رات کے سائے ڈھلنے لگے تھے۔مہرو بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی تھی،اس کی کمر اکڑ گئی تھی اور بھوک سے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے۔وہ تھکے قدموں سےکچن کی طرف بڑھی اور فروٹ باسکٹ سے ایک سیب اٹھا کر دھویا۔جیسے ہی اس نے کھانے کے لئے سیب منہ کی طرف بڑھایا اسے احمد کا خیال آیا وہ بھی تو صبح سے بھوکا ہے۔اس نے سیب واپس رکھ دیا اور فریج سے آٹا نکال کر چپاتیاں بنانے لگی،قیمہ اور کل کی بنی دال کا سالن فریج میں رکھا تھا اس نے سالن گرم کر کے ڈائننگ پررکھااور اپنےٍ بیڈ روم کی طرف بڑھی۔کمرے میں گھپ اندھیرا تھا،اس نے لائٹ جلائی تو احمد آڑھا ترچھا بیڈپر الٹا لیٹا تھا،وہ اس کے قریب آگئی،وہ سو رہا تھا،مہرو نے اس کے بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرا،اسے احمد پر بہت پیار آرہا تھا،چُھٹی کا ایک دن وہ بھی ناراضگی کی نذر ہو گیا۔احمد احمد۔۔۔مہرو نے احمد کو جگا دیا وہ کچھ دیر تک اسے دیکھتا رہا اور پھر کروٹ بدل کر سو گیا،پلیز احمد مجھے معاف کر دیں،مجھ سے غلطی ہو گئی۔آخری بار معاف کر دیں،مہرو اس کے پاوں پر سررکھ کر سسکنے لگی،غلطی۔۔۔۔کیسی غلطی احمد سٹپٹا کر اٹھ بیٹھا،مہروبتاو کیا ہوا ہے،وہ جنونی انداز میں پو چھنے لگا،مہرو نے اس دن لائٹ جانے والا پورا واقعہ من و عن بیان کر دیا،اور احمد سے معافیاں مانگنے لگی۔احمد خاموشی سے اسے دیکھے جارہا تھا۔چلیں اٹھیں نا احمد کھانا کھائیں،مجھے بہت بھوک لگی ہے،وہ احمد کا بازو پکڑ کر کھینچنے لگی۔
کیا سوچ رہے ہیں احمد،کھانے کی ٹیبل پر احمد کوگم صم دیکھ کر مہرو نے پو چھا،مہرو۔۔۔۔احمد کچھ سوچتے یو ئے بولا،جانتی ہو قربتیں انہی چھوٹی چھوٹی سی باتوں سے بڑھتیں ہیں،نیلم تو ایک مُہرہ ہے،اصل میں تو اس کا بھائی۔۔۔۔وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا،ااحمد خدارا آپ کیسی باتیں کرتے ہیں،میں آپ کوایسی لگتی ہوں،آپ میرے شوہر ہیں میری زندگی میں آنے والے پہلے مرد۔۔۔اور آخری کون ہو گا،احمد اس کی بات کاٹ کر بولا۔مہرو سرد آہ بھر کر خاموش ہو گئی،رات کو بہت سے تلخ آنسو چپکے سے بہا کراور سسکیاں دبا کر مہرو نہ جانے کب نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔اس کی انا عزت احمد کی نام نہاد غیرت کے نیچے آکر کچلی گئی تھی،مگر اسے نباہ کر نا ہی تھا،لیکن وہ اپنے دل میں عہد کرچکی تھی کہ چاہے اب وہ گُھٹ کے مرجائےمگر اب احمد کی غیرموجودگی میں دروازے سےباہر قدم نہیں رکھے گی۔اور نہ ہی نیلم سے ملے گی۔حالات کو دوبارہ ٹھیک ہو نے میں کچھ دن لگے تھے۔کہ اب ان گمنام خطوط کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔اگر وہ ان خطوط کا ذکر احمد سے کردیتی تو اس کی شامت آجاتی،یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔وہ ایک اور خط ہاتھ میں تھا مے بیٹھی تھی۔لکھنے والے نے اپنا دل کھول کر کاغذ پر رکھ دیا تھا۔
مہرو میری دلبر
رات کا شاید ایک بجا ہے
سو رہا ہو گا میرا چاند
مہرو محبت ایک آفاقی جذبہ ہے،اس کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں،محبت ایک عطا ہے اور تم قدرت کا ایک حسین شہکار۔تمھاری انکھ کی ایک جنبش سے یہ زمین گھو منا بھول جائے آسماں تمہیں دیکھ کر رنگ بدلتا ہے،چاند تمہارے رخِ روشن سےنور چُراتا ہے جب تم سو جاتی ہو،آسماں کے ستاروں کو میں نے تمھاری کھڑکی سے تمھارے کمرے میں دبے پاوں جاتے دیکھا ہے۔صبح کا سورج اس وقت تک مدھم ہی رہتا ہے جب تک تم اپنے گھر کی بالائی کھڑکی سے باہر نہیں جھانکتی،مہرو جگنو،تتلیاں پھول جھرنے کہکشائیں،گھٹائیں۔قوس وقزح سب تم پر فدا اور میں۔۔۔ میں تو تمھارا ایک عاشق ایک دیوانہ ایک پروانہ ہوں،جس کا کام تمھیں چاہنااور بس تمھاری پرستش کرنا ہے اور تمھارے عشق میں جل جل کر مر جانا ہے،مہرو مجھے تم سے کوئی غرض نہیں کو ئی تمنا نہیں،مجھے معلوم ہے کہ تم اپنی زندگی میں بہت خوش ہو۔مگر چاہنا تو میرا ایک ذاتی عمل ہے اور محبت ایک فطری جذبہ ہے اور میں تمہیں چاہتا رہوں گا جب تک یہ سانس کی ڈور باقی ہے۔مجھے معلوم ہے تم مجھے جواب نہیں دو گی مگر اے حسن کی ملکہ تمھاری بے نیازی پہ قربان۔تمھاری بے رخی پہ صدقے،بھیک نہ ملے تو کیا فقیر آنا اور صدا لگانا،دستک دینا چھو ڑ دیتے ہیں،نہیں نا،میں اپنی آخری سانس تک تمھارےدل ہر اپنے سچے جذبوں کی دستک دیتا رہوں گا کیو نکہ محبت کر نے والے کبھی تھکتے نہیں،جو تھک جائیں وہ محبت نہیں کرتے۔
صرف اور صرف تمھارا اپنا۔۔۔۔۔
یہ کون ہو سکتا ہے،جسے معلوم ہے کہ مییں بالائی کھڑکی میں کھڑی ہو تی ہوں،وہ اپنے ناخن چباتے ہو ئے سوچے جا رہی تھی۔کیا یہ نیلم کے بھائی فہد کی حرکت ہے۔اس کے ذہن میں خیال آیا مگر نہیں وہ تو ایسا نہیں لگتا اس نے اپنے خیال کی نفی کر دی۔وہ شام کو بھی کھوئی کھوئی سی رہی احمد نے اس سےایک دو بار پو چھا بھی مگر وہ ٹال گئی۔اچھا ہم اس جمعہ کو لاہور چلیں گے احمد اس کا ہاتھ پیارسے پکڑ کر بولا،شاید تم امی کے لئے اداس ہو وہ پھیکی سی ہنسی ہنس کر بولی،ہاں یہی بات ہے۔لاہور میں بھی اس کا ذہن الجھارہا،کوئی بھی ایسا نہ تھا جس سے وہ یہ مسلہ شیر کرتی۔امی کو وہ بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اور بہنیں اس سےچھو ٹی تھیں،واپسی پر تمام راستے اسےیہ فکردامن گیر رہی کہ شاید ان تین دنوں میں اگر کوئی خط آیا ہوا ہو اور وہ احمد کو مل گیا تو اس کا کیا بنے گا۔وہ سوچ کر ہی کانپ گئی،سیڑھیاں چڑھتے ہو ئےبھی اس کی ٹانگیں کانپ رہیں تھیں،احمدنے دروازہ کھولاتووہ تیزی سے اندر داخل ہو ئی،اس کی نظریں فرش پر گڑی تھیں۔جیسے کچھ ڈھو نڈ رہی ہو،