زبیر یہ کیا طریقہ تھا آپ نے تو میری جان ہی نکال دی تھی۔۔۔ماہین اسکے کندھے پر مکا مارتی ہوئی بولی۔۔۔۔
ارے آپ کی جان۔تو ہمارے اندر ہے نہ ۔۔۔۔
کہاں لے جارہے۔ہیں مجھے۔۔۔۔وہ راستہ دیکھتی ہوئی بولی جو گھر کی طرف نہیں جارہا تھا۔۔۔
تمہارا کڈنیپ کیا ہے میں نے۔۔۔
زبیر بتائیں نہ۔۔۔
ارے لنچ کرنے جارہے ہیں میری جان کہی باہر۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لنچ کے بعد زبیر ماہین کو گھر چھوڑ گیا تھا اور وہ اور ذین کسی میٹنگ میں چلے گئے تھے۔۔۔۔۔
ماہین دوپہر کی نماز پڑھنے کے بعد پڑھنے لگی تھی کافی دیر جب وہ پڑھ پڑھ کے تھک گئ تو وہ لیٹ گئ تھی اور اسکی آنکھ لگ گئ اسکی آنکھ فون کی آواز سے کھلی اس نے اپنا موبائل دیکھا تو موبائل کی آواز نہیں تھی نظر گھمائی تو فون لینڈ لائن پر آرہا تھا۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔۔
ہیلو۔ میڈم میں سکیورٹی گارڈ ہوں۔۔۔
جی بولیں۔۔۔
میڈم کوئی ملک نام کا آدمی آیا ہے کہہ رہا ہے کے زبیر سر کی پیمنٹ کرنی تھی۔۔۔۔
تو ابھی تو وہ گھر پر نہیں ہیں۔۔
جی میں نے اسے بتایا پر کہہ رہا ہے کے میں ان۔کا ویٹ کرلوں گا اندر بیٹھ کر یا آپ انکی وائف کو بلا دیں انھیں پیمنٹ کردونگا ۔۔۔میڈم میں کیا کروں بلاؤں یا نہیں زبیر صاحب کا فون بھی نہیں لگ رہا ورنہ ان سے پوچھ لیتا کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔
آپ بلا لیں اندر میں آتی ہوں نیچے شاید بے چارا دور سے آیا ہو۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔۔
ماہین اٹھی اور واش میں منہ ہاتھ دھونے چلی گئ پھر بال جو بکھر گئے تھے اس نے ٹھیک کیے اور سر پر دوپٹہ لے کر کمرے سے باہر نکلی۔۔۔۔
نیچے اک پیتیس سالہ آدمی جسکی داڑھی زیادہ بڑی نہیں تھی پر اسکی آنکھیں کافی موٹی موٹی تھی۔۔۔
ماہین اسکو دیکھتے ہوئے نیچے آرہی تھی جو اسے ہی گھور رہا تھا ماہین کو اسکی نظروں سے وحشت ہورہی تھی پتہ نہیں کیسی اجیب سی اسمائل کے ساتھ ماہین کودیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
اسلام علیکم۔۔۔۔۔ماہین نے اسے سلام کیا جو بس اسے گھورے جارہا تھا۔۔۔۔
وعلیکم اسلام۔۔۔آپ ہیں زبیر کی بیوی۔۔۔۔وہ داڑھی مسلتا ہوا ماہین کا اپر سے نیچے تک جائزہ لیتا ہوا بولا۔۔۔۔۔۔
ماہین کو اسکی نظروں سے گھن آنے لگی وہ اپنہ دوپٹہ بار بار درست کرہی تھی۔۔۔۔۔
جی میں ہوں بولیں کیا کام تھا۔۔۔۔۔وہ اپنی گھبراہٹ چھپائے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
وہ کام تھا کہ۔۔۔۔۔
تو یہاں کیا کررہا ہے۔۔۔زبیر جو ابھی ابھی اندر آیا تھا ملک کو پہلے حیرت سے پھر غصے سے دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔
زبیر وہ میں۔۔۔۔۔
زبیر نے ماہین کو غصے سے دیکھا جس سے وہ سہم گئ پھر وہ ماہین کے سامنے آکر کھڑا ہوا جس سے ماہین کا پور اوجود چھپ سا گیا۔۔۔
وہاں ملک کی ہوا ٹائٹ ہورہی تھی وہ بس ماہین کودیکھنا چاہتا تھا تاکہ اسکا آگے کا پلان کامیاب ہو پر اسے نہیں پتہ تھا کہ زبیر اتنی جلدی آجائے گا اسے تو بتایا گیا تھا کے وہ میٹنگ میں گیا ہے اور دیر سے آئے گا۔۔۔۔۔۔
تم جاؤ یہاں سے۔۔۔۔وہ گردن گھما کے ماہین کو غصہ سے بولا۔۔۔
اچھ اچھا۔۔ماہین سہم کر جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھنے لگی ملک کی نظر اپر جاتی ہوئ ماہین پر تھی جب زبیر نے اسکا جبڑا ڈبوچ کر اسکا۔چہرہ اپنی طرف کیا تھا۔۔۔۔
کیا کررہا ہے تو یہاں ۔۔۔۔۔۔وہ آنگ برساتی آنکھوں سے اس گھور رہا تھا ۔۔۔۔
میں وہ تم سے ملنے آیا تھا۔۔۔وہ گھبرا کے بولا۔۔۔
تیری اتنی ہمت تو میرے گھرب آگیا اس دن تو بچ گیا تھا آج نہیں بچے گا۔۔۔۔وہ غصہ سے پلٹا ۔۔۔
زبیر میں بس تمہارے پیمٹ کرنے آیا تھا وہ اس کے سامنے آکر اسکے ہاتھ میں چیک دیتا ہوا بولا۔۔۔۔۔۔
آئندہ اگر میرے گھر قدم رکھا تو تیری قبر اپنے ہاتھوں سے بناؤں گا۔۔۔۔۔۔وہ اسکا گریبان پکڑ کے بولا۔۔
زبیر میں بس اس دن کے لیے معافی مانگنے آیا ہوں اور دشمنی ختم کرنے آیا ہوں۔۔۔۔۔وہ ایکٹنگ کرتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
جا یہاں سے ۔۔۔۔۔۔۔
اچھا چلتا ہوں۔۔۔۔۔
اسکے جانے کے بعد زبیر گارڈ پر غصہ کرنے لگا گارڈ نے اسے بتایا کے ماہین کے کہنے پر اسے اندر بلایا تھا تو وہ غصہ سے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔
ماہین بیڈ پر بیٹھی تھی جب زبیر کمرے میں آیا اور ماہین کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا۔۔۔۔
آہ آہ آہ!!!!!!ماہین کر اٹھی کیونکہ زبیر کی پکڑ بہت مظبوط تھی۔۔۔
کیوں بلایا اسے اندر اور اسکے سامنے جانے کی ہمت کیسے ہوئی تمہاری ۔۔۔۔وہ ماہین کو سولے برساتی آنکھوں سے گھورتا ہوا بولا۔۔۔۔
زبیر میں بس ۔۔۔۔۔ماہین کی آنکھوں میں پانی بھر آیا تھا اسنے زبیر کو اتنا غصہ پہلے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔
ارے کیا ضرورت تھی اس کے سامنے جانے کی وہ گندہ انسان کن نظروں سے تمہیں دیکھ رہا ہوگا ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔
زبیر میں بس اس سے ادلیے ملنے گئ تھی کیونکہ گارڈ نے بتایا کے اسے تمہاری کوئی پیمنٹ کرنی ہے۔۔۔۔ماہین روتی ہوئی بولی۔۔۔۔
ارے بھاڑ میں گئ پیمنٹ جانتی ہو کون ہے وہ ۔۔۔۔
یہ وہی انسان جس کے میں نے آدمیوں کو زخمی کیا تھا بے عزتی کی تھی اسکی وجہ سے ہی مجھے گولی لگی تھی اگر وہ بدلہ لینے آیا ہوا ہوتا توا۔۔۔۔۔۔وہ چیختا ہوا بولا۔۔۔۔۔
سوری زبیر ۔۔۔۔ماہین اب ہچکیوں سے رونے لگی تھی۔۔
زبیر نے اسے گلے سے لگایا تھا وہ جانتا تھا کہ اس میں ماہین کی کوئی غلطی نہیں وہ بہت معصوم ہے پر اسے ماہین کی فکر تھی اسلیے اتنا غصہ کر گیا۔۔
اچھا بس چپ ہوجاؤ۔۔۔۔وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیر کے اسے چپ کرنے لگا۔۔۔۔۔
ماہین دیر تک پڑتی رہی تھی زبیر نے اسے ڈنر اچھی طرح کرنے کو کہا تھا کیونہ اسے پتہ تھا ماہین اگزیم کی وجہ سے دیر تک جاگتی ہے۔وہ خود بھی سوتا نہیں تھا جب تک۔ماہین اسکے سینے پر سر رکھ کر لیٹ نہ جائے ماہین نے کئی بار کہا پر زبیر نہیں سویا۔۔۔۔۔
کہاں جارہی ہو۔۔۔۔۔وہ تیار ہوتی ماہین کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔
یونی۔۔۔۔۔۔اسے زبیر کے اس سوال پر حیرت ہوئی ۔۔۔۔
کوئی ضرورت نہیں یونی جانے کی۔۔۔۔
کیوں۔۔۔۔وہ پلٹ کر حیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔۔۔۔
بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔وہ ماہین کو لے کر پوزیسیو تھا کل ملک کے آنے پر پتہ نہیں اک اجیب سا ڈر اسکے زہن پر سوار تھا۔۔۔
زبیر مجھے ایڈمٹ کارڈ لینا ہے آج میرے ایگزیم ہے اگلے ویک سے آپ ایسا کیوں کرہے ہیں ۔۔۔وہ بس رونے کو تھی۔۔۔
بس میں نے کہہ دیا نہ نہیں جانا تو نہیں جانا۔۔۔۔
آپ مجھ پر پابندی لگا رہے ہو۔۔۔۔ماہین کو جیسے افسوس ہوا کیونکہ اس سے پہلے زبیر نے کبھی اس پرغاس طرح روب یا پابندی نہیں لگائ۔۔۔
ماہین بحث مت کرو۔۔۔۔
زبیر پلیز پلیز پلیز ۔۔۔میری اسٹڈی میرے فیوچر کا سوال ہے۔۔۔۔وہ اسکے قریب آکر بولی اور رونے لگی۔۔۔۔
زبیر ماہین کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا اسلیے اسے ماننا پڑا اب وہ اسے کیسے سمجھاتا کے وہ کیوں منع کرہا ہے۔۔۔
اوکے پر میری بات دھیان سے سن لو تمہیں میں ہی یونی چھوڑوں گا اور جب تک میں تمہیں لینے نہیں آؤں گا تم باہر قدم تک نہیں رکھو گی۔۔۔۔۔۔
اوکے ۔۔۔ماہین خوشی سے بولی۔۔۔
اب جلدی کریں اور مجھے یونی چھوڑ دیں۔۔۔۔۔
پانچ منٹ میں آیا۔۔۔۔وہ واش روم میں آیا تو ماہین اسکے کپڑے نکالنے لگی۔۔
ماہین دن رات پڑھ رہی تھی اسکے ایگزیم اسٹارٹ ہونے والے تھے زبیر اسکا بہت خیال رکھ رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کے ماہین اگزیم کی تیاری میں سب بھول جاتی ہے نہ کھانے کا حوش نہ پینے کا حوش تھا اسے۔۔۔۔۔۔
ماہین چلو کھانا کھانے ۔۔۔۔زبیر اسکی بک اسکے ہاتھ سے چھینتا ہوا بولا۔۔۔
زبیر ابھی نہیں تھوڑی دیر میں کھا لوں گی ابھی بس تھوڑا اور پڑھ لوں پلیز۔۔۔
بلکل نہیں چپ چاپ کھانا کھانے چلو ۔۔۔
زبیر اچھا پانچ منٹ یہ سوال سالو کرلوں۔۔وہ کاپی میں جھکے ہوئے بولی۔
نہ پانچ منٹ نہ دو منٹ نہ ایک منٹ۔۔۔۔وہ اسکے ہات سے کاپی بھی چھین چکا تھا۔۔۔
اف الله ۔۔۔۔۔
ہاں چلو بس۔۔۔
اچھا چل رہی ہوں ۔۔۔۔۔
ذین بھائی کب کرہے ہیں شادی۔۔ماہین سیلڈ کھاتی ہوئی بولی۔۔۔
جب آپکی دوست بولے۔۔۔۔میرا مطلب جب اسکے ماما پاپا مان جائیں اگر آج بولے تو میں تو آج نکاح کرلو۔وہ شرارت سے بولا۔۔۔
او ہو اتنی بے چینی۔۔۔۔ماہین اسکا مزاق اڑا کر ہنسنے لگی جس پر زبیر اور ذین کو بھی ہنسی آئی ۔۔۔۔
یہ میڈم پھر سے پڑھنے بیٹھ گئ ابھی بتاتا ہوں۔۔۔۔۔۔وہ ماہین کو دیکھتا ہوا بولا جو پھر بکس لے کر بیٹھ چکی تھی۔۔۔۔
زبیر بیڈ پر آیا اور ماہین کو کمر سے پلٹ کر بیڈ پر لٹا دیا۔۔۔
زبیر کیا کرہے ہیں آپ ۔۔۔۔وہ زبیر کو خود پر جھکتا دیکھ کر بولی۔۔۔
پیار کرہا ہوں۔۔۔وہ اسکے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھسانے لگا۔۔
زبیر چھوڑیں نہ پلیز۔۔۔۔۔وہ اسکی گردن پر اپنی پیار کی مہر لگانے لگا۔۔۔۔
نہیں اب کچھ نہیں بولنا۔۔۔
زبیر!!!!!وہ پھر سے چیخی جس پر زبیر نے اسے گھورا تھا اور اسکی گھوری سے وہ سمجھ چکی تھی کہ آج وہ رعایت کرنے والا نہیں ہے اسلیے اس نے آگے کچھ بولنے کی ہمت نہیں کی چپ چاپ اسکی شوخیاں برداشت کرنے لگی۔۔۔۔
زبیر۔۔۔۔۔وہ اپنے آپ میں سوچتی ہوئی بولی۔۔
جی۔۔۔وہ اپنا کام جاری رکھتا ہوا کہنے لگا۔۔۔۔
کتنا اچھا ہوگا نہ جب نوشین اور ذین بھائی کی شادی ہوجائے گی میری پیاری دوست میرے ساتھ ہی رہے گی۔۔۔
ہاں بہت اچھا ہوگا کم سے کم تمہارے ساتھ کوئی تو ہوگی اس گھر میں تمہیں کمپنی دینے والی۔۔۔۔۔
ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔
میں ان دونوں کی شادی پر بہت ساری شاپنگ کروں گی۔۔۔۔اس نے اپنی فرمائش کی ۔۔
ارے میں آپ کو پورا مال دلوا دونگا پر ابھی مجھے ڈسٹرب مت کرو۔۔۔۔ماہین اسے گھورنے لگی تھی اس نے کچھ بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھی جب وہ اسکے ہونٹوں کو قید کر چکا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر نے ماہین کو یونی چھوڑا تھا اور تب تک وہاں سے نہیں ہلا جب تک وہ مکمل اندر نہیں چلی گئ پھر گاڑی گھما کر اپنی میٹنگ میں آیا تھا ۔۔۔۔
یار تم نے ساری تیاری کرلی ہے کیا۔۔۔۔نوشین ماہین کو دیکھ کر پوچھنے لگی وہ دونوں لائبریری میں بیٹھی ہوئیں تھی۔۔۔
ہاں سب یاد کرلیا بس ریویجن کرنا ہے۔۔۔۔ماہین خوشی سے بولی۔۔۔
یار میرے تو ابھی تین چیپٹر باقی ہیں ۔۔۔وہ افسوس سے بتانے لگی۔۔
یاد کرلو نہ ۔۔۔۔
ہمم کرلو گی۔۔
تم تو ہر بار ٹاپ کر لیتی ہو۔۔۔۔اور ایک میں ہوں نکمی ۔۔۔۔۔۔
ارے نہیں بھئ تم نکمی نہیں ہو۔۔۔۔
ہاں بس رہنے دو۔۔۔۔ارے ہوجائے گا یاد ٹینشن نہ لو۔۔۔۔
ہمم اچھا۔۔۔
پھر وہ خاموشی سے پڑھنے لگیں تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہین گھر آئی تھی اور دپہر کی نماز کی بعد وہ بیڈ پر لیٹ گئ تھی کیونکہ وہ پڑھ پڑھ کے تھک گئ تھی کھانا کے بعد زبیر کام سے باہر جا چکا تھا ۔۔۔۔۔
ماہین کے ذہن میں آیا کے وہ آج کا کھانا اپنے ہاتھوں سے بنائے اسلیے وہ خوشی خوشی کچن میں گئ تھی۔۔۔
ارے میڈم آپ یہاں کچھ چاہیے تو مجھے بتا دیتی میں لے آتا روم میں۔۔۔محمد دین ماہین کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔
ارے محمد بھائی کچھ نہیں چاہیے بس میں نے سوچا آج کا کھانا میں بنا لوں۔
ارے آپ کو کیا ضرورت ہے آپ ہمیں بتائیں کیا بنانا ہے ہم بنا دیں گے۔۔۔۔
ارے آپ بس میری مدد کردیں میں خود اپنے ہاتھ سے زبیر کے لیے اسکا من پسند کھانا بنانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔وہ خوشی سے بولی۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔بتائیں کیا بنانا ہے۔۔۔
فرائڈ رائس زبیر کو بہت پسند ہیں وہ بناہیں گے ۔۔۔۔اور بھنا قیمہ اور چپاتی ۔۔۔۔اسکے علاوہ رشین سیلڈ اور چکن شاشلگ۔۔۔۔اور میٹھے میں کھیر۔۔۔۔
اچھا پہلے کیا بنائیں ۔۔۔۔
پہلے فرائڈ رائس بناتے ہیں آپ ایک کام کریں آپ چیزیں کاٹیں جو جو میں مانگوں مجھے د،یتے رہے۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔
زبیر اور ذین رات آٹھ بجے گھر آئے تھے زبیر کمرے میں آیا تو ماہین وہاں نہیں تھی وہ اسے ڈھونڈتا ہوا نیچے آیا تو میڈم کچن میں کھانا بنارہی تھی زبیر کو اسکی من پسند خوشبوؤں نے آگھیرا جیسے ہی اس نے کچن میں قدم رکھا۔۔۔
ماہین تم یہاں کیا کرہی ہوں۔۔۔۔۔وہ مختلف ڈشز دیکھتا ہوا بولا۔
ارے آپ کیوں آئے یہاں میں باہر ہی آرہی ہوں ڈائنگ پر میں نے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا ہے آج آپ کی پسند کا۔۔۔۔۔
او آئی سی ۔۔پر اس سب کی کیا ضرورت تھی آپ کو اک تو ویسے ہی تم تھک جاتی ہو آج کل دیر تک پڑھنے کی وجہ سے ۔۔۔۔
کوئی بات نہیں آپ باہر چلیں اور ذین بھائی کو بھی بلائیں میں بس آرہی ہوں کھانا لے کر۔۔۔۔
اچھا۔۔۔زبیر یہ کہہ لر باہر نکل گیا۔
کیا بات ہے آج سب اپنے ہسبینڈ کی پسند کا بنایا ہے ۔۔۔۔ذین رائس کھاتا ہوا بولا۔۔۔
ارے بس ایسے ہی دل کیا تو بنا دیا۔۔۔۔
کوئی بات نہیں بیٹا ہمارے لیے کھانا بنانے والی بھی آرہی ہے۔۔۔وہ شرارت سے بولا۔۔۔
ہاں تو کیوں جل رہے ہو تم ویٹ کرو اپنی والی کا۔۔۔زبیر اسے چڑاتا ہوا کہنے لگا۔۔۔
ماہین ان دونوں کی نوک جھوک دیکھ کر ہنس رہی تھی۔۔۔۔
کھانا بہت اچھا بنا ہے ماہین سچ میں۔۔۔زبیر اسکی تعریف کرنے لگا۔
ہاں ماہین کھانا سچ میں اچھا بنا ہے۔۔ذین چکن شالگ پر ہاتھ صاف کرہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہین کے پیپر اسٹارٹ ہوچکے تھے اسکا سارا دھیان اپنے پیپر کی طرف تھا وہ دن رات بس اگزیم کی تیاری کر رہی تھی ز بیر اسکے کھانے پینے کا بہت خیال رکھ رہا تھا کیونکہ اس معاملے میں ماہین بلکل دھیان نہیں دیتی تھی۔۔۔
ساری تیاری ہوگئ۔۔ماہین نوشین کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی جو آج کے پیپر کی وجہ سے کچھ پریشان لگ رہی تھی۔۔۔
یار یاد تو کیا ہے پر بار بار بھول رہی ہوں میں۔۔وہ رونے والامنہ بنا کے بولی۔۔
ارے تم جو اتنی ٹینشن لے رہی ہو اسلیے ہو رہا ہے ایسا یار کالم ڈاؤن ٹینشن مت لو اچھا ہوجائے گا پیپر ۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔وہ پھیکا سا مسکرائی ۔۔
ارے اک کام۔کرو تم اک بار شروع سے ریوائز کرو ۔۔
اچھا۔۔نوشین ریوائز کرنے لگی۔۔
چلو پیپر کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔دونوں اندر کی طرف گئی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے تو تو کہہ رہا تھا کے اس زبیر سے ایسا بدلہ لوگا کے وہ یاد رکھے گا پر تو تو بڑے آرام سے بیٹھا ہے کہیں ڈر تو نہیں گیا اس سے۔۔۔
ملک کا دوست شراب کا گلاس منہ سے ہٹائے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
ارے نہیں ڈرا نہیں میں بس سہی وقت کا انتظار کرہا ہوں۔۔ملک۔نشے کی حالت میں جھوم رہا تھا۔۔۔
ارے تجھے پتہ ہے اس زبیر کی بیوی کو دیکھا ہے میں نے کتنی حسین ہے کیا بتاؤں۔۔۔ملک اپنے دوست کو بتارہا تھا۔۔۔
اچھا ہمیں بھی درشن کرا دو ۔۔۔۔
کرواؤ گا ضرور کرواؤ گا بس اک بار ہاتھ آجائے ۔۔۔۔دونوں مل کر ہنس رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسا ہوا پیپر ۔۔۔۔ماہین کلاس سے باہر نکل۔کر نوشین سے پوچھنے لگی۔۔۔
یار ہوا تو اچھا پر لونگ رہ گیا۔۔۔۔
وہ کیوں ۔۔۔
ٹائم ختم ہوگیا تھا۔۔۔
اچھا کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔
چل کچھ کھاتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسا ہوا پیپر ۔۔۔۔زبیر ڈرائو کرتا ہوا ماہین سے پوچھ رہا تھا۔۔
اچھا ہوا پیپر ۔۔۔۔۔۔پتہ ہے میں نے بس دو گھنٹے میں پورا پیپر سالو کرلیا تھا۔۔۔۔وہ خوشی سے زبیر کو بتا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ماہین گھر آچکی تھی وہ خوش تھی فائنلی اسکا پیپر اچھا ہوا تھا وہ ویسے بھی برائٹ سٹوڈنٹ تھی اسکو پڑھائی کا بہت شوق تھا۔۔
ماہین تم یہاں کیوں بیٹھی ہو چلو نیچے کھانا کھانے جب سے یونی سے آئی ہو یہاں بیٹھی ہو۔۔۔۔زبیر ماہین کو دیکھ کر بھڑک گیا جسے اپنے کھانے پینے کا ہوش ہی نہیں ہوتا۔۔
ج۔ ج جی آرہی ہوں ماہین جو مسکرانے میں مگن تھی زبیر کی بات پر چونک کر کہنے لگی۔۔
کیا سوچ کر اتنا مسکرایہ جارہا تھا۔۔
وہ بس ایسے ہی ۔۔۔۔ہاں پیپر اچھا ہوا نہ اسلیے۔۔۔۔وہ جیسے کچھ چھپاتے ہوئے بولی۔۔۔
تو پہلی بار تو نہیں ہوا ہوگا اچھا۔۔۔۔وہ جیسے سمجھ سکا تھا کے بات کچھ اور ہے۔۔۔
ارے کیا آپ بھی چلیں کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔ماہین جیسے ہی کھڑی ہوئی اسے ایک زور دار چکر نے آگھیرا وہ اپنا سر پکڑے کھڑی ہوگئ۔۔۔
کیا ہوا تمہیں ۔۔۔۔زبیر آگے ہوکر ماہین کو تھامتا ہوا بولا۔۔۔
ک کچھ نہیں وہ کچھ کھایا نہیں نہ اسلیے چکر آگیا تھا۔۔۔۔ماہین بوکھلائے ہوئ بولی۔۔۔۔
اف یار کیا ہے کیوں اتنا تنگ کرتی ہوں کچھ کھا لیا کرو نہ۔۔۔۔
اچھا نہ چلیں کھاتی ہو۔۔۔وہ دونوں نیچے ڈائنگ پر آئے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے زبیر کا بتایا کے تم ایکسپیکٹ کررہی ہوں۔۔۔۔۔نوشین کافی کا سپ لیتی ہوئی بولی۔۔
نہیں ابھی نہیں بتایا۔۔۔
کیوں؟
دو پیپر اور ہو جائیں جو رہ گئ ہیں پھر بتاؤں گی ورنہ تو وہ مجھے پیپر دینے بھی آنے نہیں دے گا۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔اتنی کیر کرتا ہے تمہاری۔۔۔۔
ہاں بہت زیادہ۔۔۔۔۔
کرنی بھی چاہیے بیوی جو اتنی پیاری ملی ہے اسکو۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہاہا سچی۔۔۔۔
مچی۔۔۔۔
میم آپکی کار آگئ آپکوں لینے ۔۔۔۔
اوکے آرہی ہوں۔۔۔چل نوشین۔
ہاں چلو۔۔۔
ماہین۔باہر آئی اور ادھر اودھر زبیر کو تلاش کرنے لگی ۔۔۔
تم یہاں کیا کررہی ہو۔۔۔۔زبیر جو ابھی ابھی آیا تھا ماہین کو دیکھ کے بڑھک اٹھا۔۔۔
ارے آپ آگئے تھے نہ لینے اسلیے آئی ہوں ۔۔۔۔
پر میں نے کہا تھا جب تک میں نہ آؤں باہر قدم مت رکھنا اور تم پہلے سے یہاں کھڑی ہو۔۔۔وہ سچ میں غصہ تھا۔۔
پر آپ نے ہی تو۔۔۔۔۔
اسلام علیکم جیجو۔۔۔۔۔نوشین زبیر کو سلام کرنے لگی تو ماہین چپ ہوگئ۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔۔
میں آپ کو جیجو کہہ سکتی ہوں نہ مطلب آپکو کوئی اعتراض تو نہیں ۔۔۔
جی جب سالی ہو تو جیجو ہی کہو گی بھلا مجھے کیا اعتراض ہو گا ۔۔وہ مسکراتہ ہوا بولا۔۔۔
چلیں۔۔۔
جی میں چلتی ہوں ۔۔۔۔
نوشین دکو گاڑی میں بیٹھ جاؤ میں تمہیں بھی ہاسٹل چھوڑ دوگا ۔۔
نہیں نہیں کوئی بات نہیں میں چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔
نہیں آپ آؤ میں چھوڑ دوگا۔۔۔۔۔
اوکے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیم یار سارا پلین فیل ہوگیا اگر وہ زبیر اینڈ موکے پر نہیں آتا تو ماہین کو تو میں آج اٹھا لیتا یونیورسٹی سے۔۔ملک اپنا پلین خراب ہونے پر غصے سے بولا۔۔۔
چل رہن دے آج نہیں تو کل صحیح اور کل نہیں تو ایک دو دن میں صحیح پر وہ آئی گی ضرور ہمارے ہاتھ میں۔۔۔اسکا دوست بول کا ہنسا ۔۔۔
ہاں ٹھیک کہہ رہا ہے تو بدلے کا بدلہ اور مزے کا مزہ۔۔۔دونوں کے قہقہہ گونجنے لگے۔۔۔
زبیر احمد دیکھتا ہوں کب تک بچاتا ہے اسے ہم سے جان بستی ہے نہ تیری اس میں وعدہ ہے میرا تیری جان۔نہ نکال دی تو میرا نام۔بھی ملک نہیں۔۔۔۔وہ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔