جانم
میں جانتا ہوں کہ میری وجہ سے آپ بہت ڈسٹرب ہونگی،آپ کو مجھ پر غصہ بھی آتا ہو گا مگر میں کیا کروں،جس دن سے آپ کو دیکھا ہے سُدھ بُدھ کھو بیٹھا ہوں بس تیرا ہو بیٹھا ہوں۔آپ مجھے بھی ایک عام سا تھرڈ کلاس عاشق سمجھتی ہو نگی،مگر میرا یقین کرنا میرا عشق سچا ہے۔یہ جانتے ہو ئے بھی کہ آپ کسی کی بیوی ہیں میں چاہ کر بھی آپ کی تمنا نہیں کر سکتا۔مگر عشق کرنا تو میرا حق ہے نا،میں نے اپنے دل کو بارہا سمجھایا روکا،ٹوکا،منتیں کیں،مگر یہ ناہنجار میری ایک بھی نہیں سنتا بس مہرو مہرو مہرو کی ہی رٹ لگائے رکھتا ہے۔مہرو ۔مجھے معاف کردینا۔اور خدارا میری محبت کو نہ ٹھکرانا،نہیں تو میں مر جاوں گا،
جواب کا منتظیر
تمھارا ۔۔۔۔۔
اس نے خط پڑھ کر ایک لمبی سانس بھری اور خط کو تہہ لگا کر الماری میں کپڑوں کے نیچے رکھی اخبار کے نیچےچھپا دیا جہاں پہلے سے تین محبت نامے اس نے رکھے تھے،اور آکر اپنے بیڈ پر لیٹ گئی،کمرے میں ٹی وی پر کوئی مارننگ شو چل رہا تھا،جس میں کوئی بیوٹیشن میک اپ کرنا سکھا رہی تھی مگر مہرو کو آج کسی شے میں دلچسبی نہیں تھی،وہ بس انہی خطوط کے بارے میں سوچے جارہی تھی جو پچھلے ایک،ڈیڑھ ہفتے سے آرہے تھے،ایک،دو دن کے وقفے سے ایک خط دروازے کے نیچے سے اندر کھسکا دیا جاتا،جب پہلا خط آیا اور مہرو نے اسے پڑھا تو اسے یوں لگا جیسے کمرےمیں کوئی سانپ گھس آیا ہو۔وہ سارا دن خوفزدہ رہی،سوچتی رہی کہ کیا وہ اس خط کا ذکر احمد سے کرئے یا نہ کرئے،مگر وہ کوئی فیصلہ نہ کر پائی،اس نے سوچا کہ شاید کسی کی شرارت ہو،مگر پھر یہ سلسلہ جاری رہا،اور چار خط آگئے،آٹھ بجے احمد آفس کے لئے نکلتا۔اور اس کے جانے کے گھنٹہ،دو گھنٹہ بعد خط آنے کا ٹائم ہو تا،مہرو کو اس اپارٹمنٹ میں آئے دو ماہ ہی ہوئے تھے۔اور شادی ہوئے بمشکل پانچ مہینے۔شروع کے دن وہ لاہور میں اپنی ماں کے گھر رہی،پھر احمد نے اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا تو وہ اس کے ساتھ یہاں آگئی،اسے تنہا رہنے کی عادت ہی نہیں تھی۔کچھ دن تو وہ گھر سیٹ کرتے رہے،جب وہ کام بھی ہو گیا تو مہرو کو دن لمبا لگتا،کاٹے نہ کٹتا۔دو کمروں کا گھر اور دو افراد کا کام ہی کتنا ہو تا ہےوہ ویک اینڈ کا انتظار کرتی،روز شام کو احمد اس کی بات اس کی امی اور بہنوں سے کرواتا وہ بے تابی سے اس سے باتیں پو چھتیں مگر وہ احمد کے سامنے کھل کر بات ہی نہ کر پاتی،ہوں ہاں میں جواب دیتی۔احمد نے اسے موبائل نہیں لے کر دیا تھا،امی نے کہا بھی کہ اب ہم سے دور جارہی ہے اسے موبائل لے دو مگر احمد نے اسے منع کر دیا کہ وہ اس سے ایسی فضول خرافات کی ڈیمانڈ نہ کرئے،احمد کا لہجہ ایسا تھا کہ اس نے دوبارہ موبائل کا نام ہی نہیں لیا،صرف موبائل ہی نہیں اسے احمد نے لوگوں سے ملنا ملانا،دوستیاں پالنے سے منع کیا تھا،ویسے بھی وہ باہر نکلتی ہی نہیں تھی،اپارٹمنٹ میں رہنے والی زیادہ تر خواتین ملازمت پیشہ تھیں،ہر کوئی اپنے کام میں لگا رہتا،اسے اسلام آباد ایک میٹھی قید خانہ لگتا،اسے لاہور کا وہ کھلا ماحول اور میل ملاپ یاد آتا،مگر وہ ان پانچ مہینوں میں جان گئی تھی کہ احمد ایک دقیانوسی سوچ کا تنگ دل وذہن کا شخص تھا،اور اسے ہر صورت اس کی مرضی پر چل کر اس سے گزارہ کرنا ہے کیونکہ اس کے سر پر باپ کا سایہ نہیں تھا اور اس کی ماں پر ابھی چار بیٹیوں کا بوجھ باقی تھا،احمد کا مہرو سے رشتہ ہونا اس کی ماں کے لئے ایک حیرت انگیز خوشی کا باعث تھا۔ایک پڑھا لکھا باروزگار رشتہ مل جانا کو نسا آسان تھا،گو مہرو حسن کا شہکار تھی،مگر لوگ حُسن کے ساتھ وسیع وعریض جہیز کی خواہش بھی ساتھ رکھتے ہیں،مگر احمد نے جہیز لینے سے انکار کر دیا۔اور وہ مہرو کو ایک جوڑے میں بیاہ لایا تھا،