دیکھ تو بے بے کے پاس پہنچ کر مجھے فون ضرور کرنا، میں دس پندرہ دن میں یہاں سے نکلوں گا۔میرے جلدی یہاں سے جانے کی صورت میں شک میں آجائیں گے وہ لوگ۔۔۔سمجھ رہی ہے نہ تو”؟
رشید جو جنت کا سامان باندھ رہا تھا،ساتھ ساتھ اسکو سمجھا بھی رہا تھا، کیونکہ وہ مسلسل روئے جارہی تھی، اسکا جانے کا دل بلکل نہیں تھا۔
“اب بس یہ رونا دھونا بند کر،جا جاکر کوٹھی پر سب سے مل کر آ۔۔بلکہ اچھا ہے،ایسی روتی شکل سے ہی جا ، تاکہ یقین آجائے کہ فوتگی ہوئی ہے ہمارے یہاں”۔
رشید نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے جنت کو ہدایت دی۔
“رشیدے ایسے کیسے جیتے جی مار دوں کسی رشتے دار کو؟”
جنت نے بےچارگی سے رشید کو دیکھا۔”تو مرے ہوئے کو مار دے ۔”
،رشید نے اپنا سر پیٹا۔
“چل تو اپنے دادے کو مار دے،وہ تو مر چکا ہے نہ”؟
رشید نے اسکو گھورتے ہوئے کہا۔
“مگر میں جھوٹ کیسے بولوں۔۔اگر کسی کو پتہ لگ گیا تو،اور اللہ پاک کو تو پتہ ہےنہ،”
جنت نے ڈرتے ڈرتے رشید کو دیکھا۔
“جنت تو میرا دماغ خراب نہ کر،میں پہلے ہی بہت ٹینشن میں ہوں،بس ایک بار مجھے پیسے مل جانے دے۔”
رشید نے اسکے ہاتھ جوڑے۔
“اور سن بے بے کے ارشادات اب کی پنڈ انکے پاس ہی چھوڑ کے آنا۔”
رشید نے بے زاری سے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
جنت خاموشی سے سر جھکا کر باہر نکل گئی۔
“یہاں جان پر بنی ہے،یہ نواں کٹا کھول کے بیٹھ جاتی ہے”،جنت کے جانے کے بعد رشید بڑبڑاتا ہوا پلنگ پر دراز ہوکر آگے کا لائحہ عمل تیار کرنے لگا۔
۔۔۔۔
فاران کو گئے آج دو دن ہوگئے تھے،زندگی واپس ویسے ہی اپنے ڈگر پر آگئی تھی۔
انعم کی امی جو لاہور میں رہتی تھیں،کچھ دن انکے یہاں رہنے آئی تھیں۔شروع شروع میں فاران کے جاتے وقت انہوں نے انعم سے کہا کہ وہ انکے ساتھ ہی چلے،بچیوں کے ساتھ اکیلے رہنا مناسب نہیں ہے،مگر انعم بھائی بھابھیوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتی تھی۔
لاکھ وہ اپنا خرچہ خود اٹھاتی،گھر کے کام بھی کرتی،مگرپھر بھی بھابھیوں کو کھٹکھتی،اور بچوں کی آپسی لڑائیاں بڑوں کے بیچ دوری لے آتیں۔سو اس نے اپنے ذہنی سکون اور عزت کو ترجیح دی۔
کیونکہ وہ بھابھیوں کے اطوار سے شادی سے پہلے سے واقف تھی،تب انکے لئیے اسکو برداشت کرنا مشکل تھا،اب تو وہ بہرحال ما شاللہ سے اپنے گھر کی تھی ،تو کیوں کسی پر بوجھ بنے۔
اس نے سہولت سے ماں کو منع کردیا تھا۔مگر وہ دو چار مہینے میں کچھ دن کے لئے انعم کے پاس آجاتی تھیں،کیونکہ انعم کے ساس سسر اسکی شادی سے پہلے ہی انتقال کرگئے تھے۔اور باقی سب بھائی اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ رہتے تھے۔سو انعم یہاں اکیلے ہی رہ رہی تھی۔
انعم کی امی کو بھی دو تین دن سے اندازہ ہورہا تھا کہ زروا اور انعم کی کچھ خاص بنتی نہیں ہے۔اسلئیے آج بچوں کے اسکول جانے کے بعد وہ انعم کے ساتھ جب ناشتہ کرنے بیٹھیں تو اس زکر کو بھی چھیڑ دیا۔۔۔۔
“ہاں امی میں بہت پریشان ہوں،سمجھ نہیں آتا کیسے سمجھاؤں اس لڑکی کو،فاران کہتے ہیں تم زیادہ پیچھے لگی رہتی ہو،
مگر میں نے تو اب روک ٹوک شروع کی ہے،جب یہ بدتمیزی کرنے لگی ہے،پہلے تو میں نہیں بولتی تھی زیادہ کہ آج کل تو بھائی بچوں کوزیادہ روکو ٹوکو تو انکا کانفیڈنس ختم ہوجاتا ہے،یہ سوچ سوچ کر میں نے اسکو زیادہ نہیں ٹوکا،مگر اب میں دیکھ رہی ہوں وہ بات بے بات بدتمیزی کرتی ہے،ایسے تو یہ ہاتھ سے ہی نکل جائے گی میرے،اسلئیے میں نے اب سختی شروع کر دی ہے۔”
انعم نے بے چارگی سے کہا۔
“بس یہی تمہاری غلطی ہے،اتنی آزادی دے کر اب قابو کرنا چاہو گی تو وہ آسانی سے ہاتھ آئے گی۔؟”
“اب اس وقت یہ روایتی انداز چھوڑ دو،جس ماحول میں تم لوگ پلے بڑھے ہو، اپنے بچوں کو ویسے نہیں پال سکتے،یہ اچانک ہر بات پر ٹوکنا،ہر وقت نکتہ چینی کرنا،میں یہ نہیں کہہ رہی،اسکو شتر بے مہار چھوڑ دو،مگر اپنا طریقہ بدلو،تم
میری بات سمجھ رہی ہو،؟”
امی نے اسکے ہاتھ کو دبایا۔
“جی بولیں،آپ۔۔۔میں سن رہی ہو،انعم نے گردن ہلا کر کہا۔
“دیکھو حضرت علی( رضہ)کا قول ہے،اپنے بچوں کی تربیت اپنے حالات کے مطابق نہ کرو،بلکہ آنے والے حالات کے مطابق کرو،
کیونکہ انہیں ایسے زمانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو تم سے مختلف ہے۔
تم یہ نہ سوچو کہ میں تو اپنی امی سے ڈانٹ مار کھا کر بیٹھ جاتی تھی،میری بیٹی کیوں نہیں،تو انو تم اسکو اپنا جیسا ماحول بھی تو نہیں دے سکتی نہ۔
تمہارا وقت الگ تھا،بچے ماں باپ کی آنکھوں سے بھی ڈرتے تھے،مگر وہ سب شروع سے تربیت کا حصہ ہوتا تھا سو وہ عادی ہوتے تھے،اب تم اچانک بڑی ہوتی بچی پر روک ٹوک کرو گی تو بات بڑھے گی زیادہ۔
اس کوکسی کی مثال دے کر نہ سمجھایا کرو،اس سے وہ چڑھے گی۔
یہ نہ بولو آئی پیڈ رکھ دو،بلکہ پوچھو،آئی پیڈ کب رکھو گی؟
اسکو اختیارات دو تاکہ اسکو لگے اس نے اپنی مرضی سے کام کیا ہے۔
کوئی بات نہیں سنتی تو پیار سے اکیلے میں بولو،نہ سنے تو مضبوط مگر دھیمے لہجے میں تنبیہ کرو،یا سزا کے طور پر اسکی کوئی پسندیدہ چیز اس سے لے لو،اسکے لئےوہ خود تمھارے پاس آئے گی۔
یہ جو تم زور زور سے چلانا شروع کردیتی ہو نہ ،وہ اس بات سے جھلاتی ہے،
تم اس سے باتیں شئیر کرو،اسکی سنو،اسکو اپنا دن کا روٹین بتاؤ،اسکے اسکول سے واپسی پر اسکا روٹین پوچھو،آہستہ آہستہ وہ عادی ہوجائے گی تم سے سب شئیر کرنے کے لئے،مگر حوصلے اور صبرکے ساتھ سب کرنا ہوگا۔
اب کل ہی تم اسکو نماز کے لئے جب بول رہی تھیں تو کتنی غصہ ہورہی تھیں۔
نماز کی پابندی کروانا اچھی بات ہے،بچوں کو دنیا کے ساتھ دین بھی سکھاؤ،مگر پیچھے مت پڑو،خود عمل کرکے دکھاؤ۔
آج کے بچے کہنے پر نہیں سنتے،وہ تم کو دیکھے گی تو آہستہ آہستہ شروع کردے گی۔دن میں ایک بار آرام سے یاد کرواؤ،کہ تم نے آج کتنی نمازیں پڑھیں؟؟آہستہ آہستہ عادت پختہ ہوجائے گی۔زیادہ سختی کرو گی تو وہ نماز سے منتفر ہوگی۔
اللہ سے محبت کرنا سکھاؤ،یہ مت کہو کہ یہ نہیں کرو گی تو گناہ ملے گا،اسکے بجائے بولو کہ یہ کرو تو اللہ پاک خوش ہونگے۔”
انہوں نے چائے کے دو گھونٹ لے کر کپ میز پر رکھا۔
“اب تک بچوں کو تم نے ہی پالا ہے،بہت اچھے سے پال رہی ہو،مگر بچوں کی عادت و فطرت کے حساب سے انکو ہینڈل کرنا چاہیے۔
فاران بھی یہاں پر نہیں ہے،شاید یہ بھی ایک وجہ ہو اسکے چڑچڑے پن کا،لیکن تم اگر اسکو اچھے سے ٹائم دو تو شاید وہ اتنا محسوس نہ کرے،جب بچے کو ماں باپ کا وقت نہیں ملے گا تو وہ پھر دوسری چیزوں میں دل لگائیں گے،انکو ماں باپ سے انسیت بھی نہیں ہوگی۔
اس دور میں بچوں کی اچھی تربیت بہت مشکل ہے،مگر کم از کم ماں باپ ان سے قریب ہونگے تو انکے اچھے برے سے واقف تو ہونگے،بیٹیاں ویسے بھی ماؤں سے قریب ہوتی ہیں،وہ تم سے زیادہ اچھے سے باتیں کرسکتی ہے بنسبت فاران کے۔اور تم تو ویسے بھی میری بہت سمجھدار بیٹی ہو،ہےنہ”؟
انہوں نے اسکو مسکراتے ہوئے کہا۔
امی آپ مجھے ہمیشہ یہ کہہ کر مشکل کام میں پھنسا دیتی ہیں۔
انعم یہ کہہ کر اچانک ہی چونکی۔
“امی مجھے اب سمجھ آیا،آپ نے ہمیشہ مجھے نفسیاتی طور پر قابو کیا ہے،میں نے ہمیشہ آپکی اچھی بیٹی بننے کے لئے آپکی سب بات مانی۔”
وہ بہت حیران ہورہی تھی کہ اتنی معمولی سی بات اسکو سمجھ کیوں نہیں آئی تھی۔امی نے ایک گہری مسکراہٹ کے ساتھ اسکا کندھا تھپتھپایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیشان صاحب کو دئیے جانے والے وقت سے دو دن پہلے ہی رشید نے جنت کو گاؤں بھجوا دیا تھا۔
دو دن سے وہ حسبِ معمول اپنے کام پر جارہا تھا،تاکہ کسی کی نظر میں نہ آسکے۔جنت سے فون پر بات بھی ہوتی رہتی تھی۔وہ اب بھی رشید سے باز آنے کے لئے کہہ رہی تھی۔مگر رشید اسکی بات کو اڑادیتا تھا۔
آج بھی جب رشید نے جنت کو کال کی تو وہ رونے لگ گئی۔
“دیکھ رشیدے اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے،تونے ابھی گناہ نہیں کیا ہے،اب بھی پلٹ جا۔
بھٹکنا انسان کی فطرت میں ہے۔مگر یاد رکھ شیطان کی جیت اس دن تک نہیں ہوسکتی جب تک انسان خود ہار مان کر رجوع کرنا ترک کردے۔
وہ رب تو انتظار کر رہا ہے، کہ کب میرا بھولا بھٹکا بندہ، جو بندہ تو میرا ہی ہے مگر شیطان کے بہکاوے میں آگیا ہے، میرے در پر واپس آجائے، میں اسے معاف کردوں۔ اپنی رحمت سے ڈھانپ لوں۔”
میرے اللہ تو کہتے ہیں۔
“میرے بندوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، میری رحمت سے مایوس نہ ہوں۔”
بس تو نہ جانا ان حرام کے پیسوں کے چکر میں،ویسے بھی پیسہ دو دن میں ختم ہوجانا ہے،اپنی نسلوں کو حرام پہ پالے گا؟؟
جنت نے آج آخری کوششش کرلی تھی،کیونکہ آج رات رشید کو پیسے لینے جانا تھا۔
ویسے تو رشید اسکواس معاملے پر زیادہ بولنے نہیں دیتا تھا،مگر پتہ نہیں کیوں خاموشی سے اسکی ساری بات سنے گیا۔
“اپنا خیال رکھنا،میں فون رکھ رہا ہوں۔اب تجھ سے ملاقات ہی ہوگی۔اب کال نہیں کروںگاتجھکو. “
جنت شیدے شیدے کرتی رہ گئی مگر دوسری طرف فون بند ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم صبح صبح کہاں چلے گئے تھے؟”
دادو نے متقین کو گھر میں داخل ہوتے دیکتھے ہی سوال کیا۔
“وہ بس آپ آنکھ موندے لیٹی تھیں تو مجھے لگاآرام کر رہی ہیں اسلئیے جگانا مناسب نہیں سمجھا۔اور دادو یہ میرے دوست کی بہن ہے۔تھوڑے دن ہمارے ساتھ ہی رہی گی۔”
متقین نے اپنے پیچھے آتی مائشہ کا تعارف کروایا۔فی الحال دادو نے بھی زیادہ استفسار نہیں کیا تھا۔
“اسلام و علیکم” مائشہ نے آگے بڑھ کر انکو سلام کیا۔
“وعلیکم اسلام ، جیتی رہو، خوش رہو۔”
دادو نے محبت سے اسکو دعا دی۔دادو کے گلے لگ کر مائشہ کو بہت سکون ملا۔بہت دن بعد کسی کے انداز میں بے لوث محبت اسکی آنکھیں نم کرگئی تھیں۔
“اچھا ناشتہ بس تیار ہی ہے، آجاؤ دونوں ہاتھ منہ دھو کر،میں جب تک مائشہ کے لئیے کمرا صاف کروادوں۔”
دادو نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔دادو کی طرف سے کسی قسم کی ناگواری نہ پاکر مائشہ نے سکون کا سانس لیا۔
ورنہ پورے راستے اسکو یہی ڈر تھا کہ اگر متقین کی دادو نے منع کردیا تو وہ کہاں جائے گی۔
“تم ہاتھ منہ دھو کر آجاؤ۔”
دادو کے اٹھتے ہی متقین نے اسکو واش روم کا راستہ دکھاتے ہوئے کہا۔
مائشہ گردن جھکا کر آگے بڑھ گئی۔
جب ہی متقین کے فون پر میسج ابھرا۔
”اسلام وعلیکم،آپ کے ساتھ یہ لڑکی کون ہے؟”
میسج ان نون نمبر سے تھا۔متقین تھوڑا محتاط ہوگیا۔
“آپ کون؟؟متقین نے دو لفظی جواب بھیجا۔
“جی میں رانیہ،ابھی میں یونیورسٹی کے لئے نکل رہی تھی،تو آپکو گاڑی میں کسی لڑکی کے ساتھ آتے دیکھا تو سوچا پوچھ لوں۔”
متقین سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
“یہ میری دوست کی بہن ہیں۔”
جواب ٹائپ کرکے اس نے سر جھٹکا اور واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے گھر میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔
زیشان صاحب سب نوکروں پرغصہ ہورہے تھے،کہ آخر مائشہ سب کی موجودگی میں نکلی کیسے؟؟
سب سے زیادہ شامت چوکیدار کی آئی ہوئی تھی۔
وہ مائشہ کے ہر جاننے والے کے گھر فون کرچکے تھے،مگر سب ہی نے لاعلمی کااظہار کیا تھا۔
شہریار تو غصے سے پاگل ہورہا تھا۔
”آپ لوگ میری سن نہیں رہے تھے نہ،کم ازکم نکاح ہی کروادیا ہوتا،مگر میں تو سب کو پاگل لگتا ہوں۔”
اس نے ٹیبل کو لات مارتے ہوئے کہا۔
“ویسے دیکھا جائے تو اچھا ہی ہوا،خس کم جہاں پاک۔۔۔اب اگر وہ گھر چھوڑ کر چلی ہی گئی ہے تو جائیداد سے بھی تو گئی۔ہم ویسے بھی اسکی شادی اسی لئیے تو تم سے کر رہے تھے نہ،ورنہ لڑکیوں کی کمی تھوڑی ہے تمہارےلئیےکوئی”
آفرین تائی اپنے طور پر مطمئین تھیں۔
“امی آپکو کیوں سمجھ نہیں آرہی ،مجھے بس اسی سے شادی کرنی ہے،اب وہ میری ضد ہے۔”
شہریار نے ماں کو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔
“ارے پاگل دیوانہ تو نہیں ہوگیا ہے،ایسے کونسے سرخاب کے پر ہیں اس میں،اس سے لاکھ درجے بہترین لڑکیاں مل جائیں گی تم کو۔”
آفرین تائی نے اسکو لتاڑا۔
“تم دونوں ماں بیٹا یہ فالتو بکواس بند کرو گے،مجھے کچھ سوچے دو۔”
زیشان تایا نے دونوں کو گھور کے دیکھا۔
مائشہ کی گمشدگی انکے لئیے ٹینشن بن سکتی تھی،اچانک باپ کی موت اور بیٹی کا غائب ہوجانا انکو پولیس اور دنیا کی نظر میں مشکوک کر سکتا تھا۔وہ مائشہ کو ہر قیمت پر ڈھونڈنا چاہتے تھے۔
“چلو میرے ساتھ ،رپورٹ کرانی ہوگی،”
زیشان صاحب نے شہریار کو مخاطب کیا۔
وہ غصے میں بھرا ہوا اپنی کار کی چابی لینے کمرے میں چلا گیا۔