کیسی ہے میری بچی ۔۔۔۔ منور صاحب نے کنزیٰ کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کنزیٰ سے پوچھا
ٹھیک ہوں بابا جان ۔۔۔۔ کنزیٰ نے دھیرے سے کہا
بڑے پاپا آپ کو بڑی مما عدیل کے کمرے میں بولا رہی ہیں ۔۔۔۔ ارسلان نے منور صاحب کو نسیم بیگم کا پیغام دیتے ہوئے کہا
اچھا میں تو اپنی بیٹی سے باتیں کرنے آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ منور صاحب نے کنزیٰ کو پیار سے دیکھتے ہوئے ارسلان کو جواب دیا
تو کنزیٰ بھی وہاں ہی آجائے ۔۔۔۔ ارسلان نے مشورہ دیا
ہاں یہ ٹھیک رہے گا ۔۔۔۔ منور صاحب نے ارسلان کے مشورے کی تائید کرتے ہوئے کہا
چلو بیٹا اٹھو تم بھی وہیں آجاو ۔۔۔ منور صاحب نے کنزیٰ کو پیار سے کہا اور آٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اس کا انتظار کر نے لگے
کنزیٰ نے انکی طرف دیکھا اور خاموشی سے کھڑی ہوکر عدیل کے کمرے کی جانب انکے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئی ۔۔۔۔
عدیل دیکھو کون آیا ہے ۔۔۔۔ مثال نے کنزیٰ کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھکر خوش ہوتے ہوئے کہا
کنزیٰ ۔۔۔۔ عدیل نے زیر لب پکارا
میری بہن کنزیٰ؟ ؟؟ عدیل نے مثال سے پوچھا
ہاں بیٹا تمہاری بہن کنزیٰ ۔۔۔ مثال کے بجائے نسیم بیگم نے کنزیٰ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا
عدیل نے اس جانب دیکھا جہاں نسیم بیگم اشارہ کر رہی تھیں
میری بہن کنزیٰ ۔۔۔۔۔ عدیل نے غائب دماغی سے دہرایا
کنزیٰ سے عدیل کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے آنسو ضبط کرنا مشکل لگ رہا تھا اس نے محسوس ہو رہا تھا کہ اگر وہ اور تھوڑی دیر عدیل کے سامنے کھڑی رہی تو اپنا ضبط کھو دے گی
بہن تھی بھائی کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتی تھی بھائی بھی وہ جسے وہ جان سے بھی زیادہ چاہتی تھی ۔۔۔۔
بابا میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں ۔۔۔۔ کنزیٰ نے آنسو پینے کی کوشش کرتے ہوئے باپ سے کہا اور انکا جواب سنے بغیر بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی
مثال تم کنزیٰ کے پاس جاو ۔۔۔۔۔ اسے اکیلا نہیں چھوڑو ۔۔۔۔ تیمور نے مثال سے کہا
جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔ مثال نے جواب دیا اور کنزیٰ کے کمرے کی جانب بڑھ گئی
کنزیٰ ۔۔۔ مثال نے کنزیٰ کو پکارا جو کمرے میں آکر تکیے میں منہ چھپا کر رو رہی تھی
مثال ۔۔مثال ۔۔ کنزیٰ نے روتے ہوئے مثال کو پکارا
سب ٹھیک ہو جائے گا کنزیٰ ۔۔۔ عدیل بھی ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔ تم آ گئی ہو نا ۔۔۔۔۔۔۔ مثال نے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
کنزیٰ نے کوئی جواب نہیں دیا بس روتی رہی
تمہارے گم ہوجانے کی خبر سن کر عدیل ایک دم بیہوش ہوگیا اور دو دن بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھا بس تم کو پکار تا رہتا تھا ۔۔۔۔ مثال نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے کہا
میرے گم ہوجانے کی خبر سن کر ۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے حیرانگی سے چونک کر پوچھا
تو اور کیا اسے تھوڑی پتا تھا کہ تم نہیں مل رہی ہو وہ تو اپنے دوست کے پاس اسپتال میں تھا وہاں سے جیسے ہی گھر آیا تو بڑی مما نے اسے بتایا کہ تم نہیں مل رہی ہو تو وہ یہ خبر سن کر ایک دم گر کر بیہوش ہوگیا ۔۔۔ مثال نے اسے تفصیل بتائی
مثال تم کو امی بلا رہی ہیں ۔۔۔۔ ارسلان نے کنزیٰ کے کمرے میں جھانک کر مثال کو ذکیہ بیگم کا پیغام دیتے ہوئے کہا
اچھا میں ابھی آتی ہوں ۔۔۔ مثال نے اسے جواب دیا اور کنزیٰ کی جانب دیکھتے ہوئے بولی
اب مت رونا پلیز میں آتی ہوں ابھی ۔۔۔۔
کنزیٰ نے اثبات میں سر ہلا دیا
اگر بھائی کو پتا ہی نہیں تھا تو وہ کس کی آواز تھی جو میں نے سنی تھی ۔۔۔۔ کنزیٰ نے حیرانگی سے سوچا
ہو سکتا ہے وہ بھائی کی آواز نہ ہو میں تو بیہوش تھی ۔۔۔۔۔۔ کنزیٰ سوچا
*****************
بڑے ماموں کب تک چلنا ہے ہمدانی انکل کے پاس ۔۔۔۔۔۔ تیمور نے منور صاحب کو دیکھتےہوئے پوچھا
بس بیٹا عمر آجائے پھر چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ منور صاحب نے تیمور کو جواب دیا
جب سے کنزیٰ والا حادثہ ہوا تھا منور صاحب اور تیمور آفس نہیں جارہے تھے بس عمر اور دانیال صاحب نے سارا بزنس سنبھالا ہوا تھا
چلیں بھائی صاحب ۔۔۔ دانیال صاحب نے آفس سے آتے ہی منور صاحب سے پوچھا
آگئے تم لوگ ۔۔۔۔ چلو ۔۔ منور صاحب نے سوال کرتے ہوئے خود ہی جواب دیا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے
آو منور میں تم لوگوں کا ہی انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ آئ ۔ جی ہمدانی نے منور صاحب سے کہا
انکے بیٹھتے ہی گھر کا ملازم چائے کی ٹرالی گھیسیٹتا ہوا ڈرائینگ روم میں داخل ہوا
سب کو چائے سرو کرکے جب ملازم چلاگیا
تم نے بتایا نہیں ہمدانی تمہیں ہم سے کیا بات کرنی ہے ۔۔۔۔ منور صاحب نے بات کا آغاز کیا
یار بات یہ ہے کہ میرے افسر کو کالج کے چوکیدار پر شک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمدانی صاحب نے ان سب کو دیکھتےہوئے کہا
تو گرفتار کرو نا یار اسکو پوچھ گچھ شروع کرو پھر ۔۔۔۔۔ منور صاحب نے جواب دیا
گرفتار تو کر لیں یار مگر ایک میں تمہاری توجہ ایک مسئلے کی جانب کروانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔ ہمدانی صاحب نے کہا
کس مسئلے کی جانب؟ ؟؟؟ منور صاحب نے حیرانگی سے پوچھا
یار اگر ہم اسے گرفتار کر نے کالج جاتے ہیں کیونکہ اسکی رہائش کالج میں ہی ہے تو میڈیا تک یہ بات جائے گی ابھی صرف ہم کو ہی یہ خبر ہے پھر ساری دنیا کو اسکی خبر ہو جائے گی ۔۔۔ ہمدانی صاحب نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے سمجھایا
میڈیا ۔۔۔۔ منور صاحب کے چہرے کا رنگ اڑ گیا
میڈیا تک جانے کے ڈر سے کیا ہم ان لوگوں کو چھوڑ دیں؟ ؟؟؟؟ تیمور نے منور صاحب کو اور آئ۔ جی ہمدانی کو دیکھتےہوئے پوچھا
لیکن بیٹا اس طرح تو سارے شہر کو پتا چل جائے گا ہم کس کس کو جواب دیں گے؟ ؟؟؟ منور صاحب نے تیمور کو سمجھایا
لیکن ماموں اگر وہ چوکیدار اس سب میں شامل ہے تو ہمیں اس کو پکڑوانا چاہیئے تاکہ جو کچھ کنزیٰ کے ساتھ ہوا ہے وہ اور کسی لڑکی کے ساتھ نہ ہو ۔۔۔۔۔ تیمور نے منور صاحب کو سمجھاتے ہوئے کہا
انکل آپ اس کو گرفتار کر وائیں میں دنیا کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں ۔۔۔۔ تیمور نے مضبوط لہجے سے کہا
تیمور ایک بار پھر سوچ لو یہ دنیا بہت ظالم ہے بیٹا ۔۔۔۔ منور صاحب نے شکستہ لہجے سے سمجھانے کی کوشش کی
آپکو مجھ پر اعتبار نہیں ہے کیا؟ ؟؟؟ تیمور نے منور صاحب کو دیکھتےہوئے پوچھا
ایسی بات نہیں ہے بیٹا مجھے تم پر پورا یقین ہے ۔۔۔ منور صاحب نے جلدی سے جواب دیا
تو بس ٹھیک ہے ۔۔۔۔ انکل آپ اسے گرفتار کروائیں اور پوچھ گچھ شروع کریں ۔۔۔۔ تیمور نے آئی ۔ جی ہمدانی سے کہا
اور ہاں انکل کل آپکو آنا ہے میرے اور کنزیٰ کے نکاح میں ۔۔۔۔ تیمور نے منور صاحب کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا
مبارک ہو یار ۔۔۔۔ ہمدانی صاحب نے منور صاحب کو مبارک باد دی
جو خبر پہلے دینی چاہیے تھی تمہیں وہ تم اب دے رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ہمدانی صاحب نے منور صاحب کو ناراضگی سے دیکھتے ہوئے کہا
یار مجھے بھی ابھی اطلاع ملی ہے ۔۔۔۔ منور صاحب نے تیمور کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر ہمدانی کو جواب دیا
کیا مطلب؟ ؟؟؟ آئی ۔ جی ہمدانی نے منور صاحب کی بات نہ سمجھتے ہوئے پوچھا
انکل چھوڑیں بس آپ اور کل آنے کی تیاری کریں ۔۔۔۔ تیمور نے جلدی سے جواب دیا اور منور صاحب کو اور دانیال صاحب اور عمر کو گھر واپس چلنے کو کہا
ٹھیک ہے ہمدانی پھر ھم چلتے ہیں تم ویسا ہی کرو جیسا تیمور کہتا ہے ۔۔۔۔ منور صاحب نے ہمدانی صاحب سے الوداعی مصحافہ کرتے ہوئے کہا
گھر پہنچ کر منور صاحب نے سب کو کنزیٰ اور تیمور کے نکاح کے بارے میں بتایا ۔۔۔۔۔ نسیم بیگم اور ذکیہ بیگم نے حیرت سے ملیحہ بیگم کو دیکھا لیکن ملیحہ بیگم بھی حیرت اور خوشی سے منور صاحب کو دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔
ہمیں خود ابھی پتا چلاہے ۔۔۔۔ منور صاحب کے بجائے دانیال صاحب نے مسکراتے ہوئے خوشدلی سے سب کو دیکھتےہوئے کہا
کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ لوگ شادی ایسے تھوڑی ہو جائے گی میری تو کوئی تیاری بھی نہیں ہے ۔۔۔ نسیم بیگم نے منور صاحب کو دیکھتےہوئے کہا
تیاری کیسی بھابھی کنزیٰ کون سے پرائے گھر جائے گی ۔۔۔ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے بس ۔۔۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ کل ہی رخصتی بھی کردیں ۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے اپنا دوپٹہ منور صاحب کے سامنے پھیلا دیا
ارے یہ کیا کر رہی ہوملیحہ جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہوگا ۔۔۔۔ منور صاحب نے بہن کا دوپٹہ اسکے سر پر رکھتے ہوئے کہا
لیکن منور ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے کچھ کہنا چاہا
پلیز ممانی جان آپ اس وقت مجھے ظالم سماج لگ رہی ہیں ۔۔۔۔ تیمور نے معصوم صورت بنا کر کہا
چلو ہٹو میں کیوں بنوں گی ظالم سماج ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے تیمور کو پیار سے گال پر ہلکا سا تھپڑ مارتے ہوئے کہا
جیسے تم لوگوں کی مرضی ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے ہتھیار ڈالنے والے انداز سے کہا
اور پورے گھر میں مبارک باد کا شور مچ گیا
****************
یس سر آپ نے مجھے بلایا تھا ۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے آئی ۔ جی ہمدانی کو سلیوٹ مارتے ہوئے پوچھا
ہاں وہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم کل صبح ہی کنزیٰ کے کالج جاکر اس چوکیدار کو گرفتار کر کے لاو اور اس سے پوچھ گچھ شروع کردو ۔۔۔۔ آئ ۔ جی ہمدانی نے اسے ہدایت دیتے ہوئے کہا
جی ٹھیک ہے سر ۔۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے جواب دیا
ٹھیک ہے تم جاو اب ۔۔۔۔ ہمدانی صاحب نے اسے جانے کا کہا
اور وہ انھیں سلیوٹ کر کے چلا گیا
جاو پرنسپل صاحب سے کہو کہ انسپکٹر نعمان ان سے ملنے آئیں ہیں ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے کنزیٰ کے کالج کے چوکیدار کو دیکھتےہوئے کہا
جی اچھا صاب جی۔۔۔ چوکیدار نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا اور کالج کے اندر چلا گیا پرنسپل کو تفتیشی افسر کا پیغام دینے
آئیں صاب جی آپکو بڑی میڈیم صاحبہ بولا رہی ہیں ۔۔۔ چوکیدار نے نہایت ادب سے کہا
اسلام وعلیکم ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے کالج کی پرنسپل کے آفس میں داخل ہوتے ہوئے کہا
وعلیکم السلام تشریف رکھیں بتائیں کیسے آنا ہوا آپکا ۔۔۔۔ پرنسپل صاحبہ نے تفتیشی افسر کو دیکھتےہوئے پوچھا
جی اصل میں مجھے آپکے چوکیدار سے کچھ پوچھ گچھ کرنی ہے ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے پرنسپل صاحبہ کو جواب دیا
کس سلسلے میں؟ ؟؟ پرنسپل صاحبہ نے حیرانگی سے پوچھا
اصل میں آپکے کالج کی ایک لڑکی کچھ عرصہ پہلے آپکے ہی کالج سے اغوا ہوگئی تھی ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے جواب دیا
یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ ؟؟؟ پرنسپل صاحبہ نے پوچھا
وہ اب مل چکی ہے اور اس نے خود بتایا ہے ۔۔۔ تفتیشی افسر نے جواب دیا
کیا بتایا ہے؟ ؟؟اور کون سی لڑکی تھی؟ ؟؟ پرنسپل صاحبہ اب بھی یقین نہیں کر پا رہیں تھیں
جواب میں تفتیشی افسر نے ساری بات انہیں بتائ ۔۔۔
اوہ مائی گاڈ ۔۔۔۔ یہ سب کب ہوا؟؟؟؟ ۔۔۔۔ پرنسپل صاحبہ نے حیرانگی سے پوچھا
جب آپکے کالج میں پچھلے ہفتے پریکٹیکل ہورہے تھے ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے جواب دیا
اب کنزیٰ کیسی ہے؟ ؟؟ پرنسپل صاحبہ نے پوچھا
آپ سمجھ سکتی ہوں گی کہ وہ کیسی ہوسکتی ہے؟ ؟؟ تفتیشی افسر نے ان کے سوال کا جواب ان سے سوال پوچھ کر دیا
ھمھمھمھم آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔۔۔۔ اب آپ ھم سے کیا چاہتے ہیں؟ ؟؟؟؟ پرنسپل صاحبہ نے پوچھا
بس تھوڑا سا تعاون ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے جواب دیا
بولیں ھم ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہیں ۔۔۔۔ پرنسپل صاحبہ نے جواب دیا
ہمیں آپکے چوکیدار سے کچھ سوالات پوچھنے ہیں اس کے لئے ھم اسے اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا ہیں ۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے نہایت ہی اطمینان سے اپنا مقصد سمجھایا
جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔ پرنسپل صاحبہ نے اجازت دیتے ہوئے پیون کو بلایا اور اسے چوکیدار کو بلانے کا کہا
جی میڈم جی ۔۔۔ چوکیدار نے آفس میں آکر پرنسپل صاحبہ سے پوچھا
لالا آپکو ان کے ساتھ جانا ہو گا یہ لوگ کچھ سوالات کریں گے ایک بچی کے بارے میں ۔۔۔۔ پرنسپل صاحبہ نے چوکیدار کو سمجھاتے ہوئے کہا
جی ٹھیک ہے میڈم جی ۔۔۔۔ چوکیدار نے جواب دیا
****************
گھر میں صبح سے ہی کنزیٰ اور تیمور کے نکاح کی تقریب کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں
کنزیٰ اٹھو مہندی لگانے والی آئی ہے ۔۔۔۔ مثال نے کنزیٰ کو اٹھاتے ہوئے کہا
یار مجھے مہندی نہیں لگوانی مجھے ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔ کنزیٰ نے آنکھوں میں آنسو بھر کے کہا
مہندی سے ڈر لگتا ہے ؟؟؟؟ مثال نے حیرانگی سے پوچھا
ہاں مہندی سے سجنے سنورنے سے ۔۔۔۔ کنزیٰ نے کھوئے ہوئے کہا
پلیز مثال پلیز ۔۔۔۔ یہ کہہ کر کنزیٰ رونے لگی
اسکے رونے کی آواز سن کر گھبرا کر نسیم بیگم اور گھر کے سب افراد آ گئے
کیا ہوا کنزیٰ کو؟ ؟؟؟ نسیم بیگم نے ہچکیوں سے روتی ہوئی بیٹی کو دیکھتےہوئے پوچھا
بڑی مما میں تو مہندی لگانے والی کا بتانے آئی تھی مگر یہ رونے لگ گئی ۔۔۔۔ مثال نے جواب دیا
پلیز مجھے نہیں لگوانا مہندی ۔۔۔ نہ ہی دلہن بنا ہے ۔۔۔۔ کنزیٰ نے روتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے جیسے تم چاہو گی ویسا ہی ہوگا ۔۔۔۔ تیمور نے کنزیٰ کو دیکھتےہوئے کہا
کوئی بات نہیں ممانی جان مجھے کنزیٰ سادہ بھی قبول ہے ۔۔۔۔ تیمور نے پیار سے کنزیٰ کو دیکھتےہوئے کہا
نکاح کی تقریب میں خاندان کے سبھی افراد کو بلایا گیا تھا ۔۔۔۔ سادہ سی مگر پرتکلف تقریب تھی ۔۔۔۔۔۔۔
کنزیٰ ہلکے گلابی رنگ کے چوڑی دار پاجامے اور گھیر والی فراک میں دل کو چھو جانے والی سادگی میں آسمانی حور لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
تیمور نے ماں سے کہہ کر رخصتی کی فرمائش کر کے سب کو حیران کر دیا تھا ۔۔۔۔
مگر اتنی جلدی؟ ؟؟؟ نسیم بیگم نے حیرانگی سے پوچھا
بھابھی کون سا کنزیٰ نے کہیں اور جانا ہے بس پورشن بدل جائیں گے ۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے بھائی اور بھاوج کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا
وہ تو ٹھیک ہے لیکن تھوڑی بہت تیاری بھی ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے ممتا بھری آواز میں کہا
ہمیں کنزیٰ کے علاوہ کچھ بھی نہیں چاہئے ۔۔۔۔۔ ماں کی جگہ تیمور نے جواب دیا
بس اب فیصلہ ہوگیا ۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے بھابھی کا ہاتھ تھام کر کہا
جیسی تمہاری مرضی ۔۔۔۔۔ منور صاحب نے بہن کی محبت میں ہار مانتے ہوئے کہا
رخصتی کی تیاری ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
کنزیٰ رخصت ہو کر تیمور کے پورشن میں آگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنا شوق تھا اسے تیمور سے شادی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب جب شادی ہوئی ہے تو کوئی ارمان کوئی خوشی نہیں تھی دل میں بلکہ ایک بوجھ
کیسے رہ پاو گی میں ۔۔۔۔ کنزیٰ نے سجے ہوئے کمرے کو دیکھتےہوئے سوچا
تھوڑی دیر بعد تیمور کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنزیٰ جلدی سے ٹھیک ہوکر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔
لیٹی رہو تم ۔۔۔۔ تیمور نے اسے اٹھتا دیکھ کر کہا ۔۔۔۔۔۔
نہیں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے گھبرا کر کہا
بہت خوبصورت لگ رہی ہو تم ۔۔۔۔۔ یہ تمہاری منہ دیکھائ ۔۔۔۔ تیمور نے جڑاو کنگن اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
کنگن دیکھ کر کنزیٰ چونک گئی
کیا ہوا پسند نہیں آئے؟ ؟؟؟ تیمور نے اسکی آنکھوں میں پیار سے دیکھتے ہوئے پوچھا
کنزیٰ نے گھبرا کر آنکھیں جھکا لیں ۔۔۔۔۔
اور کنگن لینے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا
کیا مجھے پہنانے کی اجازت ہے؟ ؟؟؟ تیمور نے کنزیٰ کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر پوچھا
کنزیٰ نے اب بھی کوئی جواب نہیں دیا
پوچھو گی نہیں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا کہ تم کو بھی ویسے ہی کنگن پسند ہیں جیسے عمر بھائی نے بشری بھابھی کو دیئے تھے منہ دیکھائ میں؟ ؟؟ تیمور نے شوخی سے پوچھا
کنزیٰ نے اب بھی سر نہیں اٹھایا تھا
تیمور نے کنزیٰ کا سرد ہاتھ تھام کر کنگن اسکے ہاتھ میں پہنا دیئے ۔۔۔۔ کنزیٰ ایک دم کسمسا کر رہ گئی
*****************
ہاں تو خان صاحب کب سے چوکیداری کر رہے ہو کالج میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے کالج کے چوکیدار سے پوچھ گچھ کاآغاز کرتے ہوئے پہلا سوال کیا
چھ ماہ سے صاب جی ۔۔۔۔ چوکیدار نے سکون سے جواب دیا
اس سے پہلے کہاں چوکیداری کرتے تھے ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے دوسرا سوال کیا
صاب جی ایک ہوٹل میں چوکیداری کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوکیدار نے جواب دیا
کتنے عرصے کام کیا تھا وہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔ افسر نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا
جی سال بھر ۔۔۔ چوکیدار نے سوچتے ہوئے کہا
سوچ لو ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے کہا
نہیں نہیں جی چھ ماہ ۔۔۔۔ چوکیدار نے جلدی سے جواب دیا
ایک بار پھر سوچ لو خان ۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے چوکیدار کے پیچھے کھڑے ہو کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکو سمجھایا
ارے صاب جی معاف کرنا تین ماہ ۔۔۔۔۔۔ چوکیدار نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا
تین ماہ ۔۔۔۔ تو ایسا کیا ہوا تھا جو تین ماہ میں چھوڑ دی تھی تم نے نوکری ۔۔۔۔۔تفتیشی افسر نے چوکیدار کے سامنے رکھی میز کے کونے پر ٹکتے ہوئے پوچھا
بس جی مالک لڑتا بہت تھا ۔۔۔۔۔ چوکیدار نے جواب دیا
دیکھو خان تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتے لہذا مجھے سچ سچ بتاؤں کہ کیوں چھوڑی تھی نوکری ۔۔۔۔۔ تم نے چھوڑی تھی یا پھر تم کو نکالا گیا تھا؟ ؟؟؟؟ تفتیشی افسر نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا
صاب ھم نے خود چھوڑی تھی ۔۔۔۔ چوکیدار نے اپنے جواب پر ڈڈتے ہوئے کہا
جھوٹ بول رہے ہو تم کو نکالا گیا تھا کیونکہ تم پر چوری ثابت ہو گئی تھی ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے چلاتے ہوئے کہا
چوکیدار نے حیرت اور گھبراکر تفتیشی افسر کو دیکھا
اب مجھے سچ سچ بتاؤں کہ اس روز کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے پوچھا
کس روز صاب ۔۔۔۔ چوکیدار نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا
تمھارے کالج کی ایک لڑکی غائب ہو گئی تھی وہ بھی کالج کے اندر سے ۔۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے پوچھا
چوکیدار کا رنگ سفید پڑ گیا ۔۔۔۔
کون سی لڑکی صاب؟؟؟؟ چوکیدار نے آنکھیں گھماکرپوچھا
تم کو نہیں پتا خان؟؟؟؟ تفتیشی افسر نے پوچھا
نہیں صاب ۔۔۔۔ چوکیدار نے جواب دیا
اچھی طرح سے یاد کرو ۔۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے اطمینان سے کہا
جی صاب ھم کو اچھی طرح سے یاد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ چوکیدار اپنی گھبراہٹ پر اچھی طرح سے قابو پاچکا تھا اور جھوٹ بولنے کے لئے خود کو تیار کرچکا تھا
امداد حسین ۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے اپنے ماتحت کو آواز دی
یس سر ۔۔۔۔۔ چند سیکنڈ میں ایک یونیفارم پہنے ماتحت اندر داخل ہوا اور اس نے آتے ہی تفتیشی افسر کو سلیوٹ مارا اور پوچھا
تفتیشی افسر نے اپنے ماتحت سے سرگوشی میں کچھ کہا جسے چوکیدار کوشش کے باوجود سن نہیں سکا
حکم سنتے ہی وہ ماتحت جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا
تھوڑی دیر بعد وہ ماتحت پھر آفس میں داخل ہوا مگر اکیلے نہیں اسکےکنزیٰ کے ڈرائیور کو دیکھ کر چوکیدار کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثارنظر آنے لگے
پہچانتے ہو اسکو ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے کنزیٰ کے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا
جی صاحب یہ کنزیٰ بی بی کے کالج کا چوکیدار ہے ۔۔۔۔۔ ڈرائیور نے جلدی سے جواب دیا
کیا ہوا تھا اس روز ۔۔۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے کنزیٰ کے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا
صاحب اس روز کنزیٰ بی بی کا پریکٹیکل تھا میں ہی انکو کالج چھوڑنے گیا تھا اور مجھے ہی انھوں نے 12 بجے تک آنے کا کہا تھا مگر میں بی بی جی کے بتائے ہوئے وقت سے 15 منٹ پہلے پہنچ گیا تھا ۔۔۔۔
میں نے 12 بجے چوکیدار سے کہا کہ کنزیٰ بی بی کو بتاو کہ انکی گاڑی آگئی ہے تو اس نے کہا کہ کنزیٰ بی بی کا پریکٹیکل جلدی ختم ہو گیا تھا وہ اپنی دوست کے ساتھ گھر چلی گئیں ہیں ۔۔۔۔ ڈرائیور تفصیل سے بتا کر خاموش ہو گیا
ہاں خان اب تم کیا کہتے ہو ۔۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے دوبارہ اپنی تفتیش کارخ چوکیدار کی جانب موڑتے ہوئے پوچھا
صاب ھم کو نہیں پتا یہ کس کی بات کر رہا ہے اور کب کی ھم کو یاد نہیں ۔۔۔۔ چوکیدار نے ڈھٹائی سے کہا
آجائے گا خان تم کو سب یاد آجائے گا بڑے طریقے ہیں ہمارے پاس یاد کرانے کے ۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے چوکیدار کی پیٹ تھپتھپاتے ہوئے کہا ۔ *************
ناشتے کی میز پر آج بڑی رونق تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
منور صاحب اور دانیال صاحب اپنے گھر کی خوشیوں کو دیکھ کر نہال ہورہے تھے انکے خیال سے اب سب ٹھیک ہو جائے گا انہیں خبر نہیں تھی کہ ابھی ایک اور بڑی قیامت انکی منتظر ہے
کالج کے چوکیدار نے دو دن بعد آخر پولیس والوں کے سامنے ہار مان لی اور انھیں ریاض کے بارے میں بتادیا اور یہ بھی کہ اس نے ہی کنزیٰ سے غلط بیانی کی تھی ۔۔۔۔۔۔
اس کے اس بیان کے بعد کنزیٰ کے ڈرائیور کو چھوڑ دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب پولیس کو ریاض کی تلاش تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آ۔جی ہمدانی نے منور صاحب کو کال کر کے ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا ۔۔۔۔۔۔
تیمور ۔۔۔۔ تیمور ۔۔۔۔ منور صاحب خوش ہوکر تیمور کو آوازیں دینے لگے
کیا ہوا منور آپ تیمور کو کیوں بلا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے شوہر کو دیکھتےہوئے پوچھا
آپ پلیز سب گھر والوں کو عدیل کے کمرے میں بلائیں میں سب کو ایک ساتھ یہ خبر سنانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا ۔۔۔ نسیم بیگم نے گھر کی ملازمہ کو سب گھر والوں کو عدیل کے کمرے میں بلانے کے لئے کہا
تھوڑی دیر بعد گھر کے سب افراد عدیل کے کمرے میں موجود تھے
مبارک ہو سب کو چوکیدار نے سب قبول کر لیا ہے اور اس کا نام بھی بتادیا ہے جسکے کہنے پر یہ سب کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ منور صاحب نے سب کو خوش خبری سنائی
کس کے کہنے پر کیا تھا اس نے یہ سب ۔۔۔۔ تیمور نے پوچھا
اور کنزیٰ کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔۔۔
کسی ریاض کا نام لیا ہے اس نے ۔۔۔۔ منور صاحب اس جملے سے کنزیٰ کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی اور اس نے پہلی بار اپنے بھائی کو پیار سے دیکھا جو اپنے آپ اور اردگرد کے ماحول سے بیگانہ دوائیوں کے اثر سے سو رہا تھا ۔۔۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ۔۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا
اور ڈرائیور کا کیا ہوا ۔۔۔۔ دانیال صاحب نے بھائی سے پوچھا
اسکو چھوڑ دیا گیا ہے ۔۔۔۔ منور صاحب نے جواب دیا
************