فرش خالی تھا مہرو کی جان میں جان آئی۔اگلے روز وہ غیر ارادی طور پر خط کے انتظار میں تھی۔مگر اس دن تو نہیں اس سے اگلے روز خط آپہنچا تھا،جسے پڑ ھکر مہرو کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئی تھی،لکھنے والے نے لکھا تھا
میں ان لمحوں کو زندگی میں شمار نہیں کرتا
جن لمحوں میں میں تمہیں پیار نہیں کرتا
خط نہیں لکھنا اگر تو شوق سے مت لکھو
مگر یہ مت سوچو کہ کوئی انتظار نہیں کرتا
مہرو
اے قلعے میں بند حسینہ تم جانتی ہو کہ اسلام آباد کی فضاوں میں بہار اپنا قدم دھر چکی ہے،درختوں پر نئے روپہلے پتوں کی چٹک اور سفید چاندنی سا بُور آچکا ہے،چڑیوں کی چہچہاہٹ بڑھ گئی ہے،ہوا میں مستی اور صندلی خوشبو گھلی ہو ئی ہے۔مگر میرادل۔۔۔۔۔۔۔۔ ہا ئے میرا دل بجھا ہوا ہے،تم جانتی ہو زندگی کی سب سے بڑی خوشی کیا ہوتی ہے،جب آپ کی محبت کا جواب کوئی محبت سے دے۔تم شہر سے گئی تو یقین مانو دن سے رات نہ ہو اوررات سے دن نہ ہو،تم میری آنکھ سے اوجھل سہی میرے پہلو میں تو ہو،اس شہر میں تو ہو،کیایہ کم ہے کہ آپ جسے چاہو وہ آپ سے چند قدم کی دوری پر رہے۔رہے تو سہی پاس تو رہے،مہرو رات میں نے تمہیں خواب میں دیکھا،تمھیں چاہیے کہ تم میری آنکھیں نکال دو،کہ میں تمھارے بن سویا کیوں،اچھا خواب سنو میں نے دیکھا کہ تم مجھ سے ملنے آرہی ہو اور تم نے سفید رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔میں دور کھڑا ہوا تمہیں دیکھ رہا ہوں درمیان میں ایک ڈھلوان آجاتی ہے تم اسے کراس کرنے لگتی ہو تو ڈگمگا جاتی ہو میں بھاگ کر تمہیں تھام لیتا ہوں،مہرو تم نے کبھی سفید لباس پہنا ہے?سفید رنگ تم سا ہے،پاکیزہ اور شفاف،بے داغ۔مہرو آج جب لباس بدلو تو دیکھنا اس میں کوئی پھول سفید رنگ کا بھی ہے۔
تمہارا تمہارا اور تمہارا
تمہارا اگر نہیں تو پھر کسی کا بھی نہیں
اپنا بھی نہیں
اف کیا کیا لکھتا ہے،کتنی عجیب سی باتیں ہیں،وہ خط کو الماری میں چھپاتے ہو ئے سوچے جارہی تھی۔شام کو کپڑے نکالتے ہو ئے اس نے ڈھونڈنے کے انداز میں نظر ماری،سفید جوڑا۔پھر اس نے اپنا خیال جھٹک دیا،یہ میں کیا کرنے جارہی ہوں،مجھے کیا ہو گیا ہے کیا مجھے اس اجنبی کی باتیں اچھی لگنے لگیں ہیں،خط ہی تولکھتا ہے۔دل نے کہا۔لکھ لکھ کے تھک گیا تو نہیں لکھے گا،اگر خط نہ آیا تو پھر،مہرو کو لگا یہ خط ہی اس کی واحد انٹرٹیمنٹ ہے۔اسے لگنے لگا کہ اس گھر میں اب تین فرد رہتے ہیں،وہ احمد اور بولتے خط۔
ایک دن اس نے ٹی وی پر ایک انگلش فلم Roomm دیکھی۔اسے لگا کہ وہ بھی اسی فلم کا ایک کردار ہے۔اس شام وہ اداس تھی،تین دن سے خط بھی نہیں آیا تھا۔شام کو احمد اسے لانگ ڈرائيو پر لے گیا۔رات کو واپسی پر انہیں فہد کوریڈور میں فون پر بات کرتا نظر آیا،لاک کھولنے کے دوران چند سیکنڈ کے لئے مہرو کو لگا کہ وہ اسے گہری نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔مہرو کا دل دھڑکا۔ہو سکتا ہے آج پھر احمد کوئی بات کریں۔مگر احمد خاموش رہا،رات کو سونے سے پہلے مہرو کافی دیرتک فہد کے بارےمیں سوچتی رہی۔کیا فہد ہی مجھے خط لکھتا ہے مگر۔۔۔۔یہ کیسے ہوسکتا ہے۔پھر ۔۔۔۔۔اس کادل ودماغ الجھارہا۔اور صبح اسے اس بات کی تصدیق ہو چکی تھی کہ وہ فہد ہی ہے۔
پھول خوشبو ادھار لیتے ہیں آپ سے آپ نے کبھی بتایا نہیں،یہ تو مجھے کل پتہ چلا جب چند لمحے کے لئے آپ میرے قریب آکر ٹہریں اور آپ کے وجود سے آتی خوشبو نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
چور سامنے آچکا تھا،مہرو کا ذہین الجھا ہوا تھا،مہرو میں محسوس کر رہا ہوں تم پر یشان سی ہو کچھ دنوں سے،کوئی کنفیوزن ہے کیا? احمد نے اسے ٹٹولتی نگاہ سے دیکھتے ہوئےپوچھا،نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔اس نے جلدی سے کہا۔احمد اس کےقریب آکر بیٹھ گیا،مہرو میری آنکھوں میں دیکھو،بتاو کوئی الجھن کوئی پریشانی ہے،بولو احمد نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔نہیں احمد،کچھ بھی نہیں،وہ اپنا لہجہ پر اعتماد کرتے ہو ئے بولی?R u sure Mehroo،احمد اس کا ہاتھ تھام کر بولا۔ہاں احمد مہرو مسُکرا کر بولی۔
رات کو احمد کے پہلو میں لیٹی مہرو کی بند آنکھوں میں فہد کا وجہیہ سراپا سمایا ہوا تھا،اور اس کے لکھے لفظ وہ چپکے چپکے دل میں دُھرا رہی تھی،زندگی کا سب سے خوبصورت احساس چاہا جانا ہے۔اور مہرو کو کوئی ٹوٹ کر چاہتا تھا یہ خیال ہی مہرو کے لئے اب جینے کا آسرا بن گیا تھا۔