رات قطرہ قطرہ بھیگ رہی تھی اور مہرو کا تکیہ بھی،گو احمد نے بعد میں اس سے معافی بھی مانگ لی تھی،بہلایا اورمنایا بھی تھا،پھر بھی مہرو کہ دل پر گہری چوٹ لگی تھی۔اسے اپنی ماں کی کہی ہوئی بات بار بار یاد آرہی تھی کہ اگر ایک دفعہ مرد کا ہاتھ عورت پر اٹھ جائے تو پھر ساری زندگی نہیں رُکتا،تو اس کا مطلب ہے اب احمد ۔۔۔وہ سسکنے لگی،صبح بھی بوجھل بوجھل تھی،گو احمد کو اپنی حرکت پر افسوس تھا مگر یہ ضروری بھی تھا،اسی مقام پر مہرو کو روکنا ضروری تھا،وہ کم عمر اور نادان تھی۔کسی کی بھی باتوں میں آسکتی ہے۔وہ ڈرائیو کرتے ہوئے بھی کل کہ واقعے میں الجھا ہوا تھا،شام کو واپسی پر اس نے رک کر مہرو کے لئے پھولوں کے گجرے لئے وہ کل والے واقعے کا مداوہ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا آج وہ ڈنر بھی باہر کریں گے۔ذرا فضا بدلے گی تو مہرو کا موڈ بھی ٹھیک ہو جائے گا،مہرو اس کے کہنے پر اس کے ساتھ آتو گئی تھی مگر کھوئی کھوئی اور خاموش تھی،واپسی بھی جلدی ہو گئی تھی،بیسمنٹ میں پارکنگ کر نے کہ بعد وہ نکلنے لگے تو اچانک سامنے سے نیلم آگئ اور بے تکلفی سے مہرو کے گلے لگ گئی،وہ اپنی نائٹ ڈیوٹی پر جا رہی تھی۔وہ احمد اور مہرو دونوں سے باتیں کئے جارہی تھی،احمد تو ہوں ہاں میں جواب دے رہا تھا مگر مہرو گم صم تھی،اوکے فرینڈز مجھے دیر ہو رہی ہے میں نکلتی ہوں ہاں مہرو فہدی کو بھیجوں گی اسے ڈش دے دینا کل میرا آف ہے بیکنگ کروں گی،وہ خوشدلی سے کہتی ہوئی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی،فہدی کون ہے،احمد نے گھر آتے ہی پہلا سوال کیا۔نیلم کا بھائی مہرو احمد کا کوٹ ہینگ کر تے ہو ئے بولی،تمھیں کیسے پتہ?احمد نے کہا،اس نے بتایا تھا۔وہ مختصر سا جواب دے کر خاموش ہو گئی،مجھے دو اس کی ڈش میں دے آوں۔وہ بولا،اس وقت اس نے کلاک کی طرف دیکھا،احمد رات کے دس بجے ہیں،کچھ نہیں ہوتا وہ کو نسا سو گئے ہوں گے،وہ تو ٹھیک ہے احمد مگر میں سوچ رہی تھی وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔کیا سوچ رہی تھی احمد اس کے پاس آگیا،یہی کہ اچھا نہیں لگتا کہ ان کا برتن خالی واپس کریں،امی کہتی ہیں کسی کے گھر سے آیا برتن کبھی خالی ۔۔۔۔۔وہ اٹک اٹک کر بولی،اوہ۔۔۔۔ اچھا یعنی کہ تعلقات در تعلقات کا سلسلہ شروع،اب ہم ان کو کچھ بھیجیں گے پھر وہ ہمیں کچھ بھیجیں گے۔پھر ہم پھر وہ پھر وہ ہم ہو جایئں اور ہم وہ،ہاہاہاہا۔۔۔۔ احمد اپنی بات مکمل کر کے قہقہے لگانے لگا،اور مہرو حیران نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی اسے اس کی ذہنی حالت پر شک سا گزرنے لگا،لوگ اندر سے کیسے ہو تے ہیں اور باہر سے کیسے۔جب خول اترتا ہے تو اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔وہ سوچتے سوچتے سو گئی،بہت سے دن گزر گئے تھے۔احمد نیلم کے بھائی کو ڈش واپس کر آیا تھا۔اور دوبارہ نیلم بھی نہیں آئی تھی،مہرو شکر ادا کر رہی تھی کہ اس نے دوبارہ چکر نہیں لگایا،احمد اپنی کمپنی کے سالانہ فنکشن کی تیاریوں میں بزی تھا روز لیٹ گھر آتا،مہرو کے لئے وقت کاٹنا مشکل ہو جاتا،اس نے ایک دو بار احمد سے کہا بھی کہ اسے کچھ دن کے لئے لاہور چھوڑ آئے مگر احمد نہ مانا،خدا خدا کر کے فنکشن کا دن آیا۔اس رات احمد دو بجے کے بعد گھر آیا،مہرو جاگتی رہی،اگلے روز وہ دیر تک سوئے رہے،آج احمد کو چھٹی تھی۔اور احمد کو احساس تھا کہ مہرو اتنے دن اکیلی بور ہوتی رہی ہے وہ اسے شام کو شاپنگ کے لئے لےگیا،موسم بدل رہا تھا،بہار کی آمد تھی جونہی مہرو کھلی فضامیں آئی تو بہار کا ایک مست شریر جھونکا اس کے صبیح رخسار سے آن ٹکرایا،مہرو کو ایک دم تازگی کا احساس ہوا اور اس نے ایک لمبی سانس لی جیسے کسی قید سے باہر آئی ہو،اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر دیا،مہرو فلو ہو جائے گا شیشہ بند کر دو،احمد نے ڈرائیو کرتے ہوئے کہا،نہیں احمد مجھے ہوا کو محسوس کرنے دیں،وہ چہک رہی تھی۔احمد دیکھ رہا تھاکہ آج مہرو بہت دنوں بعد اتنی خوش ہے۔لیکن مہرو کی یہ خوشی عارضی تھی۔شاپنگ مال میں ہی احمد کی دو کو لیگز مل گئیں،وہ فوڈ کارنر میں انہیں بیٹھا دیکھ کر آگئیں،اور شرارت سے بولیں اوہ سر آپ۔۔۔ہم نے کہیں آپ کی ڈیٹ تو نہیں پکڑلی ?احمد ہنس کر بولا نہیں نہیں She is my mrs Mehroo،مہرو اٹھ کر ان سے خوشدلی سے ملی۔لیکن سر یہ کیا بات ہوئی آپ مسز کو کل فنکشن پر کیوں نہیں لائے،سب کی فیملی آئی ہوئی تھیں،سارہ نے کہا،سر آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ کی فیملی لاہور میں ہے فارحہ نے کہا،یس یس بالکل مہرو آج ہی صبح آئی ہے،احمد نے مسکراتے ہو ئے کہا،اوہ اچھا کاش آپ ایک دن پہلے آجاتیں۔بہت مزا آتا،بہت گرینڈ فنکشن تھا،وہ کافی دیر تک باتیں کرتی رہیں مگر مہرو کو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ یہاں نہیں ہے۔تو پھر وہ کہاں ہے،اس نے خود سے سوال کیا،شاید کہیں بھی نہیں،اسکے اندر سے آواز آئی۔