احمد چھ سال امریکہ رہ کر آیا تھا اور وہاں سے اچھا خاصا کما کر لایا تھا۔باپ کا اکلوتا بیٹا تھا،بہن کی شادی ہو گئی تھی،اور ایک حادثے میں ماں انتقال کر گئی تھی،باپ پچھلے تیس پینتیس سال سے امریکہ میں تھا،جب احمد نے شادی کا فیصلہ کیا تو اس نے دل میں تہیہ کر لیا کہ وہ اب پاکستان ہی رہے گا،یہاں ایک ملٹئ نیشنل کمپنی میں اسے جاب مل گئی۔رشتے کروانے والی آنٹی کے ذریعے یہ رشتہ دیکھا،مہرو اس سے تقریبا دس سال چھوٹی تھی،مگر بہت خوبصورت اور معصوم سی تھی،اسے پہلی نظر میں بھا گئ،اور اس نے دیر کئے بنا دو ماہ کے اندر اسے بیاہ بھی لایا،مہرو سے پہلے اس کی زندگی میں کچھ عورتیں آئیں بھی تھیں تو وقتی عیش اور لالچ زدہ تھیں،جن کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔وہ اسے ٹوٹ کر چاہتا تھا،مہرو کے لئے خوبصورت اور قیمتی تحائف لاتا،بس ایک معاملے میں وہ انتہائی حساس واقع ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ وہ مہرو کو دنیا سے چھپا کر رکھنا چاہتا تھا،اس کے پاس اپنی گاڑی تھی وہ اکثر اسے لانگ ڈرائیو پر لے جاتا۔اسلام آباد کی خوبصورت راتوں کے سحر میں کھو کر وہ بہت دور تک نکل جاتے،ڈنر شاپنگ ہر ہفتے ہوتا،لیکن اس کی مثال ایک ایسے سانپ کی سی تھی جو اپنے خزانے پر ہمیشہ پہرہ دار بن کر بیٹھا رہتا ہو،اس نے مہرو کےکزنز تو کیا اپنے کزنز سے بھی مہرو کو کبھی ملنے نہیں دیا تھا،وہ لاہور دو بار گئے تو صرف ایک دن کے لئے،اور وہ مہرو کے ساتھ ساتھ رہا،مہرو کو اس کی سمجھ نہ آتی،بظاہر اسے احمد سے کوئی شکایت نہیں تھی،وہ اس سے ہر وقت پوچھتا رہتا مہرو تمہیں کچھ چاہیے کوئی ضرورت ہے تو بولو،اس کا ہر وقت خیال رکھتا،اور ادھر سے اسے کہتا مہرو تم نے اس فلیٹ سے پاوں باہر نہیں رکھنا۔کسی سے دعا سلام نہیں کرنی،کو ئی بھی آجائے ڈور نہیں کھولنا،۔مہرو نے دل پر جبر کر کے اپنی سب دوستوں کو بھلا دیا تھا،احمد بھی آفس سے سیدھا گھر آتا،چونکہ احمد نے اسے ملازمہ نہیں رکھ کر دی تھی،وہ آکر شام میں اس کی ساری مدد کرتا۔کھانا بنواتا،ویکیوم کرتا۔وہ باآسانی ملازم رکھ سکتا تھا مگو وہ مہرو کو کہتا یہ لوگ فیملی کو کمزور کر دیتے ہیں،باہر کی باتیں گھر میں اور گھر کے راز باہر لے جاتے ہیں،وہ جو شادی کے بعد ایک آزاد زندگی جینے کا تصور مہرو کے ذہن میں تھا اب ہوا ہو گیا تھا،اس نے ایک دو بار ماں سے دبے لفظوں ذکر کیا تو وہ ڈانٹنے لگیں،شکر کرو اتنا اچھا میاں ملا ہے،تمھاری ہر ضرورت بِن کہے پوری کر رہا ہے،تم کیا چاہتی ہو نوکری کروں،دھکے کھاوں،مگر امی پھر میں نے بیچلرز کیوں کیا اگر میں نے گھر میں بند ہی رہنا تھا وہ روہانسی یو کر بولی،بس بی بی میری جان بخشو،اور اپنے میاں کے کہنے پر چلو،میری الجھنیں مت بڑھاو۔مجھے پتہ ہے جس طرح تم کوگوں کو پڑھایا ہے میں نے،ابھی میرے سر پر بیٹیوں کا بوجھ موجود ہے۔اور ہر کوئی احمد کی طرح اعلی ظرف نہیں ہوتا جو دو کپڑوں میں بیاہ لے جائے،اسے ماں کی بات بھی ٹھیک لگی۔احمد اسے اس کی بہنوں اور ماں کے لئے بھی قیمتی تحائف لے کر دیتا،سسرال جاتا تو گاڑی بھر کر فروٹ اور سودا سلف لے جاتا،ساس کو نقد رقم یہ کہہ کر دیتا کہ آپ مجھے اپنا داماد نہیں بیٹا سمجھ کر اسے قبول کریں۔مہرو کی ماں کو لگتا کہ شاید اللہ نے بیٹا نہیں دیا لیکن اس کا مداوہ بڑے داماد کی صورت میں کر دیا ہے،مہرو کی ماں خود گو رنمنٹ ٹیچر تھی،پھر ابا کی پینشن بھی ان کی بے وقت موت کے بعد ان کا سہارہ بن گئی تھی۔مہرو کے پاس ٹی وی اور میگزینز کے علاوہ دن گزارنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔جو احمد روز اس کے لئے خرید لاتا۔یا پھر اپارٹمنٹ کی ایک واحد کھڑکی۔جس پر دونوں طرف سے جالی اور موٹی گرل لگی تھی شیشہ کھلا رہتا،باہر کا منظر نظر نہ آتا،سر ساتھ لگا کر دیکھتے تو نیچے کھلا روڈ اور گاڑیاں نطر آتیں،مہرو وہاں کافی دیرکھڑی رہتی۔اور جب تھک جاتی تو آکر لاونج میں ٹی وی دیکھنے لگتی۔یا پھراحمد کی واپسی کے گھنٹے گنتی۔اس دن وہ نہا کر نکلی تو دروازے پر دستک ہوئی اس نےچونک کر گھڑی کو دیکھا دن کے ساڑھے تین بجے تھے،احمد تو سوا پانچ بجے آتے تھے۔پھر آج یہ کون ہو،وہ سہم گئی،دستک دوبارہ ہوئی،وہ ہمت کر کے دروازے کے پاس گئی اور پو چھا کون۔کون،جی میں نیلم ہوں،سامنے والے اپارٹمنٹ سے آئی ہوں،ایک لڑکی کی آواز آئی،جی کیا کام ہے آپ کو،مہرو نے
پوچھا،جی میں نے یہ پیزا بیک کیا ہے آپ لے لیں،وہ بولی۔