"رانی دیکھ تو باہر کون ہے" کھٹکے کی آواز پر اماں نے وہیں بیٹھے بیٹھے آواز لگای
" آۓ ہاے اماں ...اتنی تو ٹھنڈ ہے تو خود دیکھ لے "وہ منہ بسور کر بولی
"اٹھتی ہے یا میں اٹھاوں تجھے" اماں کے شاہی فرمان پر وہ غصےسے لحاف پھینک کر اٹھی اور دروازے کی طرف لپکی
"سکون نہیں ملتا لوگوں کو اپنےگھر اتنی ٹھنڈ میں تو
کیڑے بھی اپنے بلوں سے نہیں نکلتے یہ پتا نہیں کون سی مخلوق ہے جسے سکون نہیں ،،،،،" وہ مسلسل
بڑبڑاتی آرہی تھی مگر آواز اتنی ضرور تھی
کہ باہر کھڑے راجہ تک باآسانی پہنچ سکتی ملازم نے
گھبرا کر راجہ کے تاثرات دیکھے جو مسلسل مسکرا رہا تھا
اسنے جونہی دروازہ کھولا سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کرفریز ہوگئی
" آآپ "وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی وہ ایک قدم آگے آیا اور محظوظ کن مسکراہٹ سے بولا
"جی ہاں ہم ہی وہ مخلوق ہیں جسے اتنی سردی میں بھی سکون نہیں ملتا"
"آ ...نہ... نہیں میں نے آپ کو نہیں کہا تھا" وہ بمشکل بولی
"لیکن اگر آپ ہمارے لیے کہتیں تو بھی ہمیں اچھا لگتا " وہ معنی خیزی سے مسکرا کر بولا
وہ نا سمجھی سے اسکا چہرہ دہکھنے لگی جو غصے کے بجاۓ خوش ہو رہا تھا بھورے بال بھوری آنکھیں کھڑی ناک سرخ بھرے بھرے ہونٹ سرخ و سفید رنگت ہلکی بڑھی ہوئی داڑھی وہ پینتس سال کا ایک خوش شکل نوجوان تھا
"اندر نہیں آ سکتے کیا ہم" راجہ کی آواز سے اسکی محویت ٹوٹی وہ ہڑبڑا کر سائیڈ پر ہوئی
" آئیے"
"آپ نے پوچھا نہیں ہم یہاں کیوں آۓ ہیں" دو قدم اندر آ کر وہ وہیں رک کر پوچھنے لگا
"کیوں آے ہیں" وہ اچنبھے سے اسے دیکھنے لگی
"آپ کوشکریہ کہنے" اب وہ براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا
"شکریہ "رانی مزید الجھی مگر اس سے پہلے کہ وہ مزید پوچھتی اماں بولتے بولتے باہر آئیں
" ارے کون ہے جو وہیں رک کر گپیں ہانک رہی ہے "مگر جونہی نظر ٹکا کر دیکھا کچھ لمحے سانس لینا بھول گئیں سر پر ہاتھ مار کر تیزی سے آگے بڑھیں
راجہ جی آپ یہاں ہمارے غریب خانے پر جناب ہمیں بلا لیاہوتا.....کوئی غلطی ہو گئی ہے کیا ہم سے؟؟" ڈر اور گبراہٹ سے اماں کی آواز کانپ رہی تھی
"ارے نہیں ماں جی ایسی کوئی بات نہیں ہم تو ایک عرضی لے کر آۓ ہیں آپ کے پاس اور پیاسے کو تو کنویں کے پاس خود ہی چل کر آنا پڑتا ہے نا "وہ معنی خیز نگاہ رانی پر ڈال کر نرمی سے بولا اماں تو اسکے لہجے پر گنگ تھیں
"ہاں جی کریں بات.... نہیں آئیں بیٹھیں آپ "وہ تیزی سے اندر گئی اور چادر لا کر صحن میں پڑی چارپای پر ڈالی تکیہ درست کر کے رکھا
"اب بیٹھییں راجہ جی "
"جا رانی لسی لا چل کر" اماں نے رانی کو گھرکا وہ جو حیران کھڑی ساری کاروای دیکھ رہی تھی خاموشی سے رسوﺉ کی طرف بڑھ گئی
★★★★★★★
"اماں اماں بتا بھی دے راجہ نے کیا کہا ہے" راجہ کے جاتے ہی وہ اماں کے سر ہوگئی تھی جو سر باندھے وہیں لیٹی کسی سوچ میں گم لیٹی تھی
"بتا دوں گی تجھے صبر کر "اماں نے اسے ٹالا مگر وہ بھی رانی تھی کیسے صبر کر لیتی
"جب تک بتاۓ گی نہیں میں یہاں سے نہیں ہلوں گی"
"رانی دماغ نہ خراب کر میرا " اماں کو غصہ آنے لگا
"پھر بتا مجھے"
"رشتہ لینے آیا تھا تیرا... شادی کرنا چاہتا ہے تجھ سے دو دن کی مہلت دے کر گیا ہے" اماں تو گویا پھٹ ہی پڑی تھی اور رانی وہ آنکھیں پھاڑے اماں کو دیکھنے لگی
"کیا کہہ رہی ہے چاچی تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے" سجی جو کسی کام سے وہاں آیا تھا مگر یہ جان لیوا انکشاف سن کر وہیں جم گیا تھا
اسکی آواز پر دونوں گھبرا کر اٹھیں
"ارے کچھ نہیں بیٹا تو آبیٹھ " اماں نے اسے رام کرنا چاہا
"واہ چاچی اتنی بڑی بات گئی اور تو کہہ رہی ہے کچھ نہیں ہوا سچ سچ بتاو مجھے کیا معاملہ ہے یہ" اسکی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا رانی تیزی سے اسکی طرف بڑھی اور کچھ کہنے کے لیے اسنے لب کھولے ہی تھے کہ سجی نے ہاتھ آٹھا کر اسے خاموش کروادیا
مجبورا اماں کو ساری بات بتانی پڑی پوری بات سن کر وہ آپے سے باہر ہو گیا
"میں زندہ نہیں چھوڑوں گا اس راجے کو سمجھتا کیا ہے یہ خود کو"
"نہیں تو ایسا کچھ نہیں کرے گا سجی تو بس شادی کی تیاری کر آج رات کے اندھیرے میں اسے رخصت کروا کے یہاں سے دور لے جا" رانی نے چونک کر اماں کو دیکھا یہ کیا کہہ رہی ہے تو اماں
"ٹھیک کہہ رہی ہوں میں یہ راجے کبھی کمی زاتوں کی لڑکیوں کو عزت نہیں بناتے دو چار دن سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں پھر قدموں کی خاک بنا دیتے ہیں"
"لیکن اماں......." رانی نے کچھ کہنا چاہا
"ٹھیک کہہ رہی ہے تو چاچی ہم آج کے اندھیرے میں یہاں سے نکل جائیں گے "یہ کہہ کر وہ واپس مڑ گیا جبکہ وہ خالی ظروں سے اسے جاتا دیکھتی رہی یکلخت اسکے ذہن میں جھماکا ہوا اسنے چادر اٹھا کراچھی طرح اپنے اردگرد لپیٹی اور دبے قدموں باہر نکل آی اسکا رخ حویلی کی طرف تھا
★★★★★★★
"بھیا بھیا "
وہ جو سرشار سا اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا آواز پر ناگواری سے پلٹا وہ اس وقت صرف رانی کو سوچنا چاہتا تھا مگر اس مداخلت پر اسکے ماتھے پر بل پڑ گئے
سامنے ہی رانی ماہا کھڑی تھی
"کتنی بار کہا ہےہمیں پیچھے سے آواز مت دیا کرو" راجہ کی سخت آواز ہال میں گونجی ماہا سمیت سب نے حیرانی سے اسکے تاثرات دیکھے پھر سر جھٹک کر بولی
"آپ سے بات کرنی ہے مجھے "
"بولو کیا بات ہے "
"سجاول کہاں ہے" اسکا لہجہ نہ چاہتے ہوے بھی تلخ ہو گیا
"ہمیں کیا پتا کہاں ہے" وہ ناگواری سے بولا
"جھوٹ بول رہے ہیں آپ "وہ بلند آواز میں چلائی
راجہ نے حیرانی سے پلٹ کر اسے دیکھا" یہ کس لہجے میں بات کر رہی ہو تم "
"آپ راجہ ہیں محافظ ہیں یہاں کے آپ تو اپنے جانوروں تک کی حفاظت کرتے ہیں اور تو اور کمی زات دشمنوں کو بھی سر پر بٹھاتے ہیں"
اسنے کونے میں کھڑی اریکہ کی طرف تنفر سے دیکھا "آپ کے علاقے سے ایک زندہ انسان یوں غائب ہو جاۓاور آپ کو معلوم نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے کیسے راجہ ہیں آپ اگر آپ لوگوں کی جان مال کی حفاظت نہیں کر سکتے تو آپ کو راجہ بننے کا بھی کوئی حق نہیں "
چٹاخ چٹاخ
بات پوری ہوتے ہی راجہ کا ہاتھ آٹھا اور اسکے گال پر نشان چھوڑ گیا وہ گال پر ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی آملہ بیگم تو حق دق رہ گئیں انہیں بنابنایا کھیل بگڑتا دکھائی دیا وہ جلدی سے آگے بڑھ کرماہا کو گلے سے لگاتی ہوۓ بولیں
" کیا کر رہے ہیں آپ یہ بہن ہے یہ آپکی"
" یہی تومسئلہ ہے مگر قصور انکا نہیںں ہے ہم ہی قصور وار ہیں جو انکی ہر جائزناجائز بات مانتے رہے"
اسکے لہجے میں تھکن واضح تھی پھر انگلی اٹھا کر قدرے سخت لہجے میں بولا
" کان کھول کر سن لیں رانی ماہا اگر ہم آپ کی ہر بات مان کر آپ کو سر پربٹھا سکتے ہیں تو اس گستاخی کے لیے سر سے اٹھا کر زمیں پر بھی پٹخ سکتے ہیں اور ایسا کر کے ہیمں ذرا بھی افسوس نہ ہو گا سمجھی آپ "
یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا تیز تیز قدم اٹھاتا اپنی آرامگاہ کی طرف بڑھ گیا رانی ماہا بھی روتے ہوے بھاگ کر اوپر چلی گئی آملہ بیگم نے فاتحانہ نظروں سے عروسہ بیگم کی طرف دیکھا
اور کھلکھلا کر ہنس دیں اب وہ دل ہی دل میں اپنا اگلا پلین تیار کر رہی تھیں کہاں کب اور کیسے ماہا کو راجہ کے خلاف استعمال کیا جا سکتا تھا
★★★★★★★★
وہ بغیر ادھر ادھر دیکھے تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی جب اسے اپنے پیچھے کسی کی آواز سنای دی وہ بغیر رکے چلتی رہی
"رانی رک کدھر جا رہی ہے" اب آواز قریب سے آ رہی تھی وہ شاید نہیں یقیننا سجی کی آواز تھی مگر وہ پلٹنا نہیں چاہتی تھی سجی نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف گھمایا
"سن نہیں رہی کیا تو یا بہری ہوگئی ہے" وہ غصے سےپوچھنے لگا
"چھوڑ مجھے" وہ ہاتھ چھڑا کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی "کدھر جا رہی تھی '
"راجہ سے ملنے "اسنے صاف بتایا
"کیوں "سجی کے ماتھے پر بل پڑے
"بات کروں گی اس سے "وہ بغیر ڈرے بولی
"کیا بات کرے گی "
"کہ ہمارا پیچھا چھوڑ دے وہ"
"اور وہ چھوڑ دے گا ؟؟؟ "
"پتا نہیں "
"جھلی ہو گئی ہے تو چل گھر جا وہ تاسف سے گردن ہلاتا بولا
"تو جا میں آ جاؤں گی" وہ پھر سے جانے لگی
"تجھے سنای نہیں دیتا کیا چل گھر" اب کے وہ غصے سے بولا
"کیا تو چاہتا ہے کہ ہم یہ سب چھوڑ کر چلے جائیں جہاں ہم پیدا ہوۓ بچپن گزارا کیا تو رہ لے گا اپنے اماں ابا کے بغیر "اسکی آنکھوں میں آنسو آگۓ
"دیکھ جب ہمارا نکاح ہو جاے گا نہ تو راجہ خود ہی پیچھے ہٹ جاے گا پھر ہم واپس یہاں آ جائیں گے ابھی تو چل یہاں سے" وہ اسے لیے گھر کی طرف چل دیا یہ جانے بغیر کہ دو پر سوچ نگاہوں نے کتنی دور تک انکا پیچھا کیا تھا
★★★★★★★★
"کیوں لایا گیا ہے ہمیں یہاں" یہ آواز سجی کی تھی
"آہستہ بولو یہ راجہ کا ٹھکانہ ہے" منٹھار نے اسے رسانیت سے سمجھایا
راجہ کے حکم پر وہ سب وہاں بلواۓ گئے تھے
"ہونہہ راجہ" سجی پھر سے بپھرا رانی نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ دبا کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اتنی دیر میں راجہ آتا دکھاﺉ دیا اسکی چہرے کے تاثرات دیکھ کر ایک لمحے کو تو سجی کو بھی خوف محسس ہوا وہ چلتا ہوا انکے سامنے آرکا اور ہاتھ پچھے باندھ کر بغور سب کو دیکھنے لگا
"ہاں بھﺉ کیا کرنے چلے تھے رات کے اندھیرے میں تم لوگ" وہ کرخت لہجے میں بولا مگر دیکھ صرف سجی کو رہا تھا سب حیرانی سے ایک دوسرے کر دیکھنے لگے
"مجھ سے چھپ کے نکاح ہوں واہ بھﺉ بڑے دلیر ہو گئے ہو سب" اب وہ ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا سجی کا باپ ہاتھ جوڑ کر کانپتی آواز میں بولا
"نہہں راجہ جی ہم کیسے کر سکتے ہیں ایسا اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو ،،،"
"مگر کیا،،،،، تم لوگوں نے ایسا کیا" اسکی دھاڑ نے سب کی بولتی بند کر دی
"تو کیا ہمیں اپنی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے کے کیےآپ کی اجازت چاہیے ہو گی" سجی کے تلخی سے کہنے پر وہ پورا اسکی طرف گھوم گیا اور اسے سر سے پیر تک دیکھ کر بولا
"بڑی لمبی زبان ہے تیرے چھورے کی "
"نہ... نہیں صاحب جوان ہے نا گرم خون ہے معاف کر دو صاحب" وہ کن آنکھیوں سے بیٹے کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتا بولا
ماتھے کو انگلیووں میں دباتے وہ کچھ دیر اپنا غصہ ضبط کرتا رہا جب بولا تو لہجہ نرم تھا
"کون سی خوشی چاہیے تمہیں بچپن کی منگ یا جوان بھاﺉ" وہ چونک گیا
" کیا مطلب "
"فیصلہ تمہارے ہاتھ ہے کہ تمہیں کیا چاہیے بھای یا..." وہ بات ادھوری چھوڑ کرا سکا چہرہ دیکھنے لگا "فیصلہ کرلو تو بتا دینا "یہ کہہ کر وہ پلٹ گیا سجی نے رانی کو دیکھا اور بس ایک لمحہ لگا تھا اسے فیصلہ کرنے میں
وہ مضبوط اور تیز لہجے میں بولا
" کہاں ہے میرا بھائی مجھے میرا بھائی چاہیے "باہر نکلتے راجہ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آ گئی
رانی نے بے یقینی سے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا" سجی "
"مجھے معاف کردینا رانی" وہ سر جھکا گیارانی کی آنکھیں حیرت اور بے یقینی سے پھیل گئیں
"بہت جلد باز ہو کچھ دیر تو سوچتے "راجہ نے استہزایہ ہنستے ہو ۓ کہا اور اپنے بندے کو اشارہ کیا وہ سجی کا بازو تھامے باہر نکل گیا