وہ صبح سے ایک خط لکھنے کی کوشش میں لگی تھی،اس نے آج تک ماسوائے سکول کالج کے سلیبس کے علاوہ خط نہیں لکھا تھا۔کئ کاغذ جلا کرراکھ کرچکی تھی،پھر بھی ایک مختصر سا مضمون نہیں بنا پائی تھی،فہد نے اسے لکھا تھا کہ کل وہ اس کے جواب کے انتظار میں سارا دن اس کے دروازے پر کھڑا رہے گا،وہ ڈر گئی تھی۔اگر کسی نے دیکھ لیا یا احمد آگیا تو۔۔ وہ اس سے زیادہ نہ سوچ سکی اور جلدی جلدی سے لکھنے لگی
آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں،دیکھیں آپ مجھے خط نہ لکھیں یہ غلط بات ہے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔اب آپ نے مجھے خط نہیں لکھنا،اگلے خط میں وعدہ کریں۔
اس نے دروازے کے نیچے سے خط باہر کھسکا دیا اور خود دم سادھے دروازےسے لگ کرکھڑی ہو گئی بھاری قدموں کی آواز اُبھری۔خط وصول کر لیا گیا تھا۔اس نے احمد کے آنے سے پہلے ذرا سا دروازہ کھول کر باہر جھانکا کہ ا بھی تک خط پڑا تو نہیں۔لیکن کچھ بھی نہیں تھا اس نے اطمينان کا گہرا سانس لیا اور جلدی جلدی گھر کے کام کرنے لگی گو اس نے اسے خط لکھنے سےمنع کردیا تھا پھر بھی اسے امید تھی کہ وہ ایک اور خط تو اسے ضرور لکھے گا۔آج دل نہیں چاہ رہا آفس جانے کو،احمد کروٹ بدل کر سو گیا،اف اللہ اب کیا ہو گا۔کیوں نہیں جارہے آفس،وہ جھنجھلا کر لاؤنج میں آبیٹھی اور پریشان ہو کر اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔اللہ کرے احمد کے آفس سےفون آجائے وہ انہیں بلا لیں اگر خط احمد کے سامنے آگیا تو ۔۔۔۔۔وہ پریشان ہو کر چکر لگانے لگی،اچانک پیچھے سے کسی نے اسکا کندھا تھاما تو وہ ڈر گئی۔مہرو خیریت تو ہے نا،کیوں کوئی مسلہ ہے،احمد نے پو چھا،اوہ آپ جاگ گئے،نہیں کوئی بھی مسلہ نہیں بس ویسے ہی ہر وقت بیٹھی رہتی ہوں تو سوچا دو چار قدم چل لوں وہ بولی،اچھا سنو میرے کپڑے نکال دو مجھے ایک کام سے جانا ہے۔احمد نے کہا۔اور نہانے چلا گیا،مہرو کی جان میں جان آئی۔لیکن جیسے ہی خط آیا پڑھ کر دل ڈوب ڈوب گیا،لکھا تھا
اے میری ابریشم
کل کا دن میری زندگی کا سب سے قیمتی دن تھا،تمھارا نامہ مختصر جب میرے ہاتھوں میں آیا تو نہ جانے کتنی دیر مجھے اپنی خوش قسمتی پر یقین ہی نہیں آیا،میں تمھارے خط کو چومتا رہا،آنکھوں سےلگاتا رہا۔مہرو تم نے خط نہ لکھنے کا وعدہ مانگا ہے۔تمہیں حق ہے کہ تم جان دینے کا وعدہ بھی لے سکتی ہو،تم نے کہا آپ مجھے خط کیوں لکھتے ہیں،یہ خط تو نہیں یہ تو عرضیاں ہیں۔اور یہ میں اپنی ملکہ کے دربار میں توجہ خاص حاصل کرنے کےلئےلکھتا ہوں۔سنو مہرو تم نہ ڈرو اب یہ خطوں کا سلسلہ بھی ختم ہو جائےگا،میں جلد ہی اسٹریلیا چلا جاوں گا،تم سے را بطے کی یہ واحد صورت بھی ختم ہو جائے گی۔
مہرو کی آنکھوں کےسامنےاندھیرا چھا گیاتھا۔وہ چلا جائے گا۔وہ دل تھام کر بیٹھ گئی۔اس سے باقی کا خط نہ پڑھا گیا۔عورت کے دل پر پیار کی بارش برستے ہی پھول کھلنے لگتے ہیں،عورت زرخیز کھیتی کی طرح ہوتی ہے،مرد کا دل پتھریلی زمیں سا ہوتا ہے جس پر مدتوں چلتے رہو مڑکردیکھو تو قدموں کا نشاں تک نہیں ملتا۔یہی حال مہرو کا تھا،نہ جانے کب ان خطوں پرلکھے لفظ مہرو کے دل پر کندہ ہو گئےتھے،اور اب اس کے جانے کا خیال روح فرساں تھا،فہدنے لکھا تھا
مہروکل بے موسم بارش برسی میں بارش کی چند بوندوں کو تھامےتمھارےدروازے پر کھڑارہا۔تھوڑی دیر بعددیکھا تو مٹھی خالی تھی۔مہرو تم بھی بن موسم بارش کی طرح میری روح پر برسی ہو،اور اب میں تمام عمر تمھارے لئے ترسوں گا۔میں نے محبت کے سب اسم تمھارے دروازے پر پھونکے ہیں،لیکن تمھارےدل کا دروازہ کسی اسم کو نہیں مانتا،جانے میں گنتی کے دن باقی ہیں ایکبار صرف ایک بار تم سے ملنا چاہتا ہوں پھرچاہےعمربھر نہ ملیں۔نہ جانے میں لوٹوں تو تمہیں نہ پاوں۔ہوسکتا ہے راہ کی گرد بن کر راہوں میں بکھر جاوں
آخری بار ملوایسے کہ دو جلتے ہوئے دل
راکھ ہوجائیں کوئی تقاضا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے زخمِ تمنانہ کُھلے
سانس ہموار رہے شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحےانہیں آکرگن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھیں چھن جائیں
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا نہ شکایات کاوقت
لٹ گئی شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگ و جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہو گا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض ورخسار ملو
ماتمی ہیں دمِ رخصت درودیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے نہ اقرار نہ انکار ملو
آخری بار ملو
آخری بار ملو