ایک گھنٹے کی محنت کے بعد ایس پی شہزاد اور زیشان تایا سلمان صاحب کی لاش کو ایس پی کی گاڑی میں ڈالنے میں کامیاب ہوۓ تھے۔رات کا وقت تھا،اسلئے گھر کے اندر کے نوکر کوارٹر میں جا چکے تھے،بس چوکیدار گیٹ پر موجود تھا۔اسلئیے گاڑی کو پچھلے گیٹ سے جس پر تالا پڑا رہتا تھا،لے کر آۓ تھے۔ایس پی کی گاڑی کا انتخاب بھی اسلئے کیا تھا کہ کسی بھی قسم کی ممکنہ چیکنگ سے بچا جا سکے۔اب دونوں کا رخ قبرستان کی طرف تھا۔آخر دو گھنٹے بعد وہ لوگ انکی لاش کو ٹھکانے لگا کے اب واپس گھر جارہے تھے۔اس سب میں گورکن کو بھی شامل کرنا پڑا تھا۔لاکھ زیشان تایا کو سلمان صاحب سے اختلاف تھے،مگر تھے تو وہ انکے سگے بھائی،اب ٹینشن سے نکلنے کے بعد انکو ملال ہورہا تھا،کہ بھائی کو نماز جنازہ بھی نصیب نہیں ہو پائی۔ایک گمنام قبر میں پکڑے جانے کے خوف سے وہ بس جیسے تیسے انکو دفنا آئے تھے۔انکا ضمیر انکو ملامت کر رہا تھا۔گھر پہنچ کر بغیر کسی سے بات کئے انہوں نے نیند کی دو گولی پانی سے اتاری اور آنکھ بند کرکے لیٹ گئے۔وہ اس وقت کسی سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قتل کا دن۔۔۔
آج صبح سے ہی مائشہ کا دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا۔اسکا دل چاہ رہا تھا سب چھوڑ چھاڑ کر واپس چلی جاۓ۔اس وقت وہ لوگ پٹریاٹا کے لئے نکل رہے تھے،وہ تیار ہوکر بے دلی سے بیٹھی تھی،سب لوگ ابھی تیار ہورہے تھے تو اس نے پاپا کو کال ملا لی۔سلمان صاحب اس وقت ائیر پورٹ سے باہر نکلے تھے۔کام کے سلسلے میں وہ بیرون شہر تھے،اور ابھی ہی انکی واپسی ہوئی تھی۔ہاں بیٹا کیسی ہو؟کیسا ٹرپ جارہا ہے۔؟؟پاپا آئی ایم مسنگ یو۔مائشہ نے منہ بسورتے ہوۓ کہا۔خود ہی چھوڑ کر گئی ہو اور مس بھی خود کررہی ہو،انہوں نے ہنس کے جواب دیا۔جی نہیں بلکل بھی نہیں،پہلے آپ گئے تھے،مجھے چھوڑ کر،اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔اچھا بابا تو اس گستاخی کی کیا سزا ملے گی مجھے،انہوں نے فون ایک کان سے دوسرے پر لگاتے ہوۓ کہا۔ڈرائیور گاڑی لے آیا تھا اور اب انکا سامان رکھ رہا تھا،وہ ٹائی کے ناٹ ڈھیلی کرکے گاڑی میں آرام سے بیٹھ گئے تھے۔اب جب میں واپس آؤنگی تو بس آپ ایک ویک میرے ساتھ گزاریں گے،کوئی کام شام کا بہانہ نہیں چلے گا۔اس نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی جیسے وہ اسکو دیکھ رہے ہیں۔ہاہاہا سلمان صاحب زور سے ہنسے۔اچھا چلو واپس آؤ پہلے پھر دیکھتے ہیں۔کب آرہی ہو؟؟پاپا ویسے تو ابھی تین چار دن کا اور پلان ہے مگر پتہ نہیں کیوں مجھے اچھا نہیں لگ رہا،میں شایدجلدی واپس آجاؤں۔اس نے بے دلی سے کہا۔نہیں نہیں انجوائے کرو،ملتے ہیں تین چار دن میں۔اوکے پاپا بائے۔یہاں سب تیار ہوکر بیٹھے ہیں ،میں نکلتی ہوں ۔اوکے بیٹا بائے ۔انہوں نے مسکرا کر فون کوٹ کی پاکٹ میں رکھا،اور کھڑکی سے باہر کے مناظر دیکھنے لگے۔گھر پہنچ کر آفرین تائی سے بات کے بعد وہ روم میں آگئے تھے۔کافی دیر تک وہ اپنے لائیر سے بات کرتے رہے۔انہوں نے ول میں کچھ ردوبدل کروائے تھے۔جب ہی انکے پاس کال آنے لگی،انکو کل کسی ارجنٹ کام کے سلسلے میں اسلام آباد جانا تھا۔انہوں نے مائشہ کو کال ملائی مگر اسکا فون آؤٹ آف ریچ آرہا تھا۔وہ کھانا کھانے چلے گئے۔واپس آکر ایک باراور ٹرائی کرنے پر بھی اسکا فون نہ مل سکا،وہ چاہ رہے تھے کہ جانے سے پہلے مائشہ کو آگاہ کردیں،اگر وہ واقعی اپنا ٹرپ پورا کرنے سے پہلے آگئی تو انکو نہ پا کر بہت ناراض ہوگی۔مگر فون نہ ملنے کی صورت میں انہوں نے کیم کارڈر آن کیا،وہ مائشہ کے لئے ویڈیو پیغام چھوڑنا چاہتے تھے،یہ مائشہ کا کیم کارڈر تھا جو وہ انکے روم میں بھول گئی تھی،انہوں نے سوچا تھا کہ ویڈیو ریکارڈ کرکے اس کے روم میں رکھ کر چلے جائیں گے ،تاکہ وہ جب بھی واپس آۓ گی انکی ویڈیو دیکھ کر اسکا غصہ اور ناراضگی ختم ہوجاے گی۔ ابھی انہوں نے ریکاڈنگ اسٹارٹ ہی کی تھی کہ زیشان تایا کمرے میں آگئے،سلمان صاحب نے کیم کارڈر الماری کے اوپر رکھ دیا،انہوں نے دھیان نہیں دیا کہ وہ ویڈیو ریکارڈنگ آف کرنا بھول گئے ہیں،انکو اندازہ بھی نہیں تھا کہ کیسے وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے ثبوت خود اکھٹے کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
متقین کو دو دن سے رہ رہ کر مائشہ کی آنسو بھری آنکھیں یاد آرہی تھیں۔پتہ نہیں کیوں اس لڑکی کے لئے اسکے دل میں نرم گوشہ بن گیا تھا،وہ سخت شرمندہ ہورہا تھا کہ کم از کم اسکو چھوڑتے وقت ہی اپنے رویہ کی معافی مانگ لیتا۔پتہ نہیں کیوں اسکو لگ رہا تھا کہ اس نے مائشہ کو اتنی سختی سے نہیں ڈانٹنا چاہیے تھا۔اسوقت بھی چاۓ پیتے ہوۓ اسکا ذہن مائشہ میں اٹکا ہوا تھا۔چاچا میں آج رات کو لیٹ آونگا آپ کھانا کھا کر سوجائیے گا،مجھے کچھ ضروری کام ہے،وہ غفور چاچا کو ہدایت دے کر تیار ہونے چلا گیا۔اس نے فیصلہ کرلیا تھا واپسی پر وہ مائشہ سے اسکے ہوٹل میں ملتا ہوا ایکسکیوز کرکے آجائے گا۔یہ سوچ کر اسکا ذہن کافی مطمئن ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایسے کیسے مجھکو بتاۓ بغیر پاپا کہیں چلے گئے۔مائشہ کا دل اس ٹور پر بلکل بھی نہیں لگ رہا تھا،اور وہ گروپ کی واپسی کا انتظار کئے بغیر واپس گھر آگئی تھی۔اس نے سوچا تھا،گھر پہنچ کر پاپا کو سرپرائز دونگی اسلئے اپنے آنے کی خبر بھی نہیں کی تھی۔اور اب آفرین تائی کی زبانی یہ سن کر کے سلمان صاحب کسی ضروری کام سے شہر سے باہر گئے ہیں،مائشہ کو غصہ اور رونا آرہا تھا۔مگر تائی امی کل شام ہی تو میری پاپا سے بات ہوئی تھی،وہ کل ہی تو واپس آئے تھے،مجھ سے تو انہوں نے جانے کا ذکر بھی نہیں کیا۔مائشہ نے آفرین تائی کو سوال کرکے زچ کیا ہوا تھا۔ارے مجھے نہیں معلوم کچھ،تمہارے تایا اٹھیں گے تو ان سے ہی معلوم کرنا۔آفرین تائی مائشہ کے سوالوں سے گھبرا رہی تھیں۔انہوں نے وہاں سے اٹھ جانے میں ہی بہتری سمجھی۔جب ہی شہریار لاؤنج میں داخل ہوا،اسلام و علیکم،مائشہ شہریار کو دیکھ کرجلدی سے کھڑی ہوگئی،وہ ہمیشہ ہی شہریار سے ریزرو رہتی تھی۔اور شہریار کو بھی زیشان تایا کی طرف سے زیادہ بات کی اجازت نہ تھی،وہ نہیں چاہتے تھے کہ شہریار کچھ الٹی سیدھی حرکت کرکے سلمان صاحب کو اس رشتے کے ختم کرنے کی وجہ دے۔وعلیکم اسلام،شہریار نے مائشہ کو غور سے دیکھتے ہوۓ جواب دیا۔کل رات کے بعد وہ اب گھر میں داخل ہوا تھا،اور مائشہ کو نارمل انداز میں اسکو سلام کرتا دیکھ کر کچھ اچھنبے کا شکار تھا۔تو کیا چاچو بچ گئے تھے؟؟اس نے دل میں سوچا۔وہ چاچو کہاں ہیں؟؟اس نے لہجے کو بہت ہی نارمل رکھتے ہوۓ کہا،مائشہ جو اٹھنے کے لئے پر تول رہی تھی،فوراً ناراض آواز میں بولی،پتہ نہیں ،تائی امی کہہ رہی ہیں آؤٹ آف سٹی ہیں،بٹ کہاں کیوں گئے ہیں انکو بھی نہیں پتہ،پھر فوراً ہی خیال آنے پر بولی،مگر آپ کیوں پاپا کا پوچھ رہے ہیں؟؟شہریار کو اس سے سوال کی توقع نہیں تھی،اسلئے ایکدم گڑبڑا گیا۔وہ وہ میں،اصل میں چاچو ہماری شادی کی بات کر رہے تھے کچھ ڈیڈی سے ،تو میں بس اسلئے ہی پوچھ رہا تھا،شہریار کو پتہ تھا،کہ اس جواب کے بعد مائشہ اس سے اور کوئی سوال نہیں کرے گی۔اور اسکا اندازہ بلکل درست نکلا،اگلے ہی پل مائشہ”اچھا میں فریش ہو لوں “کہتی اپنا سامان اٹھا کر اندر کی طرف بڑھ گئی۔ہممم تو مائشہ بی بی کو ابھی اصل صورتحال کا نہیں پتہ،اس نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوۓ سوچا۔وہ اپنی کل کی حرکت پر زرا بھی شرمندہ یا نادم نہیں نظر آرہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر یہ رہا نمبر،مینیجر نے رجسٹر آگے بڑھاتے ہوۓ کہا۔متقین نے نمبر اپنے موبائیل میں سیو کیا اور تھینکس کہہ کر واپس جیپ میں آگیا۔گاڑی میں بیٹھ کر وہ یہی سوچ رہا تھا کہ کیا کال کرنا ٹھیک ہے؟کاش وہ کل ہی آجاتا،یا اسی دن اس سے ایکسکیوز کرلیتا۔دراصل جب متقین ہوٹل پہنچا تو اسکو پتہ لگا کہ وہ لڑکیوں کا گروپ تو کل شام ہی ان کے ہوٹل سے چلا گیا،اور ظاہر ہے کہاں گیا اسکا انکو کوئی اندازہ نہیں تھا۔پہلے تو وہ متقین کو نمبر دینے پر بھی راضی نہیں تھے،مگر جب اس نے اپنا کارڈ دکھایا تو مینیجر نے اسکو نمبر دے دیا۔اسکو تو ابھی یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ نمبر مائشہ کا تھا بھی کہ نہیں؟؟اگر کسی اور کا ہوا تو وہ کیا کہہ کر بات کرے گا۔آج کم ازکم اس سے بات ہوجاتی تو وہ سکون سے ہوتا۔دو دن سے اسکی روئی ہوئی آنکھیں اسکو بہت ڈسٹرب کر رہی تھیں۔چلو اللہ مالک ہے ،کل صبح ٹرائی کرتا ہوں۔اب جس کا بھی نمبر ہوگا،کم از کم مائشہ سے بات تو ہو جائے گی۔اس نے خود کو تسلی دی اور گاڑی گھر کے راستے کی طرف موڑ دی۔
۔۔۔۔۔۔
مشی آگئی ہے اور اب پورے گھر میں ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ہے کہ اسکے پاپا کہاں ہیں؟؟آفرین تائی نے عادت کے مطابق بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ زیشان تایا جو دوا کھانے کے بعد بھی پوری رات نہیں سو پائے تھے،صبح کسی وقت انکی آنکھ لگی تھی،دوا کے زیر اثر وہ گہری نیند میں چلے گئے تھے،اور اب شام کو کہیں جاکر اٹھے تھے،انکے اٹھتے ہی آفرین تائی نے انکے سر پر دھماکہ کیا۔وہ جو تھوڑا مطمئن تھے کہ مائشہ کی واپسی تک وہ کوئی حل نکال لیں گے،ایکدم ہی پریشان ہوگئے۔تم کو سوائے کوئی منحوس خبر دینے کے کوئی کام آتا ہے؟؟انہوں نے آفرین تائی کو گھور کے کہا۔ارے اب میری کیا غلطی جو وہ آگئی ہے،اب جاکر تسلی کروائیں اپنی بھتیجی کی۔انہوں نے تنفر سے گردن جھٹکتے ہوئے کہا۔اور تمہارے صاحب زادے کا کچھ اتا پتہ ہے،تم دونوں ماں بیٹا نے میری زندگی جہنم بنادی ہے۔زیشان تایا کو دونوں ماں بیٹا پر سخت تاؤ تھا۔ہاں آگیا ہے،کمرے میں ہے اپنے،انہوں نے ہلکی آواز میں بتایا۔ہاں نوکری کرکے آیا ہے،ایسے فخر سے بتارہی ہیں،زیشان تایا انکو گھورتے ہوۓ واش روم کی طرف چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
دوسری بیل پر کال ریسیو کرلی گئی تھی،اور ایک نسوانی آواز متقین کے کانوں سے ٹکرائی۔کیا میں مائشہ سے بات کر سکتا ہوں؟؟جی ی۔۔۔مایشہ ہی بول رہی ہوں۔دوسری طرف جواب میں تھوڑی حیرت شامل تھی،کیونکہ مائشہ کی لڑکوں سے دوستی نہیں تھی۔آپ کون بات کررہے ہیں؟؟میں متقین بول رہا ہوں۔۔دوسری طرف کے جواب سے مائشہ حیرت سے گرتے گرتے بچی۔میرا نمبر کہاں سے ملا آپکو؟؟بس مل گیا،کیسی ہیں آپ؟؟متقین نے مسکراتے ہوئے کہا۔مائشہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنا میٹھا لہجہ متقین کا ہوسکتا ہے۔۔۔آپ کوئی پرینک تو نہیں کر رہے نہ،مائشہ کے ذہن میں سب سے پہلا خیال یہی آیا۔اسکو لگا اسکی فرینڈز شاید اسکے ساتھ کوئی مذاق کررہی ہیں۔ہاہاہا۔۔۔متقین کا قہقہہ بلند ہوا،نہیں اٹس ناٹ اے پرینک،ایکچیولی مجھے آپ سے ایکسکیوز کرنی تھی،متقین نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔اب کی بار مائشہ کو لگا وہ حیرت سے بے ہوش ہوجائے گی۔ویٹ اے منٹ،مائشہ نے کہا،جی ہیلو،وہ دراصل میں خود کو چٹکی کاٹ کر دیکھ رہی تھی کہ میں نیند میں تو نہیں ہوں۔۔۔میجر متقین نے مجھے سوری کہنے کے لئے فون کیا ہے۔مائشہ کے جواب میں متقین کا ایک اور زور دار قہقہہ بلند ہوا۔ویسے یہ کس بات کی سوری ہے،آپ نے کافی ساری بدتمیزیاں کی تھیں مجھ سے،مائشہ بھی ایکدم خوشگوار موڈ میں آگئی تھی۔اچھا ،بس مجھے لگا مجھے آپکو روتے ہوۓ چھوڑ کے نہیں آنا چاہیے تھا،سوری فار دیٹ۔متقین نے سادہ سے لہجے میں ایکسکیوز کی۔اٹس فائن۔۔میری بھی غلطی تھی،آپ مجھے پروٹیکٹ کر رہے تھے۔مجھے ایسے نہیں نکلنا چاہیے تھا۔مائشہ نے بھی کھلے دل سے اپنی غلطی تسلیم کی۔ہم م م، آپلوگ کہاں ہیں ابھی؟؟متقین نے پوچھا۔۔جی باقی لوگ تو کالام وغیرہ کی طرف چلے گئے تھے،بٹ میں واپس کراچی آگئی ہوں۔میرا دل نہیں لگ رہا تھا۔اوہ ۔۔۔تو آپ کراچی میں رہتی ہیں۔۔میری پوسٹنگ بھی کراچی ہوگئی ہے۔گڈ۔۔۔میرے پاپا ابھی آؤٹ آف سٹی ہیں وہ آئیں گے تو آپ میری طرف مہمان ہوں گے۔میں آپکو اپنے پاپا سے ملواؤں گی۔جی شیور۔پھر بات ہوتی ہے۔۔اللہ حافظ۔متقین نے فون کاٹ دیا۔مائشہ فون بند کرنے کے بعد بھی متقین کو سوچے گئی۔
۔۔۔۔۔ زروا،دیکھو میں کیا لے کر آئی ہوں،انعم نے زروا کے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا۔وہ فاران سے بات کرنے کے بعد کافی دیر سوچ بچار کرتی رہی تھی،اور خود بھی اسی نتیجے پر پہنچی تھی کہ فاران ٹھیک کہ رہا ہے۔ویسے بھی انعم شروع میں بھلے ہی فاران کی بات سے اتفاق نہ کرے مگر اسکو کرنا وہی ہوتا تھا جو فاران کہتا تھا۔اور اسی فاصلے کو کم کرنے کے لئیے اسنے آج پہلا قدم بڑھایا تھا۔زروا جو اپنے آئی پیڈ میں مگن تھی،ایکدم انعم کی آمد سے گڑبڑا گئی۔جی ماما ،اس نے جلدی سے آئی پیڈ لاک کیا اور کھڑی ہوگئی۔انعم بھی ایک پل کو ٹھٹکی مگر پھر ویسے ہی اپنے لہجے کو بشاش بناتے ہوئے اس کے بیڈ پر بیٹھ گئی۔پہلے کی بات ہوتی تو وہ زروا کو آئی پیڈ میں مگن دیکھ کر کلاس لیتی،کیونکہ یہ ان لوگوں کے ہوم ورک کا ٹائم تھا۔زمل کو تو انعم خود پڑھاتی تھی،مگر زروا اپنا کام خود کرلیتی تھی،وہ شروع سے ہی کافی ذہیں تھی۔یہ دیکھو تم اس دن کہہ رہی تھیں نہ تم کو نیل آرٹ کی کٹ چاہیئے،آج میں مارکیٹ گئی تو مجھکو نظر آئی،اسکو دیکھ کر تم مجھے فوراً یاد آئیں۔سو میں نے یہ تمھارے لئے لے لیا۔انعم نے بشاشت سے کٹ آگے بڑھائی ۔بٹ ماما اس دن آپ نے نوٹس نہیں لیا تھا تو میں نے اپنی فرینڈ سے کہہ دیا۔وہ شاید کل لے بھی آۓ گی۔میں نے اسکو اپنی پاکٹ منی سے پیسے بھی دے دئے تھے۔زروا نے تھوڑا دھیمے لہجے میں گردن جھکا کر انعم کو اپنی کارروائی گوش گزار کی۔زروا ایسی کونسی آفت آگئی تھی،کہ تم کو راتوں رات وہ کٹ چاہئیے تھی،ابھی لاسٹ ویک ہی تو تم نے مجھ سے کہا تھا،انعم زروا کی حرکت سے پھر سے پرانی جون میں آگئی تھی۔ماما مگربندہ ریسپونڈ تو کرتا ہے نہ،آپ نے نہ ہاں کی تھی نہ ناں۔ہمم کرکے دوسری بات میں مگن ہوگئی تھیں،میری چیزیں آپکے لئے امپورٹنٹ کب ہوتی ہیں۔۔۔ زروا جو تھوڑی دیر پہلے اپنی حرکت پر شرمندہ تھی،ایکدم بدتمیزی پر اتر آئی تھی۔زروا دیکھو،بیٹا آئندہ تم کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہوگی تو تم مجھ کو یا پاپا کو بولو گی،اور کسی سے کچھ نہیں بولو گی۔انعم نے اپنا لہجہ دھیما کیا۔آپ دونوں ہی کے لئیے میں اور پاپا ایک دوسرے سے دور ہیں،آپ لوگ مپورٹنٹ نہ ہوتی تو آج آپ اتنے اچھے سے نہ رہ رہی ہوتیں۔انعم نے اس کے بال کان کے پیچھے اڑستے ہوۓ کہا۔اور کندھا تھپتھپا کر باہر نکل گئی۔