دو دن سے دادو کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی،مائشہ اس وقت بھی ان کے لئیے سوپ بنوا کے لائی تھی۔
جب ہی اشرف نے رانیہ اور انکی والدہ کے آنے کی خبر دی۔
“تم ان لوگوں کو ڈرائینگ روم میں بٹھاؤاور ناشتے کا بندوبست کرو میں آتی ہوں۔”
دادو نے اشرف کو ہدایت دی۔
“مائشہ بیٹا میری ٹانگوں میں بہت درد ہے،تم ذرا اشرف کے ساتھ تھوڑا انتظامات وغیرہ دیکھ لو۔متقین کی ساس اور منگیتر آئی ہے۔”
دادو نے مائشہ کو پچکارتے ہوئے کہا۔
“اچھا متقین کی انگیجمنٹ ہوگئی۔”
مائشہ نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں بس پچھلے ہی ماہ تو کی ہے۔”
دادو اسکو جواب دیتی کھڑی ہوگئیں۔آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ کر شال درست کرکے وہ باہر نکل گئیں۔
مائشہ بھی کچن کی طرف چل دی۔جس وقت اشرف کے ساتھ مائشہ روم میں داخل ہوئی تو متقین بھی آچکا تھا،اور وہاں بہت اچھے ماحول میں بات چیت جاری تھی۔وہ لوگ دادو کی طبعیت کا سن کر آئے تھے۔
“ارے تم نے کیوں زحمت کی۔اشرف کرلیتا نہ”۔
متقین نے مائشہ کو پلیٹ وغیرہ سرو کرتے دیکھ کرکہا۔
“اشرف ہی نے کیا ہے سب،میں تو بس اسکے ساتھ تھی۔”
مائشہ نے مسکرا کر پلیٹ رانیہ کی والدہ کی طرف بڑھائی۔
رانیہ کے لئے یہ منظر کچھ خوش کن نہیں تھا۔
“یہ کون ہیں؟؟ “
مائشہ کے غیر معمولی حسن اور مائشہ کے لئے متقین کی فکر کچھ رانیہ کی والدہ کو بھی نہ بھائی تھی۔اسلئیے انہوں نے دادو سے سوال کیا۔
“یہ متقین کے ماموں کی بیٹی ہیں۔”
دادو نے تعارف کروایا۔
“اچھا تو انگیجمنٹ پر کیوں نہیں تھیں یہ؟”
رانیہ کی والدہ نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں بس اس وقت کچھ مصروفیت کے باعث آ نہیں سکی تھیں۔آپ کا یہ ملتانی سوٹ ہے نہ؟بہت خوبصورت لگ رہا ہے۔”
دادو نے جلدی سے بات پلٹی۔
رانیہ کی والدہ انکو اپنے سوٹ کی تفصیل بتانے لگیں۔جب ہی متقین کے فون پر میسج آیا۔
“آپ کو مجھ سے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی،صاف بتا دیتے کہ یہ آپ کی کزن ہیں،مجھ سے کیوں بولا کہ یہ دوست کی بہن ہے؟”
میسج پڑھ کر متقین کا دماغ گھوم گیا۔
“مجھے آپ سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔مگر بہت سی باتیں وقت کی ضرورت ہوتی ہیں۔امید ہے آئندہ آپ ان باتوں کو سمجھیں گی۔”
میسج کرکے متقین روم سے ایکسکیوز کرکے اٹھ گیا۔رانیہ کو مائشہ کو دیکھ دیکھ کر غصہ آرہا تھا،اسکے پہلے جھگڑے کی وجہ یہ لڑکی بنی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دیکھیں گولیاں انکی ریڑھ کی ہڈی میں لگی تھیں۔جس نے ان کے دماغ کے بھی کچھ حصے کو متاثر کیا ہے۔ہم نے آپریشن کردیا ہے،مگر اب یہ ساری زندگی کے لئے اپاہج ہوگئے ہیں،یہ چل پھر نہیں سکتے ہیں،بہت ممکن ہے کہ انکو بولنے میں بھی دقت ہو،کچھ ٹیسٹ ابھی باقی ہیں،کوئی بھی حتمی جواب ہم آپکو سب ٹیسٹ ہوجانے کے بعد ہی دیں گے۔”
ڈاکٹر نے آپریشن تھیٹر سے باہر آکر خبر دی۔کوریڈور میں ایکدم سناٹا چھا گیا تھا۔سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیسا رہا سفر؟؟”
ٹرین سے اترتے ہی جنت کو رشید مل گیا تھا جو اس وقت اسکو لینے اسٹیشن آیا ہوا تھا۔
“ہاں اچھا رہا۔تو سنا اتنی جلدی میں بلایا مجھے۔”
جنت نے اسکو بیگ پکڑاتے ہوئے پوچھا۔
“گھر پہنچ پھر بتاتا ہوں۔”
رشید نے اسکا بیگ کندھے پر پہنتے ہوئے جواب دیا۔
“قسم سے رشید میں اتنا خوفزدہ تھی،شکر تونے پیسوں کا لالچ چھوڑ دیا۔میں نے رب کا لاکھ شکر ادا کیا۔”
جنت نے اس وقت بھی آسمان کو دیکھتے ہوئے شکر ادا کیا۔
“تجھ کو کس نے کہا کہ میں نے پیسے نہیں لئے۔”
رشید نے کنکھیوں سے جنت کو دیکھا۔
“کیونکہ اگر تونے پیسے لئے ہوتے تو تو خود گاؤں آتا مجھے یہاں نہیں بلواتا۔”
جنت نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے تفاخر سے اپنی ذہانت جتائی۔
رشید اس وقت زیشان صاحب کی گاڑی میں جنت کو لینے آیا ہوا تھا۔وہ اکثر ہی کام کے لئیے گھر کی گاڑی استعمال کر لیتا تھا۔زیشان صاحب کی طرف سے اسکو اجازت تھی۔
جنت اس ایمانداری والے ٹھاٹ بھاٹ میں ہی خوش تھی۔وہ زیادہ کی ہوس میں کبھی نہیں رہی تھی۔
باتوں کے بیچ دونوں گھر پہنچ گئے تھے۔جنت کو گھر اتار کر رشید ہاسپٹل کے لئے روانہ ہوگیا۔جہاں زیشان صاحب ایڈمٹ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں رات کے ایک بجے کا الارم لگا کر لیٹ گیا تھا،کہ اگر آنکھ لگ گئی تو کہیں مجھے پہنچنے میں دیر نہ ہوجائے۔ساتھ ساتھ ایک ڈر اور خوف بھی حواسوں پر طاری تھا۔کچھ تیری باتوں نے بھی مجھے تھوڑا سا ہلا دیا تھا۔مگر سب چیزوں کو پسِ پشت ڈال کر میں آنکھ بند کرکے لیٹ گیا کہ اب آر یا پار،یا تو آج میں پکڑا گیا تو زندگی ختم ہوجائے گی یا پھر زندگی سنور جائے گی۔دونوں ہی صورتوں میں میری زندگی بدلنے جارہی تھی۔”
رشید رات کے کھانے سے فارغ ہوکرجنت کو اس رات کا حال سنا رہا تھا۔
جنت ہمہ تن گوش ہوکر بیٹھی تھی۔
“جب میری آنکھ کھلی تو فجر کی اذانیں ہورہی تھیں۔میں اچھل کر بستر سے اٹھا،جلدی سے فون اٹھا کر جیدے کو کال ملائی ،مگر اسکا نمبر بند جارہا تھا،اور جس نمبر سے وہ زیشان صاحب کو کال کرتا تھا اس پر ملانا خطرے سے خالی نہیں تھا سو میں خاموشی سے گھر سے نکل کر پرانے اسکول پہنچا۔
میں نے سوچا جیدا بیگ اسکول کے اندر پھینک کر جاچکا ہوگا،اب بھی بیگ اندر ہی پڑا ہوگا۔
مگر دور ہی سے مجھے پولیس کی گاڑیاں اور ایمبولینس وغیرہ نظر آگئی۔میں سمجھ گیا کہ جیدا زخمی یا پکڑا گیا ہے،میں نے جلدی سے ہی وہاں سے نکلنے میں عافیت سمجھی۔
پہلے میں نے غائب ہونے کا سوچا مگر اس طرح میں شک کےدائرے میں آجاتا۔جب میں موقع واردات کے وقت تھا ہی نہیں،تو مجھے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے یہ سوچ کر میں گھر واپس آگیا۔
“صبح مجھے پتہ لگا کہ زیشان صاحب کو دو گولیاں لگی ہیں اور وہ ہاسپٹل میں ہیں۔میں بیگم صاحبہ کو لے کر ہاسپٹل پہنچا تو پتہ لگا انکا آپریشن چل رہا تھا۔
باقی جیدے کی کوئی خیر خبر نہیں تھی،اور یہ بات میں کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا۔انسپکٹر شہزاد بھی ہاسپٹل میں موجود تھا،اسکو دیکھ کر میری سٹی گم ہوگئی تھی،میں وہاں سے رفو چکر ہونے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے مجھ سے زیشان صاحب کی دوائیں لانے کو کہا۔انداز اسکا نارمل سا تھا،اسلئیے میری سانس میں سانس آئی۔
تھوڑی دیر بعد وہاں جیدے کی ڈیڈ باڈی لائی گئی۔وہ بھی آپریشن کے لئے اندر لے جایا گیا تھا،مگر زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ چکا تھا،گولی اسکے دل کے پاس لگی تھی۔پولیس اسکا بیان نوٹ کرنے کے انتظار میں باہر بیٹھی تھی۔
لوگوں نے اس کو بلیک میلینگ کے بجائے عام لوٹ مار کی واردات کا رنگ دیا تھا،کیونکہ بلیک میلنگ کی صورت میں وہ خود بھی دائرہ تفتیش میں آتے۔”
رشید نے لمبی سانس کھینچ کر بات ختم کی۔
جنت جو اب تک خاموش بیٹھی تھی،ایکدم جھرجھری لے کر بولی۔
“میرے رب سوہنے نے میری اس دن دعا سن لی۔اس نے تجھ کو بچالیا۔میں نے اس رات بہت رو رو کر دعا مانگی تھی کہ تجھ پرکوئی آنچ نہ آئے۔”
جنت کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو چمکنے لگے تھے۔
“ہاں اس دن میرا الارم پر نہ اٹھنا اور وہاں موجود نہ ہونا،کسی معجزے کی طرح میں اس سب سے بچ گیا۔تیری نیکی میری آڑے آگئ ورنہ اس روز جیدے کے ساتھ میں بھی مارا جاتا۔”
رشید نے تشکر سے جنت کو دیکھا۔
“میرا رب بڑا رحیم ہے،اس نے مجھ پر بہت کرم کیا ہے۔”
جنت فوراً ہی سجدہ شکر کرنے اٹھ کھڑی ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اب مجھے سمجھ آیا کہ اس دن تمہاری آنکھوں میں آنسو مجھے بے چین کیوں کرگئے تھے۔”
وہ لوگ اسوقت شام کی چائے لان میں بیٹھے پی رہے تھے۔جب متقین نے مائشہ کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
“کیوں”؟؟
مائشہ نے استہفامیہ نظروں نے دیکھا۔
“کیونکہ تمہاری آنکھیں بلکل میری ماما جیسی ہیں۔”
متقین نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
“ہممم م۔۔۔ویسے گھر پر بھی سب مجھ کو یہی کہتے تھے کہ میں پھپھو جیسی دکھتی ہوں۔”
مائشہ نے بلش ہوتے ہوئے کہا۔
“ویسے تمہارا آگے کیا اردہ ہے؟میرے خیال سے تم لیگل ایکشن لو کہ تمہاری جان کو خطرہ ہے اور شادی کے معاملے میں بھی تمہارے ساتھ کوئی زبردستی نہ کی جائے۔ایسے کب تک گھر سے دور رہو گی؟”
متقین نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔
“جی کہہ تو آپ صحیع رہےہیں ،مگر مجھے گھر جانے سے بہت ڈر لگ رہا کے،مجھے اس گھر سے وحشت ہورہی ہے۔میرا دم گھٹتا ہے اس ماحول میں۔”
مائشہ نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا۔
“ہاں بٹ تم کب تک ایسے ادھر ادھر رہو گی۔تمہارا گھر ہے وہ،تم کو واپس جانا چاہیے۔
تم کہو تو میرے ایک دو دوست لائیر ہیں میں ان سے بات کروں؟اور یہ بلکل نہیں سمجھنا کہ مجھے تمہارے یہاں رہنے سے کوئی پرابلم ہے،تم جب تک چاہو شوق سے رہو،مگر کسی کے ڈر سے چھپ کر لائف نہ گزارو۔سمجھ رہی ہو نہ میری بات؟؟
اور ویسے بھی میں پہلی بار جس مائشہ سے ملا تھا،وہ بہت نڈر تھی،ان فیکٹ میرا سر پھوٹتے پھوٹتے بچا تھا۔”
متقین نے شرارت سے کہا۔
“آپ مجھے شرمندہ کررے ہیں،وہ تو میں نے آپکو کڈنیپر سمجھا تھا۔”
مائشہ نے تھوڑا جھینپتے ہوئے کہا۔
“ارے نہیں بلکل بھی نہیں میں شرمندہ نہیں کررہا،بلکہ تم کو تمہاری ہمت اور طاقت کے بارے میں بتا رہا ہوں۔”
“ہمم م م۔۔کہہ تو آپ صحیع رہے ہیں مگرمجھے لگتا ہے ان کچھ دنوں میں میں بلکل بدل گئی ہوں۔”
مائشہ نے افسردگی سے کہا۔
“سنولڑکی! مایوسی کفر ہوتی ہے،تم ایک باہمت لڑکی ہو،اپنے حق کے لئے آواز اٹھاؤ۔کسی سے ڈر یا دب کے مت رہنا،اور میری طرف سےجس قسم کی بھی مدد درکار ہوگی میں حاضر ہوں۔”
متقین نے سینے ہر ہاتھ رکھتے ہوئے یقین دہانی کروائی۔
“تھنکس آ لوٹ فور ایوری تھنگ۔”
مائشہ تہہ دل سے اسکی شکر گزار تھی۔
“اچھا ایک بات بتائیے؟مجھے نہیں پتہ آپ سے یہ بات کرنی چاہئیے یا نہیں ،مگر مجھے لگا شاید پوچھنا زیادہ بہتر ہے۔”
مائشہ تھوڑی پریشان لگ رہی تھی۔
“ہاں ہاں پوچھو،جو بھی بات ہے،اتنا سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
متقین نے بہت ہی دوستانہ انداز میں اسکی ہمت بندھائی۔
“مجھے یہ پوچھنا تھا کہ آپ نے اپنی فیانسی کو میرے بارے میں کیا بتایا ہے،وہ پہلے تو پورے ٹائم اس دن مجھے گھورتی رہی،مجھے لگا میرا وہم ہے،بٹ جاتے ٹائم جب دادو آنٹی سے مل رہی تھیں تو مجھ سے کہتی ہوئی گئی
تھی،کہ ڈونٹ بی ٹو اسمارٹ ،آئی ول سی یو۔”
میں جب سے یہی سوچ رہی ہوں کہ آخر اس کو مجھ سے کیا پرابلم ہوسکتی ہے۔
آپ اسکو کلئیر میرے بارے میں بتادیں،میں چند دن میں واپس چلی جاؤں گی۔میں آپکی پرسنل لائف بلکل بھی ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی۔
مائشہ نے اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔
“دراصل وہ شاید کسی وجہ سےان سیکیور ہے،مجھے اس سے بات کرنی پڑے گی۔تم پریشان نہ ہو،اور بھول جاؤ اس نے کیا کہا۔وہ تھوڑی پوزیسیو ہے میرے لئے شاید”
متقین نے ہلکے پھلکے انداز میں بات ختم کی۔
“اوکے مغرب ہونے والی ہے،اندر چلتے ہیں۔”
متقین نے چائے کی ٹرے اٹھاتے ہوئے کہا۔مائشہ بھی اسکے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اسلام وعلیکم،”
متقین بات کررہا ہوں۔
“وعلیکم اسلام جی،کیسے ہیں؟
آپ نے کیسے کال کرلی؟”
رانیہ نے تھوڑا طنز سے سوال کیا۔
“دیکھو رانیہ مجھے بلکل اندازہ نہیں ہے،تم کو پرابلم کس چیز سے ہے۔
میں نے یہی ڈسکس کرنے کےلئے تم کوکال کی ہے۔اگر تم کو میری کوئی بھی بات بری لگی ہے تو تم مجھ سے بات کرو،تم نے مائشہ سے بھی اس دن روڈلی بات کی۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ میں نے تم کو اس سے دوست کی بہن کہہ کر تعارف کروایا تھا تو وہ ہمارے کچھ پرسنل میٹرز ہیں،وقت آنے پر میں تم کو سب کلئیر کردوںگا۔
فی الحال تم کو اسکے علاوہ کوئی ایشو ہے تو مجھ سے ڈسکس کرو۔میں تمہارے ہر سوال کا جواب دونگا۔”
متقین نے بہت تحمل سے اپنی بات مکمل کی۔
“ مطلب انگیجمنٹ آپ کی مجھ سے ہوئی ہے اور پرسنل میٹرز اپنی کزن کے ساتھ ڈسکس کرتے ہیں۔”
رانیہ نے طنزاً کہا۔
“رانیہ یہ تم کس قسم سے بات کررہی ہو۔؟؟”میں تم سے کہہ رہا ہوں وہ بات میں تم کو آرام سے بعد میں سمجھاؤں گا ،ابھی وہ ایک غیر ضروری بات ہے تمہارے لئیے۔”
متقین کو بھی اب غصہ آگیا تھا۔
“دیکھیں متقین مجھے وہ لڑکی پہلے دن ہی پسند نہیں آئی تھی،اور پھر آپکا اوراسکا تعلق بھی ایک مسٹری ہی ہے اب تک میرے لئے۔
تیسری بات وہ آپ کے لئیے اتنی اہم ہے کہ اس کے لئیے آج آپ کو مجھ سے بات کرنے کا خیال آگیا،ورنہ اتنے دنوں میں تو کبھی آپ نے مجھ سے بات نہیں کی۔”
رانیہ نے افسوس سے سر ہلایا۔آئی ایم فیلنگ لائیک آ تھرڈ پرسن بٹوین یو ٹو۔”
“ رانیہ یہ تم بن بات کا بتنگڑ بنا رہی ہو۔میرے اور مائشہ کے بیچ صرف ایک اچھی دوستی ہے اور وہ بھی کوئی بہت پرانی نہیں،یا یہ کہ وہ میری کزن ہے اسکے علاوہ ہم دونوں کا کوئی ریلیشن نہیں۔
جہاں تک تم سے بات نہ کرنے کا تعلق ہے تو تم جانتی ہو میری جاب کیسی ہے میں کتنا بزی رہتا ہوں۔میرا شیڈول بہت ٹف ہوتا ہے۔میں روز نو عمر لڑکوں کی طرح تم کو لمبی لمبی کالز نہیں کرسکتا ہوں۔”
متقین نے ضبط سے جواب دیا۔
“تو پھر آپ کو منگنی نہیں کرنی چاہیے تھی۔بات فون کالز کی نہیں بات احساس کی ہوتی ہے جو آپکو صرف مائشہ کا ہے۔
اور میں نے آپ سے پہلے دن ہی پوچھ لیا تھا کہ اگر آپ کسی میں انٹرسٹڈ ہیں تو بتا دیں۔
رانیہ کی تان گھوم پھر کر مائشہ پر ہی آکر ٹوٹ رہی تھی۔
“ارے تو میں کسی میں انٹرسٹد ہی نہیں ہوں تو کیسے بول دوں۔اور تم شادی کے لئے اچھے سے سوچ لو کیونکہ میں ایسا ہی ہوں ،اگر تم کو ابھی مجھ سے ایشوز ہیں۔”
متقین کی بات ابھی بیچ میں ہی تھی کہ دوسری طرف سے فون کاٹ دیا گیا۔
متقین نے بے بسی سے کندھے اچکا کر فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا ۔دادو نے مجھے کہاں پھنسا دیا ہے،بڑبڑاتے ہوئے اس نے فائل اٹھائی اور اسٹڈی کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بے بے تیری دعائیں رنگ لے آئیں،میں بہت خوش ہوں، میرے رب نے میری مراد سن لی۔”
جنت اس وقت بے بے سے بات کر رہی تھی۔
ویسے تو یہ بے بے کا بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کا وقت ہوتا تھا۔مگر اس وقت جنت کو ٹائم ملا تو اس نے بے بے کو کال ملا لی تھی۔
ہاں” میری دھی رانی،وہ سب کی سنتا ہے،ہم ہی ہیں جو اسکو بھول جاتے ہیں وہ تو ہم کو ہر وقت یاد رکھتا ہے،اور بھولے بھٹکے جب اس کے در پر مانگنے جاتے ہیں تو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔
سچے دل سے مانگی ہر جائز دعا قبول کرتا ہے،نہ بھی کرے تو اس سے زیادہ بہتر عطا کرتا ہے جوہم نے مانگا ہو۔
دعا میں توجہ ، یقین، اخلاص ہو تو دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔اللہ پاک غافل دِل کی دُعا قبول نہیں فرماتے۔“
اور قرآن مجید میں ہے: ”کون ہے جو قبول کرتا ہے بے قرار کی دُعا، جبکہ اس کو پکارے۔“
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دُعا کی قبولیت کے لئے اصل چیز پکارنے والے کی بے قراری کی کیفیت ہے۔
اور تم جس لو اور لگن سے اس رب سے مانگ رہی تھیں تو کیسے وہ نہ تم کو نوازتا۔
بے بے نے مسکرا کر بات ختم کی۔
“ہاں بے بے تیری ان ہی باتوں سے تو مجھے سکون ملتا ہے اور اپنے رب پر یقین مضبوط سے مضبوط تر ہوتا ہے۔
“بس اب تو چند دن کے لئے میرے پاس یہاں شہر آجا۔کب سے ٹال رہی ہے”۔
جنت نے روٹھتے ہوئے کہا۔
“چل جھلی،تو ابھی تو گئی ہے میرے پاس سے،ویسے بھی بچوں کا قرآن پاک کا ناغہ ہوجائے گا ،تو ہی چکر لگا لینا”۔
“اچھا چل بچے انتظار کر رہے ہیں میں بعد میں بات کرتی ہوں۔”
بے نے اللہ حافظ کرکے کال منقطع کی۔
جنت بھی پرسکون سی رات کا سالن بنانے کھڑی ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔