رومیسہ کی آنکھ کھلی تو 7 بج رہے تھے
نماز قضا ہوچکی تھی
وضو کیا چینج کیے اور نماز پڑھنے لگی
ارمان بھی جاگ گیا تھا
رومیسہ کو جائے نماز پر دیکھ کے رات نفل پڑھتی ہوئی روومیسہ یاد آگئ
وہ اٹھ کے واشروم جا چکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارمان یہ ڈریس ٹھیک ہے جو میں نے پہنا ہے یا چینج کروں
تم جو پہنو سب اچھا لگتا ہے
پھر یہ ہی ٹھیک ہے 8 بج گئے ہیں
سب بول رہے ہونگے کتنا سوتے ہیں یہ لوگ۔۔۔
وہ پریشان ہو کے بول رہی تھی
نئی نئی شادی ہوئی ہے نیند تو پوری کریں گے نہ
ارمان ڑریسنگ ٹیبل کے پاس آکے بولا
رومیسہ تیار ہو چکی تھی
۔۔۔۔۔
نئی شادی والے لوگ نیند پوری کرتے ہیں
ہاں ناااااا
نیند بھی پوری کرتے ہیں اور ۔۔۔۔۔
کچھ بولتا جب دروازے پر دستک ہوئی ارمان خاموش ہوگیا
رومیسہ دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولی آگئیں آپکی سالیاں۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ تیار ہے بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ
جی ہم بھی تیار ہیں ارمان شوخ ہو کے بولا
تو آجائیں نیچے میں احسن کو بھی بول دوں
۔۔۔۔۔۔۔
رومیسہ شوز پہنتے ہوئی بولی ارمان بال باندھ نا لوں؟
نہیں کھلے رہنے دو وہ بھی موبائل جیب میں رکھ رہا تھا
ایک منٹ مسسز ارمان
وہ اب اس کے قریب آگیا تھا
آپ کچھ بھول رہیں ہیں؟
کیااا؟
رات میں نے کچھ بولا تھا آپ نے جواب نہیں دیا
رومیسہ سمجھ گئی ارمان آئ لو یو کا جواب مانگ رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
دوبارہ بولیں
میں بھول گئی وہ ایک ادا سے بولی تھی
ارمان نے رومیسہ کا ہاتھ پکڑ کے ہونٹوں سے لگایا اور بولا
آئ لو یو۔۔۔۔۔
رومیسہ نے پلکیں جھکائے بولا آئ لو یو ٹو
نہیں ایسے نہیں مجھے دیکھ کے کہنا ہوگا
اب وہ اپنی گھنی پلکیں اٹھا کے ارمان کے آنکھوں میں دیکھ کے بولے آئ لو یو 2،3،4۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائےےےےے
یہ ہوا ہے جواب وہ اس کے چہرے پر جھک کر بولا جس پر رومیسہ فوراً بولی
چلیں
ورنہ آجائے گی آپکی بہن پلس سالی۔۔۔۔۔
چلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ کر کے اٹھے تو صفیہ بیگم اور نزیر صاحب ہال میں داخل ہوئے ارمان فوراً جا کے گلے ملا صفیہ بیگم نے دونوں کو دعائیں دی پیار دیا
ساتھ سلطانہ بیگم بھی آئی تھیں ولیمہ اٹینڈ کرنے کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ ہال میں گپے لگانے بیٹھ گئے تھے سب بہت خوش تھے سوائے فرحین اور انکے بچوں کے وہ نقلی مسکراہٹ دیکھا رہے تھے سب کو مگر سمجھنے والے سمجھ ہی لیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
رومیسہ ٹینا کے ساتھ تھی جب اسنے بریسلٹ دیکھا جو،ارمان نے منہہ دیکھائی میں دیا تھا
بہت خوبصورت ہے ٹینا بریسلٹ اور رنگ دیکھتے ہوئے بولی
اور رات میرے بھائی کو تنگ تو نہیں کیااا
بلکل نہیں میں سو گئی تھی
رومیسہ کا جواب سن کے ٹینا کا دل کیا سر پیٹ لے تم گولڈن نائٹ میں سو گئی؟
ہاں تو؟
ارمان چینج کرنے گئے میں لیٹی تو کب سوئی پتہ نہیں چلا
اور تمہیں بھائی نے اٹھایا؟ نہیں
واہ واہ دونوں ہی ایک سے بڑھ کے ایک ہو ۔۔۔۔حد ہے ویسے رومیسہ مسکراتی ہوئی صفیہ بیگم کے پاس جا کے بیٹھ گئی
۔۔۔۔۔۔
رومیسہ بیڈ روم میں گئی تو تارا اسکے پیچھے روم میں آگئی
کیا میں تم سے بات کر سکتی ہوں ؟
ہاں ضرور رومیسہ بولی
ابھی تارا کچھ بولنے والی تھی جب کمرے میں نرگس اور صفیہ بیگم داخل ہوئیں
صفیہ بیگم تارا کے جانے کے بعد بولیں یہ یہاں ؟ جی
مما،ابھی ائی تھی آپ بیٹھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
ارمان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی رونق احسن اور طلحہ کے علاوہ نزیر صاحب نے بھی نوٹ کی تھی ایک دن میں کافی چینج لگ رہا تھا
ورنہ بات کم کرتا تھا زیادہ سیریس رہتا تھا
اور آج باقاعدہ ہنس رہا تھا ورنہ ارمان کی ہنسی مشکل سے دیکھنے کو ملتی صرف مسکرا دیا کرتا تھا
نزیر صاحب نے دل میں دونوں کے لیے دعا کی کہ ہمیشہ دونوں خوش رہیں
۔۔۔۔۔۔۔
چلیں سب بیٹھیں
گیم اسٹارٹ کرنا ہے
گیم کیا ہے؟
طلحہ نے پوچھا
بوتل اسپن کریں گے جس کی طرف رخ ہوا بوتل کا وہ گانا سنائے گا اوووکے طلحہ بیٹھتا ہوا بولا
بوبی تم بھی آجاؤ تارا نے بوبی کو آواز دے کے بلایا جو رومیسہ کو گھور رہا،تھا
احسن نے بوبی کے ساتھ بیٹھتے ہوئے پوچھا کیا سوچ رہے ہو بھائی؟
یہ ہی ہماری بھابھی رومیسہ بہت خوبصورت ہیں
تارا نے فوراً بولا بوبی خوبصورتی ہی سب کچھ نہیں ہوتی
اچھا اخلاق تعلیم اور سیرت بھی ہونی چاہیے انسان کی
نزیر صاحب بولے الحمدللہ وہ سب میری بیٹی میں موجود ہے
نرگس بیکم نے تارا کو دیکھتے ہوئے بولا
بیٹا خوب سیرتی کے ساتھ خوبصورتی الله پاک کی طرف سے انعام ہوتا ہے
۔۔۔۔۔
نرگس بیگم کی بات سن کے تارا خاموش ہوچکی تھی
ارمان نے دل میں نرگس بیگم کو داد دی تھی تارا کو جواب دیا وہ بھی کرارا
وہ سمجھ گیا تھا تارا خوش نہیں ہے اسکی شادی سے بلکہ تارا کیا فرحین اور بوبی بھی خوش نہیں تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بوتل گھما رہی ہوں ٹینا بولی
اور پہلی ہی بار میں بوتل کا رخ ارمان کی طرف تھا
چلیں ارمان بھائی شروع ہوجائیں
ارمان اپنی جگہ سے کھڑا ہو کے ہال کے بیچ میں جا چکا تھا
ہاں ہنسی بن گئے
ہاں نمی بن گئے
تم میرے آسماں میری زمیں بن گئے
ہاں ہم بدلنے لگے
گرنے سمبھلنے لگے
جب سے ہے جانا تمہیں
تیری اوور چلنے لگے
ہر سفر ہر جگہ
ہر کہیں بن گئے
مانتے تھے دعا اور ہاں وہی بن گئے
پہچانتے ہی نہیں اب لوگ تنہا مجھے
میری نگاہوں میں بھی ہیں دھونڈتے وہ تجھے
ہم تھے دھونڈتے جنہیں وہ کمی بن گئے
تم میرے عشق کی سر زمیں بن گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔