مہرو لڑکی کی بات سن کر شش وپنج میں پڑ گئی۔کہ کیا کرئے،اخلاق کا تقاضا تھا کہ وہ دروازے پر آئی ہوئی ہمسائی کو دروازہ کھولتی اس نے آہستہ سے ہاتھ بڑھایا اور لاک کھول دیا،آدھ کھلے دروازے سے اس نے دیکھا ایک دبلی پتلی خوش شکل سی اسی کی عمر کی لڑکی جینز اور ٹاپ پہنے کھڑی مسکرارہی تھی،اس کے ہاتھ میں پیزا ڈش تھی،علیک سلیک کے بعد وہ لڑکی اندر آگئی،نیلم بہت باتونی لڑکی تھی،رات میں کسی انٹرنيشنل کالنگ سینٹر میں جاب کرتی تھی،یہاں اپنے بھائی اور ماں کے ساتھ رہتی تھی،نیلم نے اسے بتایا کہ وہ اسے متعدد بار احمد کے ساتھ باہر آتے جاتے دیکھ چکی تھی،مہرو اس کے لئے کافی بنانے کچن میں آئی تو وہ اسکے ساتھ ہی آگئ،وہ دونوں آپس میں بہت دیر تک باتیں کرتی رہیں،وقت کا احساس ہی نہ ہوا،ڈور بیل بجی تو مہرو نے چونک کر کلاک کی طرف دیکھا شاید احمد آیے تھے وہ تیزی سے بڑھی اور ڈور کھول دیا،سامنے کوئی اجنبی نوجوان کھڑاتھا،مہرو بد حواس ہو کر اسے دیکھنے لگی،اس نے بنا پوچھے دروازہ کھول دیا تھا،وہ جی میری سسٹر آئیں ہیں نیلم اس کو بلا دیں،وہ اسےگھورتا پا کر بولا،نیلم بھائی کی آواز سن کر خود ہی آگئ،ہاں فہدی کیا ہوا،وہ پو چھنے لگی۔وہ گیسٹ آئیں ہیں مما بلا رہی ہیں وہ بولا،اف کون آگئے اس ٹائم ۔نیلم نے پو چھا،پھوپھو لوگ وہ مسکرا کر شرارت سے آنکھ دبا کر بولا۔اوہ نو فہدی بول دو یار یہ جھوٹ ہے،نیلم نے ڈرامائی انداز میں کہا نہیں میری بہنا یہ سچ ہے کھرا سچ،مبشر لقمان والا فہد نے بھی جوابا شرارتی انداز میں کہا،اچھا آتی ہوں تم جاو وہ بولی اور واپس مڑ کر مہرو کے دونوں گالوں پر چوم کر بولی اوکے
پرنسیس ہماری باتیں ادھوری رہ گییں،لیکن میں جلد ہی آوں گی اور تم نے بھی آنا ہےپتہ ہے میں نے کتنی دعائیں کیں تھیں کہ سامنے والے اپارٹمنٹ میں ایک اچھی سی لڑکی آجائے اور میں اسے جھٹ سےدوست بنا لوں،گو تم شادی شدہ ہو لیکن لگتی نہیں ہو،خوب گزرے گی ۔اوکے اب جاوُں پھوپھو تو ڈنر کئے بنا جاتی بھی نہیں،وہ خوش دلی سے ہنستی بولتی چلی گئی،اور مہرو سوچتی رہ گئی کہ کتنے دنوں بعد اس نے کسی کی باتیں سُنیں اور باتیں کیں،کتنے مزے کی باتیں کرتی ہے اور بھائی سے کتنا فری ہے،کیا سب بہن بھائی آپس میں اتنے ہی بے تکلف ہوتے ہیں،اسے بھائی کی کمی کا احساس ستانے لگا۔لیکن وہ خود کو خوش اور ریلیکس محسوس کر رہی تھی۔انسان انسان کے لئے کتنے ضروری ہیں ،سجے ہوئے گھر اور مزین دیواروں کا کیا کرنا اگر وہاں آوازیں ہی نہ گو نجیں۔اسے کہیں پڑھا ہوا فقرہ یاد آگیا۔کہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے اسے بند کمروں میں مت گزار دو،اسی سوچ کےساتھ اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری اور اس نےایک لمبا سانس لے کر بانہیں انگڑائی کے لئےپھیلا دیں،دو کپ۔۔۔۔احمد نے کچن میں آتے ہی نظر پڑتے ہی سوالیہ نگاہوں سے مہرو کی طرف دیکھا۔ہاں آج وہ نیلم آئی تھی اس کے لئے کافی بنائی تھی،مہرو نے کٹر بورڈ پر سبزی کاٹتے ہو ئے کہا۔نیلم۔۔۔۔۔۔ نیلم کون،احمد نے آنکھیں سکیڑ کر پو چھا،سامنے والے اپارٹمنٹ میں رہتی ہے،اف احمد بہت اچھی لڑکی ہے،جاب کرتی ہے رات میں کسی کالنگ سینٹر میں،بہت باتیں کرتی ہے بالکل مِشو کی طرح،مہرو نے پرجوش ہوکر اپنی بہن کی مثال دی،رکورکو کیا نیلم تمھارے پاس آئی تھی احمد اس کے بالکل قریب آگیا،ہاں نا احمد وہ آئی تھی اور دیکھیں پیزا بھی لائی ہے باربی کیو پیزا۔خود بیک کیا اُس نے۔میں نے تو سوچا ہےمیں بھی سیکھ لوں اس سے بیکنگ ۔مہرو نےاوون سے پیزا نکال کر احمد کو دکھاتے ہو ئے کیا،مہرو ۔۔۔احمد ایک دم سے چیخا تو وہ سہم گئی،کیا کہ رہی ہو تم وہ لڑکی تمھارے پاس کیسے آئی،بولو جواب دو،وہ دھاڑا،احممممممممدددد دروازے سے۔مہرو ڈر کر بولی،اچھا دروازے سے،اور دروازہ کس نے کھولا؟ اس نے مہرو کی آنکھوں میں جھانکتے ہو ئے کہا،میں نے،مہرو کانپتے ہو ئے بولی،چٹاخ کی آواز کے ساتھ ایک تھپڑ مہرو کے دائیں رخسار پر اپنا نشان، درد اور جلن چھوڑتا ہوا گیا،مہرو کے ہاتھ میں پکڑا ہوا پیزا اور ڈش ہوا میں لہراتی ہو ئی دور جا گری۔