مہرو سودا سلف کی لسٹ بنا لو آج شام کو میٹرو سے ہو آئیں گے ،صبح آفس جاتے ہوئے احمد نے کہا،ہنہہ سودا سلف کی لسٹ۔۔ بس یہی باتیں آتی ہیں اس مرد کو۔کبھی پیار بھرے دو لفظ نہ بولے نہ لکھ کر بھیجے۔کیا زندگی ہے میری۔ایک شکی مزاج انسان کے پلے بندھ گئی،اور ایک ناپسندیدہ زندگ بسر کر کے مر جاوں گی،وہ کھڑکی میں کھڑی سوچے جارہی تھی۔محبت کرنا کیا میرا حق نہیں ہے،چاہا جانا کیا میرا نصيب نہیں،میں کیوں اپنی زندگی کی ہر خوشی کا راستہ اس شخص کی خاطر بند کئے بیٹھی ہوں جس کو میرے جذبات احساسات اور خوشیوں کا خیال تک نہیں،جس کے لئے جینے کا سامان سودا سلف کپڑے اور یہ قید خانہ نما مکان ہے،اس نے پورے لاونج پر نظر دوڑائی۔میں چھوڑ دوں گی اس گھر کو،اس شخص کو اور فہد کے ساتھ اتنی دور چلی جاوں گی کہ یہ کبھی بھی میرا نشان تک نہیں پا سکے گا۔میری منزل تو کوئی اور ہے احمد تو صرف ایک راستہ تھا فہد تک مجھے لانے کا راستہ۔عورت کے لئے محبت کی راہ پر پہلا قدم دھرنا مشکل ہوتا ہے وہ باقی کا فاصلہ تو بھاگ کر طے کرتی ہے،اور مہرو فیصلہ کر چکی تھی،اٹل فیصلہ،اور عورت جب کچھ ٹھان لے پھر کسی رکاوٹ کو نہیں دیکھتی،مہرو فہد کوخط لکھ رہی تھی
میں جانتی ہوں کہ آپ فہد ہو،میں آپ سے ملوں گی مگر آخری بار نہیں ہمیشہ کے لئے۔فہد مجھے اس جہنم سے اس قید خانے سے نکال کر لے جاو،بہت دور،یہاں میرا سانس گھٹتا ہے۔میں اس زنداں میں ہی مر جاوں گی۔میں جینا چاہتی ہوں۔اس دنیا کی سب رونقوں کو دیکھنا چاہتی ہوں۔اپنی نئی زندگی کا سفر شروع کرنا چاہتی ہوں آپ کے ساتھ
وہ خط بھیج کر مطمئن ہو گئی تھی،یوں لگا تھا کہ جیسے دل ہر دھری کوئی بھاری سل ہٹ گئی ہو۔
اس کے اندر کا خوف مر چکا تھا ڈر کی بکل سے وہ نکل آئی تھی۔اب وہ کسی بھی طوفان سے ٹکرا سکتی تھی،ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر وہ اپنی آنکھوں کا میک اپ کر رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں آئی لالی رتجگے کی چغلی کھا رہی تھی۔حقیقت بھی یہی تھی وہ تمام رات نہیں سوئی تھی،صبح ہونے کا انتظار کر رہی تھی،اسے لگ رہا تھا یہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے،اب اس کی زندگی میں ہمیشہ سحرکے اجالے ہوں گے۔آج فہد نے اس سے ملنے آنا تھا، اس سے ملنے کی دل میں لاکھ جھجھک سہی لیکن ملنے کی خوشی اور سرور کا اپنا مقام تھا۔ احمد رات سے ہی کچھ خاموش خاموش سا تھا،گھربھی لیٹ آیا تھا،صبح بھی وہ سست روی سے تیار ہو رہا تھا،مہرو چاہ رہی تھی کہ وہ جلدی سے چلا جائے،تم نے سوداسلف کی لسٹ بنا لی تھی? ناشتے کی ٹیبل پر اس نے مہرو سے سوال کیا ?جی وہ تو کل سے ہی لکھ لئے ہیں،مہرو نے کہا۔اچھا دکھاو وہ بولا،وہ سامان کی لسٹ اٹھا لائی۔اچھا کیا کیا لکھا ہے وہ چائے کا سِپ لے کر بولا،شوگر،سرف،دالیں،اسپیگٹی،جیم۔رائس۔۔۔۔وہ جلدی جلدی بولنے لگی،سنواسے مختصر کردو،میں واپسی پر خود ہی سامان لیتا آوں گا۔احمد اس کی بات کاٹ کر بولا،کیا مطلب۔مہرو نے جھٹ پو چھا مطلب یہ کہ اتنا سامان لکھوجو ایک آدمی پر پورا ہوجائے وہ ٹائی ٹھیک کرتے ہوئے بولا،مہرو کو کچھ سمجھ نہ آئی وہ ویسے بھی اس وقت کچھ سمجھنا نہیں چاہتی تھی،وہ جلد ازجلد اسے بھیجنا چاہ رہی تھی۔آپ خود ہی اپنے حساب سے کم زیادہ کر لینا اس نے لسٹ احمد کی طرف بڑھائی ۔مہرو اسےمیرے کوٹ میں رکھ دو،احمد شوز ریک میں سے شوز نکالتے ہو ئے بولا،اف کب جائے گا یہ، وہ جلدی سے الماری کی طرف بڑھی اور بلیک کوٹ کو نکال کر بیڈ پررکھ کر اس میں لسٹ رکھنے لگی۔خیال کرنا میرے اس میں اوربھی ضروری کاغذ ہیں،وہ بولا۔مہرو نے دیکھا اس میں دو اور بھی فولڈ شدہ کاغذ تھے۔احمد روم سےشوز پہن کر لاونج میں نیوز لگا کر بیٹھ گیا،۔مہرو کوٹ اٹھائے آگئی،احمد نو بجنے والے ہیں،دیر ہو رہی ہے آپکو،وہ بولی۔احمدنے کلاک کی طرف دیکھااور بولا ہاں واقعی دیر ہوگئی ہے۔اور کوٹ پہن کر گاڑی کی چابی لے کرباہر نکل گیا،مہرو دروازہ بند کرکے لاونج کے کشن ٹھیک کر کے تیزی سے اپنے روم کی طرف بڑھی تو ایک فولڈ شدہ کاغذ پڑا تھا،افوہ کوٹ پہنتے ہوئےاحمد سامان کی لسٹ یہیں پھینک گیے ہیں۔اس نے کاغذکو اٹھاکر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھدیا،اور اپنی وارڈروب سے کپڑے دیکھنے لگی،سامنے ہی شیفون کا سفید رنگ کا لباس ہینگ تھاجس پر وائٹ پرل کا کام تھا،اس نے یہ جوڑا بہت شوق سے بنوایا تھا مگر جب شادی کے دوسرےتیسرے دن احمدنے اسے کہا کہ اسےاچھا نہیں لگتا کہ سفید رنگ عورتیں پہنیں۔تو اسے یہ سوٹ پہننے کا موقع ہی نہیں ملا تھا،مگر فہد کو تو یہ کلر پسند ہے وہ متعدد بار اس سےخطوط میں ذکر کرچکاتھا،وہ چینج کر کے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔اسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی،ایک،دو تین بار۔۔۔اس طرح کی دستک تو احمد دیتا ہے،اس کا دل دھڑکا،کون ۔۔۔۔۔مہرو احمد ہوں،وہ کانپ کر رہ گئی،اب اتنا ٹائم نہیں تھا کہ وہ لباس بدلتی اس نے لاک کھول دیا۔احمد جیسے ہی اندر داخل ہوا چونک گیا،وہ سفیدشیفون کے لباس میں بال کھولے کھڑی تھی۔کہیں جارہی ہو،اسنےسوال کیا۔نہیں نہیں وہ چیک کر رہی تھی کہ مجھے سایز ٹھیک ہے یا مشو کو دے دوں وہ گھبرا کر اٹک اٹک کر بولی۔اچھا۔۔احمد نے آہستہ سے کہا،اچھا میرا ضروری ایک پیپر گر گیا ہےکوٹ سے وہ لینے آیا ہوں،ہاں ادھر لاونج میں گرا تھا میں نے اندر رکھا ہے،وہ روم میں جاکردیکھنے لگی۔یہیں رکھا تھا۔یہ پڑا ہے وہ اٹھا کر اسےکھولتے ہو ئے لاونج میں کھڑے احمد کی طرف بڑھی۔میں جانتی ہوں آپ فہد ہو،میں آپ سے ملوں گی۔مگر آخری بار نہیں ہمیشہ کے لئے۔فہد مجھے اس جہنم سے اس قید خانے سے۔۔۔۔۔۔۔لفظ ناچنے لگے تھے۔اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔اس کے قدم وہیں رک گئے تھے،وہ ہاتھ میں اپنا لکھا خط یوں پکڑے کھڑی تھی جیسے اپنی موت کا پروانہ۔
مہرو مہرو بتاو نہ ایک عورت کو کتنی محبت درکار ہو تی ہے،کتنا پیار چاہیے ہوتا ہے۔کتنی طلب ہوتی ہے اس کے دل میں جو ایک مرد سے پوری نہیں ہو سکتی۔وہ صوفے پر یوں بیٹھی تھی جیسے کوئی مردہ بیٹھا ہواور احمد اس کے سامنے زمین پر اس کے پاوں میں بیٹھاتھا اذیت اور تکلیف کی آخری حد سے مہرو گزررہی تھی۔موت بھی شاید اس سے سہل عمل ہوگا اور منکر نکیر کے سوالات بھی شاید اس سے آسان ہو ں گے،مہرو پر یہ لمحے بہت بھاری تھے،وہ پچھلے دوگھنٹوں سے خاموش بیٹھی تھی اور احمد ہی بول رہا تھا،کبھی وہ بچوں کی طرح رونے لگتا کبھی پاگلوں کی طرح اپنےبال نوچنے لگتامہرو کتنا ساہوتا ہے ایک آٹھ سال کا بچہ۔وہ عمر جب آنکھ میں کوئی ایک منظر ٹہرتا نہیں،آٹھ سال کی عمر میں میری آنکھ میں ایک منظر ٹہرا اور تمام عمرکے لئےوہ پر چھایں بن کر میرا پیچھا کرتا رہا،میرا باپ ہمارے پیٹ بھرنے کے لئےدور دیس جا بسا،وہاں اس نے وہ تمام کام کئےجو ہم ہاکستانی مرد کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ،22 گھنٹے کام کر کے وہ ہمیں پیسے بھیجتا،اور ۔۔۔۔۔۔اور میری ماں،میری ماں۔۔۔ وہ کچھ کہتے کہتے رونے لگا،انکل جمشید میرے ابوکے دوست تھے اور ابو انہیں ہمارا محافظ بناکر گئے تھے،اور محافظ کا کام حفاظت کرنا ہے یا اسی گھر میں نقب لگانا جہاں کا پہریدار اسے مقرر کیا جائے،لیکن قصوروار وہ شخص نہیں تھا،میری ماں تھی۔اس نے اس شخص کے لئے سب کچھ داو پر لگا دیا،اپنی عزت اپنے شوہر کی کمائی حتی کہ۔۔۔۔۔اپنی اولاد۔جانتی ہو مہرو وہ ہمیں ہر رات نیند کی دوا پلا دیتی۔ہم سکول جا کربھی جھولتے رہتے۔میرے باپ کے سر پر ایک بال تک نہ رہا۔وہ دوسال بعد دو مہینے کے لئے آیا تو میری ماں سے اس کا وجود برداشت کرنا مشکل ہو گیا،جب محلے والے اس شخص کے آنے پر اعتراض کرنے لگے تو میری ماں خود چلی جاتی۔اور میرے اور میری بہن کے پاس میرے چھوٹے بھائی کو چھوڑ جاتی،اس دن ارحم کو بہت بخار تھا،میں اور عائشہ اسے سارا دن بخار کی دوا پلاتے رہے۔دو بوتل دوا پی کر وہ سو گیا،اٹھا تو اس کے منہ میں چھالے ہی چھالے تھے۔اور پھر تین دن بعد وہ مرگیا،مگر میں زندہ رہا۔اور سب کچھ دیکھتا رہا،اور میرے اندر یہ زخم پلتا رہا اور پل پل کر ناسور بن گیا،میری ماں اس شخص کے ساتھ بھاگ گئی،کیونکہ میں نے ایک دن اس پر چھری سےوار کردیا،ابو آئے تو میری بہن کوچھوٹی سی عمر میں بیاہ دیا اور مجھے ساتھ لے گئے۔مگر میں اس غم کو نہ بھلا سکا وہاں جا کر مجھے اندازہ ہوا کہ میرا باپ ہمارے لئے کتنی تکلیفیں اٹھاتا رہا ہے۔کیا کیا سہتا ریا ہے اور اس کے ہاتھ میں کیا آیا ہے،ایک عورت نے اس کی ہستی کیا اس کی پوری نسل کو ختم کردیا،میں نے مہرو پھر بہت سی عورتوں سے تعلق بنایا صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ کس حد تک گر سکتی ہیں،اپنی ہوس اور خواہش کی تکمیل کے لئے کس پستی تک جا سکتی ہیں،اور جب میں نے شادی کا فیصلہ کیا تو میں نے سوچ لیا کہ میں پاکستان میں اپنی فیملی کے ساتھ ہی رہوں گا،تاکہ میرے گھر میں کسی ضرورت کے لئے کسی کی مدد درکار نہ ہو۔میرے منع کرنے کےباوجود جب تم نے نیلم سے ملنا نہ چھوڑا تو میں نےسوچا کہ بھلا میں دیکھوں کہ کیا تم بھی ایک کمزور عورت ہو جذبات کی رو میں بہہ جانے والی عورت۔جسے جب جہاں کوئی چاہے بہلا لے،لفظوں کے ہار پہنا کربے لباس کر لے،میں پہلے خط کے بعد منتظر تھا کہ تم وہ خط میرے ہاتھ میں آ رکھو گی،مگر نہیں۔۔۔۔۔مہرو میں اپنے ہی ہر امتحان میں فیل ہو گیا ہوں،تمہیں پابند کر کے بھی دیکھ لیا۔تمھاری ضروریات پوری کر کے بھی دیکھ لیں،کہاں ہے وہ عورت جسے وفا کاپیکر کہوں میں،غیر مرد سےخاوند کا بسترروندوانے والی ماں کو یا چند تعریف بھرے لفظوں اور محبت کے دو بولوں کے پیچھے خاوند کو چھوڑ کر چلےجانےکا فیصلہ کرنے والی بیوی کو۔
احمد مجھے معاف کردیں۔مہرو تمام راستے اس سےمعافی مانگتی آئی تھی،آپ مجھے مار لیں قتل کر دیں مگر مجھے یوں امی کے گھر نہ چھوڑیں،وہ خاموشی سے ڈرائیو کررہا تھا،دکھ اورتکلیف کے اثرات چہرے سےعیاں تھے۔مہرو کو دروازے سے اندر کر کے وہ لوٹ آیا تھا،لیکن وہ بالکل ٹوٹ پھوٹ گیا تھا،زندگی گزار نے کا ڈھنگ نہیں آرہا تھا،کس طرح جینا ہے سمجھ نہیں پارہا تھا۔یااللہ میرے مدد فرما۔۔مجھے صبر دے۔وہ سجدے میں رو روکر اپنے رب سے فریاد کر رہاتھا۔
مہرو احمد اور تمھارے درمیان ایسی کیا بات ہوئی ہے کہ وہ تمہیں چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اب میرا فون بھی نہیں سن رہا،امی فکر مند تھیں،اب مہرو انہیں کیا بتاتی۔اسے تو خود احمد نے اس کی اپنی نگاہوں میں گرا دیا تھا،وہ تو جینے کے قابل بھی نہیں رہی تھی۔بس کمرے میں بند ہو کر رہ گئی تھی۔کھانے پینے کا ہوش تک نہ تھا،نجمہ بیٹی کو یوں گھلتا دیکھ دیکھ کر سخت پریشان تھی۔سر پر شوہر کا سایہ نہیں تھا،بیٹا نہیں تھا،قسمت سے ایک بیٹی گھر کی ہوئی تھی تو اللہ کا شکر ادا کیا تھا،اب چھوٹیوں کی فکر تھی۔اوپر سے نوکری کے لئے روز آنا جانا۔سو طرح کے مسائل سکول میں درپیش رہتے۔اب بیٹی گھر آبیٹھی تھی،ملنے جلنے والے الگ پو چھتے۔سب کو بتاتی کہ احمد کمپنی والوں کی طرف سے دبئی گیا ہوا ہے،مہرو اس لئے میکے آئی ہوئی ہے،پھر بھی لوگ طرح طرح کی چہ مگوئیاں کرتے۔اس دن بھی سکول سے تھک کر گھر آئی تو مہرو کو منہ سر لپیٹے بیڈ پر پڑا پایا،جھنجھلا کر ڈانٹنے لگی۔اپنے گھر جاو،احمد ناراض ہے تو منا لو،۔شوہر تو بیوی کے سر کی چھاوں ہوتا ہے،ہاتھ چھڑائے تو دامن تھام لو،پاوں پکڑ لو،مجھے دیکھو بیوگی کا عذاب سہہ رہی ہوں،اچھا پہن لوں تو لوگ باتیں بناتے ہیں،باہر جاتی ہوں تو کیچڑ اچھالتے ہیں،گھر بھوکی رہوں تو ایک روپے کی مدد نہیں کرتے۔اپنے گھر جیسی بہار کہیں نہیں ہے۔وہ خالی خالی نگاہوں سے ماں کو دیکھے جارہی تھی۔کیسا گھر،کیسا شوہر۔کچھ بھی نہیں بچا امی،وہ رونے لگی،نجمہ بیٹی کو روتا دیکھ کر کر پریشان ہو گئی اور اس کی طرف بڑھی،کیا ہوا ہے مہرو بتاو نا،اس کا دل دھڑک کر رہ گیا،کہیں احمد نے تمہیں طلاق۔۔۔وہ اس سے آگے بول بھی نہ سکی،نہیں امی لیکن اب ہم ساری زندگی ایک دوسرے کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہے۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور آنسوں میں ساری کہانی سنانے لگی،نجمہ دم بخود اسے دیکھے جارہی تھی۔زندگی بہت مشکل بہت مشکل ہو گئی تھی۔نجمہ نے کوشش کر کہ پرائمری سیکشن میں مہرو کی جاب لگوا دی تھی،وہ چاہتی تھی کہ وہ جلد ازجلد اس کیفیت سے باہر آجائے جو اسے پاگل بنا رہی تھی۔ماں کے سمجھانے بجھانے پر مہرو بہت مشکل سے سکول جانے کے لئے تیار ہوئی تھی۔ماں نے کہا تھا مہرو اٹھ کر میرے ساتھ قدم ملا کر کھڑی ہو جاو میرا بیٹا بن جاو۔میرا حوصلہ بن جاو۔سکول میں ننھے منے بچوں اور ہم عمر کو لیگز کے ساتھ مہرو کا دل بہل گیا تھا۔وہ اپنی ماں کو اور دکھ نہیں دینا چاہتی تھی۔شام میں اس نے پڑھنا شروع کر دیا تھا،وقت جیسا بھی ہو ٹہرتا نہیں رکتا نہیں،مہرو کی دو بہنیں اپنے گھر کی ہو گییں تھیں،مہرو ماسٹرز کے بعد اب ہائی سکول میں آگئی تھی۔وہ اپنے ماضی میں مڑ کر جھانکنا بھی نہیں چاہتی تھی اتنی تلخیاں وابستہ تھیں کہ ان کا کڑوا پن حلق سے نہ اترتا۔ابکائیاں آتیں،احمد واپس امریکہ چلاگیا تھا،اور وہاں کی رنگینیوں میں گم ہوگیا تھا،باپ کی وفات پر اسے دفنانے پاکستان آیا تو گم شدہ رشتے سنبھالنے کا خیال آیا،مہرو اس کی منکوحہ تھی۔اور ویسے بھی عمر کے اس دور میں بیوی کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔برسوں بعد اس آنگن میں آیا تھا جہاں سے مہرو کو بیاہ کر اور پھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔احمد تم۔۔۔ نجمہ اسے دیکھ کر حیران تھی۔آؤ نہ اندر آو نجمہ نے راستہ چھوڑا۔وہ خاموشی سے صحن سے گزر کر ڈرائنگ روم میں آبیٹھا،سب کچھ ویسا ہی تھا بس نجمہ اب بوڑھی اور کمزور ہو گئی تھی،آپ سکول نہیں گئیں،آپ کی تو گورنمنٹ کی جاب تھی نا۔احمد نے پو چھا۔ہاں ابھی ریٹائرمنٹ ہوئی ہے میری۔اور مشو لوگ وہ ادھر ادھر دیکھتے ہو ئے بولا۔بہت خاموشی ہے۔تینوں کی شادیاں کردیں ہیں،نجمہ بولی۔اور مہرو احمدنے سوالیہ نگاہوں سےدیکھا۔پڑھاتی ہے سکول میں،میری جگہ اب وہی سینیر مسٹریس ہے۔آنے والی ہے ابھی تم بیٹھو میں کھانا گرم کرتی ہوں۔نجمہ نے کہا اور کچن کی طرف بڑھی۔جیسے ہی سکول وین آئی نجمہ خوشی سے اس کی طرف بڑھی۔مہرو مہرو احمد آیا ہے وہ خوشی سے بولی۔مہرو حیران نگاہوں سے ماں کو دیکھنے لگی۔جاو جلدی سے ڈرائنگ روم میں جاو،میں وہیں کھانا لے آتی ہوں،نجمہ بولی۔مہرو کچھ دیر کھڑی ہو کرسوچتی رہی اور پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔مہرو وہ خود آگیا ہے۔اب تم بات بڑھا رہی ہو،۔نجمہ بیٹی کی ماں بن کر سوچ رہی تھی۔تو کیا کروں امی اس پر پھول برساوں۔یا اس کے قدموں میں بچھ جاوں کہ تمہیں اتنے سالوں بعد خیال آگیا،مہرو خانوش ہو جاو۔نجمہ بولی۔احمد بھی نجمہ کے ساتھ کھڑا تھا،نہیں امی نہیں خاموش ہو سکتی میں،احمد کو دیکھ کر مہرو بولی۔بس بھول جاو پچھلی باتیں۔اور اپنے شوہر کے ساتھ جاو۔نجمہ ایک روایتی ماں بن کر سوچ رہی تھی۔ہاں مہرو چلو میں تمہیں لینے آیا ہوں،احمد نے آگے بڑھ کر کہا۔نہیں احمد واپس چلے جاییں میں آپ کے ساتھ نہیں جاوں گی۔مہرو نے ٹھوس انداز میں کہا۔مگر کیوں مہرو۔احمد نےتھکے ہوئے انداز میں کہا۔اسلئے کہ میں ایک کمزور عورت ہوں،جو آپ کے امتحانوں اور آزمائشوں پر ہورا نہیں اتر سکتی،جسے آپ کسی اور کے ناکردہ گناہوں کی سزادیں،جسے آپ خود بھٹکائیں،گمراہ کریں۔اور پھر اسے اپنی زندگی سے الگ کردیں۔نہیں احمد میں اب اپنی اسی زندگی میں جینا چاہتی ہوں،میں اور کسی آزمائش میں نہیں پڑنا چاہتی۔میں انسان ہوں جو ایک خطا کا پتلا ہے۔قدم قوم پر اسے زندگی آزماتی ہے۔نہ جانے میں کس امتحان میں پھر فیل ہو جاوں،زندگی کے سب پرچے پاس کر لینے کا نہ فن میرے پاس ہے اور نہ ہی حوصلہ۔
تھکے قدموں سے گاڑی کی طرف بڑھتے احمد کے کانوں میں مہرو کا آخری جملہ گونج رہا تھا احمد میری آخری بات یاد رکھنا کسی کو آزما کر کبھی کچھ نہیں ملتا۔
ختم شد