یہ سب کیوں کرتے ہیں آپ آج سے کوئی غلط کام نہیں کریں گے ورنہ میں آپکو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کے چلی جاؤں گی۔۔وہ اسے دھمکی دیتی ہوئی بولی تھی۔۔
ماہین کے پاپا جو اتنے دیر سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے اب سمجھ چکے تھے کہ ماہین زبیر سے پیار کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ماہین کے پاپا الٹے پاؤں واپس چلے گئے تھے۔۔۔
میں سب چھوڑ دوںگا پر تھوڑا وقت چاہیے مجھے۔۔۔وہ اسکا ہات اپنے ہآتھ میں لے کر بولا پھر اسکی نظر ماہین کے پیر پر گئ جس میں سے خون نکل رہا تھا۔۔۔
تمہیں یہ چوٹ کیسے لگی۔۔۔۔وہ اسکا پاؤں دیکھ کر پریشان ہوا تھا۔۔۔۔
وہ اپنا پاؤں کو دیکھنے لگی اسے پتہ ہی نہیں چلا کے اسے چوٹ لب لگی۔۔۔
وہ شاید راستے میں پیر میں کچھ لگ گیا ہو گا۔۔۔وہ پاؤ پر غور کرتی ہوئی بولی۔۔۔
کیا کرتی ہو چپل کیوں نہیں پہنی ہے تم نے پاگل ہو گئی ہو کیا۔۔۔۔۔۔وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
ذین جاؤ اسکے لیے چپل لے کر آؤ اور نرس کو بھی بھیجوں ۔۔۔
ہمم اچھا۔۔۔وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
جی سر ۔۔۔۔۔نرس آئی ۔۔۔۔
میری وائف کے پیر میں چوٹ لگی ہے پٹی کردیں۔۔۔
او کے سر ۔۔۔وہ ماہین کی پٹی کرنے لگی۔۔۔
نرس پٹی کر کے جاچکی تھی۔۔۔
پیار کرتی ہو مجھ سے۔۔۔۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔
اب بھی پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔وہ نظریں نیچے کر کہ بولی۔۔
آپ کے منہ سے سننا ہے مجھے۔۔۔۔
پتہ نہیں کب کیسے پر آج مجھے احساس ہوا کے میں پیار کرتی ہوں آپ سے مجھے پتہ چلا کے آپ کو گولی لگی ہے ایسا لگا میرا دل بند ہوجائے گا مجھے ایسا لگا کے اگر آپکوں کچھ ہوگیا تو میں بھی جی نہیں پاؤں گی۔۔۔وہ نم آنکھوں کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی۔۔۔۔
زبیر نے اسے اپنے سینے سے لگیایا تھا۔۔۔۔
جیسے ہی دروزے پر دستک ہوئی وہ دونوں الگ ہوئے تھے۔۔۔۔۔
جی اب کیسا محسوس کرہے ہیں آپ ۔۔۔۔ڈاکٹر اندر آکر پوچھنے لگا۔۔۔
آئی ایم فائن۔ڈاکٹر ۔۔۔۔۔پلیز چھٹی دے دیں۔۔۔۔۔
آج تو بلکل نہیں مل سکتی کل تک ہوگی۔۔۔۔
پلیز ڈاکٹر یہ ہاسپٹل کا ماحول مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ہے اپر سے میری وائف بھی پریڈنینٹ ہے اسکی یہاں طبیعت خراب ہوجائے گی۔۔۔۔وہ اپنی ہنسی چھپا کر بولا جس پر ماہین کو جھٹکا لگا تھا اور اس نے گھور کے زبیر کو دیکھا تھا۔۔۔
ریلی۔۔۔۔
جی ڈاکٹر پلیز آج ہی ڈاسٹارج کر دیں۔۔۔۔
اوکے پر شام تک پر آپکوں انکا بہت خیال رکھنا ہے اور ہر دوسرے دن بینڈج کرانی ہے۔۔۔۔
اوکے ڈاکٹر۔۔۔۔ڈاکٹر جا چکا تھا اور ماہین زبیر کو گھور ہی تھی۔۔۔
کم سے کم ہاسپٹل میں تو اپنی بے ہودہ حرکتے بند کریں جھوٹے۔۔۔وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔۔۔
ارے کیا جھوٹ بولا کچھ دن بعد تو ہوگا نہ ایسا اسلیے ابھی سے بول دیا۔۔۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
چپ۔۔وہ منہ پر انگلی رکھ کر اسے چپ کرانے لگی۔۔۔۔۔
آپ لوگ اپنا رومینس گھر پر کنٹنیوں کریے گا یہ ہاسپٹل ہے۔۔۔۔ذین اندر آکر ان دونوں کو دیکھتا ہوا بولا ماہین فورا زبیر سے دور ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
یہ لو چپل۔۔۔وہ ماہین کو چپل دیتا ہوا بولا۔۔۔
تھینک یو زین بھائی ۔۔۔۔
زبیر کی چھٹی ہوچکی تھی اور وہ لوگ گھر آگئے تھے ماہین نے اپنی ماما کو انفارم کردیا تھا کے وہ زبیر کے ساتھ رہے گی اور اسکے پاپا بھی یہ بات سمجھ چکے تھے کہ ماہین زبیر سے پیار کرتی ہے اور وہ اسے مہیں چھوڑے گی۔۔۔۔
بیٹھے میں آپکے لیے سوپ لاتی ہوں۔۔۔۔۔ماہین کمرے میں زبیر کو۔چھوڑ کر کچن کی طرف گئی تھی۔۔
ماہین نے اپنے ہاتھوں سے چکن سوپ بنایا تھا اور کمرے میں لا کر اسکے سامنے رکھا تھا۔۔۔
تم پیلاؤں میرے ہاتھ کو موو کرنے سے پین۔ہورہی ہے۔۔۔۔وہ اسے اپنا زخم دکھاتا ہوا بولا۔۔۔
ماہین اسکوں سوپ پلارہی تھی اور زبیر اسے دیکھتے ہوئے پی رہا تھا۔۔۔
بس یار اب اور نہیں۔۔۔وہ منہ بناتا ہوا کہنے لگا۔۔۔
چپ چاپ پی لیں پھر دوائی کھانی ہے۔۔۔۔۔اسنے اسے زبردستی سارا سوپ پلایا تھا اور دوائی کھلا کے لٹایا تھا۔۔۔۔۔
دل کرہا ہے میں ہمیشہ ایسا ہی رہوں اور تم میری خدمت کرتی رہو۔۔۔۔۔وہ مسکراتہ ہوا بولا۔۔۔۔۔
بیوی نہیں ملازمہ چاہیے تھی آپکوں۔۔۔۔۔۔وہ اسکے گھورتی ہوئی کہنے لگی جس پر اسکا قہقہہ بلند ہوا تھا۔۔۔۔
سو جائیں ۔۔۔وہ اٹھ کر جانے لگی جس پر زبیر نے اسکا ہات پکڑا تھا۔۔۔۔
تم بھی لیٹو میرے ساتھ۔۔۔۔وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے بولا۔۔۔۔
میں کیوں لیٹوں طبیعت آپکی خراب ہے میری نہیں۔۔۔۔۔
تم آؤں ادھر وہ اسے ہاتھ سے کھینچتا ہوا اپنے قریب کرنے لگا اور اسکا سر اپنے الٹے ہاتھ کی طرف رکھ کر لیٹا دیا۔۔۔اور آنکھیں موند گیا ماہین کچھ دیر اس ایسے ہی دیکھتی رہی پھر آنکھیں موند گئ۔۔۔۔
وہ جو اجنبی سا شخص تھا میرے دل میں بس چکا ہے۔۔
وہ جو اجنبی سا شخص تھا میری روح تک اتر چکا ہے ۔۔۔۔
وہ جو اجنبی سا شخص تھا میری نس نس میں بس چکا ہے۔۔۔۔۔
و ہ جواجنبی سا شخص تھا میری دھڑکن وہ بن چکا ہے۔۔
ماہین کی آنکھ صبح آزان کے ٹائم کھلی تو اس نے دیکھا وہ ابھی بھی زبیر کے کندھے پر سر رکھ کر سورہی تھی زبیر گہری نیند میں سورہا تھا ماہین آہستہ سے اٹھتے ہوئے فریش ہونے چلی گئ فریش ہونے کے بعد اس نے فجر کی نماز پڑھی اور پھر قران۔پاک کی تلاوت کرنے لگی ۔۔۔۔قران پاک پڑھنے کے بعد وہ پھر سے زبیر کے برابر میں لیٹ گئ ۔۔۔۔
صبح زبیر کی آنکھ کھلی تو ماہین وہاں نہیں تھی وہ اسے ادھر اودھر ڈھونڈنے لگا ۔۔۔۔۔
شاید نیچے گئی ہے۔۔۔وہ خود سے کہتا ہوا واش روم چلا گیا۔۔
ماہین ناشتہ لے کر کمرے میں آئی تھی تو زبیر واش روم میں تھا ماہین نے ناشتہ بیڈ پر رکھا اور اسکے کپڑے نکالنے لگی۔۔۔
زبیر واش روم سے باہر نکلا تو ماہین آچکی تھی اس نے اسکے نکالی ہوئی شرٹ اٹھائی اور پہنے کی کوشش کرنے لگا پر اسکے سیدھے کندھے کے تھوڑے نیچے زخم ہونے کی وجہ سے اس کو شرٹ اتارنے میں پریشانی ہورہی تھی ماہین اسکے سامنے آئی اور اسکی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی زبیر اسے دیکھنے لگا۔۔۔
ماہین نے اسکی شرٹ اتار کر اسے دوسری شرٹ پہنائ تھی۔۔۔۔
ناشتہ کرلیں۔۔۔۔وہ اسے بیڈ تک لات ہوئی بولی۔۔۔
اب میں اتنا بیمار بھی نہیں کے میں ڈائنگ تک نہ آسکوں یا تمہیں میرے ساتھ پرائویسی چاہیے تھی۔۔وہ شرارت سے بولا تھا۔۔۔۔
زیادہ خوش فہمیاں پالنے کی ضرورت نہیں ہیں ۔۔۔۔۔
وہ اسکی بات پر ہنسنے لگا ۔۔۔۔۔۔
تم بھی کھاؤ۔۔۔۔وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔
ماہین اسے کھلانے لگی اور خود بھی کھانے لگی ۔۔۔۔
ماہین نے اسے دوائی دی تھی۔۔
لیٹ جائیں۔۔۔
ابھی تو اٹھا ہوں پھر لیٹ جاؤں بولو تو ہمیشہ کے لیے سو جاؤں ۔۔۔۔۔وہ شرارت سے بولا۔۔
الله نہ کرے کیسی باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔ماہین نے اسے اک مکا مارا تھا۔۔۔۔
آوچ!!!!!!!زبیر اپنے زخم پر ہاتھ رکھ کے بولا۔۔۔۔
سوری سوری لگ گئ کیا۔۔۔۔۔۔
یہاں نہیں یہاں لگی ہے۔۔۔۔وہ اپنے دل پر انگلی رکھ کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔
ماہین نے اسے گھور کر دیکھا جس پر وہ ہنس دیا۔۔۔۔
کیوں گئی تھی مجھے چھوڑ کے۔۔۔۔وہ اسکا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگاتا ہوا بولا۔۔۔۔
پاپا لے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اسکا لمس محسوس کر کے دھیرے سے بولی۔۔۔
اگر تم مجھے چھوڑ کے اب گئ تو میں سچ میں موت کو اپنے گلے لگا لوگا۔۔۔۔
ششش۔۔۔۔۔۔وہ اسے چپ کرانے لگی۔۔۔۔
ذین گھر سے باہر آیا تھا کسی کام سے وہ کار ڈرایو کر کے روڈ پر چلا رہا تھا کے اسے نوشین نظر آئی تھی اس نے اسکے قریب گاڑی روکی کر اسے آواز لگائی ۔۔۔
ہیلوں مس نوشین۔۔۔۔وہ اپنے سن گلاسس اتار کے اسے دیکھ کر مسکراتہ ہوا بولا جو اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور کر آگے بڑھنے لگی۔۔۔
ہیلوں آپ نے پہچانا مجھے۔۔۔وہ پھر سے اسکے قریب گاڑی کر کے بولا۔۔۔
جی پہچان لیا۔۔۔وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔۔۔۔
تو پھر جواب کیوں نہیں دیا۔۔۔
کوئی کام ہے آپکوں ۔۔۔وہ بات بدلتے ہوئے بولی۔۔۔
آپ کہاں جارہی ہیں۔۔۔
کیوں آپ کیوں پوچھ رہے ہوں۔۔۔۔
ارے ایسے ہی آپ اتنا روڈ کیوں رہتی ہو ہر وقت یا میرے اپر آپکی یہ کچھ خاص مہربانی ہے۔۔۔
میں ایسی ہی ہوں۔۔
اچھا یہ بتائے آپ کہاں جارہی ہیں۔۔
کہیں بھی جاؤں آپ سے مطلب۔۔۔وہ اسے گھورتی ہوئی بولی وہ اپی دو بار کی بے عزتی ابھی تک نہیں بھولی تھی۔۔۔
ارے میرا مطلب تھا میں چھوڑ دوں آپکوں۔۔۔۔۔وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔۔۔۔
نہیں جی بہت مہربانی۔۔۔۔۔وہ منہ بناتی ہوئی کہنے لگی۔۔۔۔۔
سامنے سے آتے لوگوں پر اسکی نظر پڑی تو اسکے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔
ابھی مزہ چکھاتی ہوں۔۔۔۔۔۔وہ دل میں بولی۔۔۔۔
دیکھیے اگر آپ نے مجھے تنگ کیا تو میں چپ نہیں رہوں گی لوگوں کو شور کر کے اکھٹا کروں گی اور انہیں بتاؤں گی آپ کسطرح مجھے تنگ کرہے ہیں اور مجھے بلیک میل کرہے ہیں۔۔۔۔۔وہ بے چاری ہونے کی ایکٹنگ کرتی ہوئی اونچی آواز میں بولی تھی جو ان آدمیوں نے بہ آسانی سنی تھی۔۔۔۔۔
کیا ہوا بیٹا کیا یہ تمہیں چھیڑ رہا ہے۔۔۔ان۔میں۔سے ایک آدمی ذین کو گھورتا ہوا نوشین کو بولا۔۔ذین جو اسکے اچانک بدلے رویے پر حیران تھا ان آدمیوں کو حیرت سے دیکھنے لگا۔۔۔
جی انکل یہ مجھے چھیڑ رہا تھا اور مجھے کار میں بیٹھنے کا بول رہا تھا میں نے جب اسکو ٹھیک ٹھاک سنائی تو مجھے اٹھا کے لے جاؤ گا ایسی دھمکیاں لگا۔۔۔وہ مصنوعی رونے کی ایکٹنگ کرتی ہوئی بولی۔۔۔۔
نوشین میں نے کب تمہیں چھیڑا تم کیوں ایسا بول رہی ہوں۔۔۔۔۔وہ بیچارا خطرے کے سگنل دیکھ کر بولا۔۔۔۔
نکل گاڑ ی سے باہر جلدی۔۔۔۔ان میں سے ایک نے اسے گاڑی سے باہر نکالا تھا ۔۔۔۔۔ماہین اسے دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔
تم امیر زادو کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں پتہ نہیں کیا سمجھتے ہو خود کو پیسے سے کچھ بھی خرید لوگے۔۔۔۔۔ایک آدمی اسے گریبان سے پکڑ کر بولا۔۔۔۔
انکل میں جاؤں۔۔۔نوشین ذبیر کو پھنسا کر خود نکلنے کے لیے بولی۔۔۔
جی بیٹا آپ جائیں اسکو تو ہم دیکھتے ہیں۔۔۔پولیس کو۔بلاؤ۔۔وہ دوسرے شخص کو بولا ۔۔۔
پولیس!!!!نوشین آنکھیں پھاڑ انھیں دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔
ارے میں نے کچھ نہیں کیا چھوڑوں مجھے ۔۔۔۔۔ذین چیخ کے بولا ۔۔۔
اک تو لڑکی کو چھیڑتا ہے اپر سے جھوٹ بولتا ہے ۔۔۔۔اس آدمی نے ذین کے منہ پر اک تھپڑ مارا تھا نوشین نے اپنے منہ۔پر ہات رکھا تھا اسے اندازہ نہیں تھا یہ بات اتنی بڑھ جائے گی وہ تو بس ذین کو مزہ چکھانا چاہتی تھی ۔۔۔۔
ماہین وہاں سے نکلی تھی ذین کو پولیس پکڑ کر لے گئ تھی اسے اب برا لگ رہا تھا کے اس نے بس اپنے چھوٹے سے مزاق سے اسکے ساتھ کیا کر دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پندرہ دن گزر چکے تھے زبیر کا زخم اب کافی بہتر ہو چکا تھا ماہین نے پچھلے دنوں اسکا بہت خیال رکھا تھا۔۔۔۔
زبیر روم میں بیٹھا ہوا تھا ماہین نیچے کچن میں تھی جو اپنی نیو لیڈی سرونٹ جسکوں زبیر نے ابھی رکھا ہے کام سمجھا رہی تھی۔۔۔۔۔
ماہین اپر کمرے آئی تو زبیر بیڈ پر لیٹا ہو اتھا آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہوا تھا ماہین بیڈ کے قریب آئی تو بھی وہ اسی طرح لیٹا رہا۔۔۔
شاید سو گئے ہیں۔۔۔وہ خود سے کہتی مڑی تھی کے اسنے جھٹکے سے اسکا ہاتھ پکڑے اسے بیڈ پر کھینچ کر اپنے نیچے کیا تھا ماہین اس اچانک ہوئے حملے کے لیے تیار نہیں تھی وہ چیخ کر آنکھیں پھاڑے زبیر کو دیکھنے لگی جسی آنکھوں میں شرارت تھی۔۔
کیا کرہے ہیں آپ چھوڑے مجھے۔۔۔۔وہ اسکے وجود کے نیچے دبے مچل رہی تھی۔۔
اک شوہر اپنی بی وی کے ساتھ کیا کرتا ہے۔۔وہ اسکے ہونٹوں کو دیکھتا ہوا بولا۔۔
زبیر مجھے کچن میں کچھ کام ہے۔۔۔وہ بہانہ بنانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
سب سے ضروری ہمارا یہ کام ہے۔۔۔وہ اسکے ہونٹوں پر جھکتے ہوئے بولا۔۔۔
زبیر۔۔۔وہ بےبس سی ہوکر بولی۔۔۔
ماہین۔۔۔۔وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔۔۔
زبیر ماہینے ہونٹوں پر جھکا تھا اس نے اپنے ہونٹوں سے اس کے ہونٹوں کو چھوا ہی تھا کے اسکا فون بجنے لگا ۔۔۔۔
اف!!!!!!زبیر غصہ سے موبائل کو دیکھنے لگا جہاں ذین کالنگ لکھا آرہا تھا۔۔۔
یہ ذین نہ دشمن بن گیا ہے ہمارے رومینس کا خود تو کنوارہ ہے مجھے بھی کنورہ ہی رکھے گا۔۔۔وہ غصے سے بڑبڑاتا کال اٹھانے لگا ۔۔۔
ماہین اپنی سانسیں درست کرنے کی کوشش کرہی تھی۔۔
کیا پولیس اسٹیشن۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔۔۔اچھا آرہا ہوں۔۔۔۔۔وہ کہتا ہوا موبائل بند کرگیا اور ماہین کے چہرے کو دیکھنے لگا۔جہاں شرم و حیا کے رنگ تھے۔۔۔
ارے میری جان۔رات کو میں تمہیں شرمانے کا۔پورا پورا موکہ دونگا اوکے ۔
وہ کہتا ہوا روم سے باہر نکلا۔تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر سر ذین سر ایک لڑکی کو چھیڑ رہے تھے جسکی وجہ سے انکے خلاف کمپلین آئی ہے۔۔۔۔۔پولیس آفیسر زبیر کو بتانے لگا جس پر زبیر نے پاس بیٹھے ذین کو گھور کر دیکھا۔۔۔
آئندہ ایسا نہیں ہوگا آفیسر یو جسٹ ریلکس۔۔۔۔
اوکے آپ لے جائیں انہیں ۔۔۔۔۔
تھینک یو۔۔۔۔
وہ دونوں کھڑے ہوئے اور پولیس اسٹیشن سے باہر آئے تھے۔۔۔۔
یہ کیا حرکتے شروع کر دی ہیں تو نے۔۔۔۔زبیر ذین کو گھورتا ہوا بولا۔۔۔
یار نوشین نے پھنسوایا ہے مجھے اس نے بدلہ لیا ہے مجھ سے میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔۔
ہاں تو کیو لیتے ہو لڑکیوں سے پنگا پھر۔۔۔۔
چل لو اب گھر ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوشین اپنی غلطی کے بارے میں سوچ رہی تھی اسے اب احساس ہورہا تھا کے اس نے ذین کے ساتھ کچھ ذیادہ ہی مذاق کردیا۔۔۔۔
پتہ نہیں پولیس سے چھونٹا یا نہیں ۔۔۔۔۔وہ ناخن چباتی ہوئی سوچنے لگی۔۔۔
کیا کروں فون کروں نہیں نہیں ۔۔۔۔۔
ماہین کو فون کر کے پوچھتی ہوں۔۔۔۔وہ ماہین کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔۔۔
ہیلوں ماہین۔۔۔
ہاں نوشین بول۔۔۔۔
وہ میں یہ کہہ رہی تھی کہ تم یونی کیوں نہیں آرہی۔۔۔۔
ایک دو دن میں آؤں گی بتایا تو تھا کہ زبیر کی طبیعت خراب تھی۔۔۔
اچھا وہ ایگزیمینشن فارم آگئے ہیں نہ۔۔۔۔وہ ادھر اودھڑ کی باتیں کرنے لگی۔۔۔
ہاں پتہ ہے تم نے کل ہی بتایا تھا۔۔۔۔
اچھا۔۔۔۔بتایا تھا میں نے میں تو بھول ہی گئی ۔۔۔۔۔
اچھا زبیر کہاں ہے۔۔۔۔
وہ باہر گئے ہے ذین بھائی کا فون آیا تھا شاید انھوں نے کہیں بلایا ہے۔۔۔۔۔
اچھا۔۔۔۔۔بعد میں بات کرتی ہوں۔۔۔۔اس نے گھبرا کے فون بند کیا تھا۔۔۔۔
زبیر ذین کو چھڑوا کر گھر پہنچا تو رات کے آٹھ بج چکے تھے باہر بارش شروع ہوگئ تھی موسم ویسے ہی کافی ٹھنڈا تھا اور بارش کی وجہ سے ٹھنڈ میں اضافہ ہو گیا تھا وہ اپنے روم میں پہنچا تو ماہین کمرے میں نہیں تھی وہ تھوڑا سا بھیگ چکا تھا وہ اپنے بالوں کو ٹاول سے خشک کرنے لگا اتنے میں ماہین کافی کے دو کپ ہاتھ میں لے کر اندر آئی تھی زبیر کے چہرے پر اسکو دیکھ کر مسکراہٹ آئی تھی۔۔
کیا بات ہے موسم انجوائے کرنے کا پورا پورا ارادہ ہے آج تو۔۔۔وہ مسکراتہ ہوا بولا۔۔
وہ باہر ٹھنڈ ہے نہ اسلیے کافی بنا لی۔۔ وہ اسکے ساتھ سوفے پر بیٹھ کر بولی تھی اور اسکے ہاتھ میں کافی کا کپ پکڑایا تھا۔۔
تھینکس۔۔۔وہ کافی لے کر بولا دونوں کافی کا مزہ لینے لگے ۔۔۔۔
آہ آہ آہ!!!!!!وہ ڈر کر کھڑی ہوئی تھی جب باہر بادل زور سے گرجے تھے اسے بادل کرجنے کی آواز سے ڈر لگتا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔وہ اسکے قریب آتا ہوا بولا۔۔۔۔۔
بادل گرج رہے ہیں۔۔۔وہ سامنے کھلی ونڈوں میں سے گرتی بارش اور چمکتی بجلی کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی زبیر اسکے پیچھے کھڑا تھا اس نے اسکی کمر پر بازو ڈال کر اسے اپنے قریب کیا اور اس کے بالوں میں منہ چھپا گیا۔۔۔۔۔
زبیر!!!!!!!وہ ابھی بھی سامنے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
جی!!!!!!وہ اسکے بالوں کو آگے کرتے ہوئے بولا۔۔۔
مجھے بادل گرجنے کی آواز سے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔۔
ابھی سارا ڈر ختم ہوجائے گا۔۔۔۔وہ اسکی پیچھے اپنے ہونٹ رکھتا ہوا بولا ماہین نے اسکا لمس محسوس کر کے آنکھیں بند کرلی تھی۔۔۔
اک بار پھر سے بادل گرجے تھے اور ماہین چیخ۔کر زبیر کے گلے لگ گئی تھی۔۔۔
دونوں۔اک دوسرے کے اندر کھوئے ہوئے تھے زبیر نے ماہین کو اپنے بازؤوں میں اٹھایا تھا اور اسے بیڈ تک لایا تھا اسنے اسے نرمی سے بیڈ پر لیٹایا اور اسکا ڈوپٹہ اتار کر سائڈ پر رکھا ماہین کی اپر نیچے ہوتی سانسوں کو دیکھ رہا تھا ماہین نے مہرون کلر کا فراک پہنا تھا جو اس پر کھل رہا تھا جسے بازوں نیٹ کے تھے اور ساتھ میں چوڑی دار پجامہ تھا۔۔۔۔۔
زبیر ماہین پر جھکا ماہین اپنی اپر نیچے ہوتی سانسوں کے ساتھ اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ماہین نے کچھ بولنے کے لیے ہونٹ کھولے ہی تھے جب زبیر اسکی زبان بند کرگیا تھا زبیر اسکی سانسے اپنے اندر لے رہا تھا ماہین نے دونوں ہاتھوں سے بیڈ کی چادر کو پکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔
زبیر!!!!!!!!جیسے ہی زبیر نے ماہین کو ہونٹوں کو آزادی دی اس نے اسکا نام۔پکارا۔۔۔
ہممم!!!!!وہ اسکے گردن سے اپنے ہونٹ ہٹاتا ہوا بولا۔۔
دروازہ بند کر دو۔۔۔۔۔وہ بہت مشکل سے بول پائی تھی کیونکہ اندر ذآتے وقت اسنے صرف دروازہ بھیڑا تھا بند نہیں کیا تھا۔۔
زبیر بیڈ سے نیچے اترا تھا اور دروزے کی طرف بڑھا تھا ڈور لوک کرنے کے بعد وہ واپس بیڈ پرر آیا ماہین کی نظریں اسے ہی دیکھ رہی تھی زبیر نے پھر سے اسکی گردن پر اپنے ہونٹ رکھے تھے اب وہ اک کے بعد ایک جسارت کرہا تھا اوس اسکی گردن پر اپنا لمس چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔
اسنے ماہین کا گلا کندھے سے نیچے کیا تھا جس پر ماہین شرماکر پلٹی تھی۔۔۔۔اسکی سانسیں اپر نیچے ہورہی تھی ۔ا
زبیر ن نےماہین کو سیدھا کیا اور اسکا گلہ دونوں شانوں سے نیچے کر گیا۔۔۔۔۔
زبیر!!!!!!!!ماہین نے اک بار پھر آواز دی۔۔۔
جی!!!!!!! وہ اسکے سینے سے ہونٹ ہٹاتاہوا پوچھنے لگا۔۔۔۔۔
لائٹ بند کردوں۔۔۔
وہ اسکی فرمائش پر پہلے تو اسے گھورنے لگا نہ چاہتے ہوئے بھی اسے لائٹ بند کرنی پڑی اب وہ ماہین کو دیوانہ وار چوم رہا تھا ماہین بھی اسکی محبت سے بھیگ چکی تھی اور وہ رات اک خوبصورت رات بن گئی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذین گھر پہنچ کر اپنے کمرے میں بیٹھا تھا اسے نوشین پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا ۔۔۔۔
ایک تو مجھے پٹوایا اور پولیس کے ہوالے کروایا اپر سےمجھے لفنگا بھی بنادیا سب کی نظر میں۔۔۔وہ سیگریٹ پیتے ہوئے بڑبڑارہا تھا اور کل اسکی یونی جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
نوشین صبح معمول کی مطابق یونی کے کیے تیار ہوئی تھی یونی پہنچ کر وہ اپنی کلاس لینے چلی گئی تھی کلاس کے بعد وہ اپنی دوستوں کے ساتھ یونی کے پار میں بیٹھی تھی جب اسے سامنے سے زین آتا ہوا نظر آیا اسکے پسینے چھوٹنے لگے ہاتھ کانپنے لگے تھے جب وہ اسکے قریب پہنچ کر کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔
نوشین اسے خوف سے دیکھرہی تھی ۔۔۔۔
کتنی بار کہا ہے یونی پہنچ کر مجھے انفارم کر دیا کروں ۔۔۔۔۔وہ آنکھوں سے سن گاسس ہٹا کر بولا جس پر نوشین اسے آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگی۔۔۔۔
نوشین کون ہے پہ۔۔۔۔اسکے دوستوں میں سے ایک ذین کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔۔
یہ وہ۔۔۔۔۔۔
ارے تم نے ابھی تک اپنی دوستوں کو ہمارے بارے میں نہیں بتایا ۔۔۔۔وہ اسکے بولنے سے پہلے بولا۔۔کوئی بات نہیں میں بتادیتا ہوں۔۔۔۔ماہین آنکھیں پھاڑے اسے گھورنے لگی۔۔۔
مین انکا ہونے والا شوہر ہوں بہت جلد ہماری سادی ہونے والی ہے۔۔۔وہ نوشین کو دیکھ کر مسکراتہ ہوا بولا۔۔۔
نوشین کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اسکی بات پر ۔۔۔۔۔۔
ارے یار نوشین کتنی بدتمیز ہو تم تمہاری شادی ہونے والی ہے اور تم نے ہمیں بتایا تک نہیں۔۔۔۔۔
ہاں اسلیے نہیں بتایا ہوگا تاکہ ٹریٹ نہ دینی پڑھے۔۔۔اسکی دوستے آپس میں باتیں کرتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔
ارے آپ لوگوں کو ٹریٹ میں دے دونگا پر ابھی میری وائف کو اجازت دے ہمارا لنچ کا پلان ہے۔۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔۔وہ ہنستے ہوئے بولیں۔۔۔
میرا کوئی پلان نہیں میں نہیں جارہی ۔۔۔۔۔۔اپنی دوستوں کو دیکھتی ہوئی ہکہ بکہ سی بولی۔۔۔
ارے دیکھوں اب آپ ناراض ہوگئ ایکچلی میں نے آپ لوگوں کو بتا دیا نہ الیے ناراض ہوگئ مجھ سے ۔۔۔۔۔۔۔ذین نوشین کو دیکھ کر مسکراتہ ہوا بولا جس پر نوشین نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔