جاہ سپاہیوں کی مدد سے تمام لوگوں کو وہاں سے باہر نکالتا ھے کیونکہ وہ عمارت کلارا جادوگر کے جادو سے بنی ہوئی تھی اس لیئے وہ آہستہ ختم ہو رہی تھی ۔۔۔۔
مورنی کے باباجان کو وہ بہت ڈھونڈتا ھے مگر وہ نہیں مل رہے تھے ۔۔۔
سب سپاہی جاہ کو بلا رہے تھے مگر وہ اس کے باباجان کے بغیر نہیں جاسکتا تھا بہت کوشش کے بعد بلاآخر اسے ایک پنجرے میں بزرگ نظر آتے ہیں وہ بھاگ کر اس طرف جاتا ھے پاس جانے پر پتا چلتا ھے کہ وہ بے ہوش تھے اور انکی حالت بہت خراب تھی ۔۔۔
جاہ انہیں باہر لے کر آتا ھے اور اسکے باہر آنے کی دیر تھی کی عمارت ایک ہی جھٹکے میں غائب ہوجاتی ھے اور وہاں پر صرف خالی زمین رہ جاتی ھے ۔۔۔
جاہ انہیں اپنے گھر لے کر جاتا ھے اورحکیم سے انکا علاج شروع کرواتا ھے ۔۔۔
جاہ کو اپنی بہن گل کی بھی فکر تھی مگر وہ مورنی کے باباجان کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔
___ ___ ___ ___ ___ ___ ___
پری پیکر ۔۔۔۔۔
آنکھیں کھولو ۔۔۔۔۔
ظل چیخ رہا تھا۔۔۔۔
فریاد کر رہا تھا۔۔۔۔
مگر ابناز خاموش تھی ۔۔۔
ظل اسکے وجود کو جلدی سے اپنی باہوں میں اٹھاتا ھے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر محل کی طرف روانہ ہوتا ھے ۔۔۔
وہ محل پہنچنے کے بعد سپاہی کے ذریعے خاندانی حکیم کو بلواتا ھے اور ابناز کو اپنے کمرے میں لے جاکر شاہی پلنگ پہ سلاتا ھے۔۔۔
پری پیکر ۔۔۔۔
آپ ہمیں چھوڑ کر نہیں جاسکتی ۔۔۔۔
اپنے والدین کی جدائی ہم کسی طرح سہہ گئے تھے مگر آپ کی جدائی ہم سے برداشت نہیں ہوگی ۔۔۔
آقا ۔۔۔۔
وہ حکیم صاحب آگئے ہیں
ٹھیک ھے انہیں جلدی سےاندر لے کر آو ۔۔۔
جو حکم آقا ۔۔۔۔
حکیم صاحب آپ دیکھیں انہیں کیا ہوا ھے ظل بہت بے چینی سے حکیم صاحب سے کہتا ھے ۔۔۔۔
حکیم ابناز کے زخموں کا معائنہ کرتا ہے اور اسے مورنی یعنی ابناز کے سر کے زخم بہت گہرے لگتے ہیں اور اس کی سانس بہت اہستہ چل رہی تھی ۔۔
حکیم کافی دیر تک ابناز کو دیکھتا رہتا ہے ۔۔۔
آپ نے بتایا نہیں انہیں کیا ہوا ھے اور یہ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہی ۔۔ ؟؟؟
ظل پریشان سا حکیم صاحب سے پوچھتا ہے ۔۔۔
آقا انہیں سر پر کافی گہری چوٹیں ہیں مین نے زخموں پر دوائی لگا دی ھے خون بہت ذیادہ بہہ گیا ھے ۔۔۔
اگرکل صبح تک انہیں ہوش آگیا تو معجزہ ہوگا
مگر۔۔۔۔۔
انکی یاداشت جاسکتی ھے ۔۔۔
بس مجھے اس بات کا ڈر ھے باقی آپ پریشان نہ ہوں
اللہ تعالی سے دعا کریں ۔۔۔
یہ دوائی آپ وقفے وقفے سے انکے زخموں پر لگاتے رہیں ۔۔۔
آقا اب ہمیں اجازت دیں ۔۔۔
ظل جیسے ہی اجازت دیتا ھے وہ چلا جاتا ہے ۔۔۔
پری پیکر آپ بس جلدی سے ہوش میں آجائے ہم آپ کو منا لیں گے اورآپ سےمعافی بھی مانگ لیں بس آپ ہمیں ایک موقع دیں ۔۔۔۔
ظل اپنی پری پیکر کا ہاتھ ساری رات تھام کر بیٹھا رہتا ھے اور اسکا چہرہ دیکھتا رہتا ھے ۔۔۔
ابناز ساری رات درد کو برداشت کرتی رہتی ھے ۔۔۔۔
اور شہزادہ ظل ساری رات مورنی کے نزدیک رہتا ھے
پری پیکر ۔۔۔۔۔
آپ نے جواب نہیں دیا ۔۔۔۔
تو مورنی خاموش رہتی ھے ۔۔۔۔۔
پھر وہ دوبارہ پوچھتا ہے
جان ظل آپ نے جواب نہیں دیا اب شہزادہ ظل اپنی ابناز کی طرف دیکھتا ھے
کس بات کا جواب ۔۔۔؟،،
وہ شہزادے کو تنگ کر رہی تھی اور اسکی آنکھوں میں شرارت تھی ۔۔۔۔
جیسے ہی وہ اسکی طرف دیکھتاھے مورنی رخ مورتی ھے ۔۔۔۔۔
اچھا تو آپ چاھتی ہیں کہ ہم بار بار آپ سے پوچھے اور آپ ہر بار انجان بن جائے ۔۔۔۔
بہت خوب پری پیکر ۔۔۔۔
ظل اسکا ہاتھ تھامتا ھے ۔۔۔
شہزادے آپ کیا کر رہے ہیں ہمارا ہاتھ چھوڑیں ۔۔۔۔
اب جو سوال ہم پوچھنا چاھتے ہیں آپ اسکا جواب دیں گی تب ہی ہم اس بارے میں کچھ سوچیں گے ۔۔۔
تو اسکے لیئے کیاہاتھ پکڑنا ضروری ھے ۔۔۔
شاید ۔ ۔۔۔۔
مورنی آنکھوں سے اشارہ کرتی ھے ۔۔۔۔
شہزادہ گھٹنوں کے بل بیٹھتا ھے ۔۔۔۔۔
"پری پیکر اگر آپ کی اجازت ہو تو بندہ ناچیز آپ کی زندگی میں تا حیات شامل ہوسکتا ھے ۔۔۔۔۔
کیا آپ کو تا حیات میرا عشق قبول ھے ۔۔۔۔؟،، """
ابناز اسکے اس منفرد مگر دل کو چھو لینے والے انداز پر فدا ہوجاتی ھے ۔۔۔۔
اس کا چہرہ اس حسین اظہار پر کھل اٹھتا ھے ۔۔۔۔
وہ اسکا ہاتھ تھامے اسکے جواب کا منتظر بیٹھا تھا ۔۔۔
مگر اچانک پری پیکر کے چہرے کا رنگ بدلتا ھے ہنسی کی جگہ سنجیدگی آگئی تھی وہ اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچتی ھے اور اس سے دور چلی جاتی ھے ۔۔۔
شہزادہ اسکے پیچھے جانے کی کوشش کرتا ھے مگر وہ اسے کہیں نہیں ملتی اور پھر شہزادے کے دل کی طرح پوری وادی بھی ویران ہوگئی تھی ۔۔۔
پری پیکر ۔۔۔۔۔
نہیں آپ ہمارے ساتھ ایسا نہیں کرسکتی ۔۔۔۔
وہ چیخ رہا تھا ۔۔۔۔
پھراسکی آنکھ کھلتی ھے اور سب منظر بدل جاتے ہیں ۔۔۔
کتنی دیر وہ اپنے خواب کے زیراثر رہتاھے مگر جیسے ہی حواس بحال ہوتے ہیں وہ اپنے ہاتھ میں موجود پری پیکر کے ہاتھ کو دیکھتا ھے اور اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑے رکھتا ھے۔۔۔
شکر ھے وہ خواب تھا ۔۔۔۔
ظل کی ساری رات آنکھوں میں کٹتی ھے ۔۔۔۔
فجر کے وقت ابناز کو ہوش آتا ھے اور وہ اس وقت بھی شہزادے کو پکار رہی تھی ۔۔۔
شہزادے ۔۔۔۔
پری پیکر ۔۔۔۔
ہم آپ کے پاس ہیں
وہ آنکھیں کھول کر دیکھتی ھے ۔۔۔۔
ظل اسکے ماتھے پر پیار بھرا لمس چھوڑتا ھے ۔۔
شکر ھے آپ کوہوش آگیا اور آپ کی یاداشت بھی نہیں گئی ۔۔۔
کیا آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔۔۔
کچھ نہیں آپ بتائے آپ کو درد تو نہیں ہورہا ۔۔۔؟؟؟
وہ اٹھنے کی کوشش کرتی ھے اور آقا اسکی مدد کرنے کے لیئے آگے بڑھتے ہیں اور وہ انہیں منع کرتی ھے ۔۔۔
مگر ظل بیٹھنے میں اسکی مدد کرتا ھے ۔۔۔
شہزادے ۔۔۔۔
ہماری یاداشت اگر چلی بھی جاتی پھر بھی ہم آپ کو کبھی نہیں بھولتے ۔۔۔۔
اور آپ ہم سے دور رہیں ۔۔۔۔
پری پیکر ۔۔۔۔
کیا پری پیکر ۔۔۔۔
جیسا کہا ھے ویسے کریں ۔۔۔
نہیں ہم آپ سے دور نہیں جاسکتے آپ کوئی اور سزا منتخب کریں ۔۔۔
تب ہی دستک ہوتی ھے اجازت ملنے پر جاہ اندر آتا ھے ۔۔۔
بھائی ۔۔۔۔
مورنی نیچے اترنے کی کوشش کرتی ھے مگر اسکا سر چکراتا ھے ۔۔۔۔
گل ۔۔۔۔
آرام سے بیٹھو ۔۔۔
پپ پانی ۔۔۔۔
جاہ بھاگ کر اسے پانی دیتا ھے
پھر ظل کمرے سے باہر چلا جاتا ھےاور جاہ اپنی بہن کہ پاس جاتا ھے
اللہ تعالی کا شکر ھے گل اب تم ٹھیک ہو تمہیں پتا ھے آقا ساری رات تمہارے پاس بیٹھے رہے تھے وہ بہت پریشان تھے ۔۔۔
آپ نہیں پریشان تھے بھائی ۔۔۔
میں تھا مگر آقا کی وجہ سے کچھ مطمئین بھی تھا۔۔۔
بھائی ۔۔۔۔۔
وہ باباجان کیسے ہیں ۔۔۔؟،،
وہ بھی ٹھیک ہیں ۔۔۔
بھائی مجھے ان سے ملنا ھے ابھی ۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔۔
ابھی آپ کہیں نہیں جاسکتی ظل جیسے ہی کمرے میں آتا ھے تو ابناز کی بات سن کر اسے کہتا ہے ۔۔۔
ہونہہ آپ کون ہوتے ہیں ہم پر حکم چلانے والے ہم اپنے بھائی سے بات کر رہے تھے ۔۔۔
بری بات گل ۔۔۔۔
وہ ہمارے آقا ہیں ایسے بات نہیں کرتے ۔۔۔
مگر ۔۔۔
بھائی ۔۔۔۔۔
ظل مسکرا رہا تھا اپنی ابناز کی باتیں سن کر ۔۔۔
بھائی ۔۔۔
ہمیں آپ کے ساتھ آپ کے گھر جانا ھے ۔۔۔
ابناز کی بات سن کر شہزادے کی مسکراہٹ غائب ہوجاتی ھے ۔۔۔۔
جاہ آقا کی طرف دیکھتا ھے ۔۔۔
گل ابھی آپ زخمی ہیں اور آپ کے باباجان کو ہم نے نہیں بتایا کہ آپ زخمی ہیں اور ابھی انکی حالت ایسی نہیں کہ وہ کوئی صدمہ برداشت کرسکیں ۔۔۔
بھائی ۔۔۔۔
گل کیا آپ اپنے باباجان کو دکھی دیکھنا چاھتی ہیں ۔۔۔
نہیں ۔۔۔۔
ابناز رو رہی تھی ہمیں انکی بہت یاد آرہی ھے ۔۔۔
بس چند دنوں کی بات ھے پھر آپ مل لینا ان سے اچھا ابھی ہم جارہے ہیں پھر آپ سے ملنے آئے گے ۔۔۔
ٹھیک ھے بھائی ہم آپ کا انتظار کریں گے ۔۔۔۔
ملازمہ اس کے لئیے ناشتہ لے کر آتی ھے ۔۔۔
ظل خود اپنے ہاتھوں سے اسے غذائی ناشتہ کرواتا ھے ۔۔۔
مجھے نہیں کھانا ۔۔۔۔
پری پیکر ۔۔۔۔۔
آپ خود چکھ کر تو دیکھیں کتنا برا ذائقہ ھے بیماروں والا ۔۔۔
وہ اسکی بات پر ہنستا ھے ۔۔
آپ ہنس رہے ہیں
جب تک آپ اس کھانے کونہیں کھائے گے میں بھی نہیں کھاو گی ۔۔۔۔
پری پیکر ۔۔۔۔
یہ غلط ھے ۔۔۔
ظل تھوڑا سا کھاتاھے ۔۔
چلیں اب آپ کھائے ۔۔۔۔
وہ کھاتی ھے اور ظل کو دیکھتی رہتی ھے ایک رات میں اسکی حالت بہت خراب ہوگئی تھی آنکھیں سرخ تھی اور چہرے پر تھکاوٹ تھی مگر ابناز کی خاطر وہ اب بھی جاگ رہا تھا ۔۔۔
اب وہ خود بھی کھا رہا تھا اور ابناز کو بھی کھلا رہا تھا ۔۔۔
وہ رونا شروع کردیتی ھے ۔۔۔
پری پیکر ۔۔۔۔
کیا ہوا ۔۔۔؟؟؟
آپ کو پسند نہیں آیا تونا کھائیں ہم ابھی آپ کی پسند کا کھانا بنواتے ہیں ۔۔۔
وہ جلدی سے اٹھتا ھے
مورنی اسکا ہاتھ پکڑتی ھے اور نا میں سر ہلاتی ھے ۔۔۔
وہ اسکے پاس بیٹھتا ھے اور مورنی اسکے گلے لگتی ھے ۔۔۔
شہزادے ۔۔۔۔
میں بہت بری ہوں نا آپ کو کتنا پریشان کر دیا ھے ۔۔۔
نہیں آپ اس دنیا کی سب سے اچھی لڑکی ہیں ۔۔۔
برے تو ہم ہیں آپ کو اتنی تکلیف سہنی پڑی ہماری ایک غلطی نے سب کچھ بگاڑ دیا تھا ۔۔۔۔
برے تو آپ ہیں ۔۔۔۔
مگر آپ جیسے بھی ہیں اب صرف اور صرف ہمارے ہیں ۔۔
شہزادے ہم سے وعدہ کریں آپ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے ۔۔
ہم وعدہ کرتے ہیں ۔۔۔
چلیں ابھی آپ آرام کریں ہم ذرا حکیم صاحب کو بلائے وہ آکر آپ کے زخموں کو دیکھ لیں اور پھر دوا بھی لگائے ۔۔۔۔
پری پیکر کو نیند آتی ھے تو آقا بھی تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں اور پھر تروتازہ ہوکر وہ حکیم صاحب کو بلاتے ہیں ۔۔۔
آقا ۔۔۔۔
بس کچھ دن تک یہ زخم ٹھیک ہوجائے گے اور اب پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔۔۔
اب آپ انہیں انکی پسندیدہ غذا کھلا سکتے ہیں مگر تھوڑی مقدار میں ۔۔۔۔
ہوسکے تو پھل کھلائے ۔۔۔
پری پیکر جب تک تندرست نہیں ہوگی وہ محل میں رہتی ھے اس دوران جاہ بھی ملنے آتا تھا ۔۔۔۔
___ ___ ___ ___ ___ ___ ___
کچھ دن بعد ۔۔۔۔۔
بابا جان ۔۔۔
ابناز میری بیٹی ۔۔۔
شکر تمہارا چہرہ دیکھنے کو ملا ورنہ تویہ لڑکا روزانہ تم سے ملانے کا وعدہ کرتا تھا ۔۔۔
وہ بچے کی طرح جاہ کو ناراض نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔
آپ کو پتا ھے میرا پیارا سا ایک بھائی بھی ھے اور وہ ہیں جاہ ۔۔۔۔
بھائی آپ ادھر آئیں نا باباجان کے پاس اب سے یہ بھی آپ کے باباجان ہیں ۔۔۔۔
پری پیکر ۔۔۔۔۔
اور ہمارے ۔۔۔۔
آقا ۔۔۔۔
آپ یہاں ۔۔۔
کیوں جاہ ہم نہیں آسکتے ۔۔۔۔
نہیں ایسی تو بات نہیں ھے ۔۔
ابناز وہاں سے اٹھتی ھے اور باہر چلی جاتی ھے ۔۔۔
بابا جان ۔۔۔
یہ ہمارے آقا ہیں ۔۔۔
اچھا ۔۔۔
ظل انہیں سلام کرتا ھے اور وہ بھی پیار سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں ۔۔۔
بابا جان وہ ہمیں آپ سے ایک بات کرنی تھی ۔۔۔
بولو بیٹا ۔۔۔۔
وہ آقا ظل میری بہن سے شادی کرنا چاھتے ہیں ۔۔۔
مگر بیٹا یوں اچانک ۔۔۔
مجھے ابناز سے پوچھنا ہوگا ۔۔
اسکئ آپ فکر مت کریں وہ میں نے پوچھ لیا ھے بس آپ کی رضامندی چاھیے ۔۔۔
ظل خاموش ہوکر بیٹھا رہتا ھے ۔۔۔
ظل انہیں پہلی نظر میں ہی پسند آگیا تھا ۔۔۔۔
پھر وہ ہاں کر دیتے ہیں ۔۔۔
ظل کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا تھا۔۔۔۔۔
پوری وادی میں آقا کی شادی کی خبر پہنچ جاتی ھے اور نا صرف محل بلکہ پوری وادی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا ۔
بلآخر شادی کا دن آپہنچتا ھے...
آقا کی شادی پر وادی کے تمام لوگ شامل ہوئے تھے سب اپنے آقا اورملکہ کو دعائیں دینے آئے تھے ۔۔۔
ابناز کو سفید شاہی لباس پہنایا گیا تھا اور اس لباس میں وہ اپنے شہزادے کی پری پیکر لگ رہی تھی ۔۔۔۔
جاہ اور اپنے باباجان کے ہمراہ وہ آتی ھے ۔۔۔۔
پھر نکاح ہوتا ھے ایجاب و قبول کے بعد پورے محل میں
مبارک باد کی آواز ہوتی ھے۔۔
سارے لوگ باری باری انکے پاس آتے ہیں اور مبارک باد دیتے ہیں اور تقریبا آدھی رات کے وقت ابناز کو ظل کے کمرے میں پہنچایا جاتا ھے ۔۔۔
ظل کمرے میں داخل ہوتاھے اور جیسے ہی اسکی نظر ابناز کی طرف اٹھاتی ھے تو وہ حیران ہوجاتا ھے کیونکہ وہ اب گھونگھٹ کے بغیر تھی ۔۔۔
ظل اسکے پاس بیٹھتا ھے اور دیکھتا رہتا ھے ۔۔۔
شہزادے ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ۔۔۔؟؟؟؟
آپ اگر ایسے دیکھتے رہے تو میں یہاں سے چلی جاو گی ۔۔۔
ٹھیک ھے آپ بیٹھے رہے۔۔۔۔
وہ اٹھتی ھے اور کھڑکی کی طرف جا کے ٹھہر جاتی ھے ۔۔۔۔
ظل اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیتا ھے ۔۔۔۔
اپنا سر اسکے کاندھے پر رکھتا ھے ۔۔۔
پری پیکر ۔۔۔۔
مجھے یقین نہیں آرہا آپ ہمارہ زندگی میں ہمیشہ کے لیئے شامل ہوگئی ہیں ۔۔
یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا ۔۔۔
ابناز اسکی طرف دیکھتی ھے ۔۔
مجھے تو یہ خواب لگ رہا ھے
ظل اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھو رہا تھا جسکی وجہ سے
ابناز کااسکی قربت میں برا حال تھا ۔۔۔۔
پری پیکر ۔۔ ۔
چلیں ۔۔۔
کہاں ۔۔۔۔؟؟،؟
آپ بس چلیں اور کوئی سوال جواب نہیں ۔۔۔۔
وہ اسے اپنے ساتھ گھوڑے پر سوار کرتا ھے اور ندی کے راستے پر جاتا ھے ۔۔۔۔
شہزادے ۔۔۔
ہمارا بھی بہت دل چاہا رہا تھا
آپ کو کیسے پتا چلا ۔۔۔۔؟؟،
بس ہمارے پاس جادو ھے ۔۔۔
وہ ابناز کو نیچے اتارتا ھے اور سارا راستہ چنبیلی اور سرخ گلابوں سے سجا ہوا تھا جس پر وہ دونوں رواں تھے ۔۔۔
آقا ظل ملکہ کا ہاتھ تھامے اپنی زندگی کے نئے مگر خوشی بھرے سفر پر روانہ ہوچکے تھے ۔۔۔۔
ایک لڑکی تھی
ابناز ۔۔۔۔۔
دور بہت دور شہر سے ائی تھی
ایک لڑکا تھا
ظل
جسکی محبت میں ہوئی تھی وہ گرفتار ۔۔۔۔
شروع ہوا تھا تب مورنی کے عشق کا امتحان ۔۔۔۔
کٹھن مراحل کے بعد بلآخر ختم ہوا تھا امتحان ۔۔۔۔
مکمل ہوئی مورنی کے عشق کی داستان ۔۔۔۔
اب وہ تھی ملکہ اس وادی کی
مگر ۔۔۔۔۔
پری پیکر ھے وہ ہمیشہ اپنے شہزادے کی ۔۔۔۔
ابناز ھے وہ ظل کی ۔۔۔۔
جنکی محبت کی کہانی اب دور دور تک پھیل چکی ھے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ختم شد ۔۔۔۔