لوہے کا چھوٹا زنگ آلود دروازہ ایک خوف ناک آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔
سیڑھیاں اُترتے وہ بری طرح چونکا اور جونہی اسے احساس ہوا کہ وہ تہہ خانے میں تنہا قید ہو گیا ہے، وہ پوری قوت سے چیخا۔ دل دوز آواز میں چلاتے ہوئے وہ بند دروازہ دونوں ہاتھوں سے پیٹنے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ دل خراش آواز میں چلا رہا تھا۔
’’کھولو… دروازہ کھولو… مجھے ڈر لگ رہا ہے … خدا کے لیے باہر نکالو… جاوید دروازہ کھولو… میں مر جاؤں گا… کامران… راشد… تم لوگوں کو اللہ کا واسطہ ہے … میرا دم نکل جائے گا… مذاق ختم کر دو… مجھے باہر نکالو…‘‘
باہر سے اس کے دوستوں کے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ جاوید کی آواز آئی۔ وہ ہنسی کے درمیان بول رہا تھا۔ ’’بس اب تم صبح تک بند رہو گے … بے فکر رہو تم تہہ خانے میں اکیلے نہیں ہو گے، تمہارے ساتھ دلجوئی کے لیے کئی جن بھوت ہوں گے … ہاہا ہا…‘‘
’’نہیں … بس بس… مذاق مت کرو…‘‘ وہ رونے لگا تھا۔ ’’تم جانتے ہو میرا دل کتنا کمزور ہے۔ میں مر جاؤں گا… مجھے باہر نکال دو…‘‘
’’تیرا دل کمزور ہے ناں …؟ ہم تمہیں بہادر بنانے کے لیے بھوتوں کے پاس چھوڑے جا رہے ہیں … ایک ہی رات میں تم بہادر بن جاؤ گے۔‘‘ کامران کھلکھلا کر ہنس دیا۔
’’نہیں نہیں ایسا مت کرو… یہاں بہت اندھیرا ہے … مجھے اندھیرے سے خوف آتا ہے … پلیز دروازہ کھول دو…‘‘ وہ گڑ گڑا کر التجائیں کر رہا تھا۔
’’دھت تیرے کی…‘‘ راشد جھنجلانے کی اداکاری کرتا ہوا بولا۔ ’’اندھیرے سے ڈر لگ رہا ہے … اور جب بھوتوں سے ملاقات ہو گی تب کیا ہو گا؟ اور ہاں … بھوتوں سے معلوم کر لینا… انہیں کھانے میں کیا کیا پسند ہے … ویسے میرے خیال میں وہ انسانی گوشت بڑے مزے سے کھاتے ہیں … کیوں بھئی… کھاتے ہیں ناں؟‘‘
’’ہاں ہاں بالکل…‘‘ کامران اور جاوید کی ہنستی ہوئی تائیدی آوازیں سنائی دیں۔
’’د… در… دروازہ کھول… لو…‘‘ دوستوں کی باتوں سے اس کا دم خشک ہوتا جا رہا تھا۔
’’گڈ نائٹ فرینڈ… صبح ملاقات ہو گی…‘‘ قدموں کی آوازیں دور ہونے لگیں۔
وہ حلق پھاڑ کر چلایا۔ ’’رکو… رکو… دروازہ کھولو… مجھے باہر نکالو… رک جاؤ… کامران… جاوید… راشد… تم… آہ … کامران… تم میرے سب سے اچھے دوست ہو… مجھے باہر نکالو…‘‘ وہ روتا رہا بولتا رہا۔
تینوں ساتھی وہاں سے جا چکے تھے اور اب وہ تھا اور تہہ خانے کا ہولناک اندھیرا اور بھیانک سناٹا۔
جاوید، کامران، راشد اور آصف… چاروں دوست کراچی سے بائی روڈ لاہور جا رہے تھے۔ پندرہ دن کا تفریحی پروگرام تھا۔ ضرورت کی تمام اشیاء انہوں نے ساتھ لے لی تھیں۔ سفر کے لیے جاوید کی پرانے ماڈل کی مضبوط ٹویوٹا کرولا تھی۔ انہیں کوئی جلدی نہیں تھی، اس لیے کار مناسب رفتار سے سڑک ناپ رہی تھی۔ جاوید کار ڈرائیور کر رہا تھا۔ برابر میں آصف بیٹھا تھا، جب کہ عقبی نشست پر راشد اور کامران بیٹھے ہوئے تھے۔ جاوید نے کن انکھیوں سے آصف کی جانب دیکھا۔ وہ ان سے لا تعلق دور کھیتوں میں دیکھ رہا تھا۔ جاوید نے بیک ویو مرمر سے عقبی سیٹ پر بیٹھے ہوئے کامران اور راشد کو دیکھا اور معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے آنکھ سے اشارہ کیا۔ دونوں سمجھنے والے انداز میں مسکرانے لگے گویا وہ جاوید کا اشارہ جان گئے تھے۔
آصف ان سے بے خبر تھا۔ تینوں جانتے تھے کہ آصف بہت ڈرپوک ہے۔ انہوں نے آپس میں پہلے ہی ایک دل چسپ پروگرام بنا لیا تھا۔ جاوید پہلے بھی متعدد مرتبہ اس طرح کے سفر کر چکا تھا۔ تقریباً آدھے سفر کے بعد ایک قصبہ پڑتا تھا اور قصبے سے کچھ آگے جا کر ایک بہت پرانی عمارت تھی، جو کبھی کسی دور میں محکمہ جنگلات والوں کے استعمال میں رہی تھی۔ عرصہ دراز سے اب وہ خالی پڑی تھی۔ قصبے میں رہنے والا ایک شخص وہاں کا چوکیدار ہوا کرتا تھا، جو نا صرف وہاں چوکیداری کرتا تھا، بلکہ وہاں ٹھہرنے والے افسران کے لیے باورچی کے فرائض بھی انجام دیا کرتا تھا، مگر جب محکمہ جنگلات والوں کے لیے کسی دوسری جگہ نئی اور جدید عمارت کا بندوبست ہو گیا تو پرانی عمارت ویرانی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ کچھ عرصہ تک تو چوکیدار وہاں کی دیکھ بھال کرتا رہا، مگر پھر وہ ہمیشہ کے لیے قصبے میں چلا گیا۔ حوادث زمانہ کے سبب عمارت دھیرے دھیرے کھنڈر میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور اب وہاں سوائے حشرات الارض، مکڑیوں، پرندوں اور چمگادڑوں کے علاوہ اور کوئی ذی حس نہیں رہتا۔
جاوید کو ان تمام باتوں کا علم تھا۔ وہ کچھ ماہ قبل بھی ادھر آ چکا تھا۔ دن کے وقت اس نے عمارت کو اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ اور قصبے کا ایک شخص بھی تھا، جس نے اسے عمارت سے متعلق باتیں بتائی تھیں۔ اسی مقامی شخص نے عمارت میں موجود تہہ خانہ بھی دکھایا تھا، جو پہلے کبھی محکمہ جنگلات والوں کا ریکارڈ روم ہوا کرتا تھا۔ وہاں دیمک زدہ ٹوٹی پھوٹی لکڑی کی الماریاں، کرسیاں اور میزیں اب تک موجود تھیں۔ ریکارڈ کی بے کار فائلیں اور کاغذات اب بھی وہاں پڑے تھے، جنہیں چوہوں نے کتر ڈالا تھا۔
اب دوبارہ جاوید اپنے دوستوں کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ اس نے راشد اور کامران کو محکمہ جنگلات کی پرانی عمارت اور تہہ خانے سے متعلق بتا دیا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے پروگرام سے بھی آگاہ کر دیا کہ وہ گاڑی کی خرابی کا بہانہ کر کے اس عمارت میں جائیں گے، تاکہ رات گزار سکیں اور تہہ خانے میں آصف کو دھوکے سے بند کر دیں گے۔ تینوں جانتے تھے کہ آصف اول درجے کا بزدل اور ڈرپوک انسان ہے۔ کتنا مزہ آئے گا، جب آصف پوری رات ایک اندھیرے تہہ خانے میں گزارے گا۔ دوسری صبح وہ آصف کا خوب مذاق اڑائیں گے۔ بے چارہ آصف اپنے دوستوں کے اس منصوبے سے قطعی لا علم تھا۔ اگر اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے ساتھی اس کے ساتھ ایسا مذاق کرنے والے ہیں تو شاید وہ پیدل ہی واپس پلٹ جاتا، مگر ان کے ساتھ جانا گوارا نہیں کرتا۔
راستے میں دو ایک جگہ انہوں نے گاڑی روکی اور کچھ آرام کے بعد دوبارہ محو سفر ہو گئے۔ جاوید اس مقام کو اچھی طرح جانتا تھا، جہاں سے کچی سڑک قصبے کی طرف جاتی تھی، مگر ابھی چند گھنٹے باقی تھے۔
سورج مغرب کی آغوش میں چھپ چکا تھا۔ سیاہ اندھیروں کے غول ہر طرف جھپٹ رہے تھے، البتہ مین سڑک پر بھاری ٹریفک اپنی مخصوص رفتار سے معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ تقریباً آٹھ بجے کا وقت تھا، جب ان کی گاڑی قصبے کی سڑک پر مڑی تھی۔ سب سے پہلے آصف ہی چونکا تھا اور انہیں اس بات کی توقع تھی۔
’’کیا ہوا…؟‘‘ اس نے جلدی سے اپنی طرف کا شیشہ چڑھا دیا۔’’ اِدھر کیوں آئے ہو؟ یہاں تو مجھے آگے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے … آگے کہاں جاؤ گے؟‘‘
’’گاڑی تھوڑی گڑ بڑ کر رہی ہے۔‘‘ جاوید اپنی گاڑی کی رگ رگ سے واقف تھا، اس لیے جب چاہے اس میں خرابی پیدا کر سکتا تھا اور فوراً درست بھی کر دیتا تھا۔ صرف تاروں کے گچھے سے کسی ایک تار کو علیحدہ کرنا پڑتا تھا۔ اب بھی اس نے ایسا ہی کیا تھا۔ گاڑی میں عجیب سی گھڑگھڑاہٹ پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے گاڑی روک لی تھی۔
’’اگر گڑبڑ کر رہی ہے تو اِدھر کیوں لے آئے اندھیرے میں؟‘‘ آصف شیشوں کے پار اندھیرے میں دیکھتا ہوا بولا۔ اس کی آواز میں خوف جھلک رہا تھا۔ ’’اگر کوئی آ گیا تو کیا ہو گا؟‘‘
’’ہش ڈرپوک…‘‘ جاوید نے اسے جھڑک دیا۔ ’’دم کیوں نکل رہا ہے۔ کوئی نہیں آتا ادھر… آگے ایک قصبہ ہے، وہاں چلیں گے۔‘‘
’’کامران، راشد… بھئی ہمیں پیدل کچھ دور چلنا ہو گا۔‘‘ وہ گردن موڑ کر کہہ رہا تھا ’’ آگے قصبہ ہے اور قصبے کے قریب ایک جگہ ہے، وہاں ہم رات بسر کریں گے۔ صبح ہی گاڑی کی خرابی کا پتا چل سکے گا۔ اس کمبخت نے بھی ابھی خراب ہونا تھا۔‘‘
’’پھر تو گاڑی ادھر ہی چھوڑنا پڑے گی۔‘‘ راشد نے چہرے پر فکر مندی کے آثار نمایاں کر لیے تھے۔
’’ہاں … گاڑی لاک کر دیں گے۔ باقی سامان رہنے دو، صرف کھانے پینے کی چیزیں لے چلو…‘‘ جاوید خود بھی پریشان نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’چلو یار اس بہانے کچھ ایڈونچر رہے گا۔‘‘ کامران نے ہنس کر آصف کی طرف دیکھا۔
’’یار… کہیں جانے سے بہتر ہم گاڑی میں ہی جیسے تیسے رات گزار لیتے ہیں …‘‘ آصف نے تجویز پیش کی۔
’’پاگل ہوا ہے کیا…؟‘‘ راشد نے آصف کو گھورا۔ ’’پوری رات یہاں ہم گاڑی میں بیٹھے بیٹھے گزاریں گے؟ صبح تک ہماری کمریں پتھر کی طرح ہو جائیں گی۔ پھر سفر کرنا تو دور کی بات… ہم سے بیٹھا بھی نہیں جائے گا۔‘‘
’’مم… مگر یار…‘‘ آصف ہکلایا ’’باہر منظر تو دیکھو، کتنا خوف ناک ہو رہا ہے۔‘‘
’’او بھائی منظر… جاوید جھلا اٹھا۔ ’’اگر تم نے یہاں گاڑی میں رات گزارنی ہے تو گزارو کم از کم ہم تینوں تو یہاں نہیں رک سکتے۔‘‘
’’چل یار آصف ہمت کر… بچوں کی طرح ڈر رہا ہے۔ وہاں چل کر آرام سے سو جائیں گے کون سا ہم تجھے اکیلا بھیج رہے ہیں ہم بھی تو تیرے ساتھ ہوں گے۔‘‘ کامران نے اس کا ہاتھ تھام کر تسلی دی۔ مرتا کیا نہ کرتا، چلنا ہی پڑا۔
الغرض وہ لوگ اشیاء خورد و نوش لے کر اور گاڑی لاک کر کے چل پڑے۔ جاوید آگے آگے چل رہا تھا۔ قصبے کے پہلو سے ہوتے ہوئے وہ ایک سمت میں بڑھتے چلے گئے۔ قصبہ مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ کبھی کبھی قصبے سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آتی تھیں۔ راستے میں ہر طرف سے جھینگروں کی ریں ریں سنائی دے رہی تھی۔ آصف… جاوید کے پیچھے تھا۔ ان کے عقب میں راشد اور کامران چل رہے تھے۔
اچانک ایک زور دار بھیانک چیخ گونجی۔
جاوید چونک گیا۔ یہ آواز اس کے لیے بھی غیر متوقع تھی۔ آصف کا سب سے برا حال ہوا تھا۔ وہ ایسے اچھلا، جیسے کرنٹ لگا ہو۔ ڈر کے مارے اس نے جاوید کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ بری طرح کانپ رہا تھا۔
کامران اور راشد زور سے ہنس دئیے۔ یہ شرارت راشد کی تھی۔ اسی نے آصف کو ڈرانے کے لیے چیخ ماری تھی۔ ’’ڈر گئے … بڑے بزدل ہو تم…‘‘ راشد ہنستا ہوا بولا۔
’’اب ایسا بھی ڈرپوک نہیں کہ ڈر گیا۔‘‘ آصف جھینپے جھینپے انداز میں کہہ رہا تھا۔ ’’بس ایسے ہی…‘‘
’’یار تم لوگ خاموشی سے نہیں چل سکتے …‘‘ جاوید بھنائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’چل سکتے ہیں …‘‘ کامران نے ہنسی دباتے ہوئے کہا۔ ’’چلو بھئی، اب سب خاموش…‘‘
باقی سفر خاموشی سے طے کیا۔ پھر دیر بعد انہیں ایک دیو پیکر عمارت کا ہیولہ نظر آنے لگا۔ یہی محکمہ جنگلات کی سابقہ عمارت تھی، جو اب خوف ناک پرانے کھنڈر کی مانند لگ رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہاں کبھی انسان آئے ہی نہیں، بلکہ صدیوں سے یہاں بھوتوں کا بسیرا رہا ہو۔ ڈر کے مارے آصف کی جان نکلے جا رہی تھی، لیکن وہ اپنے خوف کو اپنے ساتھیوں پر ظاہر نہیں ہونے دے رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ لوگ پھر اس کا مذاق اڑائیں گے۔ عمارت کا مین گیٹ تو کب کا ٹوٹ چکا تھا۔ وہ لوگ اندر داخل ہو گئے۔ جاوید اور راشد نے ٹارچیں روشن کی ہوئی تھیں، جن کی مدد سے وہ لوگ وہاں کا جائزہ بھی لے رہے تھے۔ وہاں ہر شے پر مکڑیوں نے اتنے دبیز جالے بن رکھے تھے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ عمارت ان مکڑیوں کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔ ٹارچوں کی روشنیاں جہاں جہاں پڑتیں، وہاں کیڑوں اور دیگر حشرات میں ہلچل سی مچ جاتی۔ ان روشنیوں میں انہوں نے کئی موٹے موٹے گول مٹول چوہے بھی بھاگتے دوڑتے دیکھے۔ لکڑیوں کے تختے، پودوں کے سوکھے پتے، سوکھی ٹہنیاں اور پتھر، مٹی، گرد پوری عمارت میں جا بجا وافر مقدار میں موجود تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ وہ لوگ کسی بھوت بنگلے میں آ گئے ہوں۔ کتنی ہی مرتبہ ان کے پیروں سے موٹے چوہے ٹکرائے۔ آصف کے منہ سے چیخیں نکلتے نکلتے رہ گئیں۔ عمارت کے اندرونی حصے میں سخت بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ جاوید نے عمارت کی چھت پر ٹارچ کا رخ کیا۔ تو وہاں بے شمار چمگادڑیں الٹی لٹکی نظر آئیں۔ روشنی پڑتے ہی وہ پھڑپھڑیاں لینے لگیں اور یکلخت وہاں پھڑپھڑاہٹ کا طوفان اُبل پڑا۔ چمگادڑوں کی مکروہ چیں چیں ان کے پردہ سماعت کو پھاڑے دے رہی تھی۔ وہ جلدی سے آگے بڑھ گئے فرش گرد اور چمگادڑوں کی بیٹوں سے اَٹے ہوئے تھے۔