متقین تمہاری رانیہ سے کوئی بات ہوئی ہے؟؟”
شام کو جب متقین گھر آیا تو چائے سے فارغ ہونے کے بعد دادو نے اس سے سوال کیا۔
“ہاں کچھ خاص نہیں ،کیوں؟آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟؟”
متقین نے لہجہ سرسری بناتے ہوئے کہا۔
“پتہ نہیں رانیہ کی ماں کا فون آیا تھا،کہہ رہی تھیں کہ وہ یہ رشتہ ختم کرنا چاہتی ہیں،ہماری طرف سے بہت معذرت مگر متقین اور رانیہ کی نبھنا تھوڑا مشکل ہے،رانیہ کی جب سے منگنی ہوئی ہے وہ پریشان رہتی ہے۔”
میں نے کہا بھی کہ” آپ وجہ تو بتائیے کوئی،ایسے بغیر وجہ کے میں کیا کہہ سکتی ہوں،متقین بلکل بھی ایسا بچہ نہیں ہے کہ اس سے کسی کو کوئی شکایت ہو،مجھے بہت حیرانگی ہے آپکی بات سن کر۔
تو بس اتنا ہی بولیں کہ آپ پھر متقین سے ہی پوچھ لیجیے گا۔”
اب جب سے میں یہی سوچ رہی ہوں کہ آخر ایسی کیا بات ہوئی جو وہ اتنے اچھے رشتے سے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔
دادو نے متفکر ہوکر پوچھا۔
“دادو کوئی خاص بات نہیں ہے،بس رانیہ تھوڑی بچکانہ سوچ والی جذباتی لڑکی ہے،اسکو لگتا ہے میں مائشہ میں انٹرسٹڈ ہوں،اسی بات کو لے کر وہ ایشو بنا رہی ہے۔
میں نے اسکو سمجھایا بھی تھا کال کرکے،مگر میرا خیال ہے کہ اگر وہ لوگ خود رشتہ ختم کرنا چاہ رہے ہیں تو اچھی بات ہے کیونکہ مجھے بھی لگتا ہے کہ رانیہ بہت امیچیور ہے۔میں بہرحال خود سے تو پہچھے نہیں ہٹتا،جیسے بھی ہوتا نبھاتا
مگراگر انکو بات ختم کرنی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔”
ابھی متقین دادو سے بات کر ہی رہا تھا کہ اسکو زور زور سے مائشہ کے رونے کی آواز آئی۔
وہ جلدی سے بھاگ کر اسکے روم میں پہنچا ،وہ گھٹنوں میں سر دئیے زور زور سے رورہی تھی،سامنے ہی کیم کارڈر پڑا تھا۔
“مائشہ مائشہ کیا ہوا،اٹھو۔”
متقین نے اسکا سر گٹھنوں سے اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
“میرے پاپا،پاپا۔۔۔ “
“کیا ہوا”؟
متقین نے نا سمجھی سے پوچھا۔
“میرے پاپا۔۔۔قتل۔۔انکا قتل۔۔”
وہ ہچکیوں کے بیچ بس اتنا ہی بول پا رہی تھی۔اور اشارہ بار بار کیم کارڈر کی طرف کر رہی تھی۔
متقین نے جلدی سے کیم کارڈر اٹھا کر دیکھا۔
جوں جوں وڈیو آگے بڑھ رہی تھی،متقین کے چہرے پر بے یقینی پھیل رہی تھی۔
مائشہ کی سسکیاں اب دھیمی ہوگئی تھیں.وہ اب ہلکے ہلکے کانپ رہی تھی۔
دادو اس کو گلے لگائے تھپک رہی تھیں۔گو انکو ابھی کچھ پتہ نہیں تھا،مگر مائشہ کی حالت دیکھ کر انکو اندازہ ہورہا تھا کہ بات کچھ سیریس ہے۔
“تم بلکل پریشان نہ ہو،ہم ابھی جاکر ایف آئی آر لوج کرواتے ہیں۔اور میں اپنے لائیر فرینڈ سے بات کرتا ہوں،ان کے خلاف جلد از جلد لیگل ایکشن لیں گے۔ہمارے پاس ثبوت ہے،وہ لوگ بلکل بھی نہیں بچ پائیں گے۔
دادو آپ اسکے لئیے جوس وغیرہ منگوائیں۔”
متقین نے پاکٹ سے موبائیل نکال کر روم سے باہر جاتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر بعد وہ روم میں داخل ہوا۔
“میری بات ہوگئی ہے،انفیکٹ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی پولیس اسٹیشن چلے گا۔
کل صبح انکے خلاف اریسٹ وارنٹ بھی ایشو ہوجائے گا۔”
متقین نے واپس آکر کیم کارڈر اٹھا کر اسکو احتیاط سے کپ بورڈ میں رکھتے ہوئے کہا۔
مائشہ اب کچھ سنبھل چکی تھی۔مگر بلکل گم صم بیٹھی تھی۔رو رو کر اسکی آنکھیں سوج چکی تھیں۔
متقین کو دیکھ کر ایک بار پھر اسکی آنکھیں بھر آئیں۔
“میرے پاپا نے کیا بگاڑا تھا،ان لوگوں کا۔تایا ابو کہتی ہوں میں انکو،مطلب باپ کی طرح پیار کرتی تھی ان سے،اور وہ اس سازش میں برابر کے شریک تھے۔انہوں نے میرے ساتھ ڈرامہ کیا۔میرے سر سے باپ کا سایہ چھینا۔”
کہتے کہتے وہ ایک بار پھر دادو کے گلے لگ کے دھاڑیں مار مار کے رونے لگی تھی۔
متقین افسوس اور دکھ سے اسکو دیکھے گیا۔
“مشی تم اٹھو منہ ہاتھ دھو،ہم کو ابھی پولیس اسٹیشن جانا ہوگا،ہم ماموں کو انصاف دلوائیں گے۔شاباش ہمت سے کام لو۔”
متقین نے اسکو دادو سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
“ہاں میرا بچہ ظالم کو اسکے جرم کی سزا ضرور ملے گی،تمہارے پاپا کو انصاف ضرور ملے گا۔دیکھو ظلم چھپتا نہیں ہے،اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔بس جب جس کی پکڑ ہوجائے۔شاباش تم جلدی سے اٹھو،اور متقین کے ساتھ جاؤ”۔
دادو نے پیار سے اسکے بال سمیٹتے ہوئے کہا۔مائشہ آنسو ضبط کرتے کھڑی ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیشان تایا آج گھر آگئے تھے۔ڈاکٹرز نے کہہ دیا تھا کہ یہ اب ساری عمر کے لئے محتاج ہوگئے ہیں۔وہ ہل بھی خود نہیں پا رہے تھے۔
جس دولت کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اتنی سازشیں کی تھیں،اسکو خرچ کرنے کے قابل وہ نہیں بچے تھے۔
وہ بہت بے بسی سے آفرین تائی کو دیکھ رہے تھے جو خود اس صورتِ حال سے پریشان تھیں۔
رشید سے انہوں نے کسی لڑکے کے بندوبست کا کہا تھا جو کل وقت زیشان صاحب کا خیال رکھ سکے۔
رشید اس دن سے اللہ کے ساتھ ساتھ جنت کا بھی شکر گزار تھا جس نے اسکو بروقت اپنی نیکی سے بچالیا تھا۔
وہ سوچ رہا تھا ٹھیک کہتے ہیں نیک صفت ساتھی جنت میں لیکر جائے گا۔جنت نے تو اسکو دنیا میں ہی جنت دلوادی تھی۔
جنت کو بھی آفرین تائی نے گھر سنبھالنے کے لئے بلا لیا تھا،کیونکہ فی الحال وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھیں۔
اب بھی وہ زیشان صاحب کا سوپ لے کر آئی تھی۔اور انکی یہ حالت دیکھ کر اس نے اللہ کا دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔
جہاں اللہ پاک رحمن اور رحیم تھا،وہیں وہ قہار،عادل اور جبار بھی تھا۔جنت سوپ رکھ کر باہر آگئی تھی مگر اسکے زہن میں زیشان صاحب کا وہ محتاج وجود گھوم رہا تھا۔
ایک وہ وقت تھا جب وہ دبدبے سے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،اور آج وہ پانی پینے کے لئے بھی دوسروں کے محتاج تھے۔جنت کو بچپن میں بے بے کی یاد کروائی سورہ کا ترجمہ اب سمجھ آیا تھا۔
قسم ہے عصر کی،بے شک انسان خسارے میں ہے۔
وہ یہی سوچ رہی تھی کہ واقعی انسان کی زندگی کی کیا حیثیت ہے،اس رب کی مرضی نہ ہو تو وہ سانس بھی اندر نہیں اتار سکتا،مگر دنیا میں اکڑ کر چلتا ہے۔
تھوڑی سی دولت،شہرت پر اکڑ کر پھرتا ہے۔بھول جاتا ہے کہ وہ بس اسکی ایک کن کی مار ہے۔
مگر اس دنیا میں آنے والوں کی اکثریت نے بدی کا راستہ اختیار کر کے عارضی لذتوں کے عوض ہمیشہ ہمیشہ کے خسارے یعنی جہنم کی آگ کا سودا کیا ہے۔
اسکو یاد تھا بے بے اکثر اسکو پہاڑی کے وعظ میں حضرت عیسیٰ علیہ سلام کے وعظ کے بارے میں بتاتی تھیں۔
" تنگ دروازے سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ جو چوڑا ہے اور وہ راستہ جو کشادہ ہے، ہلاکت کو پہنچاتا ہے، اور اس سے داخل ہونے والے بہت ہیں اور وہ دروازہ جو بہت تنگ ہے اور وہ راستہ جو سکڑا ہے، زندگی کو پہچانتا ہے اور اس کے پانے والے تھوڑے ہیں"
جنت کو آج اس وعظ کا مفہوم سمجھ آیا تھا۔وہ شکر گزار تھی کہ اللہ نے اسکو ہدایت نصیب فرمائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“امی زروا میں ماشااللہ بہت پوزیٹیو چینج آرہا ہے،آپ نے نوٹس کیا۔”
انعم اپنی امی کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی،اورزروا کچن کاؤنٹر پر کیک ڈیکوریٹنگ کا سامان پھیلا کر کھڑی تھی۔
کیک بیک ہو چکا تھا،اب فونڈینٹ سے اسکو کور کرنا تھا۔
“ہاں ،بس بچوں کی نیچر سمجھنی ہوتی ہے،پھر سب آسان ہوجاتا ہے۔ماں باپ کے اوپر بہت بھاری ذمہ داری ہوتی ہے،پرورش کی۔
بس یاد رکھنا تم جو بھی خوبی ان میں دیکھنا چاہتی ہو،یا جو بھی خراب عادت بدلنا چاہتی ہو،ان کے لاشعوری ذہن میں محفوظ کردو،انکو یقین دلاؤ،تم بہت سمجھدار ہو،ذمہ دار ہو،جو بات تعریف سے بدل سکتی ہے نہ وہ تنقید سے ہرگز نہیں بدلے گی۔
تم نے چند دن میں بدلاؤ دیکھ لیا نہ؟
انہوں نے پیار سے زروا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،جو میلٹڈ مارش میلو میں آیسنگ شوگر مکس کر رہی تھی۔
آہستہ آہستہ شوگر مارشمیلو میں یک جان ہوکر ایک ڈوہ کی صورت میں آچکی تھی۔
“ماما پلیز کیا آپ مجھے آئسنگ شوگر کا نیو پیکٹ نکال کر دے سکتی ہیں؟”
زروانے وہیں سے کھڑے کھڑے آواز لگائی۔
“ہاں بیٹا واۓ ناٹ”
انعم نے بول میں آئسنگ شوگر نکال کر اسکو دے دی۔
“مما اس کو ورک میٹ پر اسپریڈ بھی کردیں ،مجھےڈوہ کو نیڈ کرنا ہے نہ تو وہ اسٹک نہ ہو اس پر”۔
زروا نے ہاتھ میں ڈوہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
انعم نے مسکراتے ہوئے آئسنگ شوگر میٹ پر پھیلا دی۔
زروا ڈوہ کو نرم ہاتھوں سے گوندھی گئی۔
انعم سوچ رہی تھی کیسے ابھی پورے میں پھیلنے والی مارشمیلو زرا سی محنت سے نرم سی بال گئی،اس کو جیسے چاہو اب اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال لو۔
شاید زندگی کا بھی یہی اصول ہے۔نرمی،لگن اور وقت آپ چاہے انسانوں کو دیں یا چیزوں کو،وہ آپ کی من چاہی چیز میں بدل سکتے ہیں۔مسکراتے ہوئے وہ واپس لاؤنج میں آکر بیٹھ گئی تھی۔
“امی میں سوچ رہی تھی بڑے بوڑھوں کی موجودگی بچوں پر زیادہ اچھے اثرات مرتب کرتی ہے۔
مجھے اچھے سے یاد ہے،دادی امی کیسے ہمیں بچپن میں سبق آموز کہانیاں سناتی تھیں نہ،میری سب سے فیورٹ کہانی وہ بسم اللہ کا معجزہ تھی،جس میں مچھلی کے پیٹ سے بسم اللہ کی برکت سے انگوٹھی نکل جاتی ہے،اور اشعر کو تو وہ چرواہے کے جھوٹ والی کہانی کے بعد سے جھوٹ بولتے واقعی ڈر لگتا تھا۔”
انعم بہت محظوظ ہوکر اپنا بچپن دہرا رہی تھی۔
“مجھے اچھے سے یاد ہے،شام کو ہم سب بچے چھت پر اپنے بن اور چائے لے کر دادی امی کے ساتھ جمع ہوجاتے تھے،اور وہ ہم کو پیغمبروں کی کہانی سناتی تھیں،حضرت آدم علیہ اسلام سے لےکر حضرت محمد صلی الللہ علیہ وسلم تک کے سب کے قصے ہم سب بچوں کو زبانی ازبر تھے۔”
وہ بچپن یاد کرکے جیسے واپس اسی چھت پر پہنچ چکی تھی،جہاں وہ اب دادی امی کے گرد جمع ہوکر قصے سنا کرتے تھے۔
“میرے بچوں نے وہ سب مس کردیا نہ،انکی بھی دادو ہوتیں تو شاید یہ بھی بچپن سے فائنڈنگ نیمو اور فروزن دیکھنے کے بجائے اچھی باتیں سیکھتے۔ماؤں کے پاس تو کاموں کے سو جھمیلے ہوتے ہیں۔بچے یہ سب کچھ تو گرینڈ پیرنٹس سے ہی سیکھتے ہیں۔آپ بھی کبھی کبھار ہی آتی ہیں۔کاش آپ میرے پاس رہ سکتی ہوتیں۔”
اس نے چاہت سے انکا ہاتھ پکڑا۔
“بیٹا میرے گھر پر بھی میری کچھ ذمہ داریاں ہیں،میں کیسے سب چھوڑ کر یہاں رہ سکتی ہوں۔”
امی نے مسکرا کے اسکے ہاتھ کو تھپکا۔
زروا کا کیک مکمل ہونے کے قریب تھا،وہ یہ کیک انعم کے لئے اسکی آنے والی سالگرہ کا بنا رہی تھی۔
“امی آئی لو یو،”
انعم نے امی کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔نانو،ماما اور زروا تینوں اپنی اپنی سوچوں پر مسکرا رہی تھیں۔تینوں ہی کا کام مکمل ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“شہریار کہاں ہے،اسکے نام کا اریسٹ وارنٹ ہے۔”
انسپکٹر نے آفرین تائی کو وارنٹ دکھاتے ہوئے کہا۔
“مم مگر۔۔۔کیوں۔۔”
آفرین تائی کی تو حالت زیشان تایا کی وجہ سے پہلے ہی خراب تھی۔اب مزید یہ خبر سن کر وہ حواس باختہ ہوگئی تھیں۔
“مائشہ میڈم نے انکے خلاف اپنے پاپا کے قتل کی ایف آئی آر درج کروائی ہے۔آپ شہریار کو بلادیں ورنہ مجبوراً ہم کو گھر کے اندر آنا پڑے گا۔”
انسپکٹر نے سختی سے جواب دیا۔جب ہی شہریار گیٹ تک آچکا تھا۔
“جی کیا مسئلہ ہے آپ لوگوں کو؟”
وہ تنتناتا ہوا گیٹ کے باہر نکلا۔
“تمہارے خلاف اریسٹ وارنٹ ہے، ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔”
انسپکٹر نے نخوت سے کہا۔
متقین بھی انسپکٹر کے ساتھ ہی تھا۔وہ پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے شہریار کو گھور رہا تھا۔
“آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں نے قتل کیا ہے،شہریار نے وارنٹ پکڑکر غصہ سے دونوں کو دیکھا۔”
“ثبوت اور گواہ عدالت میں پیش ہونگے،شرافت سے ہمارے ساتھ چل لو،ورنہ زبردستی کرنی پڑے گی۔رحیم بخش ہتھکڑی لاؤ۔”
انسپکٹر نے کانسٹیبل کو آواز لگائی۔
“جی سر،”
رحیم بخش نے جلدی سے ہتھکڑی لاکر انسپکٹر کو تھمائی۔
شہریار نے دانت پیستے ہوئے متقین کو دیکھا۔
“یہ کون ہے؟؟”
میں جو کوئی بھی ہوں،پوچھ گچھ تم سے ہوگی،اس وقت تم کچھ بھی پوچھنے کی پوزیشن میں نہیں ہو۔لے جائیے اسکو،یہ تھوڑی دیر اور میرے سامنے رہا تو میں اسکا منہ توڑ دونگا۔”
متقین نے غصے سے مٹھیاں بھینچھتے ہوئے کہا۔
شہریار کوہتھکڑی ڈال کر گاڑی میں بٹھا کر وہ لوگ روانہ ہوگئے۔
آفرین تائی کو تو ایسا صدمہ لگا کہ وہ تو وہیں دروازے پر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
“یا میرے اللہ !یہ کس آزمائش میں ڈال دیا مجھ کو،شوہر اپاہج،بیٹا جیل میں،میں کیا کروں،کہاں جاؤں۔مجھ پر رحم کر میرے مالک۔”
وہ وہیں سجدے میں گڑگڑا کر رونے لگیں۔
وہ یہ بھول گئیں تھیں کہ اللہ جب تک چاہتا ہے رسی ڈھیلی چھوڑتا ہے مگر جب پکڑ میں لیتا ہے تو انسان کو زمیں کا کوئی حصہ سر چھپانے کو نہیں ملتا۔
بھلے سے قتل انہوں نے نہیں کیا تھا،مگر اسکو چھپا کر وہ گناہ میں برابر کی شریک تھیں۔پیسوں کے حوس اور لالچ میں انہوں نے کسی کو یتیم کردیا تھا۔جب انکے دل میں رحم نہیں جاگا تھا،اور آج خود جب اللہ کے زیرِ عتاب آئیں تو رحم یاد آرہا تھا۔
جنت دور سے کھڑی یہ سارا تماشہ دیکھ رہی تھی۔
اس نے آج ایک بار پھر رب کا شکر ادا کیا جس نے رشید کو اس رات اس حوس سے بچالیا۔
اس ظلم میں شامل سب ہی ایک ایک کرکے اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے تھے۔
“ڈر ظلم سے کہ اس کی جزا بس شتاب ہے
آیا عمل میں یاں کہ مکافات ہو گئ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت مائشہ اور متقین قبرستان میں کھڑے تھے۔
متقین نے پہلے ہی سلمان صاحب کی قبر پر کتبہ لگوادیا تھا۔قبر پر تازہ پھولوں کی پتیاں بکھری تھیں۔
انسپکٹر شہزاد کی نشاندہی پر متقین کو بآسانی قبر مل گئی تھی۔
اب وہ مائشہ کو بہت تاکید سی یہاں لے کر آیا تھا کہ وہ ذرا بھی شور نہیں مچائے گی۔
مائشہ کو لگ رہا تھا وہ پاپا کی قبر دیکھ کر بہت روئے گی۔مگر یہاں آکر اسکو بہت سکون ملا تھا،اسکو لگ رہا تھا جیسے اتنے دن سے اسکا دل جو بےقرار تھا اسکو سکون مل گیا ہو،جیسے اسکی ملاقات اپنے پاپا سے ہوگئی ہو۔وہ بہت دیر سے قبر کے سرہانے بیٹھی رہی۔
شائد وہ اسلئے مطمئن تھی کہ اسکے پاپا کو انصاف مل گیا تھا،سب کیفرِ کردار کو پہنچ چکے تھے۔
عدالت نے شہریار کو پہلی ہی ہیرنگ میں پھانسی سنا دی تھی۔
زیشان صاحب کو علالت کے باعث ا کروڑ جرمانہ لگا۔ویسے بھی انکی سزا قدرت نے پہلے ہی لکھ دی تھی۔
آفرین تائی کو شواہد مٹانے کے جرم میں کچھ ماہ کی سزا اور جرمانہ لگا۔
انسپکٹر شہزاد کو تاحیات کے لئے سسپنڈ کردیا گیا تھا۔اور اسکے خلاف کیس اوپن کرنے کی ہدایت پولیس ڈیپارٹمنٹ کو دی گئی تھی۔
مائشہ اور متقین کے حصے کی دولت سے دونوں نے اپنے ماما اور پاپا کے نام پر ایک اوفینیج کھول لیا تھا۔
انکو قدرت نے اپنے والدین کی خدمت کا موقع نہ دیا تو وہ انکے لئے صدقہ جاریہ بننا چاہتے تھے۔ویسے بھی ان سے زیادہ یتیمی کا دکھ کون سمجھ سکتا تھا۔
“از مکافاتِ عمل غافل مشو
گندم از گندم بروید جو زجو”
(کسی کے عمل کے بدلے سے غافل نہ رہو،
گیہوں سے گیہوں اگتا ہے اور جو سے جو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مشی کتنی دیر تم کو اور لگے گی؟
سب ویٹ کررہے ہیں۔”
متقین کے چوتھی بار آواز دینے پر مائشہ جھلائی ہوئی کمرے سے برآمد ہوئی۔
وہ اس وقت بلیک شفون کی پلین ساری پر بلیک ہی بھاری کام کا بلاؤز پہنی تھی،جس کا گلا اور آستینیں ننھے ننھے ڈائموٹیز سے بھرا تھا۔براؤن بال پشت پر پھیلے تھے،اور اسموکی میک اپ آنکھوں کو اور حسین بنا رہا تھا۔ ہاتھ میں جڑاؤ کنگن تھے،جو متقین نے اسکو منہ دکھائی میں دئیے تھے۔کانوں میں ڈائمنڈ اسٹڈز تھے،اس نے آج پہلی بار ساڑی پہنی تھی۔اور اسی لئے جھلائی ہوئی تھی کیونکہ اسکو ساڑی پسند نہیں تھی،اور آج متقین کی فرمائش پر پہنی تھی۔
“واؤ”۔۔۔۔
متقین نے اسکو باہر آتا دیکھ کر ستائشی انداز میں تعریف کی۔
“مجھے پتہ ہوتا تم ساڑی میں اتنی پیاری لگو گی تو دادو سے کہہ کر ساری ساڑھیاں ہی بنواتا ۔”
متقین نے اسکو چھیڑا۔
“ہاں خود پہن کر دیکھیں ایک دفعہ،دادو سے کہہ کر ساری ساڑھیاں بنواتا۔”
مائشہ اسی کے انداز میں نقل اتارتی دھپ سے صوفے پر بیٹھ کر سینڈل کر اسٹریپ بند کرنے لگی۔
متقین کی تعریف پر مائشہ بلش ہوگئی تھی،مگر اپنی شرماہٹ کا اثر زائل کرنے کے لئے اسکو چڑا رہی تھی۔
“اچھا چلو،ناراض نہ ہو۔باہر چلو،دادو سب مہمانوں کے ساتھ ہمارا ویٹ کررہی ہیں۔”متقین نے ہاتھ بڑھایا جس کو مائشہ نے مسکرا کر تھام لیا تھا۔
متقین اس وقت بلیک ڈنر سوٹ میں تھا،کریو کٹ اورفرینچ بئیرڈ میں وہ بہت جاذب نظر لگ رہا تھا۔
آج انکی پہلی ویڈنگ اینیورسری تھی،اور دادو نے اسی لئے پارٹی ارینج کی تھی،جس کا انتظام انکے لان میں کیا گیا تھا۔
دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مسکراتے ہوئے باہر نکلے تھے۔
دور سے دادو نے دونوں کو مسکرا کر دیکھا،جو ان ہی کی طرف بڑھ رہے تھے۔
وہ اسوقت چئیر پر بیٹھی تھیں،پاس ہی دو ماہ کا مومن کیری کاٹ میں لیٹا تھا۔انہوں نے دل ہی دل میں دعائیں پڑھ کر دونوں کے دائمی ساتھ کی دل سے دعا کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔