وہ نازک سی لڑکی کہاں اں وحشیوں کا مقابلہ کر سکتی تھی۔۔۔
ملک نے اسکے کمیز کے گلے کو پکڑا اور پھاڑنے لگا۔۔۔۔۔
زبیر!!!!!!!زبیر!!!!!ماہین کے منہ سے چیخے نکل رہی تھی۔۔۔۔۔
ٹھا!!!!!!!!!!اچانک اک آواز سے وہ دونوں سہم گئے۔۔۔۔
یہ گولی چلنے کی آواز کہاں سے آئی ہے ۔۔۔۔شاید باہر سے آئی ہے۔۔۔
دیکھ جا کے کون ہے۔۔۔ملک چلا کے بولا۔۔۔
ماہین۔کے چہرے پر اک مسکراہٹ آئی تھی جو ملک نے نوٹ کی اور اسکے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔۔۔۔۔
ماہین۔ٹپکتے آنسوؤں کے ساتھ مسکرارہی تھی۔۔۔۔
ملک کا دوست ونڈوں سے باہر جاھنکنے لگا تھا۔۔۔باہر کا منظر دیکھ کر اسکا کلیجہ منہ کو آگیا۔۔۔۔
م م ملک!!!!!!!!وہ باہر دیکھتا ہوا چیخا۔۔۔۔
کیا ہوا!!!!کون ہے۔۔۔۔۔
زبیر آگیا ہے!!!!!!!
کیا ملک ماہین۔کو چھوڑ ک کھڑا ہوا اسکی توجیسے جان۔ہی نکلی تھی۔۔۔
آگیا میرا زبیر ۔۔۔۔نہیں چھوڑے گا اب تم لوگوں ۔۔۔۔۔ماہین ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔
چپ۔۔۔۔۔وہ اسکے بال پکڑ کے بولا۔۔۔پھر دیکھنے کے لیے ونڈو کے پاس آیا ۔۔۔۔۔
ابے یہ کیسے پہنچا۔۔۔اپر سے پولیس بھی ہے۔۔۔۔ملک باہر دیکھتا ہوا بولا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر ہوائی اسپیڈ پر گاڑی چلا رہا تو وہ ملک کی جان نکالنا چاہتا تھا اسکے آنکھوں سے شولے نکل رہی تھے ملک نے اسکی ںیوی پر گندی نظر ڈالی یہ سوچ سوچ سوچ کر ااسکی رگیں تن رہی تھی ۔۔۔۔
اگر ماہین کو کچھ ہوا یا تو نے اسے ہاتھ لگایا تو آئی سویر ملک انہیں ہاتھوں سے تیرے جسم کے تکڑے کرونگا۔۔۔
ریلکس اسے گئے زیادہ دیر نہیں ہوئی ابھی ہم انشاءاللہ ٹائم پر پہنچ جائیں گے میں نے پولیس کو بھی فون کردیا ہے وہ بھی وہیں آرہی ہے۔۔۔۔ذین اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔۔۔
وہ بس پہنچے والے تھے زبیر پاگلوں کی طرح گاڑی چلا رہا تھا اسے اپنی جان۔کی کوئی پرواہ نہ تھی وہ بس ماہین تک پہنچنا چاہتا تھا۔۔۔۔
زبیر نے فارم ہاؤس کے سامنے گاڑی روکی اور جلدی سے گاڑی سے اترا ذین بھی نیچے اترا تھا دونوں نے اپنی بندوق لوڈ کی سامنے اک بڑا سا گیٹ تھا جس پر دو چوکی دار گن لیے کھڑے تھے۔۔۔
زبیر اور ذین تیزی سے دروازے کی طرف بڑھے۔۔۔
آپ اندر نہیں جاسکتے۔۔۔وہ زبیر کے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا ۔۔۔۔۔
زبیر نے اسکا گلا پکڑا تھا جس کی وجہ سے دوسرا والا بھی بھاگ کر آیا تھا۔۔۔
زبیر احمد۔۔۔۔۔وہ ذبیر کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔
میرے راستے میں مت آنا سمجھا۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا اک منٹ میں گارڈ سہم گیا تھا زبیر کو دیکھ کر۔۔۔۔
اندر۔۔۔جانے کی اجازت نہیں ہے ۔۔۔۔ہمارے مالک کا آرڈر ہے۔۔۔۔۔۔
میری۔بیوی ہے اندر سمجھا ۔۔۔۔اگر اسے کچھ ہوا تو اس فارم ہاؤس سمیت سب کو زندہ جلا دونگا میں۔۔۔۔۔وہ انگلی اٹھا دونوں کو باری باری دیکھتا ہوا بولا۔
اندر کوئی نہیں ہے ۔۔۔کوئ لڑکی نہیں ہے۔۔۔۔۔
لگتا ہے تو ایسے نہیں مانے گا۔۔۔زبیر نے گن چلائی جو اسکی سیدھی ٹانگ پر لگی اور وہ وہی گر گیا اس نے دوسرے والے کو مارنے کے لیے اٹھائی ہی تھی کے پولیس آگئ۔۔۔۔۔
زبیر سر آپ یہ سب مت کریں یہ ہمارا کام ہے پلیز۔۔۔اسپیکٹر گاڑی سے اترتا ہوا زبیر سے کہنے لگا باقی سارے آفیسر نے جگہ کو گھیر لیا تھا۔۔۔۔
زبیر اور زین اندر کی طرف بھاگے تھے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابے اب کیا کریں؟ملک کا دوست کانپتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔بیٹا آج تو مرنا طے ہیں یا تو زبیر کے ہاتھوں یا پولیس کے ہاتھوں۔۔۔
زندہ تو میں اس لڑکی کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ملک ماہین۔کی طرف پٹا تھا اور اپنی گن نکالی تھی۔۔۔۔
ابے اسکو چھوڑ اور یہاں سے باہر نکلنے کی سوچ ۔۔۔۔وہ ملک کو دیکھ کر کہنے لگا ۔۔۔۔
اسے تو میں آج ختم کر کے ہی جاؤں گا ۔۔۔ماہین جہاں خوش ہوئی وہی سہم گی اسکی بات پر ۔۔۔۔
ملک نے گن کی طرف کی۔۔۔۔ماہین نے سائڈ پر دیکھا تو اسے شیشے کا فلاور پوٹ نظر آیا اس سے پہلے ملک گولی چلاتا ماہین نے وہ اٹھا کر اسکے سر پر مارا جسکی وجہ سے بندوق اسکے ہاتھ سے گر گئ اور وہ اپنا سر پکڑے چیخنے لگا۔۔۔
اسکا دوست آگے بڑھا ماہین کو پکڑنے کے لیے تو ماہین۔کے باقی کا حصہ جو اسکے ہاتھ میں تھا اسکے سینے پر مارا ۔۔۔۔وہ چیخنے لگا۔۔۔۔
ماہین بھاگنے لگی ماہین تھوڑا سا آگے ہی بڑھی تھی کے اک زور دار آوز سے اسکے قدم وہی رک گئے ایسا لگا اسکے کندھے پر کوئی گرم چیز گھسی ہے وہ درد کی شدت میں تھی وہ لڑکھڑاتے قدموں سے پلٹی تو ملک اک ہاتھ سے اپنا سر تھامے ایک ہاتھ میں بندوق لیے اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا ماہین زمین پر گر گئ اسکا خون پورے فرش پر پھیل گیا تھا۔۔۔۔۔
نکل یہاں سے ۔۔۔۔ملک۔۔۔۔اسکا دوست ملک کا ہاتھ پکڑے ہوئے اسے لے جانے لگا۔۔۔