مگر تم کو کیسے معلوم ہوا؟؟رشید نے حیرت سے پوری آنکھیں کھول کر کرم دین کو دیکھا۔وہ بڑے صاحب اور بڑی بی بی صاحبہ آپس میں کچھ بات کر رہے تھے،تو میں نے سنا۔مشی بی بی کی طبعیت بھی اسی لئے خراب ہوئی ہے۔کرم دین نے دکھ سے رشید کو سلمان صاحب کی ڈیتھ کی ساری تفصیل بتائی۔رشید کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے،جو پیسے اسکو ہاتھ سے جاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے،اب پھر امید بندھ گئی تھی۔مگر ظاہر ہے،کرم دین کے سامنے وہ کچھ اظہار نہیں کر سکتا تھا۔بڑی مشکل سے اس نے اپنے تاثرات چھپا کر افسوس کا اظہار کیا۔اور فوراً وہاں سے کھسک گیا۔وہ جلد از جلداس ویڈیو کو زیشان تایا کو بھیجنا چاہتا تھا۔جب ہی اسکو آفرین تائی کی آواز پر رکنا پڑا۔رشید کل تم جنت کو بھی اپنے ساتھ لے آنا،سلمان کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا ہے،کل باڈی آئے گی،تو تدفین وغیرہ ہوگی،گھر میں کافی کام ہوگا،تو صبح ہی تم لوگ آجانا۔آفرین تائی نے نمناک لہجے میں جلدی جلدی اسکو ساری تفصیل بتائی۔یہ کب ،کیسے ہوا؟؟رشید نے بھی انجان بننے کی بھرپور ایکٹنگ کی۔بس کسی ٹرک نے ٹکر مار دی تھی،کل شام ہی ہم لوگ کو بھی پتہ لگا۔آفرین تائی نے آنکھیں چراتے ہوئے بولا،ویسے بھی وہ دماغی طور پر کافی اپ سیٹ تھیں۔جو بھی تھا،وہ اس طرح سے یہ سب نہیں چاہتی تھیں۔جو کچھ ہورہا تھا،وہ اس سب سے بہت ناخوش تھیں۔ٹھیک ہے بی بی جی،میں جنت کو بھیج دونگا،رشید نے بھی رومال سے خشک آنکھوں کو خشک کیا،اور اللہ حافظ کہتا وہاں سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ کے گھر والے متقین سے مل کر جاچکے تھے،انکو متقین بہت پسند آیا تھا۔اگلے ہفتے کو باقاعدہ رسم طے ہوئی تھی۔دادو کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی،وہ اب متقین سے بیٹھی اگلے ہفتے لے جانے والے شگون کی فہرست ڈسکس کر رہی تھیں۔دادو آپ خود دیکھ لیں نہ،مجھے تو کوئی اندازہ نہیں ہے،ان سب چیزوں کا،متقین نے احتجاج کیا۔ہاں تم بھی صحیح کہہ رہے ہو،مگر میں کس سے بولوں یہ سب؟دادو نے افسردہ ہوتے ہوئے کہا۔اچھا چلیں بتائیں ،آپکو اپنی بہو کے لئے کیا کیا لے کر جانا ہے، میں ابھی لسٹ بناتا ہوں،متقین نے موبائیل رکھ کر انکے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر بوسہ دیا۔وہ دادو کو افسردہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔سوچ رہی ہوں کہ زریں کا زیور(متقین کی ماما)تو شادی پر دونگی،ابھی ایک سیٹ چل کر خرید لیتے ہیں۔دادو نے گال تلے انگلی رکھ کر متقین کو دیکھا۔مطلب میں بھی جاؤنگا آپکے ساتھ؟؟متقین نے پوری آنکھیں نکال کر پوچھا۔ہاں اب عادت ڈال لو،عورتوں کی شاپنگ کی،تمھارے بابا آفس سے آکر فوراً لے کر جاتے تھے،تمھاری ماما کو۔دادو نے اسکو ہنس کے دیکھتے ہوئے کہا۔دادو آپ مجھے شادی سے ڈرا رہی ہیں؟؟متقین نے معصوم سی شکل بنائی۔نہیں میرے چاند،بس میں چاہتی ہوں ،تم میری بہو کو بہت خوش رکھو،بلکل جیسے تمھارے بابا تمھاری ماما کو رکھتے تھے۔دادو کی آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پرمسکراہٹ تھی۔دادو ماما گھر والوں سے اسی لئے نہیں ملتی تھیں،کہ دونوں کو ایک دوسرے کے علاوہ کوئی نہیں دکھتا تھا۔متقین نے شرارت سے دادو کو دیکھا۔یہ سوال کتنی بار وہ گھما کر کر چکا تھا،مگر دادو نے کبھی اسکے ننھیال کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ابھی بھی انہوں نے اسکے سر پر چپت رسید کی اور کھانا نکلوانے کے بہانے اٹھ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر سے ہی گھر پر رشتے داروں کا تانتا بندھ گیا تھا،ہر کوئی سلمان صاحب کی اتنی اچانک موت کی خبر پر بہت افسردہ تھا۔لوگوں کے پاس سوالوں کا انبار تھا،اور آفرین تائی اور زیشان تایا لوگوں کو جواب دے دے کر تنگ آچکے تھے،مائشہ کو ہاسپٹل گئے دو دن ہوچکے تھے،اسکی طبعیت بہتر تھی،اور امید تھی کہ ایک دو دن میں اسکو ڈسچارج کردیں گے،اس وجہ سے زیشان تایا جلد از جلد اس قصے کو نمٹانا چاہ رہے تھے۔اس وقت وہ قبرستان میں کھڑے یہی سوچ رہے تھے کہ آج اس کھیل کو ختم کرکے وہ سکون میں آجائیں گے۔مگر وہ یہ بھول گئے تھے،کہ سب سے بہترین چال اللہ کی ہوتی ہے،بندے کی ہر بساط اسکی چال کے آگے الٹ جاتی ہے۔گھر پہنچ کر وہ کافی مطمئین تھے۔آہستہ آہستہ تعزیت کرنے والوں کا بھی رش ختم ہوگیا۔سب اپنے اپنے گھروں کو جانے لگے،جب ہی انکو موبائیل میں ایک میسیج موصول ہوا۔جسکو کھولتے ہی انکے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔وہ جلدی سے بھاگ کر اپنے بیڈروم میں پہنچے اور اپنی کپ بورڈ کھولی۔جس میں انکو سفید لفافےمیں لپٹی ایک ڈی وی ڈی ملی،جب ہی شہریار بھی ان کے روم میں داخل ہوا،کیا ہوا پاپا آپ کافی پریشانی میں آئے تھے،سب خیریت؟؟شہریار نے انکو بہت تیزی سے اندر آتے ہوئے دیکھا تھا،اسلئے وہ بھی پیچھے پیچھے آگیا تھا۔جواب میں زیشان تایا نے اسکو اپنا موبائیل پکڑا دیا۔”سلمان صاحب کا ایکسیڈنٹ نہیں قتل ہوا ہے،ثبوت تمہاری الماری میں موجود ہے،کل تک ۱۔ کروڑ کا انتظام کرلینا،ورنہ یہ پولیس تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی۔یہ جاننے کی کوشش نہ کرنا میں کون ہوں،اسکا فائدہ نہیں ہے”میسج پڑھتے ہی شہریار نے ایک موٹی سی گالی نکالی۔اور موبائیل بیڈ پر پٹخ دیا۔زیشان صاحب سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔شہریار نے آگے بڑھ کر انکے ہاتھ سے ڈی وی ڈی لی اور انکا لیپ ٹاپ اٹھا کر اس میں ڈالی۔جوں جوں ویڈیو آگے بڑھتی جارہی تھی،دونوں باپ بیٹا کی حالت “ کاٹو تو لہو نہیں” والی ہورہی تھی۔دونوں لٹھے کی طرح سفید ہورہے تھے۔مم مگر اس ٹائم کون یہ ویڈیو بناسکتا ہے؟؟ویڈیو ختم ہوتے ہی شہریار نے زیشان صاحب کو دیکھا۔ہو نہ ہو یہ حرکت گھر کے کسی ملازم کی ہے۔۔ورنہ رات کے اس پہر گھر کے اندر کون آسکتا ہے۔زیشان صاحب اب شاک سے سنبھل چکے تھے۔ابھی سب کو فارغ کرتا ہوں میں،شہریار تنتناتا ہوا باہر نکلنے لگا۔رک جاؤ،زیشان تایا نے اسکا بازو پکڑا۔تمھاری جلد بازی نے پہلے بھی کام بگاڑا تھا،اب بھی تم یہی کرنے جارہے ہو،ایسے کرنے سے ہم ویڈیو کی اصل کاپی نہیں حاصل کرسکتے،اسکو پیسوں کے جھانسے میں پھنسا کر ہی اسکا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔اور پھر دیکھتے ہیں اسکے ساتھ کیا کرنا ہے۔۔زیشان صاحب اب ٹھنڈے دماغ سے سوچنے لگے تھے۔تم کوئی حرکت نہیں کرو گے۔انہوں نے انگلی اٹھا کر اسکو خبردار کیا۔شہریار نے زور دار مکا دیوار پر مارا۔اور اپنے بال پکڑ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔زیشان تایا نے ڈی وی ڈی نکال کر دو ٹکڑے کی،اور اسکو ڈسٹ بن میں پھینک کر سگریٹ جلا کر بیٹھ گئے۔۔وہ کسی گہری سوچ میں تھے۔جن پیسوں کو حاصل کرنے کے لئے وہ اتنی تگ و دو کر رہے تھے،وہی پیسہ اب آہستہ آہستہ انکے ہاتھ سے سرک رہا تھا۔پہلے انسپکٹر اور اب یہ بلیک میلر۔خیر اتنا بھی تر نوالہ نہیں ہوں میں،اس سے تو میں نمٹتا ہوں۔انہوں نے ایش ٹرے میں سگریٹ بجھاتے ہوئے خود کلامی کی۔باہر نکلتے ہوئے ایک نظر انہوں نے شہریار پر ڈالی جو ہنوز سر پکڑ کر بیٹھا تھا،وہ گردن جھٹک کر باہر نکل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
آج زروا کی برتھ ڈے تھی،کیک کٹنگ ،گیمز ،ڈنر اور گفٹ ان پیکنگ کے بعد اب وہ سب کوئی مووی لگا کر بیٹھ گئی تھیں۔آج ان سب کا اوور نائٹ اسٹے تھا،اسلئیے زروا کے روم میں سب کے لئیے کینوپی میٹرسز لگائے گئے تھے،جو آرگینایزرز نے ہی ارینج کئے تھے۔مگر فی الحال وہ سب لاؤنج میں مووی دیکھنے میں بزی تھیں۔زمل کیونکہ چھوٹی تھی،اسلئیے وہ جلدی ہی فاران کے پاس آکر سو گئی تھی۔انعم بھی سارے کاموں سے فارغ ہوکر اب بیڈروم میں آئی تھی۔جہاں زمل فاران کے بازو پر سر رکھے بے خبر تھی۔کتنا مس کرتے ہیں ہم لوگ یہ سب،انعم نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ فاران کے بازو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔کرتا تو میں بھی ہوں،فاران نے آہ بھر کر کہا۔انعم بھی زمل کے دوسری طرف آکر لیٹ گئی۔ویسے ایک گڈ نیوز ہے،فاران نے آہستگی سے زمل کے نیچے سے ہاتھ نکال کر کہنی کے بل بیٹھتے ہوئے کہا۔اچھا وہ کیا؟؟انعم بھی جزباتی ہوکر کشن گود میں لے کر بیٹھ گئی۔میرا ٹرانسفر دبئی ہیڈ آفس ہورہا ہے۔وہاں تم لوگوں کو میں باسانی بلا لونگا۔بس انشااللہ دو یا تین منتھس کی بات ہے۔اس نے مسکرا کر انعم کو دیکھا۔سچی ،انعم تو یہ خبر سن کر خوشی سے کھل اٹھی۔مچی،فاران نے اسکی ناک ہلکی سی دبائی۔انعم کی سارے دن کی تھکن ایک دم اڑنچھو ہوگئی تھی۔ویسے ہم یہ گھر ایسے ہی سیٹ چھوڑ کر جائیں گے،تاکہ جب کبھی آئیں تو رہنے کی جگہ تو ہو ہمارے پاس۔انعم نے مستقبل کی منصوبہ بندی شروع کردی تھی،فاران مسکرا دیا،وہ جانتا تھا اب جب تک وہ یہاں ہے،انعم اب بس اسی ٹاپک کو ڈسکس کرتی رہے گی،وہ ایسی ہی جذباتی،چھوٹی چھوٹی بات پر خوش ہونے والوں میں سے تھی۔یہ تو پھر بہرحال بہت بڑی خبر تھی،جس کا انتظار دونوں کو بہت عرصے سے تھا۔فی الحال وہ فاران سے زروا کو ڈسکس کرنے کا سوچ کے آئی تھی،مگر اب سب بھول بھال کر بہت پر جوش ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج متقین اور رانیہ کی منگنی کی رسم تھی۔دادو نے رانیہ کے لئے آف وہائٹ اور ایمرلڈ کے امتزاج میں سوٹ سلوایا تھا۔ساتھ ننھے جڑے اسٹونز کا وہائٹ گولڈ کا سیٹ تھا۔متقین نے بھی آف وہائٹ شلوار سوٹ کے ساتھ لائٹ گولڈن جامہ وار کی واسکٹ پہنی تھی۔دونوں کی جوڑی بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔تقریب رانیہ کے لان میں ہوئی تھی۔پورا لان فیری لائٹ سے جگمگا رہا تھا۔اسٹیج آف وہائٹ اور گرین آرٹیفیشل ویسٹیریا وائن فلاورز سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔دادو نے رسم کے لئے ڈائمنڈ کی رنگ لی تھی،جو انہوں نے خود ہی رانیہ کو پہنائی ،رانیہ کی طرف سے رانیہ کی ممی نے متقین کو وائٹ گولڈ بینڈ رنگ پہنائی تھی۔دادو نے دونوں کی نظر اتاری،آج انکو اپنا بیٹا بہو شدت سے یاد آرہے تھے،ہر تھوڑی دیر میں انکی آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔جس کو وہ بار بار خوشی کے آنسو کہہ کر پونچھتی تھیں۔رانیہ کی تین اور بہنیں تھیں،جو اس سے چھوٹی تھیں۔انہوں نے متقین اور رانیہ کو گھیرا ہوا تھا۔ہنسی مذاق ،بات چیت کے ساتھ فوٹو سیشن ہوتا رہا۔متقین کی طرف سے اسکے چند دوست تھے،باقی دادو کے کچھ رشتے دار تھے۔ہاں رانیہ کے گھر کی طرف سے بہت لوگ جمع تھے،جن سےمسکرا مسکرا کے مل کے متقین کے جبڑے دکھ چکے تھے،اسکی یہ مشکل رانیہ کے پاپا نے آسان کی،انہوں نے زبردستی سب کو اسٹیج سے ہٹا کر کھانا کھانے بھیجا،متقین نے سکون کا سانس لیا۔کھانے سے فارغ ہوکر دادو نے سب سے رخصت لی،وہ بہت خوش اور مطمئیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائشہ کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کردیا تھا،وہ دوبارہ بے ہوش تو نہیں ہوئی تھی،مگر بلکل گم سم تھی،پاپا کو آخری بار نہ دیکھنے کا اسکو بہت دکھ تھا۔زیشان تایا نے اسکو کہہ دیا تھا کہ وہ لوگ سلمان صاحب کو زیادہ دن نہیں رکھ سکتے تھے،اور مائشہ کی طبعیت کا کچھ پتہ نہیں تھا،اسلئیے اسکی عدم موجودگی میں انکو یہ کرنا پڑا جسکا انکو بہت قلق ہے،مائشہ نے خالی خالی نظروں سے زیشان تایا کو دیکھا اور اپنے بیڈ روم میں چلی گئی۔دو دن میں ہی وہ بلکل کملا گئی تھی۔بیڈ روم میں آکر اسکو وحشت ہونے لگی تھی۔وہ جلدی سے باہر نکل کر سلمان صاحب کے روم میں آگئی۔انکے کمرے میں آکر اسکا ضبط ٹوٹ گیا تھا،انکی چیزوں میں اسکو انکا چہرہ نظر آرہا تھا۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔انکے کپڑے سینے سے لگا کر وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی،کتنی دیر وہ ان کپڑوں میں پاپا کی خوشبو محسوس کرتی رہی۔اسکو لگ رہا تھا جیسے وہ پاپا کے سینے سے لگی ہو۔اسکو تھوڑا سکون ملا تھا۔وہ وہیں آنکھیں موند کر لیٹ گئی تھی۔اسکی آنکھ کسی کے ہلانے پر کھلی۔اٹھو مشی یہاں ایسے کیسے لیٹی ہو؟؟یہ آفرین تائی تھیں ،جو اسکے زمیں پر لیٹنے کی طرف اشارہ کرکے اسکو اٹھا رہی تھیں۔بس تائی امی اچھا لگ رہا ہے یہاں،اس نے بیٹھتے ہوئے کہا۔چلو اٹھو،منہ ہاتھ دھو،تایا بلا رہے ہیں تمہارے۔انہوں نے اسکو اٹھاتے ہوئے کہا۔اچھا آتی ہوں،اس نے انکے ہاتھ سے ہاتھ نکال کر اپنے بال سمیٹے۔میں جب تک چائے بنواتی ہوں تم آجاؤ،آفرین تائی کہتی ہوئی باہر نکل گئیں۔مائشہ نے ایک بار پھر کپڑوں کو زور سے بھینچ کر سینے سے لگایا اور آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئی۔کاش پاپا میں ٹور پر نہ گئی ہوتی تو آپ سے آخری دن ملاقات ہوجاتی میری۔کاش۔۔۔۔آنسو ایک بار پھر تواتر سے اسکی آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیشان اس نمبر کی میں نے معلومات کروائی ہے،وہ گجرات کے کسی گاؤں کا نمبر ہے،مگربات یہ ہے کہ جس کے نام پر یہ سم ہے وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔اب تم کو یہ معلوم کرنا ہے کہ تمہارا کونسا نوکر گجرات کا ہے،ضرور یہ اسکے باپ وغیرہ کے نام سم ہوگی،جو وہ استعمال کررہا ہے۔اور دوسرے وہ نمبر مسلسل بند جارہا ہے،میں کل سے ٹرائی کر رہا ہوں،ایس پی شہزاد نے اپنی بات مکمل کرکے زیشان تایا کو دیکھا۔ہممم ۔۔۔۔۔ہے تو یہ کسی گھر کے بھیدی کا کام۔۔کیونکہ پہلے وہ ویڈیو بنانا اور پھر میری الماری میں رکھنا ،گھر کے کسی نوکر کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔زیشان تایا نے پر سوچ انداز میں کہا۔ہاں مگر تم نوکروں سے ہٹ کر بھی سوچو کہ ایسا اور کون ہوسکتا ہے جو اس دن تمہارے گھر آیا ہو،کیونکہ اگر یہ کوئی باہر کا آدمی ہوا تو ہم بے خبری میں پھنس سکتے ہیں۔تمھارے سارے نوکروں پر تو میں نے اپنے آدمی لگا دئیے ہیں وہ ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں،جلد یا بدیر ہم اسکو پکڑ لیں گے یہ جس کا بھی کام ہے۔۔۔ایس پی شہزاد نے پہلو بدلتے ہوئے کہا،وہ بھی کافی پریشان تھا کیونکہ ویڈیو میں قتل کے نشانات مٹانے میں وہ سر فہرست تھا۔،تم اپنا کام ٹھیک سے کرو،میں باقی کسی دوسرے متوقع شخص کے بارے میں بھی غور کرتا ہوں۔زیشان تایا نے سگریٹ جلاتے ہوئے کہا۔ایس پی شہزاد بھی جانے کے لئے کھڑا ہوگیا ،یہ جو کوئی بھی تھا ،اسکا پکڑا جانا اسکے لئے بھی اہم تھا۔
۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا مشی آئی نہیں؟زیشان تایا نے سوالیہ نظروں سے آفرین تائی کو دیکھا۔ہاں آرہی ہے۔۔۔سلمان کے کمرے میں بیٹھی سوگ منارہی تھی،ابھی بلا کر تو آئی ہوں۔انہوں نے بےزاری سے بولا۔ہمم م م۔۔۔میں خود دیکھ لیتا ہوں،وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوئے۔جب ہی مشی سامنے سے آتی ہوئی دکھائی دی۔آو بیٹا میں تمھارے پاس ہی آرہا تھا۔انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔مشی خاموشی سے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔آنکھیں رونے کے باعث سوجی ہوئی تھیں،بال بھی گول مول سے جوڑے میں بندھے تھے،جن کپڑوں میں وہ ہاسپٹل گئی تھی،اب تک انکو بھی نہیں تبدیل کیا تھا۔دو دن میں ہی وہ صدیوں کی بیمار لگنے لگی تھی۔اسکو دیکھ کر زیشان تایا کے دل کو کچھ ہوا۔ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو،انہوں نے اسکو اپنے قریب بلا کر بیٹھایا۔بیٹا یہ دنیا ہے،ایک دن سب کو یہاں سے جانا ہے،مجھے پتہ ہے تم سلمان سے بہت اٹیچڈ تھیں،اور پھر سب سے زیادہ دکھ تم کو اسکو آخری بار نا دیکھنے کا ہے،مگر جو رضائے الہی،انہوں نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔مائشہ ایک بار پھر انکے سینے سے لگ کر رونے لگی تھی،وہ آہستہ آہستہ اسکا سر تھپک رہے تھے۔بس اب تم جلدی سے جاؤ ،فریش ہو،شاور لو،پھر ساتھ کھانا کھائیں گے۔انہوں نے اسکا سر تھپکتے ہوئے کہا تھا،مائشہ کی حالت دیکھ کر انکا ضمیر انکو کچوکے لگا رہا تھا،مگر شہریار انکا اکلوتا بیٹا تھا اسکو اکیلے بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے۔انکو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سب کا ازالہ کیسے کریں۔ایک گناہ کو چھپانے کے لئے وہ اب تک کیا کیا نہیں کر چکے تھے ،انکا ذہن وہ سب سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔اپنے دل کو مطمئین کرنے کرنے لئیے انکے پاس ہزاروں دلیلیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاپا آپ نے مشی سے اب تک شادی کی بات نہیں کی ہے؟؟شہریار دن کے کھانے سے فارغ ہوکر زیشان تایا کے کمرے میں موجود تھا۔اسکی ضد تھی کہ بس اب اسکی اور مائشہ کی شادی کردی جائے۔تمہارا دماغ بلکل خراب ہوگیا ہے۔یہاں ابھی اس جھنجھنٹ سے نہیں نکلے کہ کون ہے وہ بلیک میلر جس کو سلمان کے قتل کا پتہ لگ گیا ہے اور تم کو شادی کی سوجھ رہی ہے۔۔ انہوں نے غصے سے شہریار کو لتاڑا۔اور وہ مشی ،تم کو لگتا ہے، وہ اتنی آسانی سے شادی کے لئے مان جائے گی؟؟اسکے باپ کا انتقال ہوا ہے،وہ ابھی اس غم سے نہیں نکلی ہے،اس سے شادی کا مطالبہ کرتا کیسا لگوں گا میں۔ٹھیک ہے آپ نہیں کرسکتے تو میں کرتا ہوں مشی سے بات۔آخر شادی تو ہونی ہے نہ ہماری۔شہریار نے انکی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑائی۔آفرین تم سمجھالو اپنے لاڈلے کو،مجھے برین ہیمرج کروا کر دم لے گا یہ۔انہوں نے دانت کچکچاتے ہوۓ بولا۔اللہ نہ کرے،کیسی باتیں کرتے ہیں آپ۔۔آفرین تائی نے دہل کر دل پر ہاتھ رکھا۔شہری بیٹا پاپا صحیع کہہ رہے ہیں،مشی ابھی شادی کی کنڈیشن میں نہیں ہے،اسکو تھوڑا وقت دو۔میرا وعدہ ہے ایک مہینے کے اندر میں اسکو شادی کے لئے منالوں گی،مگر ابھی تم کچھ نہ کرو۔ویسے بھی اب اسکا کون ہے ،وہ کہیں نہیں جانے والی،یہیں رہ گی،تھوڑا آرام سے سب کام کرو،گرم گرم کھانے سے منہ جل جاتا ہے۔ٹھنڈا کرکے کھاؤ۔اس سے ہمدردی کرکے اسکا دل جیتو،تاکہ وہ خود ہی آسانی سے شادی کے لئے تیار ہوجائے۔آفرین تائی نے اسکو پیار سے پچکارتے ہوئے کہا۔بات شہریار کے دل کو لگی تھی،اسلئے وہ خاموشی سے انکی بات سن کے بیٹھا رہا۔اسکی خاموشی دیکھ کر تایا اور آفرین تائی نے سکون کا سانس لیا۔اس بات سے بے خبر کہ کوئی چوتھا شخص بھی انکی بات سن کر آہستگی سے مڑگیا ہے۔
۔۔۔۔۔