کندھے پر بیگ پیک ،ہاتھ میں ہینڈ کیری لئے ،سر پر جیکٹ کا ہڈی گراۓ وہ دبے قدموں سے کچن کے عقبی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی،جو لان سے گھوم کر باہر کی طرف نکلتا تھا۔اس وقت گھر کا ہر ذی روح خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا،سواۓ اسکے جو رات کے گہرے ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔اور اب موقع غنیمت جان کر خاموشی سے گھر سے نکل رہی تھی۔آہستہ سے دروازہ بند کرتے وقت مڑ کر نمناک آنکھوں سے ایک الوداعی نظر گھر کو دیکھا،اور آستینوں سے آنسو پونچھتے ہوئےکبھی نہ واپس آنے کا مصمم ارادہ لئے دہلیز پار گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فبایء آلاء ربکما تکذبن،قاری باسط کی خوبصورت آواز سے پورا لاؤنج گونج رہا تھا۔اور دادو ہاتھ میں تسبیح پکڑےاپنی آرام کرسی پر آنکھیں موندے نیم دراز تھیں۔متقین نے انکو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ اپنی کیپ اتاری اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا.آہٹ پر دادو نے آنکھیں کھولیں،اور متقین کو سامنے پاکر ایک آسودہ سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر آگئی.انہوں نے قرآن پین ریڈر کو پاز کیا،یہ ڈیجیٹل قرآن پین ریڈر متقین نے انکو پچھلے سال انکی سالگرہ پر دیا تھا،اور اب تک کے دئے جانے والے تحفوں میں دادو کا سب کا پسندیدہ تحفہ تھا۔متقین نے آگے جھک کر انکو سلام کیا۔اسلام و علیکم دادو کیسی ہیں؟وعلیکم اسلام،جیتے رہو،خوش رہو،انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔تو آج چھ مہینے بعد تم کو میری خیریت کا خیال آگیا۔؟؟دادو نے ہلکا سا شکوہ کیا۔دادو جاب ہی ایسی ہے میری،آپکو ہی شوق تھا مجھے آرمی میں بھیجنے کا،متقین نے بھی جوابی شکوہ کیا۔یہ شکوہ اور جوابی شکوہ اسکی گھر سے ہر لمبی غیر حاضری کے بعد دونوں دادو پوتے کے بیچ ہوتا تھا۔ہا ہ ہ ۔۔بس یہ تو تمھارے بابا کے شوق کو پورا کرنے کی کوشش تھی۔زندگی نے اسکو مہلت نہیں دی تومیں نے اسکا ایک ادھورا خواب پورا کیا بس۔دادو نے نمناک لہجے میں کہہ کر ایک لمبی سانس بھری۔متقین بس گردن ہلا کے چپ ہوگیا۔اچھا چلو تم شاور لے کر فریش ہو جاؤ،میں ناشتہ لگواتی ہوں۔دادو نے کرسی کا ہتہ پکڑ کر اٹھتے ہوۓ کہا۔نہیں دادو میں چھٹیوں پر نہیں آیا ہوں،بس کراچی میں کچھ کام تھا تو سوچا آپ سے ملتا چلوں،اگلے ہفتے چھٹی ہوگی تو آونگا۔دادو جو اٹھ کر ناشتہ کا کہنے جا رہی تھیں،افسردہ سی ہو کے بیٹھ گئیں۔دادو بس اگلے ہفتے آرہا ہوں،اور دو مہینے بعد میری پوسٹنگ کراچی ہی ہونے والی ہے،متقین نے انکو گلے لگاتے ہوۓ کہا۔دادو اسکی کراچی پوسٹنگ سن کے کافی خوش ہوگئی تھیں۔چلو فی امان اللہ،انہوں نے اسکے ماتھے سے بال ہٹا کے پیار کیا اور ڈھیروں دعائیں دے کر رخصت کیا۔متقین لاؤنج سے نکل کر لان اور پھر داخلی دروازہ بھی عبور کرگیا جب تک دادو اس پر دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکتیں رہیں،اور نظروں نظروں میں اسکی بلائیں لیتی رہیں، اسکی چوڑی پشت ،دراز قد،اور کسرتی جسم،انکو وہ ہو بہو اپنے بچھڑے ہوۓ بیٹے کی یاد دلاتا تھا۔متقین کو بھی پتہ تھا دادو اب تک گلاس ڈور میں کھڑی اس پر دعائیں پھونک رہی ہونگی،اس نے مڑ کے انکو ہاتھ ہلا کے اللہ حافظ کہا،اور جیپ میں سوار ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔
زروا،زمل چلو اٹھو ،اسکول وین آنے والی ہے۔انعم نے دونوں کے بلینکٹ کھینچے۔کیا ہے مما،ابھی بہت ٹائم ہے،زروا نے دوبارہ منہ تک بلینکٹ لیااور کروٹ لے کر لیٹ گئی۔زمل بستر سے اتر کے منہ دھونے چلی گئی۔مما زروا آپی ابھی تک نہیں اٹھی،زمل نے ٹیبل پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔انعم نے جو دودھ گلاس میں نکال رہی تھی،زور سے زروا کو آواز دی،زروا اگر پانچ منٹ میں تم ٹیبل پر نہ ہوئیں تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا۔آپ سے برا کوئ ہے بھی نہیں،زروا نے بڑ بڑاتے ہوۓ بلینکٹ پھینکا اور واش روم میں گھس گئی۔کیا ہے زروا روز ایک ہی بات،رات کو تم آئ پیڈ نہیں چھوڑتی ہو اور صبح آنکھ نہیں کھلتی ہے تمھاری،انعم نے غصے سے زروا کو دیکھ کر کہا۔mamma can you please stop shouting atleast in the morning..(مما کیا آپ کم ازکم صبح صبح چیخنا بند کر سکتی ہیں)۔زروا نے انتہائ نا گواریت سے کہا۔انعم حیرانگی سے اسکا منہ دیکھنے لگی۔زروا آجکل بہت بد تمیز ہوتی جارہی تھی،اور کیوں ؟وجہ وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔اسکے برعکس زمل ایک سلجھی ہوئ،سیدھی اور فرمانبردار بچی تھی۔زمل اور زروا میں پانچ سال کا فرق تھا،مگر زمل چھوٹی ہونے کے باوجود زیادہ سمجھدار تھی۔وہ ماں کا خیال بھی کرتی تھی اور عزت بھی۔ جب کے گھر میں ہر فرمائش پہلےزروا کی پوری ہوتی تھی۔پھر اسکے رویہ کی یہ وجہ انعم کی سمجھ سے بالاتر تھی۔وہ 9thکلاس میں آگئی تھی۔پڑھائی میں اسکا انٹرسٹ زیادہ نہیں بچا تھا۔جب کہ پہلے وہ پوزشن ہولڈر تھی،مگر اب بس ایک ایوریج اسٹوڈنٹ رہ گئی تھی۔اسکی ساری توجہ اپنی ڈریسنگ،اور سوشل ویب سائٹس پر تھیں۔وہ خوبصورتی میں اپنی پاپا پر گئی تھی۔لمبا قد،گوری دمکتی رنگت،ریشمی کالے بال،اور غزالی آنکھیں۔اگرچہ انعم بھی جازب نظر تھی،مگر زروا کے سارے نین نقش اپنے پاپا کی کاپی تھے۔اور اپنی خوبصورتی کا اسکو اچھے سے اندازہ بھی تھا۔وہ اس بات پر بہت فخر محسوس کرتی تھی کہ وہ اپنے سرکل میں سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔زمل نے انعم کے نین نقش چراۓ تھے۔وہ بھی ایک پر کشش بچی تھی،مگر زروا کے آگے اسکی شخصیت دب جاتی تھی۔زروا فاران کی زیادہ لاڈلی بھی تھی،اور اس بات کا بھی اسکو خوب اندازہ تھا۔زمل کی پیدائش پر فاران باہر چلا گیا تھا،اسلئے نہ زمل فاران سے زیادہ اٹیچ ہوئی،اور فاران کی بھی زیادہ توجہ زروا کو ہی حاصل رہی۔
۔۔۔۔
انعم زروا کی صبح والی حرکت کے بعد سے بہت پریشان تھی،اور اسی لئے بچوں کے اسکول جاتے ہی اسنے فاران کوskype پر سعودیہ کال ملالی تھی،اس وقت فاران سو کر اٹھا تھا،اس نے گرے ٹریک ٹراؤزر پر وی گلے کی ہاف سلیوزبلیک ٹی شرٹ پہنی ہوئ تھی۔بال بکھرے ہوۓ تھے،اور آنکھوں میں نیند کا خمار تھا،اس نے جمائ روکتے ہوۓ کچن کا رخ کیا۔اسکو “بیڈ ٹی” خود بیڈ سے اتر کر بنانی پڑتی تھی۔کال ریسیو کرکے موبائیل سامنےکچن کاؤنٹر پر سیٹ کیا،اور چاۓ بنانے کے لئے الیکٹر ک کیٹل میں پانی ڈال کر آن کیا۔اسلام و علیکم کیسی ہو انو؟فاران نے کپ دھوتے ہوۓ پوچھا۔وعلیکم اسلام،تم ابھی اٹھےہو؟ انعم نے اسکی نیند سے بھری آنکھوں سے اندازہ لگایا۔ہاں یار بس اٹھ ہی رہا تھا جب کال آئی تمھاری۔فاران نے جمائی روکتے ہوئے کہا۔اچھا طبعیت تو ٹھیک ہے،اس وقت تو تم تیار ہوچکے ہوتے ہو،انعم نے تشویش سے پوچھا۔ہاں سب سیٹ بس آج تھوڑا لیٹ جانا تھا،رات کافی دیر تک کام کیا ہے۔تم سناؤ،کچھ پریشان لگ رہی ہو؟فاران نے اسکا موڈ بھانپتے ہوۓ پوچھا۔ہاں فاران میں زروا کو لیکر بہت پریشان ہوں،میں نے لاسٹ ویک بھی بتایا تھا تم کو ،وہ بہت مس بی ہیو کرنے لگی ہے،مجھ سے نہیں ہوتا سب اکیلے یہاں،تم خود تو باہر جاکر بیٹھ گئے ہو،انعم نے نروٹھے پن سے کہا،انو تم جلدی سے پریشان ہوجاتی ہو،زروا بڑی ہورہی ہے،بچوں کے موڈ سوئنگز آتے ہیں اس عمر میں،تم پریشان نہ ہو،میں زروا سے ویک اینڈ پر بات کرتا ہوں۔اور ڈئیر میں تم لوگ کے لئے ہی تو یہاں اکیلا بیٹھا ہوں،بچوں کے لئے دونوں کو ہی قربانی دینی ہوگی۔فاران نے الیکٹرک کیٹل کا سوئچ آف کرکے پانی کپ میں انڈیلتے ہوۓ کہا۔ٹی بیگ اور ٹی واہیٹنر ڈال کر وہ کپ اٹھا کر کچن کاؤنٹر کے ساتھ رکھے اسٹول پر ہی بیٹھ گیا،موبائیل اس نے ہاتھ میں لے لیا تھا،اور اب چائے کے سپس کے ساتھ انعم سے ادھر ادھر کی ہلکی پھلکی باتیں کرکے اسکو بہلا رہا تھا،اسکو پتہ تھا،انعم جلدی پریشان ہوجاتی ہے،مگر اسکو بہلانا بھی زیادہ مشکل کام نہ تھا۔اچھا ایسا کرو آج تم زروا اور زمل کو لے کر شاپنگ پر چلی جاؤ،دونوں کافی دن سے آؤٹنگ پر بھی نہیں گئی ہیں اور تمھارا بھی مائنڈ تھوڑا فریش ہوگا۔فاران نے انعم کو بہلانے کی کوشش کی ،اور اس میں کامیاب بھی ہوگیا۔اچھا چلو میں اب شاور لینے جارہا ہوں،آفس سے لیٹ ہو جاؤنگا،فاران نے وال کلاک پر نظر دوڑاتے ہوۓ کہا۔چلیں ٹھیک ہے،پھر میں رات کو تھوڑا دیر سے کال کروں گی آپکو،پتہ نہیں کتنی دیر میں واپسی ہو،انعم نے فوراً شاپنگ کے پلان کو عملی جامہ پہناننے کا سوچا۔اوکے ڈئیر باۓ۔فاران نے مسکراتے ہوۓ کال ڈسکنکٹ کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے اس پہر موسم کے تیورکچھ خطرناک لگتے تھے،گو کہ بارش تو ابھی ہلکی تھی،مگر کالے بادلوں سے آسمان ڈھکا ہوا تھا،سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھا،ہر کوئ بارش کے تیز ہونے اور اندھیرا ہونے سے پہلے گھر پہنچنا چاہتا تھا۔اور اس خطرناک موسم میں وہ اکیلی ہی مری کے مال روڈ پر چہل قدمی کرنے نکل گئی تھی۔وہ یونیورسٹی کے گروپ کے ساتھ پاکستان ٹور پر نکلی ہوئی تھی،مگر اس موسم میں کسی کی بھی ہمت باہر نکلنے نہیں ہو رہی تھی،اسلیئے اس نے اکیلے ہی نکلنے کی ٹھاں لی تھی،اور اب کیمرہ سنبھالے کشمیر پوائنٹ کے حسن کو دھڑا دھڑ کیمرے میں قید کر رہی تھی۔یہاں پر اس وقت اکا دکا لوگ ہی تھے،موسم کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم نہیں تھا۔وہ تصاویر اتارتے اتنی مگن تھی کہ اسکو شام کےآہستہ آہستہ گہرے ہونے کا اندازہ نہیں ہوا،اور جب ادارک ہوا تو اس کے قدموں نے تیزی سے واپسی کا سفر شروع کیا۔بارش نے بھی تیزی پکڑ لی تھی،جس کے باعث پھسلن بڑھ گئی تھی،اسلئے وہ زیادہ تیز چل بھی نہیں پا رہی تھی، ویسے تو ہوٹل سے مال روڈ زیادہ دور نہیں تھا،مگر وہ چلتے چلتے کافی آگے نکل آئئ تھی۔آہستہ آہستہ اندھیرا بڑھنے لگا تھا،اور اب اسکو صحیع معنوں میں اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا۔اس نے موبائیل نکال کر اپنے دوستوں کو کال کرنے کی کوشش کی،مگر شاید موسم کی وجہ سے سگنل بھی نہیں آرہے تھے۔جیکٹ کی جیب میں ہاتھ گھساۓ وہ تیز تیز چل رہی تھی،جب اسکو اپنے پیچھے کسی کی آہٹ کا احساس ہوا۔اس نے مڑ کر دیکھا تو دو مقامی آدمی اس کے پیچھے چل رہے تھے،اس نے قدموں کی رفتار تیز کردی،تو انکی رفتار میں بھی تیزی آگئی۔مال روڈ جہاں نشیب میں جاتی تھی،وہاں اسکا پاؤں تھوڑا غیر متوازن ہوا وہ اپنے آپکو بیلنس نہ کر پائی،اور سڑک کے دوسری جانب گرتی گئی۔دونوں آدمیوں میں سے ایک نے تیزی سے اسکو پکڑ کر اٹھایا اور اپنے ساتھ گھسٹنے لگا۔دوسرے نے اسکا بیگ جلدی سے اپنے قبضے میں کیا۔آس پاس سب سنسان پڑا تھا،اس نے مزاحمت کی،مگر وہ دونوں مضبوط جثے کے تھے۔وہ انکی گرفت سے نہیں نکل سکتی تھی۔اس نے شور مچانے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ پیچھے سے اسکی گردن پر دباؤ بڑھا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش کی تڑتڑاہٹ اور بادلوں کی گھن گرج سے اسکی آنکھ کھلی۔تھوڑی دیر تو وہ چھت کو گھورتی رہی۔پھر اچانک اسکی حسیات بیدار ہوئیں،وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔اسکا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔گزشتہ شام کا منظر ایک فلم کی طرح اسکے ذہن کے پردے پر چلنے لگا۔اس نے جلدی سے اپنا جائزہ لیا،وہ بلکل صحیع و سلامت تھی۔سامنے ہی ٹیبل پر پانی کا جگ تھا،اسکا حلق خشک ہورہا تھا،اسنے جگ سے گلاس میں پانی نکال کر تیز تیز حلق سے اتارا۔کچھ سکون آیا تو ارد گرد نظر دوڑائی۔وہ ایک چھوٹا مگر صاف ستھرا کمرا تھا۔ایک بیڈ،ایک رائٹنگ ٹیبل،اور ایک الماری تھی،سامنے دیوار پر ایک چھوٹا دیوار گیر آئینہ لگا تھا۔کھڑکی پر پردے ڈھکے تھے،جس سے باہر کا منظر نظر نہیں آتا تھا،مگر بارش کی آواز سے ظاہر تھا کہ وہ کھڑکی روڈ کی طرف کھلتی تھی۔کمرے کا دروازہ بند تھا،اس نے جاکے ناب گھمایا تو وہ ان لاک تھا،وہ جلدی سے باہر نکلی،وہ کمرہ ایک لاؤنج میں کھلتا تھا،سامنے ٹی وی پر نیوز چینل چل رہا تھا،اور کوئی صوفے پر نیم دراز تھا۔اس نے قریب سے ایک گلدان اٹھایا اور خاموشی سے دبے پاؤں آگے بڑھنے لگی،جب ہی صوفے میں جنبش ہوئی،اور بیٹھے ہوۓ شخص نے گردن گھما کر دیکھا۔اس کے قدم وہیں جکڑ گئے۔کون ہو تم؟؟سامنے بیٹھے ہوۓ شخص سے اس نے استفسار کیا۔گو کہ دل اسکا زور زور سے دھڑک رہا تھا،مگر لہجے کو اس نے مضبوط رکھا۔بی بی آپ کون ہیں؟؟یہی سوال مجھے آپ سے پوچھنا تھا۔سامنے بیٹھا شخص اب دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا ہوگیا تھا۔اس نے چیکرڈ ٹراؤزر اور پولو شرٹ پہنی ہوئی تھی۔چھ فٹ سے نکلتا قد،کسرتی بازو جو ٹی شرٹ کی ہاف سلیوز سے جھلک رہے تھے،ہلکی بڑھی شیو،گندمی رنگت اور اسکا تیکھا انداز۔وہ ایک لمحے کو خائف ہوگئی۔مگر اگلے ہی لمحے اس فسوں سے نکل کر پھر تیز لہجے میں گویا ہوئی،دیکھو،تم مجھے سیدھے سے بتادو کہ تم کون ہو؟اور مجھے یہاں کیوں قید کیا ہوا ہے؟؟تم شوق سے جا سکتی ہو،مجھے تم کو اپنے سر پر سوار کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے،ایک تو تمھاری جان بچائی الٹے میرے ہی گلے پڑ رہی ہو،اب کی بار متقین نے ذرا درشت لہجے میں کہا۔اوہ سوری،وہ۔۔میں۔۔دراصل میں اپنی دوستوں کے ساتھ ٹور پر نکلی ہوئی تھی،آج موسم کی وجہ سے کوئی نہیں نکلا تو میں اکیلے ہی نکل گئی،واپسی پر دیر ہوگئی اور بس وہ لوگ میرے پیچھے لگ گئے،تھنکس آپ نے مجھے بچایا،ورنہ،،اس نے سوچ کے ہی جھر جھری لی۔بولتے بولتے وہ صوفے پر آکر بیٹھ گئی،جہاں سے متقین اٹھا تھا،ہوں،،،متقین نے ہنکارا بھرا،اور اسکے ہاتھ سے گلدان لے کر ٹیبل پر رکھا۔وہ کچھ خجل سی ہوگئی۔تمھارا نام کیا ہے؟اور کس ہوٹل میں ٹہری ہو؟؟متقین نے اس سے تفتیش شروع کردی۔میں مائشہ ہوں،پیار سے سب مشی کہتے ہیں،اور ہم ہوٹل ون میں ٹہرے ہیں۔اس نے بہت ہی دوستانہ لہجے میں بتایا۔آئی ایم میجر متقین۔متقین اب سامنے کاؤچ پر بیٹھ چکا تھا۔میں اپنے دوست کے ساتھ کسی کام کے سلسلے میں نکلا تھا،موسم خراب تھا اسلئے ہم لوگ واپس آرہے تھے ،جب میں نے آپکو ان لوگوں سے مزاحمت کرتے دیکھا۔مجھے دیکھتے ہی وہ دونوں رفو چکر ہوگئے ۔آپ بے ہوش ہوگئی تھیں اور اس وقت مجھے اپنے گھر سے سیف کوئی جگہ نہیں لگی تو میں آپکو یہیں لے آیا۔متقین دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملاے اسکو غور سے دیکھتا ساری روداد سنا رہا تھا۔مائشہ خاموشی سے سن رہی تھی۔ونس اگین تھینکس ،اللہ تعالیٰ نے آپکو فرشتہ بنا کے بھیجا،اینڈ سوری فار مئی مس بی ہیوئیر۔مائشہ نے اپنے سلکی براؤن بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑستے ہوۓ کہا۔وہ بیس بائیس برس کی دبلی پتلی،صاف رنگت اور براؤن بادامی آنکھوں والی ایک خوبصورت لڑکی تھی۔اوکے میں واپس چلتی ہوں اپنے ہوٹل،اس نے جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہوتے ہوۓ کہا، نہیں،ابھی بہت رات اور بارش ہورہی ہے،میں صبح آپکو آپ کے ہوٹل ڈراپ کردونگا آپ آرام سے سوجائیں۔ویسے بھی آپ اس وقت راولپنڈی میں ہیں۔متقین نے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔اوہ،میرے دوست پریشان ہورہے ہونگے،کیا میں آپکے موبائیل سے انکو کال کر سکتی ہوں؟جی آپکا موبائیل میں نے آپکے بیگ میں رکھ دیا تھا۔سوری فار سیکورٹی پرپز میں اپنا موبائیل آپکو نہیں دے سکتا۔متقین نے بے رخی سے کہتے ہوۓ کچن کا رخ کیا۔مائشہ ایکدم خفت کا شکار ہوگئئ،جی جی میں اپنے سے ہی کر لوں گی۔مجھے لگا میرا موبائیل وہ لوگ بیگ کے ساتھ ہی لے گئے ہیں۔مائشہ بی بی جب میں آپکو یہاں تک لے آیا تو کیا آپکا بیگ لانا مشکل کام تھا،متقین نے پلٹ کر آئی برو اچکائی۔مائشہ ایکدم سٹپٹا گئی،جی تھینکس ،کہہ کر وہ جلدی سے اٹھ کر بیڈ روم میں آگئی۔کھڑوس آدمی،آرمی والے کوئی ایسے ہوتے ہیں،ہونہہ ،کہتے ہوۓ اس نے بیگ ٹٹول کر موبائیل نکالا،شکر بیٹری ڈیڈ نہیں تھی۔،دوستوں کو اپنی خیریت کی خبر دے کر وہ سونے کے لئے لیٹ گئی۔مگر اسکی نیند اڑ چکی تھی،اور سر اب تک درد سے پھٹا جارہا تھا،شام سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا،پیٹ میں گرہیں پڑ رہی تھیں،کیا کروں ،اس نے انگوٹھے کا ناخن دانتوں سے چباتے ہوۓ سوچا۔دروازہ کھول کر باہر جھانکا تو وہ نظر نہیں آیا۔وہ دبے قدموں باہر نکلی،جب ہی وہ سامنے سے اچانک آتے ہوۓ اس سے ٹکرا گیا۔افف۔۔مائشہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔متقین نے ہاتھ میں پکڑا سامان نیچے رکھا،اور جھک کر اسکو دیکھنے لگا،آر یو آل رائٹ؟ہاں بس وہ ٹرے کا کونہ لگ گیا۔یہ میں تمھارے لئے ہی کھانا لینے گیا تھا، غفور چاچا اس وقت سو رہے ہیں ،ورنہ وہ نکال دیتے۔متقین نے اپنے کل وقتی ملازم کا نام لیا۔تم نے کچھ کھایا نہیں ہوگا ،یہ کھا لو۔متقین نے ٹرے اسکو تھمائی۔ٹرے میں ایک پلیٹ میں سلیقے سے سالن اور ہاٹپاٹ میں روٹی تھی۔مائشہ نے تھنکس کہ کر ٹرے پکڑ لی،اور بیڈ روم میں آکے بیٹھ گئی۔اتنا بھی برا نہیں ہے کھڑوس،اس نےمسکرا کر کھانے کا پہلا نوالہ توڑتے ہوۓ کہا۔پیٹ بھرا تو اسکو نیند بھی آنے لگی۔اس نے بلینکٹ سر سے پاؤں تک تانا اور نیند کی وادی میں چلی گئی۔