’’کیا ہم اس گندگی کی جگہ رات گزاریں گے؟‘‘ آصف کی آواز گونجی۔ ’’مجھے تو کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آ رہی جہاں ہم سو سکیں۔‘‘
’’مجبوراً ہمیں ادھر ہی سونا پڑے گا۔‘‘ جاوید بولا۔ ان کی آوازیں وہاں گونج رہی تھیں۔ ’’اور یار …کبھی کبھی ایسے حالات بھی زندگی میں پیش آتے ہی ہیں۔‘‘
’’مگر یہاں تو زہریلے کیڑے مکوڑے اور غلیظ چوہے بھی ہیں … اگر کسی کیڑے …‘‘ آصف نے بولنا چاہا، مگر راشد نے اس کا جملہ درمیان میں سے اچک لیا۔ ’’یار آصف یہ تو ہم جانتے ہی تھے کہ تم ڈرپوک ہو، مگر اس حد تک…؟ یہ ہمیں اب معلوم ہوا ہے۔‘‘
’’بات ڈرنے کی نہیں ہے‘‘۔ آصف کو لفظ بزدل اور ڈرپوک سن سن کر تھوڑا غصہ آ گیا۔ ’’میں بزدل نہیں ہوں … بات احتیاط کی ہے۔‘‘
’’چالاک بھی ہو۔‘‘ کامران مسکرایا۔ ’’بزدلی کو احتیاط کا نام دے رہے ہو… بلکہ اپنی کمزوری کو احتیاط کا لبادہ پہنا رہے ہو۔‘‘
’’دوسرے کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اسے ذلیل کرنا تم کو خوب آٹا ہے۔‘‘ آصف غصیلے انداز میں چڑ کر بولا تھا۔
جاوید انہیں وہاں لے آیا، جہاں تہہ خانہ تھا۔ اس نے تہہ خانے کے چھوٹے زنگ آلود دروازے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی اور حیرت زدہ آواز میں کہا۔ ’’ارے یہ کیا…؟ یہ چھوٹا سا دروازہ کس چیز کا ہے۔‘‘ تینوں ساتھی بھی ادھر ہی متوجہ ہو گئے تھے۔
’’ذرا اسے کھول کر دیکھو…‘‘ راشد نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
جاوید اس دروازے کی زنگ آلود موٹی کنڈی کو کھولنے لگا۔ اس سلسلے میں اسے کافی طاقت صرف کرنا پڑ رہی تھی۔ آصف نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا، مگر پھر خود ہی چپ ہو گیا۔ غالباً وہ انہیں دروازہ کھولنے سے منع کرنا چاہتا تھا۔ جاوید نے کنڈی کھول دی اور دروازہ باہر کی طرف کھول دیا۔ اب ٹارچوں کی روشنی میں انہیں نیچے جاتی ہوئی سیڑھیاں نظر آ رہی تھیں۔
’’اوہ… یہ تو تہہ خانہ ہے۔‘‘ کامران کے منہ سے تحیر خیز آواز برآمد ہوئی۔
’’ہے تو تہہ خانہ ہی…‘‘ راشد نے اندر جھانکتے ہوئے کہا۔ ’’میرا خیال ہے نیچے چل کر دیکھتے ہیں اندر کیا ہے۔‘‘
’’تہہ خانے میں بھلا کیا ہو گا… کچھ بھی نہیں ہو گا… فضول وقت برباد کرو گے۔‘‘ آصف نے انہیں اپنے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کہا۔ ’’اب تو تم ہی سب سے آگے تہہ خانے میں اترو گے آصف…‘‘
جاوید نے اسے دیکھا آصف بوکھلانے لگا ’’مم… میں …‘‘
’’ہاں تم… بکری کے بچے … چلو چلو… ہر جگہ اپنی بزدلی کا ثبوت مت دیا کرو…‘‘ جاوید نے اسے آگے دھکیلا۔ اب تو آصف بہت مجبور ہو گیا تھا۔ عزت کا معاملہ آن پڑا تھا۔ وہ سب سے آگے اندر اترا۔ عقب سے جاوید ٹارچ کی روشنی اندر کی جانب پھینک رہا تھا۔ آصف کو ان سے ٹارچ لینے کا خیال بھی نہ رہا۔
اور یہ وہی وقت تھا کہ جب جاوید، کامران اور راشد نے تہہ خانے کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ آصف فریادیں، التجائیں کرتا رہ گیا، مگر دوستوں پر مذاق کا بھوت سوار تھا۔ وہ لوگ اسے بند کر کے چلے گئے۔
آصف بہت دیر تک زینے پر بند دروازے کے قریب کھڑا رہا۔ اندھیرا شاید قبر سے کئی گنا زیادہ تھا۔ پھر بھی اندھیرے میں کافی دیر تک مسلسل گھورنے کے بعد اس کی آنکھیں دھندے دھندے ہیولے دیکھنے کے قابل ہو گئیں۔ وہ دھیرے دھیرے زینے سے نیچے اترنے لگا۔ اس کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں۔ دل دھڑکنے کی دھمک اس کے کانوں سے ہتھوڑے کی بھاری ضربوں کی مانند ٹکرا رہی تھیں۔ ایک ایک لرزتا ہوا قدم انتہائی ہلکے ہلکے نیچے کی طرف بڑھا رہا تھا۔ اس نے سہارے کے لیے دیوار پر ایک ہاتھ جما لیا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ زمین کی انتہائی گہرائیوں میں اترتا جا رہا ہے۔ زینہ گو کہ زیادہ طویل نہیں تھا، مگر اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اسے اُترتے ہوئے کئی گھنٹے بیت گئے ہیں۔ زینے کے اختتام پر جب اس کی قدم فرش پر پڑے تو اس کے پیروں تلے کوئی چیز یا آواز بلند چرچرائی۔ خوف کے مارے آصف کے منہ سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی۔ وہ لڑکھڑا کر گر گیا۔ اس کے جسم کے کئی حصوں پر چوٹیں آئیں، مگر خوف کی زیادتی نے درد کا احساس پی لیا تھا۔ اس نے ہاتھ سے ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ چرچرانے والی چیز ایک کمزور لکڑی کا تختہ تھا۔ اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں۔ ایسا لگا کہ ہر طرف بھوت پریت سائے بن کر اس کے گرد رقص کر رہے ہیں۔ کسی بھی لمحے کوئی بھی بھوت اس کا گلا دبوچ لے گا اور پھر اس کی زندگی کا خاتمہ انتہائی دردناک انداز میں ہو جائے گا۔ اسے چکر آ رہے تھے۔ وہ سیلن زدہ فرش پر اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں، مگر آنکھیں بند کر لینے سے اندھیرا مزید بڑھ گیا۔ نیلے، پیلے، سرخ اور سبز دائرے اس کی نظروں کے سامنے ابھرنے اور معدوم ہونے لگے۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول لیں، مگر اندھیرا بدستور قائم رہا۔ دفعتاً کوئی جان دار شے اس کے جسم پر کودی اور آصف کے حلق سے ہول ناک چیخ نکلی۔ چیخ تہہ خانے کے محدود ماحول میں قید پھڑپھڑاتی رہ گئی تھی۔
باقی تینوں دوست ایک کمرے میں تھوڑی جگہ صاف کر کے سو گئے تھے۔ سردیوں کی آمد آمد تھی۔ مچھروں کے حملوں سے بچنے کے لیے انہوں نے چادریں اوڑھ لی تھیں۔ دوسری صبح سب سے پہلے کامران کی آنکھ کھلی۔ اٹھتے ہی اسے تہہ خانے میں بند آصف کا خیال آیا۔ اس نے جلدی جلدی جاوید اور راشد کو بھی اٹھا دیا۔ دونوں آنکھیں ملتے اور جمائیاں لیتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ ’’یار کیا مصیبت ہے ٹھیک سے سونے دو… بلا وجہ اتنی جلدی اٹھا دیا…‘‘ راشد دوبارہ لیٹنے لگا۔
’’بھائی اٹھو… یہ تیرے گھر کا بستر نہیں ہے اتنے مزے سے دوبارہ سونے جا رہے …‘‘ کامران نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا۔
’’ہاں یا اس آصف کا حال بھی معلوم کرنا ہے۔‘‘ جاوید جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ ’’اس بے چارے کی تو جان ہی آدھی ہو گئی ہو گی۔‘‘
یہ سنتے ہی راشد کی نیند بھی چھو منتر ہو گئی۔ ’’ارے ارے … جلدی کرو… کہیں بے چارہ گزر ہی نہ ہو گیا۔‘‘
’’بکواس کرنا ضروری ہے کیا…؟‘‘ جاوید نے اسے گھورا۔ ’’چلو آؤ…‘‘
وہ تیزی سے تہہ خانے کے دروازے تک پہنچے۔ ٹوٹی ہوئی دیواروں اور کھڑکیوں سے سورج کی روشنی اس جگہ تک آ رہی تھی۔ روشنی منعکس ہو کر تہہ خانے کے اندر تک پہنچ رہی تھی، لیکن پھر بھی انہیں ٹارچ کا سہارا لینا پڑا۔ جاوید آگے آگے اُتر رہا تھا۔
’’آصف…‘‘ اس نے آواز لگائی۔
کوئی جواب نہیں ملا۔ کامران اور راشد اس کے پیچھے آ رہے تھے۔ پھر انہوں نے آصف کو دیکھ لیا۔ وہ تہہ خانے کے فرش پر پڑا ہوا تھا۔ وہاں انہوں نے کئی بڑے بڑے چوہے دیکھے۔ آصف کا منہ دوسری جانب تھا۔ وہ بے ہوش لگ رہا تھا۔ ان تینوں کے دل دھڑکنے لگے اور اپنے مذاق پر افسوس ہونے لگا۔ آصف کا جسم بالکل ساکت پڑا تھا۔
’’آصف…‘‘ جاوید نے آصف کا شانہ پکڑ کر اسے سیدھا کیا۔
ایک چوہا آصف کے چہرے کے نزدیک بیٹھا تھا وہ ایک دم بھاگ نکلا۔
اگلے ہی لمحے تینوں دوستوں کے منہ سے ہولناک چیخیں نکلیں۔ خوف و دہشت کے مارے ان کی آنکھیں اپنی جگہ چھوڑ کر باہر اُبل پڑی تھیں۔ آصف کی آنکھیں پھٹے پھٹے انداز میں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں زندگی کی حرارت ختم ہو چکی تھی۔ دہشت کے آثار اس کے چہرے کے خد و خال میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو کر رہ گئے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ بڑی اذیت میں جان دی ہے۔ دوستوں کے مذاق نے دوست کی جان لے لی تھی۔ اس کے چہرے کو تہہ خانے کے موٹے موٹے چوہوں نے کھرچ ڈالا تھا۔ ان کھرونچوں سے تازہ خون رس رہا تھا۔ نچلے ہونٹ کو بھی چوہوں کے تیز دھار دانتوں نے کاٹ ڈالا تھا۔ انہیں یوں لگ رہا تھا کہ آصف کی چیخیں ابھی تک گونج رہی ہیں۔ اس کی فریادیں اب تک کانوں سے متصادم ہو رہی تھیں۔ تینوں دوستوں کے چہرے دھواں دھواں ہو گئے تھے۔ انہیں احساس تھا کہ یہ قتل ہے اور اپنے دوست کے قاتل وہ تینوں ہی ہیں۔ حالاں کہ یہ سب نادانستگی میں ہوا تھا۔ اس میں ان کے ارادے کا کوئی دخل نہیں تھا، وہ صرف مذاق کر رہے تھے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کا یہ مذاق جان لیوا ثابت ہو گا۔ وہ تینوں ہی برابر کے مجرم تھے۔
کتنی دیر تک وہ پتھر کے بت بنے کھڑے رہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا؟ اور اب کیا کیا جائے؟ وہ آصف کے گھر والوں کو کیا جواب دیں گے؟ کامران اکڑوں زمین پر بیٹھ گیا اور مسلسل آصف کی لاش کو گھور رہا تھا۔ جاوید نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا تھا۔
’’اف خدایا… اب کیا کریں …؟‘‘ راشد کی لرزتی ہوئی آواز ابھری۔ ’’یہ… یہ ہم سے کیا ہو گیا…؟‘‘