ماہین روم میں بیٹھی ہوئی تھی نوشین چلی گئی تھی وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اسے زبیر کا خیال آیا تھا۔۔
پتہ نہیں کس کام۔سے گئے ہیں اور کون سے شہر گئے ہیں۔۔وہ خود سے باتیں کرنے لگی۔۔۔
کہ اتنے میں اسکا فون بجا تھا۔۔
ہبی۔۔۔کالنگ ۔۔۔۔۔جب سے موبائل۔اٹھایا تو سامنے یہ نام جگمگا رہا تھا۔۔۔۔اسنے اپنا نمبر اس نام۔سے سیو کیا تھا ماہین کے چہیرے پر ایک مسکراہٹ آئی تھی۔۔
ہیلو اسلام علیکم۔۔وہ فون اٹھا کے بولی ۔۔
وعلیکم اسلام۔مجھے۔یاد کر رہی تھی۔۔وہ شرارت سے بولا ۔۔۔
ہاں۔۔۔۔ میر ا مطلب نہیں تو۔۔۔وہ گھبرا کے بولی تھی۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔آگیا نہ سچ زبان پر ۔۔۔وہ قہقہ لگانے لگا۔۔
اگر آپ مجھے تنگ کریں گے تو میں فون۔بند کر دوگی۔۔وہ چڑتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔
اچھا نا۔یہ بتاؤ مجھے یاد کرنے کے علاوہ اور کیا کررہی ہو۔۔۔۔وہ پھر سے اسے تنگ کرتا ہوا بولا۔
کچھ نہیں۔۔
اچھا کل۔تمہارے لیے اک سرپرائز ہے۔۔
کیسا سرپرائز ۔۔۔
اگر ابھی بتا دیا تو مزا کیا آئے گا۔۔۔۔
پر بتائے تو۔۔
نہیں کل۔پتہ لگے گا یہ ۔۔۔
اچھا۔۔۔
آپ کہاں ہے اس وقت۔۔۔میں ایر پورٹ پر ہوں تھوڑی دیر میں فلائٹ ہے۔۔
کونسے شہر جارہے ہیں ۔۔۔
آکر سب بتاؤں گا میری جان۔۔
فلائیٹ کا ٹائم۔ہو گیا ہے بعد میں بات کروں گا ٹیک کیر۔۔۔۔
ماہین نے فون سائڈ پر رکھا تھا اور اسکی کہی باتوں کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔۔
سرپرائیز ۔۔۔۔۔وہ سوچتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔
نماز پڑھنے کے بعد وہ کمرے میں ہی۔لیٹی گئ تھی پتہ نہیں کیو بار بار اسے زبیر کا خیال۔آرہا تھا۔۔۔
کیا میں انھیں مس کر رہی ہوں ۔۔۔وہ خود سے بولی تھی۔۔۔۔
پھر اپنی۔سوچوں کو جھٹکتی ہوئی اٹھی تھی اور کھانا منگویا تھا آج اسنے کھانا روم میں ہی منگوایا تھا۔۔
وہ بیڈ پرلیٹی تھی کہ اسکی آنکھ لگ گئ تھوڑی ہی دیر میں وہ نیند می آغوش میں جاچکی تھی۔۔
صبح نماز پڑھ کر وہ معمول۔کے مطابق لیٹ گئ تھی یونی کا ٹائم۔ہونے والا تھا تو وہ تیار ہونے لگی پھر ڈرائور کے ساتھ یونی۔چلی گی۔۔
ماہین اور نوشین کلاس لیکر باہر آئی تھی۔۔۔۔
کیا ہوا اتنی چپ چپ کیو ہوں۔۔نوشین برگر سے انصاف کرتی ہوئی بولی۔۔
زبیر دوسرے شہیر چلا گیا ہے۔۔۔۔
تو۔۔۔۔۔
ماہین جو اپنے خیالوں میں گم۔تھی بے دھانی میں بول گئ تھی۔۔
تمہیں اسکی یاد آرہی ہے۔کیا۔۔
ارے نہیں بس ایسے ہی۔۔وہ ادھر اودھر چہرہ گھماتی ہوئی بولی۔۔۔
ارے اتنا گھبرا کیوں رہی ہے۔۔۔شوہر ہے تمہارا اسکی یاد نہیں آئے گی تو کیا پڑوسیوں کی آئے گی۔۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔۔
ہممم۔۔۔
اچھا نہ اب کچھ کھالے۔۔۔۔
ماہین گھر پہنچی تھی روم۔میں آئی تو دیکھا زبیر ابھی تک نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔
کب آئیں گے ۔۔۔۔۔۔وہ خود کلامی۔کرتے ہوئے بولی۔۔۔
فون کروں۔۔۔۔
ذین بھائی سے پوچھتی ہوں۔۔۔۔وہ یہ سوچ کے اپنے روم سے باہر نکلی اور ذین کے رام کی طرف آئی تھی۔۔۔۔
ٹک۔ٹک۔ٹک۔ذین بھائی میں آجاؤ۔۔۔
ہاں بھئ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔۔۔وہ دروازہ کھول کے بولا۔۔
وہ مجھے پوچھنا تھا۔۔۔۔
کہ زبیر کب تک آئیں گے۔۔۔۔وہ بول کے نظریں نیچے کر گئی ۔۔۔
بس ایک گھنٹے میں پہنچ رہا ہے۔۔۔
اچھا جی۔۔۔
ماہین روم میں واپس آئی تھی ۔۔۔۔۔
ایک۔گھنٹے میں آرہے ہیں ۔۔۔تیار ہو جاتی ہوں۔۔۔۔
وہ الماری سے کپڑے نکالتی ہوئی واش روم میں چلی گئی تھی۔۔
فریش ہونے کے بعد وہ بال بنانے لگی اور ہلکا سا میک اپ کر کے خود کو دیکھنے۔لگی پھر وہ بیڈ پر بیٹھ گئ۔۔۔۔۔
میڈم۔وہ آپ کو زبیر سر بلا رہے ہیں۔۔۔تقریبا ادھے گھنٹے بعد محمد آیا ہوا بولا ۔۔۔۔
جی آرہی ہوں۔۔۔۔
وہ روم۔سے باہر آئی تھی۔۔
ماہین جیسے ہی روم سے باہر آئی اور سیڑھیوں سے نیچے آئی تو حیران رہ گئ پھٹی پھٹی آنکھوں سے وہ سامنے کا منظر دیکھنے لگی۔
ماما۔پاپا !!!!!!!!!وہ بھاگتے ہوئے ماں کے گلے لگی تھی۔۔
آپ لوگ آگئے ماما پلیز مجھے معاف کردیں ماما مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئ پلیز۔۔۔۔وہ روتے ہوئے ماں کے گلے لگ کے بولی تھی۔۔۔۔۔
نہیں بیٹا رونا نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا اب ہم آگئے ہیں نہ بس چپ۔۔۔وہ اسکے آنسو صاف کرنے لگی۔۔۔
پاپا ۔۔۔۔وہ ڈرتے ڈرتے پاپا کے پاس جانے لگی۔۔۔
میری بچی ادھر آؤ۔۔۔۔انھوں نے اسے گلے لگا لیا تھا۔۔۔۔۔
پاپا مجھے معاف کردیں پلیز پاپا آپ مجھ سے ناراض ہیں نہ پاپا پلیز ۔۔۔۔وہ ہچکیوں سے روتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔۔۔
نہیں میرا بیٹا۔۔۔۔تم معافی نہیں مانگوں گی غلطی جسکی تھی سزا بھی اسی کو ملے گی۔۔۔۔۔
کس کی بات کر ہے ہیں آپ۔۔۔۔وہ حیرت سے بولی تھی۔۔۔۔
زبیر جو اتنی۔دیر سے کھڑا ماہین کو دیکھ رہا تھا جو اپنے ماں باپ کے آنے پر اسے بھول ہی گئ تھی انکے کہنے پر نظریں جھکا گیا۔۔۔۔
ہمیں سسب پتا لگ گیا ہے۔کے تم گھر سے نہیں بھاگی تھی تمہارا کڈنیپ ہوا تھا اور زبردستی نکاح۔۔۔۔
آپ لوگوں کو کیسے پتہ چلا۔۔۔وہ حیرانگی سے بولی۔زبیر سیڑھیاں چڑھ کر اپر کی طرف جارہا تھا ماہین اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔
زبیر اپر کمرے میں آیا تھا اور ماہین کے متعلق سوچ رہا تھا تب اسے ماہین کے پاپا سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا۔۔۔۔۔۔۔
ٹک ٹک۔ٹک۔۔۔۔۔
کون۔ماہین کی ماما دروازہ تک۔آکر پوچھنے لگی اور پھر دروازہ کھولا ۔۔۔
تم۔۔۔۔تم یہاں کیوں آئے ہو۔۔۔وہ زبیر کو دیکھتی ہوئی بولی تھی۔۔۔۔۔
مجھے انکل سے بات کرنی ہے اور آپ سے بھی۔۔۔۔۔
تم جہاں سے آئے ہو وہیں واپس چلے جاؤ۔۔۔۔۔
میں انکل سے بات کیے بنا نہیں جاؤ گا۔۔۔وہ اندر آنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔
جاؤ الله کا واسطہ ہے ماہین۔کے پاپا کی طبیعت ویسے ہی خراب ہے کیوں انکا بلیڈ پریشر ہائی کرنا چاہتے ہو۔وہ ااسے التجا کرنے لگی۔۔۔
کون ہے زبیدہ ۔۔۔۔۔۔ماہین کے پاپا دروازے تک آکر باہر دیکھنے لگے۔۔۔
تم۔تم یہاں کیوا آئے ہو۔۔۔چلے جاؤ یہاں سے ۔۔۔وہ چلا کر بولے تھے۔۔۔۔
مجھے آپ سے بات کرنی ہے آپکی بیٹی کے بارے میں ۔۔۔
میری کوئی بیٹی نہیں سمجھے ۔۔۔۔۔دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔۔وہ دروازہ بند کرنے لگے تو زبیر نے اس میں اپنا ہاتھ دے دیا اور دروازہ کھول کر اندر آیا۔۔۔
میں آپ کو سچ بتائے بنا نہیں جاؤں گا۔۔۔۔وہ انھیں دیکھتا ہوا بولا۔۔
سچ۔۔سچ یہ ہے کہ تم میں اور اس لڑکی نے جو کبھی میری بیٹی تھی میری عزت کا جنازہ نکالا ہے۔۔۔۔۔
آپ کو جو پتہ ہے وہ غلط ہے سب سچائی یہ ہے کہ ماہین نے کبھی کچھ نہیں کیا سب میں نے کیا۔۔۔
نہیں سننا مجھے۔کچھ تم بس یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔
اگر اپ نے آج سچ نہیں سنا تو بعد میں بہت پشتائیں گے۔۔۔۔۔
میری بات اک بار سن لیں ۔۔۔۔۔وہ پھر سے بولا ۔۔۔
پہلی اور آخری بار تمہاری بات سن رہا ہوں۔۔۔۔بولو۔
زبیر نے ساری بات انکو بتائی تھی کہ کسطح اسنے ماہین کو کڈنیپ کر کے زبردستی نکاح کیا تھا اور اسے ڈرا کے جھوٹ بولنے پر آمادہ کیا تھا۔۔۔
پوری سچائی سن کر ماہین کے پاپا کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔۔
زبیر تمام سچائی بتا کر خاموش ہو گیا اسکے منہ پر اک تھپڑ پڑا تھا۔۔۔۔
تم نے کیا میری بچی کے ساتھ یہ سب زلیل انسان تم ہو ہماری بربادی کی وجہ۔۔۔ماہین کے پاپا چیختے ہوئے بولے۔۔
کہاں ہے میری بچی لے چلو ہمیں اسکے پاس ۔۔۔۔ماہین کی ماما روتی ہوئی زبیر سے بولی۔۔۔
میری بچی کو میں اس زبردستی کے رشتے سے آزاد کرا کے رہوں گا میں تمہیں اسکے ساتھ نہیں رہنے دونگا۔۔۔۔وہ غصے سے بولے۔۔
میں وعدہ کرتا ہوں اگر ماہین مجھ سے پیار نہیں کرتی اور میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو میں اسکے ساتھ زبردستی نہیں کروں گا پر اگر وہ مجھ سے پیار کرتی ہے تو آپ اسکے ساتھ زبردستی نہیں کریں گے۔۔۔۔
زبیر کو تمام باتیں یاد آنے لگی تھیں ۔۔۔اب سب تمہارے ہاتھ میں ہے ماہین ۔۔وہ دل میں بولا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو یہاں سے میں تمہیں یہاں اس گھر میں اور اس زبردستی کے رشتے سے بندھا نہیں رہنے دوں گا اب۔۔وہ ماہین۔کا ہاتھ پکڑ کے بولے۔۔۔۔۔۔
ماہین جو بت بنی کھڑی تھی انھیں حیرتے سے دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔
وہ ماہین کا ہاتھ پکڑے اپنے ساتھ لے جارہے تھے اور وہ بس بت بنی چلے جارہی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر ماہین میڈم انکے پاپا کے ساتھ چلیں گئیں ہیں۔۔۔محمد دین روم میں آکر زبیر سے بولا۔۔۔۔
تم اپنا کام کروں۔۔۔۔وہ بنا کسی حیرتے کے کہنے لگا۔۔۔۔
اوکے سر۔۔۔۔
اگر وہ مجھ سے پیار کرتی ہے تو واپس ضرور آئے گی۔۔۔۔۔۔وہ دل میں کہنے لگا۔۔۔
ماہین کہاں ہے زبیر۔۔۔ذین جو کسی کام سے باہر گیا تھا واپس آکر زبیر سے پوچھنے لگا۔۔۔
چلی گئ وہ۔۔۔زبیر نے مختصر سا جواب دیا تھا۔۔۔
کہاں۔۔۔۔اس نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
اسکے ماں باپ لے گئے ۔۔۔۔
تو تم نے روکا نہیں۔۔۔او آئی سی تو تم اسلیے گئے تھے کراچی ماہین کے ماں باپ کو سچ بتانے۔۔۔۔وہ اسے دیکھتا ہوا بولا ۔۔
ہاں کہہ دیا سب سچ میں نے ۔۔۔۔
تو اب ماہین کا کیا ۔۔۔کیا تم اسے ایسے ہی چھوڑ دو گے۔۔۔
اگر وہ مجھ سے محبت کرتی ہے تو آئے گی لوٹ کے۔۔
او تو تم اسکی محبت کا امتحان لے رہے ہو۔۔۔
بس یار چھوڑ اس بات کا۔۔۔
یہ بتا ملک نے پیمنٹ کی۔۔۔وہ بات بدلتے ہوئے بولا تھا۔۔۔ذین اسکے بات بدلنے پر پہلے تو اسے غور سے دیکھنے لگا پھر جواب دیا۔۔۔
نہیں وہ تو بہت ڈرامے کررہا ہے ہمارا۔آدمی جب بھی جاتا ہے تو وہ ملتا ہی نہیں یا پھر اندر سے ہی کہلوا دیکتا ہے منع کردو۔۔۔
اسے اب اپنے طریقے سے ہینڈل کرنا ہوگا۔۔۔شام کو چلتے ہیں ۔۔۔۔۔
او کے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہین کے پاپا اسے اپنے فرینڈ کے ایک خالی فلیٹ میں لے آئے تھے جو انہوں نے اس سے بات کر کے رہنے کی اجازت لی تھی۔۔۔
ماہین کیا ہوا بیٹا تم اتنی چپ کیوں ہو ۔۔اسکے ماما ماہین کا بجھا سا چہرہ دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔
کچھ نہیں ماما ۔۔۔۔وہ نظریں جھکائے بولی۔۔
کیا تم پیار کرتی ہو اس سے۔۔۔۔۔وہ ماہین کا چہرہ دیکھ کے پوچھنے لگی۔۔۔
مجھے نہیں پتہ ماما مجھے سمجھ نہیں آرہا میں چاہتی کیا ہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی ۔۔۔
ارے میری جان۔رونا نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا بس اپنے دل کی سنو۔۔۔وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔۔۔
وہ اب بھی اپنی فیلنگز کو سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔۔۔اسے بار بار ماہین کا خیال آرہا تھا۔۔۔۔۔
میں وکیل سے بات کرتا ہوں اور خلہ کے پیپرز تیار کرواتا ہوں۔۔۔۔ماہین۔کے پاپا زبیدہ بیگم بولے۔۔۔
آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ایک بار ماہین سے پوچھ لیں کے وہ۔کیا چاہتی ہے۔۔۔۔
دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا وہ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی جس نے اسے ساری دنیا کے سامنے بے عزت کردیا کیا وہباس زبردستی کے رشتے میں تمہیں خوش نظر آتی ہے۔۔۔
چاہے جو بھی ہو پر نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے اور محبت تو پیدا ہو ہی جاتی ہے مجھے ماہین کی آنکھوں میں زبیر کے لیے محبت نظر آتی ہے آپ اسطرح کوئی فیصلہ نہیں کریں ایک بار ماہین سے بات کر لیے گا۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔۔وہ بھی سوچ میں پڑ گئے تھے۔۔۔
ماہین روم میں گم سم سی بیٹھی تھی جب سے وہ یہاں آئی تھی نہ کچھ کھایا تھا نہ کمرے سے باہر نکلی تھی۔۔
کچھ کھالو میری جان۔۔۔ماہین کی ماما اسکے سامنے کھانا رکھتے ہوئے بولی۔۔
مجھے بھوک نہیں ماما ۔۔۔۔۔
پلیز بیٹا کچھ کھا لو تھوڑا سا ۔۔۔
ماما تھوڑی دیر میں کھا لو گی۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذین اور زبیر گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے زبیر ڈراونگ کرہا تھا وہ آج ملک کو سبق سکھانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
دروزہ کھول۔۔۔۔وہ ملک کے گھر پہنچ چکے تھے ذین چوکیدار سے بولا تھا۔۔۔۔
صاحب نہیں ہیں آپ لوگ بعد میں آنا۔۔۔۔۔۔
چوکیدار ذین کو دیکھتا ہوا بولا کے زبیر گاڑی میں سے اترا تھا ۔۔۔۔
دروازہ کھول۔۔۔وہ چوکیدار کو دیکھتے ہوئے بولا ۔۔
سر ہم نہیں کھول سکتے ہمیں اجازت نہیں ہے۔۔۔چوکیدار زبیر کا غصہ سے بھرا چہرہ دیکھ کے بولا تھا۔۔۔
میں نے کہاں دروزہ کھول ۔۔۔۔وہ اس بار سن گلاسس اتار کے بولا تھا۔۔۔
سر وہ صاحب۔۔۔۔زبیر نے گن نکال کر اسکے سنے کی تھی تو اسکی بولتی بند ہوئی تھی۔۔۔
کھولے گا یا چلاؤ گولی۔۔۔۔۔
کھ کھ کھولتا ہوں۔۔وہ لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ دروازہ کھولنے لگا۔۔۔
زبیر اور ذین اندر گئے تھے۔۔۔۔
آپ اندر نہیں جا سکتے۔۔۔۔گارڈ زبیر اور ذین کو اندر جانے سے روکنے لگا تھا۔۔۔۔
جانتا ہے کون ہوں میں۔۔۔۔۔زبیر احمد ہوں میں سمجھا اپنی اوقات میں رہنا۔۔۔اب ہٹ میرے سامنے سے وہ اسے ہٹاتا ہوا اندر آیا تھا۔۔۔
سامنے ہی ملک اپنے آدمی کے سا تھ شراب کے مزے لوٹ رہا تھا کے زبیر کو دیکھ کر اسکے چہرے کی ہوایاں اڑی۔۔۔۔
آخر گیدڑ کو شیر نے ڈھونڈ ہی لیا ۔۔۔وہ اسکے سامنے اسٹائل سے بیٹھتا ہوا مسکراتے ہوئے بولا ۔۔۔
ذین بھی اسکے ساتھ تھا۔۔
تم یہاں کیوں آئے ہو۔۔۔ملک۔زبیر کو دیکھ کر پوچھنے لگا اور ماتھے کا پسینا صاف کرنے۔لگا۔۔۔
کچھ ادھار تھ اتجھ پر ۔۔۔۔تو جا نتا ہے نہ زبیر نہ تو ادھار رکھتا ہے نہ چھوڑتا ہے۔۔۔۔۔وہ سیگریٹ کے کش لیتے ہوئے بولا۔۔
اے کون ہے تو۔۔۔۔۔۔اسکے ساتھ بیٹھ آدمی میں سج ایک زبیر سے پوچھنے لگا۔۔۔
ششش جب بڑے بات کرہے ہو تو بیچ میں نہیں بولتے۔۔۔۔۔وہ اسے دیکھتا ہو ابولا ۔۔۔۔اور وہ آدمی اس بچیس چھبیس سال کے لڑکے کو دیکھنے لگا جو عمر میں اس سے چھوٹا تھا۔۔۔۔۔
میرے پاس ابھی پیسے نہیں جب ہونگے تو کردو گا پیمنٹ۔۔۔۔ملک گھبرائے ہوئے بولا۔۔۔۔
تجھا جتنا ٹائم دینا تھا ہم دے چکے ہے یا تو پیسے دے یا پھر۔۔۔وہ گن نکال کر ملک کی طرف کرتے ہوئے بولا جس سے ملک کی ہوایاں اڑی تھی۔۔۔۔
اے گن ہٹھا ورنہ گن ہمارے پاس بھی ہے ان سب نے اپنی اپنی گن نکالی تھی۔۔۔
زبیر نے گن اس آدمی کی طرف کر کے گولی چلائی تھی۔۔۔
آآآآآآآہ ہ ہ ہ!!!!!!!!! اسکی چیکخ نکلی تھی گولی اسکے بائیں بازوں میں لگی تھی سب کھڑے ہوگئے تھے اور بندوقیں زبیر اور ذین۔کی طرف تھیں اتنے میں ایک نے ذین پر گولی چلائی تھی زبیر نے اسے دھکا دیا تو اسے گولی لگ ی تھی۔۔۔۔۔۔۔
زبیر!!!!!!!!!!!!ذین کے منہ سے چیخ نکلی تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہین روم میں بیٹھی ہوئی تھی صبح سے اسے پتہ نہیں کیوں گبراہٹ سی ہورہی تھی اسے ایسا لگرہا تھا جیسے اس نے یہاں آکر بہت بڑی غلطی کی پتہ نہیں کیوں اسکا دل پریشان تھا۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا کچھ کھا لو نہ پلیز ۔۔۔۔۔۔ماما ابھی کھا لوں گی۔۔۔
کتنی دیر سے یہی بول رہی ہو اب ب کھاؤ کھانا
ماما۔۔۔وہ زبیدہ بیگم سے بولی تھی کہ اتنے میں اسکا فون بجا تھا۔۔۔۔
ذین۔کالنگ۔۔۔۔ذین بھائی ۔۔۔۔۔لگتا ہے میں گھر پر کیوں نہیں یہ پوچھ رہے ہوں گے ۔۔۔اس نے سوچتے ہوئے فون اٹھایا تھا۔۔۔
ہیلو ذین۔بھائ اسلام علیکم۔۔۔۔وہ فون اٹھائے ہوئے بولی تھی۔۔
ہیلو ماہین۔
جی ذین بھائی ۔۔
زبیر کو گولی لگی ہے ہم نیشنل ہاسپٹل میں ہیں تم جلدی آجاؤ۔۔۔۔۔اس مے ماہین کے س پر بم پھوڑا تھا ۔۔۔
کیا گگ گولی۔۔۔۔اسکے ہاتھ سے موبائل۔چھوٹ کے نیچے گرا تھا۔۔
ماہین بیٹا کیا ہوا ۔۔۔ماہین کی ماما ماہین کو اسکو اس حالت میں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی جسکی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔۔۔
ماہین بولو کیا ہو بیٹا۔۔۔۔۔
ماما زبیر ۔۔۔۔۔ماما زبیر ۔۔۔۔وہ بس روتے ہوئے بولی تھی۔۔
کیا ہو زبیر کو بولو ۔۔۔
ماما زبیر ۔۔۔۔وہ ننگے پاؤں بھاگی تھی اور گھر سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔
ماہین رکو بیٹا ماہین!!!!!!ماہین کی ماما اسے بس آوازیں دیتی رہ گئ۔۔۔۔۔
کیا ہوا زبیدہ بیگم۔ماہین کے پاپا زبیدہ بیگم کے چیخنے پر آکر پوچھنے لگے۔۔
وہ ماہین کو پتہ نہیں کسکا فون آیا تھا وہ سن کے رونے لگی اور زبیر زبیر کرتی ہوئی بھاگ گئ۔۔۔
اچھا میں دیکھ کر آتا ہوں تم روکو۔۔۔۔وہ بھی جلدی سے باہر نکلے تھے۔۔
ماہین دیوانہ وار سڑک پر بھاگ رہی تھی اور آنکھوں سے آنسو گر ہے تھے اسکا دل بیٹھ رہا تھا وہ بس جلد سے جلد ہاسپٹل پہچنا چاہتی تھی۔۔
ماہین۔۔۔ماہین۔۔۔۔۔اسکے پاپا اسے آوازیں دینے لگے جو روڈ پر بھاگ کر گاڑیوں اور رکشے کو روکنے کی کوشش کرہی تھی۔۔
رکشہ۔۔۔رکشہ ۔۔۔۔وہ رکشہ کو آوا زیں دینے لگی۔۔۔۔۔اور پھر سے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔۔
جی بولیں کہاں جانا۔ہے۔۔۔ایک رکشہ رک کے بولا تھا۔۔
بھائی وہ نیشنل ہاسپٹل جانا ہے ۔۔
وہ اس میں بیٹھی تھی۔۔۔
ماہین کے پاپا جو اسے رکشے میں بٹھتا ہو ا دیکھ چکے تھے دوسرے رکشے میں اسکا پیچھا کرنے لگے۔۔۔۔
پورے راستے ماہین روتی رہی ۔۔۔۔
سٹی ہاسپٹل۔پہنچ لر وہ اندر کی طرف بھاگی تھی۔۔۔۔۔۔۔
میڈم میرے پیسے۔۔۔۔رکشے والا پیچھے سے چلا کہ بولا تھا پر ماہین بھاگ کر اندر آئی تھی۔۔
زبیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ریسپشن پر آکر روتے ہوئے بولی۔۔۔۔
میڈم وہ جنرل۔واڈ میں ہیں ۔۔۔۔
ماہین بھاگتے ہوئے جنرل واڈ تک پہنچی تھی۔
ماہین جرنل واڈ کے اندر گئی تھی۔۔
ماہین!!!!زبیر کے منہ سے نکلا تھا ماہین کا حال کچھ ایسا تھا کہ وہ اسے دیکھ کر
حیران ہوا۔
بال بکھرے ہہوئےتھے ڈوپٹہ ایک سائڈ پر ڈھلکا ہوا تھا پاؤں میں چپل تک نہیں۔تھی آنسو اسکی آنکھوں میں اب بھی موجود تھے۔۔۔۔
ماہین زبیر کو دیکھ رہی تھی جو اسٹریچر پر لیٹا ہوا تھا کندھے سے تھوڑا نیچے پٹی بندھی ہوئی تھی ذین بھی سائڈ پر کھڑا تھا۔۔۔۔
زبیر!!!!!کیا ہوا آپکوں آپ کو ۔۔۔وہ بھاگ کر اسکے قریب آئی تھی اور اسکے سینے پر اپنا۔سر رکھ کر روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
ماہین میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا مجھے ۔۔۔وہ اسے سمجھاتا ہوا بولا۔۔
کیا ٹھیک ہے آپکوں گولی لگی ہے اور آپ کہہ رہے۔ہیں کہ ٹھیک ہوں۔۔۔۔وہ ہچکیاں لیتی ہوئی بولی۔۔۔
ارے میری جان بس ایک گولی ہی لگی ہے وہ بھی کندھے پر۔۔۔
پر کیسے۔لگی آپکوں گولی ایسا کیا ہوا تھا کس نے۔ماری آپکوں گولی۔۔۔۔
تم۔مجھے چھوڑ کر گئ تھی نہ اسلیے ہوا۔یہ میرے ساتھ۔۔۔۔۔وہ اسے تنگ کرتا۔ہوا۔بولا ۔۔۔
بتائیں کیسے لگی یہ گولی۔۔۔۔۔
میں بتاتا ہوں کہ کیسے لگی گولی۔۔۔۔زبیر بیچ میں بولا تھا۔۔۔
چپ بلکل تو نے ہی اسے ہیاں بلایا۔ہے نہ تجھے تو میں پوچھتا ہوں۔۔وہ اسے گھورتا ہوا کہنے لگا۔۔۔۔
ہاں تو اچھا کیا آپ نےمجھے بتا دیا اب بتائیں کیسے لگی گولی انہیں ۔۔۔وہ زبیر کو گھورتی ہوئی بوچھنے لگی۔۔۔
تمہارا جو شوہر ہے نہ اسے ہیرو بننے کا بہت شوق ہے بس آگے آگے ہوتا ہے چاہے گولی ہو یا کچھ اور ۔۔۔۔۔وہ اسکی شکایتیں کرنے لگا جس پر زبیر نے اسے گھورا۔۔۔
ذین نے زبیر کی ساری کرتوتیں ماہین کو بتائ تھی۔۔۔
ہاں اسکوں تو گولی لگی ہی ہے پر اسنے وہاں بھی کسی کو سلامت نہیں چھوڑا سب کو لولا لنگڑا کر کے بھیجا ہے۔۔۔۔۔ماہین نے اسے گھور کر دیکھا تھا۔۔۔
آپ کو کیا ضرورت تھی یہ سب کرنے کی گولیاں چلانے کی۔۔۔
یار وہاں ماحول ہی کچھ اسطرح کا ہوگیا تھا کہ مجھے غصہ آنے لگا تھا۔۔